عاشق پاکستان ڈاکٹر امیر حسن صدیقی
ڈاکٹر امیر حسن صدیقی پاکستان سے ٹوٹ کر محبت کرنے والے منفرد شخص تھے۔۔۔
حال ہی میں تحریک پاکستان کے ایک مرد مجاہد اور قائداعظم کے قریبی ساتھی ماہر تعلیم، عالم اسلام کے بطل جلیل، مولد پاکستان علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طلبا یونین کے سیکریٹری جنرل اور کئی اہم کتابوں کے مصنف ڈاکٹر امیر حسن صدیقی کی اہم شخصیت پر ایک خوبصورت کتاب بعنوان ''تحریک پاکستان میں ڈاکٹر امیر حسن صدیقی کا کردار'' منظر عام پر آئی ہے۔ اس کی مصنفہ ان کی لائق فائق بھتیجی شاہین حبیب ہیں۔
ہمارے ہاں بدقسمتی سے قیام پاکستان میں اہم حصہ لینے والوں اور قائداعظم کے محبوب ترین ساتھیوں اور ہمارے معاشرے کے سدھار اور نکھار میں مثالی کردار ادا کرنے والی کئی شخصیات کو یکسر بھلادیا گیا ہے، ڈاکٹر صاحب بھی ان ہی بھولی بسری شخصیات میں شامل ہیں۔
ڈاکٹر امیر حسن صدیقی پاکستان سے ٹوٹ کر محبت کرنے والے منفرد شخص تھے، آپ 1901ء میں قیام پاکستان کے خوش نصیب اگست کے مہینے کی 15 تاریخ کو بدایوں میں پیدا ہوئے اور 1971ء میں دسمبر کی ٹھیک 16 تاریخ کو پاکستان کے دولخت ہونے والے دن اس سانحے کی شدت غم سے انتقال کرگئے۔ ملک کے ٹوٹنے کے ساتھ ساتھ آپ کی وفات پر ہر پاکستانی کی آنکھیں اشک بار تھیں۔ وطن پرستوں نے آپ کی موت کو وطن پرستی کی ایک لازوال مثال قرار دیا۔ آپ نے معماران پاکستان کے ساتھ مل کر جس ملک کو بڑی محنت اور محبت سے بنایا تھا اسے بھلاٹوٹتا ہوا کیسے دیکھ سکتے تھے۔ پاکستان کے منصوبے کو اصل تقویت بخشنے والی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تھی اور اس ادارے کو تحریک پاکستان کا مخزن بنانے والی ڈاکٹر امیر حسن صدیقی کی ذات تھی۔
آپ بحیثیت طالب علم اور بعد میں ایک معلم کی حیثیت سے قیام پاکستان کے ناممکن منصوبے کو ممکن بنانے کے لیے قائداعظم اور ان رفقا کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ قائداعظم کی اس ادارے میں ہر تقریب کو کامیاب بنانے میں آپ نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہاں کے طلبا میں پاکستان کا جذبہ پیدا کرنے اور انھیں اس اہم کام میں ہاتھ بٹانے کے لیے تیار کرنے کے سلسلے میں آپ قائداعظم کو یہاں آنے کی دعوت دیتے۔ انھیں لینے ریلوے اسٹیشن جاتے، راستے میں ان کا شاندار استقبال کراتے اور پھر یونیورسٹی میں ان کی تقریر کا بڑے سلیقے سے اہتمام کرتے۔ اسٹیج کو خوب سجاتے اور خود اسٹیج سیکریٹری کا باکمال کردار ادا کرتے پہلے خود پرجوش تقریر کرتے پھر قائد کے رفقا کو موقع دیتے اور آخر میں قائد کی تقریر ہوتی جس کے دوران ہال میں صرف ان کی آواز گونجتی اور وقفے وقفے سے طلبا کی جانب سے پاکستان اور قائداعظم زندہ باد کے فلک شگاف نعرے بلند کیے جاتے۔
قیام پاکستان کا خواب بالآخر شرمندہ تعبیر ہوکر رہا اس کا کریڈٹ سراسر قائداعظم ان کے رفقا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مایہ ناز طلبا کو ہی جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی علمیت کی علی گڑھ یونیورسٹی میں دھاک بٹھادی تھی۔ آپ کی علمی قابلیت کی گونج سندھ تک بھی پہنچ چکی تھی۔ چنانچہ قائداعظم کے مشورے سے جب کراچی میں 1943ء میں سندھ مسلم کالج کی بنیاد پڑی تو قائد کے ہی مشورے پر آپ کو سندھ میں پہلے مسلم کالج کے بانی پرنسپل ہونے کا شرف حاصل ہوگیا۔
آپ 1943ء سے 1947ء تک یہ فرض بخیر و خوبی انجام دیتے رہے اور اس کانگریس کے نچلے والے صوبے میں قیام پاکستان کا جذبہ سندھی طلبا میں موجزن کرتے رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں جب کراچی میں اسلامیہ کالج کی بنیاد پڑی تو آپ کو اس کے بھی بانی پرنسپل ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا۔ قائد کے پاکستان کو علم سے بہرہ ور کرکے آپ نے قائد کے ساتھی ہونے کا حق ادا کر دیا تھا۔ آپ شریف النفس اور اسلامی و قومی جذبے سے سرشار ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔
1922ء میں علی گڑھ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی تھی، 1928ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلینڈ چلے گئے، جہاں 1929ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے بی اے آنرز کیا اور 1933ء میں ''خلافت اور سلطنت وسطیٰ ایران میں'' کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ لندن سے واپسی پر آپ علی گڑھ یونیورسٹی میں 1934ء سے 1943ء کے درمیان قائداعظم کے قریب ترین رفیق بنے رہے۔ اس دوران اپ نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا۔
قیام پاکستان کے بعد آپ کی کوشش تھی کہ ملک کو اسلامی نظریے کے تحت چلایا جائے کیونکہ مسلمانان برصغیر نے اس نظریے کو پاکستان میں رائج کرنے کے لیے ہی پاکستان کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ برصغیر کے مختلف دور دراز علاقوں میں صدیوں سے آباد لوگ ایک اسلامی ملک کے قیام اور اس میں قرآن و سنت کے قوانین کے نافذ کی خاطر ہی اپنے گھر بار کاروبار اور بزرگوں کی قبریں چھوڑ کر پاکستان آگئے تھے مگر ہوا وہی جو نہیں ہونا تھا۔
قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد ملک میں اسلام مخالف قوتوں کو عروج حاصل ہوگیا، انھوں نے ملک کو اسلامی کے بجائے ایک سیکولر اسٹیٹ میں تبدیل کردیا۔ چونکہ ملک اپنے اصل نظریے سے دور ہوکر بے سمت ہوچکا تھا چنانچہ ملک میں موجود دشمن کے آلہ کاروں نے ملک کو نہ صرف عدم استحکام کا شکار کردیا بلکہ لسانی، صوبائی اور نسلی بنیادوں پر علیحدگی کا بیج بودیا بہت جلد مشرقی بازو علیحدگی پسندوں کی آماجگاہ بن گیا اور مشرقی بازو مغربی سے علیحدہ کردیاگیا۔
ڈاکٹر امیر حسن صدیقی سچے عاشق پاکستان تھے وہ اس غم کو برداشت نہ کرسکے مگر ان کی شہادت سے یہ ضرور ثابت ہوگیا کہ پاکستان بے سہارا نہیں، اس پر جان دینے والوں کی کمی نہیں ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر نظریہ پاکستان ملک میں نافذ کردیا جاتا تو پاکستان کبھی کسی صورت میں بھی دولخت نہ ہوتا۔ آج بھی کچھ لوگ بابائے قوم پر بہتان لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھوں نے پاکستان کو ایک لادینی ریاست کے طور پر قائم کیا تھا۔
دراصل قائد کی گیارہ اگست 1947ء کی ایک تقریر کو کچھ لوگ قوم کو گمراہ کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں جب کہ قائد کی پاکستان میں اسلامی شریعت کو نافذ کرنے کے بارے میں سیکڑوں تقاریر کو وہ یکسر نظر انداز کرجاتے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر پاکستان کو سیکولر ریاست ہی بننا تھا تو پھر گاندھی اور نہرو کی قیادت میں ہندوستان کے دائرے کے اندر رہنے میں کیا قباحت تھی؟
اس وقت بھی ملک بے سمتی کا شکار ہے اور اس کی کوئی منزل نہیں ہے اسی وجہ سے مختلف طبقے ملک کو اپنے اپنے مخصوص نظریات کے تحت چلانا چاہتے ہیں۔ بہرحال اب بہت ہوچکا، ہمیں ملک کو اس کی اصل منزل کی جانب گامزن کرنا ہوگا۔ بچے کچھے پاکستان کو تاقیامت قائم رکھنے کے لیے پرخلوص سنجیدگی اختیار کرنا ہوگا۔ واضح رہے کہ اگر پاکستان ہے تو ہم ہیں ورنہ کچھ بھی نہیں۔ ڈاکٹر امیر حسن صدیقی قوم کے لیے وطن پرستی کا لازوال نمونہ ہیں آپ کی دینی اور قومی خدمات کے علاوہ علمی اور ادبی خدمات بھی لائق تحسین ہیں جنھیں کئی اکابرین ملت نے زبردست خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
آپ نے 1959ء میں آسٹریلیا کے دورے میں سڈنی، کینبرا اور ملبرون کی جامعات میں تیرہ لیکچرز پر مشتمل خطاب کا سلسلہ جاری کیا تھا۔ ان پراثر خطبات کی وجہ سے وہاں کے عوام کو اسلام کو سمجھنے کا موقع ملا اور اسلام کو حقانیت سے متاثر ہوکر کئی خاندان مشرف بہ اسلام ہوگئے تھے۔ ان خطبات کو بعد میں ''Study in Islamic History'' کے عنوان سے جمعیت الفلاح کراچی سے کتابی شکل میں شایع کیا گیا۔
جمعیت الفلاح کا قیام کراچی کے عوام کے لیے آپ کا ایک نادر تحفہ ہے۔ آپ نے ہی پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ آپ نے ''وائس آف اسلام'' کے نام سے انگریزی میں ایک میگزین نکالا تھا جس نے پوری دنیا میں اشاعت اسلام کا بھرپور فریضہ انجام دیا۔ آپ مرتے دم تک فعال رہے اور دینی قومی اور علمی خدمات انجام دیتے رہے۔ آپ کی شخصیت پاکستانی قوم کے لیے ناقابل فراموش ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ آپ کی یادگار کے طور پر اسلام آباد کی کسی شاہراہ کو آپ کے نام سے موسوم کرے تاکہ آپ کی وطن پرستی کو ہمیشہ خراج عقیدت پیش کیا جاتا رہے۔
ہمارے ہاں بدقسمتی سے قیام پاکستان میں اہم حصہ لینے والوں اور قائداعظم کے محبوب ترین ساتھیوں اور ہمارے معاشرے کے سدھار اور نکھار میں مثالی کردار ادا کرنے والی کئی شخصیات کو یکسر بھلادیا گیا ہے، ڈاکٹر صاحب بھی ان ہی بھولی بسری شخصیات میں شامل ہیں۔
ڈاکٹر امیر حسن صدیقی پاکستان سے ٹوٹ کر محبت کرنے والے منفرد شخص تھے، آپ 1901ء میں قیام پاکستان کے خوش نصیب اگست کے مہینے کی 15 تاریخ کو بدایوں میں پیدا ہوئے اور 1971ء میں دسمبر کی ٹھیک 16 تاریخ کو پاکستان کے دولخت ہونے والے دن اس سانحے کی شدت غم سے انتقال کرگئے۔ ملک کے ٹوٹنے کے ساتھ ساتھ آپ کی وفات پر ہر پاکستانی کی آنکھیں اشک بار تھیں۔ وطن پرستوں نے آپ کی موت کو وطن پرستی کی ایک لازوال مثال قرار دیا۔ آپ نے معماران پاکستان کے ساتھ مل کر جس ملک کو بڑی محنت اور محبت سے بنایا تھا اسے بھلاٹوٹتا ہوا کیسے دیکھ سکتے تھے۔ پاکستان کے منصوبے کو اصل تقویت بخشنے والی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تھی اور اس ادارے کو تحریک پاکستان کا مخزن بنانے والی ڈاکٹر امیر حسن صدیقی کی ذات تھی۔
آپ بحیثیت طالب علم اور بعد میں ایک معلم کی حیثیت سے قیام پاکستان کے ناممکن منصوبے کو ممکن بنانے کے لیے قائداعظم اور ان رفقا کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ قائداعظم کی اس ادارے میں ہر تقریب کو کامیاب بنانے میں آپ نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہاں کے طلبا میں پاکستان کا جذبہ پیدا کرنے اور انھیں اس اہم کام میں ہاتھ بٹانے کے لیے تیار کرنے کے سلسلے میں آپ قائداعظم کو یہاں آنے کی دعوت دیتے۔ انھیں لینے ریلوے اسٹیشن جاتے، راستے میں ان کا شاندار استقبال کراتے اور پھر یونیورسٹی میں ان کی تقریر کا بڑے سلیقے سے اہتمام کرتے۔ اسٹیج کو خوب سجاتے اور خود اسٹیج سیکریٹری کا باکمال کردار ادا کرتے پہلے خود پرجوش تقریر کرتے پھر قائد کے رفقا کو موقع دیتے اور آخر میں قائد کی تقریر ہوتی جس کے دوران ہال میں صرف ان کی آواز گونجتی اور وقفے وقفے سے طلبا کی جانب سے پاکستان اور قائداعظم زندہ باد کے فلک شگاف نعرے بلند کیے جاتے۔
قیام پاکستان کا خواب بالآخر شرمندہ تعبیر ہوکر رہا اس کا کریڈٹ سراسر قائداعظم ان کے رفقا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مایہ ناز طلبا کو ہی جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی علمیت کی علی گڑھ یونیورسٹی میں دھاک بٹھادی تھی۔ آپ کی علمی قابلیت کی گونج سندھ تک بھی پہنچ چکی تھی۔ چنانچہ قائداعظم کے مشورے سے جب کراچی میں 1943ء میں سندھ مسلم کالج کی بنیاد پڑی تو قائد کے ہی مشورے پر آپ کو سندھ میں پہلے مسلم کالج کے بانی پرنسپل ہونے کا شرف حاصل ہوگیا۔
آپ 1943ء سے 1947ء تک یہ فرض بخیر و خوبی انجام دیتے رہے اور اس کانگریس کے نچلے والے صوبے میں قیام پاکستان کا جذبہ سندھی طلبا میں موجزن کرتے رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں جب کراچی میں اسلامیہ کالج کی بنیاد پڑی تو آپ کو اس کے بھی بانی پرنسپل ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا۔ قائد کے پاکستان کو علم سے بہرہ ور کرکے آپ نے قائد کے ساتھی ہونے کا حق ادا کر دیا تھا۔ آپ شریف النفس اور اسلامی و قومی جذبے سے سرشار ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔
1922ء میں علی گڑھ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی تھی، 1928ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلینڈ چلے گئے، جہاں 1929ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے بی اے آنرز کیا اور 1933ء میں ''خلافت اور سلطنت وسطیٰ ایران میں'' کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ لندن سے واپسی پر آپ علی گڑھ یونیورسٹی میں 1934ء سے 1943ء کے درمیان قائداعظم کے قریب ترین رفیق بنے رہے۔ اس دوران اپ نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا۔
قیام پاکستان کے بعد آپ کی کوشش تھی کہ ملک کو اسلامی نظریے کے تحت چلایا جائے کیونکہ مسلمانان برصغیر نے اس نظریے کو پاکستان میں رائج کرنے کے لیے ہی پاکستان کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ برصغیر کے مختلف دور دراز علاقوں میں صدیوں سے آباد لوگ ایک اسلامی ملک کے قیام اور اس میں قرآن و سنت کے قوانین کے نافذ کی خاطر ہی اپنے گھر بار کاروبار اور بزرگوں کی قبریں چھوڑ کر پاکستان آگئے تھے مگر ہوا وہی جو نہیں ہونا تھا۔
قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد ملک میں اسلام مخالف قوتوں کو عروج حاصل ہوگیا، انھوں نے ملک کو اسلامی کے بجائے ایک سیکولر اسٹیٹ میں تبدیل کردیا۔ چونکہ ملک اپنے اصل نظریے سے دور ہوکر بے سمت ہوچکا تھا چنانچہ ملک میں موجود دشمن کے آلہ کاروں نے ملک کو نہ صرف عدم استحکام کا شکار کردیا بلکہ لسانی، صوبائی اور نسلی بنیادوں پر علیحدگی کا بیج بودیا بہت جلد مشرقی بازو علیحدگی پسندوں کی آماجگاہ بن گیا اور مشرقی بازو مغربی سے علیحدہ کردیاگیا۔
ڈاکٹر امیر حسن صدیقی سچے عاشق پاکستان تھے وہ اس غم کو برداشت نہ کرسکے مگر ان کی شہادت سے یہ ضرور ثابت ہوگیا کہ پاکستان بے سہارا نہیں، اس پر جان دینے والوں کی کمی نہیں ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر نظریہ پاکستان ملک میں نافذ کردیا جاتا تو پاکستان کبھی کسی صورت میں بھی دولخت نہ ہوتا۔ آج بھی کچھ لوگ بابائے قوم پر بہتان لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھوں نے پاکستان کو ایک لادینی ریاست کے طور پر قائم کیا تھا۔
دراصل قائد کی گیارہ اگست 1947ء کی ایک تقریر کو کچھ لوگ قوم کو گمراہ کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں جب کہ قائد کی پاکستان میں اسلامی شریعت کو نافذ کرنے کے بارے میں سیکڑوں تقاریر کو وہ یکسر نظر انداز کرجاتے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر پاکستان کو سیکولر ریاست ہی بننا تھا تو پھر گاندھی اور نہرو کی قیادت میں ہندوستان کے دائرے کے اندر رہنے میں کیا قباحت تھی؟
اس وقت بھی ملک بے سمتی کا شکار ہے اور اس کی کوئی منزل نہیں ہے اسی وجہ سے مختلف طبقے ملک کو اپنے اپنے مخصوص نظریات کے تحت چلانا چاہتے ہیں۔ بہرحال اب بہت ہوچکا، ہمیں ملک کو اس کی اصل منزل کی جانب گامزن کرنا ہوگا۔ بچے کچھے پاکستان کو تاقیامت قائم رکھنے کے لیے پرخلوص سنجیدگی اختیار کرنا ہوگا۔ واضح رہے کہ اگر پاکستان ہے تو ہم ہیں ورنہ کچھ بھی نہیں۔ ڈاکٹر امیر حسن صدیقی قوم کے لیے وطن پرستی کا لازوال نمونہ ہیں آپ کی دینی اور قومی خدمات کے علاوہ علمی اور ادبی خدمات بھی لائق تحسین ہیں جنھیں کئی اکابرین ملت نے زبردست خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
آپ نے 1959ء میں آسٹریلیا کے دورے میں سڈنی، کینبرا اور ملبرون کی جامعات میں تیرہ لیکچرز پر مشتمل خطاب کا سلسلہ جاری کیا تھا۔ ان پراثر خطبات کی وجہ سے وہاں کے عوام کو اسلام کو سمجھنے کا موقع ملا اور اسلام کو حقانیت سے متاثر ہوکر کئی خاندان مشرف بہ اسلام ہوگئے تھے۔ ان خطبات کو بعد میں ''Study in Islamic History'' کے عنوان سے جمعیت الفلاح کراچی سے کتابی شکل میں شایع کیا گیا۔
جمعیت الفلاح کا قیام کراچی کے عوام کے لیے آپ کا ایک نادر تحفہ ہے۔ آپ نے ہی پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ آپ نے ''وائس آف اسلام'' کے نام سے انگریزی میں ایک میگزین نکالا تھا جس نے پوری دنیا میں اشاعت اسلام کا بھرپور فریضہ انجام دیا۔ آپ مرتے دم تک فعال رہے اور دینی قومی اور علمی خدمات انجام دیتے رہے۔ آپ کی شخصیت پاکستانی قوم کے لیے ناقابل فراموش ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ آپ کی یادگار کے طور پر اسلام آباد کی کسی شاہراہ کو آپ کے نام سے موسوم کرے تاکہ آپ کی وطن پرستی کو ہمیشہ خراج عقیدت پیش کیا جاتا رہے۔