منشیات کے نقصانات کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے
’’تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ
پاکستان کو درپیش مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ نوجوان نسل کا منشیات کی طرف راغب ہونا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے نوجوانوں خاص کر تعلیمی اداروں کے طلبہ میں منشیات کا استعمال بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے نوجوانوں کی صلاحیتیں متاثر ہورہی ہے اور ان کا مستقبل تاریک ہورہا ہے۔
تعلیمی اداروں اور نوجوان نسل میں منشیات کا استعمال فیشن بن گیا ہے اور اسے ''سٹیٹس سمبل'' سمجھا جاتا ہے۔ منشیات کے عادی افراد میں صرف مرد ہی شامل نہیں ہیں بلکہ خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی نشے کی عادی ہے۔ نوجوانوں میں تمباکو، چرس، شیشہ، افیون، شراب و دیگر جدید قسم کی منشیات عام ہیں اور وہ ان کے نقصانات سے بے خبر بطورِ فیشن اور خود کی تسکین کیلئے منشیات استعمال کر رہے ہیں۔ منشیات کے استعمال سے شرح اموات میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور اس سے بے شمار خاندان اجڑ چکے ہیں۔
منشیات کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر قانون سازی کی گئی ہے جبکہ بے شمار این جی اوز اور تعلیمی ادارے آگاہی مہم بھی چلارہے ہیں تاکہ نوجوانوں کو آگاہی دے کر نشے کی عادت سے روکا جاسکے۔ حال ہی میں حکومتی سطح پر تعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام کا فیصلہ کیا گیا ہے ، اس اہم مسئلے کو مدنظر رکھتے ہوئے ''ایکسپریس فورم'' میں ''تعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام'' کے حوالے سے ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں تعلیمی اداروں کے سربراہان اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا ۔فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم ( وائس چانسلرشہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی )
تعلیمی اداروں میں سگریٹ نوشی اور ممنوعہ منشیات کا استعمال قابل مذمت عمل ہے اور کوئی بھی شخص اس کی حمایت نہیں کرسکتا۔ ہمیں متفقہ لائح عمل اپناتے ہوئے تعلیمی اداروں میں سگریٹ نوشی اور نشہ آور اشیاء کی ترسیل اور استعمال کو روکنا ہوگا۔ اس ضمن میں سخت اور ٹھوس پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے۔شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی نے ادارے میں سگریٹ نوشی اور ممنوعہ ادویات کی روک تھام کیلئے باضابطہ کمیٹی تشکیل دی ہے جو اس ضمن میں قوانین بنائے گی جس کے تحت بنیادی طور پر اساتذہ کو تعلیمی اداروں میں سگریٹ نوشی سے روکا جائے گا۔
طالبعلموں کو سگریٹ نوشی اور ممنوعہ ادویات کے استعمال سے روکنے کیلئے یہ ضرروی ہے کہ پہلے اساتذہ کو تعلیمی اداروں میں سگریٹ نوشی سے روکا جائے۔ ہم نے اس ضمن میں اساتذہ کے ریکروٹمنٹ قوانین میں ترمیم کی تجویز دی ہے جس کے مطابق سگریٹ نوشی کرنے والے شخص کو ملازمت پر بھرتی نہیں کیا جائے گا یا ان سے حلف لیا جائے کہ وہ تعلیمی ادارے میں سگریٹ نوشی نہیں کریں گے۔تعلیمی اداروں میں سگریٹ نوشی اور ممنوعہ نشہ آور ادویات اور اشیاء کے استعمال پر پابندی کے باجودنوجوانوں کا اس طرف رجحان بڑھ رہا ہے کیونکہ ہم نے اپنی معاشرتی اقدار کھو دی ہیں۔
ایک طرف نوجوانوںمیں سگریٹ نوشی فیشن بن چکا ہے تودوسری طرف نوجوانوں کے رول ماڈلز، کرکٹرز، ٹی وی و فلم سٹارز وغیرہ سگریٹ نوشی کرتے نظر آتے ہیں جن سے نوجوان فوری متاثر ہوتے ہیں اور وہ بھی سگریٹ نوشی کرنے لگتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیمی اداروں میں سٹوڈنٹس کی اکثریت سموکنگ اور دیگر نشہ آور ادویات استعمال کرتی ہے، اس کی روک تھام کیلئے ضرروی ہے کہ ہم مروجہ ملکی قوانین پر عملدرآمد یقینی بنائیں، تعلیمی اداروں میں سگریٹ سمیت ممنوعہ نشہ آورادویات کی سپلائی، خرید و فروخت اور استعمال پر مکمل پابندی عائد کی جائے،اس کیلئے لازمی ہے کہ ادارے کی سکیورٹی اور چیکنگ کے نظام کو موثر بنایا جائے۔
اس کے علاوہ طلباء و طالبات کی کونسلنگ کا طریقہ کار طے کیا جائے، اس ضمن میں سٹوڈنٹس کو آن بورڈ لیا جائے اور انہیں قائل کیا جائے کہ سگریٹ نوشی اور ممنوعہ ادویات کا استعمال ان کی صحت کیلئے کس قدر خطرنات ہے اور اس کے نتیجے میں انہیں کون کون سی مہلک بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔ طالبعلموں کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں منشیات کے خلاف آگاہی مہم شروع کرنے کی ضرورت ہیں تاکہ ہر شہری کے اندر یہ شعور پیدا ہوجائے کہ سگریٹ نوشی صحت کیلئے مضر ہے اور اس کے استعمال سے درجنوں اقسام کی خطرناک بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں یہ تاثر پایا جاتا ہیے کہ سگریٹ کا استعمال ذہنی و دماغی سکون فراہم کرتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ تمباکو میں موجود نیکوٹین بذات خودذہنی دباؤ کا باعث بنتا ہے اور یہ کئی اقسام کی کینسر کا سبب بھی ہے ۔مختلف اداروں کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں تقریبا 46 فیصد مرد اور 9 فیصد خواتین سگریٹ نوشی کرتی ہیں جو روزانہ تقریبا 18 کروڑ سگریٹ پی جاتے ہیں جن پر مجموعی طور پر75 کروڑ روپے روزانہ خرچ ہوتے ہیں۔
پاکستان میں سگریٹ نوشی پر قابو پانے کیلئے بنائے گئے قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث نہ صرف سگریٹ نوشی کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ اس کے منفی اثرات سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے متاثرہ افراد کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق سگریٹ نوشی صحت کیلئے انتہائی مضر ہے، سگریٹ کے زیادہ استعمال سے تقریباََ 18 اقسام کے کینسر لاحق ہوجاتے ہیں جن میں پھیپھڑوں کا کینسر، سروکس، گردہ، منہ، لبلبہ، حلق، سانس کی نالی اور بلیڈر کینسر شامل ہیں جبکہ اس کے علاوہ دل کے امراض اور دیگر بیماریاں بھی لاحق ہوجاتی ہیں جو جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں سگریٹ کے زیادہ استعمال کے نتیجے میں ہونے والی مجموعی اموات میں سے تقریباََ 90 فیصد اموات پھیپھڑوں کے کینسر کی وجہ سے ہوتی ہیں جبکہ 20 فیصد دیگر اقسام کے کینسر اور25 فیصد اموات کارڈیوواسکولر امراض کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
سگریٹ میں ہزاروں اقسام کے کیمیکلز پائے جاتے ہیں جن میں 70 کے قریب کیمیکلز ایسے ہیں جو کینسر کا باعث بنتے ہیں ۔اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں سگریٹ نوشی کے منفی اثرات سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے باعث سالانہ ایک لاکھ سے زائد افراد زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے سگریٹ نوشی پر قابو پانے کیلئے قانون سازی کی ہے لیکن بدقسمتی سے ان پر کوئی عملدرآمد نہیں ہورہا۔
سگریٹ نوشی کے متعلق قوانین کے تحت پبلک مقامات، ہوٹلز، دفاتر، ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ، سینما، بس سٹیشن، پبلک ٹرانسپورٹ، تعلیمی اداروں، کمرہ عدالت، لائبریریوں، سپورٹس سٹیڈیم اورکانفرنس رومز سمیت متعدد مقامات پر سگریٹ نوشی ممنوع ہے لیکن افسوس ہے کہ سب سے زیادہ سگریٹ نوشی انہی مقامات پر ہوتی ہے۔اس وقت سوائے کمرہ عدالت کے باقی تمام جگہوں پر سگریٹ نوشی کی جاتی ہے جہاں سگریٹ پینا قانون کے مطابق منع ہے۔ سگریٹ نوشی کے علاوہ حقہ، شیشہ، گٹکا، پان، نسوار ودیگر جدید طریقوں سے بھی سموکنگ کی جاتی ہے جو صحت کیلئے مضر ہیں،ان کی روک تھام کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر معصوم یاسین زئی ( ریکٹر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد)
تعلیمی اداروں میں سگریٹ نوشی اور ممنوعی نشہ آور ادویات کے استعمال کی کئی وجوہات ہیں جن میں سماجی نا انصافیاں اور بائیولوجیکل وجوہات شامل ہیں،بدقسمتی سے ہمارے ہاں سماجی سرگرمیاں ختم ہوکر رہ گئی ہیں جبکہ شہر میں کھیل ختم ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے نوجوانوں کے پاس کوئی صحت مند سرگرمی نہیںہے۔ والدین اور اساتذہ بھی سگریٹ نوشی کرتے ہیں، ایسے ماحول میں بچوں سے یہ توقع کیسے کر سکتے ہیں کہ وہ سگریٹ نوشی چھوڑ دیں۔ ہمارے معاشرہ میں اگر ہر گھر میں بچوں کیلئے ان کے والدین اور ہر تعلیمی ادارے میں طالب علموںکیلئے ان کے اساتذہ رول ماڈل بن جائیں تو معاشرے سے تمام غیر اخلاقی سرگرمیوں اور اہم مسائل کا خاتمہ ہوجائے گا۔
آج ہمارے معاشرے کا حال یہ ہے کہ باپ بیٹے کے سامنے اور استاد سٹوڈنٹس کے سامنے سگریٹ نوشی کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ کم عمر بچے سگریٹ نوشی کرتے ہیں اور کم عمری سے ہی اس چیز کے عادی بن جاتے ہیں۔ جب کوئی شخص سگریٹ کا عادی بن جائے تو آہستہ آہستہ دیگر نشہ آور اشیاء بھی استعمال کرنے لگ جاتا ہے اور پھر اسے ان کے استعمال کی عادت ہو جاتی ہے۔منشیات کے عادی بچے جب تعلیمی اداروں میں آتے ہیں تو انہیں روکنا مشکل ہوجاتا ہے۔تعلیمی اداروں میں سگریٹ نوشی اور ممنوعہ نشہ آور اشیاء کے استعمال کو روکنے کیلئے ہمیں متفقہ حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔
افسوس ہے کہ ہمارے ہاں قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔گزشتہ دنوں قومی اخبارات میں ایک این جی او کی رپورٹ سے متعلق خبر شائع ہوئی کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تقریباََ 90 فیصد طالب علم سگریٹ نوشی اور نشہ آور ممنوعہ اشیاء استعمال کرتے ہیں۔اس رپورٹ میں محض مبالغہ آرائی کی گئی ہیں تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تعلیمی اداروں میں سگریٹ نوشی نہیں ہوتی۔ہمیں ان چیزوں کو روکنے کی ضرورت ہے۔
اس ضمن میں تمام متعلقہ اداروں کو مل کر کام کرنے اور متفقہ لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے جس میں خاص طور پر آگاہی مہم اور کونسلنگ کے ذریعے بچوں کو سگریٹ نوشی ترک کرنے کیلئے قائل کرنے پرزور دینا ہوگا کیونکہ جب تک سموکرز خود سگریٹ نوشی چھوڑنے پر راضی نہیں ہوں گے تب تک ان کی سگریٹ نوشی کی عادت نہیں چھڑائی جاسکتی۔مثال کے طور پر اگر ماہ رمضا ن میںسگریٹ کا عادمی 16 گھنٹے سگریٹ پیئے بغیر رہ سکتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ سگریٹ پیئے کے بغیر رہا جاسکتا ہے۔
بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی کی انتظامیہ نے یونیورسٹی کے اندر اور اس کے احاطہ میں سموکنگ اور نشہ آور اشیاء کے استعمال پر پابندی عائد کررکھی ہے اور سموکنگ کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ یونیورسٹی میں سگریٹ نوشی اور ممنوعہ نشہ آور اشیاء کی ترسیل اور فروخت پر مکمل پابندی ہے۔ طالب علموں کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی میں کام کرنے والے عملے پر بھی پابندی لگائی گئی ہے جبکہ یونیورسٹی کے شعبہ اصولِ دین کے سٹوڈنٹس کو منشیات کے عادی طالب علموں کی کونسلنگ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے تاکہ ان کی اصلاح ہو سکے۔
ڈاکٹر جاوید اشرف ( وائس چانسلرقائد اعظم یونیورسٹی)
اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیمی اداروں میں سگریٹ نوشی اور ممنوعہ نشہ آور اشیاء استعمال کی جاتی ہے۔ طالب علم اور اداروں کا تدریسی عملہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں جہاں ان برائیوں اور سرگرمیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ سگریٹ نوشی اور نشہ آور اشیاء کی ترسیل ار استعمال کو روکنے کیلئے ٹھوس پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس بات کا ادارک بھی ہونا چاہیے کہ کسی بھی چیز کو ہم طاقت کے زور سے نہیں روک سکتے، سختی کرنے سے ہم ان سرگرمیوں کو روکنے یا ختم کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کریں گے۔
امریکا میں شراب نوشی کو بزور طاقت روکنے کی کوشش کی گئی تو اس میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہوا۔ یہ بات حقیقت ہے کہ ہم انسان کی فطرت کو زور زبردستی اور یکدم نہیں بدل سکتے، ایسا کرنے کی صورت میں اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہمیں اس ضمن میں موثر قانون سازی اور آگاہی کے ذریعے نوجوان نسل میں شعور پیدا کرنا ہوگا تاکہ وہ خود اس کی برائی سمجھتے ہوئے اس کے استعمال سے پرہیز کریں۔
ڈاکٹر الہان (پروفیسر قائداعظم یونیورسٹی )
دنیا بھر میں 80 فیصد منشیات کا استعمال ترقی پذیر ممالک میں کیا جا رہا ہے جن میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا سرفہرست ہیں۔امریکا سمیت دیگر یورپی ممالک نے منشیات پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے اور اب وہاں سگریٹ اور شراب کی بڑی بڑی کمپنیاں خسارے میں ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کمپنیوں نے اپنی تمام تر توجہ پاکستان اور دیگر ممالک کی طرف مرکوز کر لی ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان میں یہ کمپنیاں دس گنا زیادہ بزنس کر رہی ہیں۔
منشیات کا استعمال تعلیمی اداروںودفاتر میں سختی یا جرمانوں سے کسی صورت نہیں روکا جا سکتا بلکہ اس کے لئے تعلیمی اداروں میں ایک لائحہ عمل بنانا ہو گا جس کے تحت بچوں کو منشیات کے نقصانات کے حوالے سے خصوصی تعلیم فراہم کرنا ہو گی۔اس کے علاوہ منشیات کی روک تھام کے لئے بچے کو ابتداء سے ہی سگریٹ نوشی یا دیگر منشیات کے نقصانات کے بارے میں معلومات دینی چاہیے۔
امریکا اور دیگر ممالک میں 12 سے13 برس کی عمر کے بچوں کو منشیات اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے بارے میں تعلیم دی جاتی ہے لیکن پاکستان میں اس عمر کے بچوں کو ایسی کوئی تعلیم نہیں دی جاتی اور نہ ہی والدین بچوں کو اس قسم کی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ سکول کی سطح سے ہی منشیات کے نقصانات کے بارے میں بچوں کو صحیح معلومات دی جائیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں اساتذہ اور والدین خود سگریٹ نوشی کرتے ہیں جس کے باعث بچے بھی سگریٹ نوشی شروع کردیتے ہیں اور پھر وہ اس کے عادی بن جاتے ہیں۔ سگریٹ نوشی کو ہمارے معاشرے میں زیادہ برا نہیں سمجھا جاتا جس کی وجہ سے سگریٹ نوشی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور نوجوان دل اورسانس کی بیماریوں سمیت دیگر بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
فرزانہ باری (نمائندہ سول سوسائٹی )
منشیات کی روک تھام کے لئے حکومتی سطح پر سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو منشیات پر قابو پانا ہے تو سب سے پہلے منشیات فراہم کرنے والوں کا ہاتھ روکنا ہوگا۔ پوری دنیا سمیت پاکستان میں منشیات کی سپلائی زیادہ تر افغانستان سے ہوتی ہے۔ منشیات کے استعمال کو روکنے کے لئے حکومتی سطح پر ایسے سخت اقدامات کئے جائیں جن سے منشیات فروشوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کیا جاسکے۔ ہمارے ملک میں منشیات کی روک تھام سمیت ہر جرم کے لئے قانون موجود ہے لیکن بدقسمتی سے اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا جس کی وجہ سے منشیات کا استعمال ہمارے معاشرے میں کینسر کی طرح پھیلا رہا ہے۔
اگر ابھی بھی حکمرانوں نے منشیات کی روک تھام کے لئے سنجیدہ اقدامات نہ کئے تو ہمارا مستقبل انتہائی تاریک ہو جائے گا۔منشیات کے استعمال اور اس میں اضافے کی ایک بڑی وجہ سماجی ناانصافی ہے، ہمارے ملک میں غریب اور امیر کے لئے انصاف کے تقاضے مختلف ہیں اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ معاشرے سے تنگ افراد انصاف نہ ملنے پر اس چیز کی طرف راغب ہوتے ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ہر ایک کام کے لئے سفارش کا ہونا لازمی ہو چکا ہے اور وہ نوجوان جو سفارش ہونے کی وجہ سے دربدر ہو جاتے ہیں وہ بھی منشیات کا استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں اور تیسری وجہ صحت مندانہ سرگرمیوں کا نہ ہونا بھی ہے جو نوجوانوں کو منشیات کے استعمال کی طرف لے جا رہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ تعلیمی اداروں سمیت ہر جگہ صحت مندانہ سرگرمیوں کے لئے سہولیات مہیاکرے تاکہ نوجوان نسل فضول چیزوں کی جگہ صحت مند سرگرمیوں کی طرف راغب ہو۔
پاکستان میں سب سے زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے اور منشیات کا استعمال نوجوانوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ انہیں روکنے کے لیے ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں میںمنشیات کے نقصانات کے بارے میں آگاہی دی جائے۔بہت ساری این جی اوز منشیات کے خلاف آگاہی فراہم کر رہی ہیں لیکن یہ ناکافی ہے، ہمارا فرض ہے کہ ہم منشیات کے استعمال کی روک تھام کے لئے ذاتی طور پر دلچسپی لیں اور بچوں کو اس کے نقصانات کے بارے میں آگاہ کریں۔
تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال عام ہو چکا ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل تباہ ہو رہی ہے۔ تمام یونیورسٹیوں اور دیگرتعلیمی اداروں کے لئے ایک جامع پالیسی بنائی جائے جس پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے اور تعلیمی اداروں، ہسپتالوں و دیگر عوامی مراکز کے اندر اور ارد گرد سگریٹ کی فروخت اور پینے پر سختی سے پابندی لگائی جائے۔منشیات کے استعمال کے بارے قانون موجود ہے لہٰذا ان پر صحیح معنوں میں عملدرآمد کرایا جائے۔
تعلیمی اداروں اور نوجوان نسل میں منشیات کا استعمال فیشن بن گیا ہے اور اسے ''سٹیٹس سمبل'' سمجھا جاتا ہے۔ منشیات کے عادی افراد میں صرف مرد ہی شامل نہیں ہیں بلکہ خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی نشے کی عادی ہے۔ نوجوانوں میں تمباکو، چرس، شیشہ، افیون، شراب و دیگر جدید قسم کی منشیات عام ہیں اور وہ ان کے نقصانات سے بے خبر بطورِ فیشن اور خود کی تسکین کیلئے منشیات استعمال کر رہے ہیں۔ منشیات کے استعمال سے شرح اموات میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور اس سے بے شمار خاندان اجڑ چکے ہیں۔
منشیات کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر قانون سازی کی گئی ہے جبکہ بے شمار این جی اوز اور تعلیمی ادارے آگاہی مہم بھی چلارہے ہیں تاکہ نوجوانوں کو آگاہی دے کر نشے کی عادت سے روکا جاسکے۔ حال ہی میں حکومتی سطح پر تعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام کا فیصلہ کیا گیا ہے ، اس اہم مسئلے کو مدنظر رکھتے ہوئے ''ایکسپریس فورم'' میں ''تعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام'' کے حوالے سے ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں تعلیمی اداروں کے سربراہان اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا ۔فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم ( وائس چانسلرشہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی )
تعلیمی اداروں میں سگریٹ نوشی اور ممنوعہ منشیات کا استعمال قابل مذمت عمل ہے اور کوئی بھی شخص اس کی حمایت نہیں کرسکتا۔ ہمیں متفقہ لائح عمل اپناتے ہوئے تعلیمی اداروں میں سگریٹ نوشی اور نشہ آور اشیاء کی ترسیل اور استعمال کو روکنا ہوگا۔ اس ضمن میں سخت اور ٹھوس پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے۔شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی نے ادارے میں سگریٹ نوشی اور ممنوعہ ادویات کی روک تھام کیلئے باضابطہ کمیٹی تشکیل دی ہے جو اس ضمن میں قوانین بنائے گی جس کے تحت بنیادی طور پر اساتذہ کو تعلیمی اداروں میں سگریٹ نوشی سے روکا جائے گا۔
طالبعلموں کو سگریٹ نوشی اور ممنوعہ ادویات کے استعمال سے روکنے کیلئے یہ ضرروی ہے کہ پہلے اساتذہ کو تعلیمی اداروں میں سگریٹ نوشی سے روکا جائے۔ ہم نے اس ضمن میں اساتذہ کے ریکروٹمنٹ قوانین میں ترمیم کی تجویز دی ہے جس کے مطابق سگریٹ نوشی کرنے والے شخص کو ملازمت پر بھرتی نہیں کیا جائے گا یا ان سے حلف لیا جائے کہ وہ تعلیمی ادارے میں سگریٹ نوشی نہیں کریں گے۔تعلیمی اداروں میں سگریٹ نوشی اور ممنوعہ نشہ آور ادویات اور اشیاء کے استعمال پر پابندی کے باجودنوجوانوں کا اس طرف رجحان بڑھ رہا ہے کیونکہ ہم نے اپنی معاشرتی اقدار کھو دی ہیں۔
ایک طرف نوجوانوںمیں سگریٹ نوشی فیشن بن چکا ہے تودوسری طرف نوجوانوں کے رول ماڈلز، کرکٹرز، ٹی وی و فلم سٹارز وغیرہ سگریٹ نوشی کرتے نظر آتے ہیں جن سے نوجوان فوری متاثر ہوتے ہیں اور وہ بھی سگریٹ نوشی کرنے لگتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیمی اداروں میں سٹوڈنٹس کی اکثریت سموکنگ اور دیگر نشہ آور ادویات استعمال کرتی ہے، اس کی روک تھام کیلئے ضرروی ہے کہ ہم مروجہ ملکی قوانین پر عملدرآمد یقینی بنائیں، تعلیمی اداروں میں سگریٹ سمیت ممنوعہ نشہ آورادویات کی سپلائی، خرید و فروخت اور استعمال پر مکمل پابندی عائد کی جائے،اس کیلئے لازمی ہے کہ ادارے کی سکیورٹی اور چیکنگ کے نظام کو موثر بنایا جائے۔
اس کے علاوہ طلباء و طالبات کی کونسلنگ کا طریقہ کار طے کیا جائے، اس ضمن میں سٹوڈنٹس کو آن بورڈ لیا جائے اور انہیں قائل کیا جائے کہ سگریٹ نوشی اور ممنوعہ ادویات کا استعمال ان کی صحت کیلئے کس قدر خطرنات ہے اور اس کے نتیجے میں انہیں کون کون سی مہلک بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔ طالبعلموں کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں منشیات کے خلاف آگاہی مہم شروع کرنے کی ضرورت ہیں تاکہ ہر شہری کے اندر یہ شعور پیدا ہوجائے کہ سگریٹ نوشی صحت کیلئے مضر ہے اور اس کے استعمال سے درجنوں اقسام کی خطرناک بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں یہ تاثر پایا جاتا ہیے کہ سگریٹ کا استعمال ذہنی و دماغی سکون فراہم کرتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ تمباکو میں موجود نیکوٹین بذات خودذہنی دباؤ کا باعث بنتا ہے اور یہ کئی اقسام کی کینسر کا سبب بھی ہے ۔مختلف اداروں کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں تقریبا 46 فیصد مرد اور 9 فیصد خواتین سگریٹ نوشی کرتی ہیں جو روزانہ تقریبا 18 کروڑ سگریٹ پی جاتے ہیں جن پر مجموعی طور پر75 کروڑ روپے روزانہ خرچ ہوتے ہیں۔
پاکستان میں سگریٹ نوشی پر قابو پانے کیلئے بنائے گئے قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث نہ صرف سگریٹ نوشی کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ اس کے منفی اثرات سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے متاثرہ افراد کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق سگریٹ نوشی صحت کیلئے انتہائی مضر ہے، سگریٹ کے زیادہ استعمال سے تقریباََ 18 اقسام کے کینسر لاحق ہوجاتے ہیں جن میں پھیپھڑوں کا کینسر، سروکس، گردہ، منہ، لبلبہ، حلق، سانس کی نالی اور بلیڈر کینسر شامل ہیں جبکہ اس کے علاوہ دل کے امراض اور دیگر بیماریاں بھی لاحق ہوجاتی ہیں جو جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں سگریٹ کے زیادہ استعمال کے نتیجے میں ہونے والی مجموعی اموات میں سے تقریباََ 90 فیصد اموات پھیپھڑوں کے کینسر کی وجہ سے ہوتی ہیں جبکہ 20 فیصد دیگر اقسام کے کینسر اور25 فیصد اموات کارڈیوواسکولر امراض کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
سگریٹ میں ہزاروں اقسام کے کیمیکلز پائے جاتے ہیں جن میں 70 کے قریب کیمیکلز ایسے ہیں جو کینسر کا باعث بنتے ہیں ۔اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں سگریٹ نوشی کے منفی اثرات سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے باعث سالانہ ایک لاکھ سے زائد افراد زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے سگریٹ نوشی پر قابو پانے کیلئے قانون سازی کی ہے لیکن بدقسمتی سے ان پر کوئی عملدرآمد نہیں ہورہا۔
سگریٹ نوشی کے متعلق قوانین کے تحت پبلک مقامات، ہوٹلز، دفاتر، ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ، سینما، بس سٹیشن، پبلک ٹرانسپورٹ، تعلیمی اداروں، کمرہ عدالت، لائبریریوں، سپورٹس سٹیڈیم اورکانفرنس رومز سمیت متعدد مقامات پر سگریٹ نوشی ممنوع ہے لیکن افسوس ہے کہ سب سے زیادہ سگریٹ نوشی انہی مقامات پر ہوتی ہے۔اس وقت سوائے کمرہ عدالت کے باقی تمام جگہوں پر سگریٹ نوشی کی جاتی ہے جہاں سگریٹ پینا قانون کے مطابق منع ہے۔ سگریٹ نوشی کے علاوہ حقہ، شیشہ، گٹکا، پان، نسوار ودیگر جدید طریقوں سے بھی سموکنگ کی جاتی ہے جو صحت کیلئے مضر ہیں،ان کی روک تھام کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر معصوم یاسین زئی ( ریکٹر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد)
تعلیمی اداروں میں سگریٹ نوشی اور ممنوعی نشہ آور ادویات کے استعمال کی کئی وجوہات ہیں جن میں سماجی نا انصافیاں اور بائیولوجیکل وجوہات شامل ہیں،بدقسمتی سے ہمارے ہاں سماجی سرگرمیاں ختم ہوکر رہ گئی ہیں جبکہ شہر میں کھیل ختم ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے نوجوانوں کے پاس کوئی صحت مند سرگرمی نہیںہے۔ والدین اور اساتذہ بھی سگریٹ نوشی کرتے ہیں، ایسے ماحول میں بچوں سے یہ توقع کیسے کر سکتے ہیں کہ وہ سگریٹ نوشی چھوڑ دیں۔ ہمارے معاشرہ میں اگر ہر گھر میں بچوں کیلئے ان کے والدین اور ہر تعلیمی ادارے میں طالب علموںکیلئے ان کے اساتذہ رول ماڈل بن جائیں تو معاشرے سے تمام غیر اخلاقی سرگرمیوں اور اہم مسائل کا خاتمہ ہوجائے گا۔
آج ہمارے معاشرے کا حال یہ ہے کہ باپ بیٹے کے سامنے اور استاد سٹوڈنٹس کے سامنے سگریٹ نوشی کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ کم عمر بچے سگریٹ نوشی کرتے ہیں اور کم عمری سے ہی اس چیز کے عادی بن جاتے ہیں۔ جب کوئی شخص سگریٹ کا عادی بن جائے تو آہستہ آہستہ دیگر نشہ آور اشیاء بھی استعمال کرنے لگ جاتا ہے اور پھر اسے ان کے استعمال کی عادت ہو جاتی ہے۔منشیات کے عادی بچے جب تعلیمی اداروں میں آتے ہیں تو انہیں روکنا مشکل ہوجاتا ہے۔تعلیمی اداروں میں سگریٹ نوشی اور ممنوعہ نشہ آور اشیاء کے استعمال کو روکنے کیلئے ہمیں متفقہ حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔
افسوس ہے کہ ہمارے ہاں قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔گزشتہ دنوں قومی اخبارات میں ایک این جی او کی رپورٹ سے متعلق خبر شائع ہوئی کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تقریباََ 90 فیصد طالب علم سگریٹ نوشی اور نشہ آور ممنوعہ اشیاء استعمال کرتے ہیں۔اس رپورٹ میں محض مبالغہ آرائی کی گئی ہیں تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تعلیمی اداروں میں سگریٹ نوشی نہیں ہوتی۔ہمیں ان چیزوں کو روکنے کی ضرورت ہے۔
اس ضمن میں تمام متعلقہ اداروں کو مل کر کام کرنے اور متفقہ لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے جس میں خاص طور پر آگاہی مہم اور کونسلنگ کے ذریعے بچوں کو سگریٹ نوشی ترک کرنے کیلئے قائل کرنے پرزور دینا ہوگا کیونکہ جب تک سموکرز خود سگریٹ نوشی چھوڑنے پر راضی نہیں ہوں گے تب تک ان کی سگریٹ نوشی کی عادت نہیں چھڑائی جاسکتی۔مثال کے طور پر اگر ماہ رمضا ن میںسگریٹ کا عادمی 16 گھنٹے سگریٹ پیئے بغیر رہ سکتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ سگریٹ پیئے کے بغیر رہا جاسکتا ہے۔
بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی کی انتظامیہ نے یونیورسٹی کے اندر اور اس کے احاطہ میں سموکنگ اور نشہ آور اشیاء کے استعمال پر پابندی عائد کررکھی ہے اور سموکنگ کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ یونیورسٹی میں سگریٹ نوشی اور ممنوعہ نشہ آور اشیاء کی ترسیل اور فروخت پر مکمل پابندی ہے۔ طالب علموں کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی میں کام کرنے والے عملے پر بھی پابندی لگائی گئی ہے جبکہ یونیورسٹی کے شعبہ اصولِ دین کے سٹوڈنٹس کو منشیات کے عادی طالب علموں کی کونسلنگ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے تاکہ ان کی اصلاح ہو سکے۔
ڈاکٹر جاوید اشرف ( وائس چانسلرقائد اعظم یونیورسٹی)
اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیمی اداروں میں سگریٹ نوشی اور ممنوعہ نشہ آور اشیاء استعمال کی جاتی ہے۔ طالب علم اور اداروں کا تدریسی عملہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں جہاں ان برائیوں اور سرگرمیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ سگریٹ نوشی اور نشہ آور اشیاء کی ترسیل ار استعمال کو روکنے کیلئے ٹھوس پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس بات کا ادارک بھی ہونا چاہیے کہ کسی بھی چیز کو ہم طاقت کے زور سے نہیں روک سکتے، سختی کرنے سے ہم ان سرگرمیوں کو روکنے یا ختم کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کریں گے۔
امریکا میں شراب نوشی کو بزور طاقت روکنے کی کوشش کی گئی تو اس میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہوا۔ یہ بات حقیقت ہے کہ ہم انسان کی فطرت کو زور زبردستی اور یکدم نہیں بدل سکتے، ایسا کرنے کی صورت میں اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہمیں اس ضمن میں موثر قانون سازی اور آگاہی کے ذریعے نوجوان نسل میں شعور پیدا کرنا ہوگا تاکہ وہ خود اس کی برائی سمجھتے ہوئے اس کے استعمال سے پرہیز کریں۔
ڈاکٹر الہان (پروفیسر قائداعظم یونیورسٹی )
دنیا بھر میں 80 فیصد منشیات کا استعمال ترقی پذیر ممالک میں کیا جا رہا ہے جن میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا سرفہرست ہیں۔امریکا سمیت دیگر یورپی ممالک نے منشیات پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے اور اب وہاں سگریٹ اور شراب کی بڑی بڑی کمپنیاں خسارے میں ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کمپنیوں نے اپنی تمام تر توجہ پاکستان اور دیگر ممالک کی طرف مرکوز کر لی ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان میں یہ کمپنیاں دس گنا زیادہ بزنس کر رہی ہیں۔
منشیات کا استعمال تعلیمی اداروںودفاتر میں سختی یا جرمانوں سے کسی صورت نہیں روکا جا سکتا بلکہ اس کے لئے تعلیمی اداروں میں ایک لائحہ عمل بنانا ہو گا جس کے تحت بچوں کو منشیات کے نقصانات کے حوالے سے خصوصی تعلیم فراہم کرنا ہو گی۔اس کے علاوہ منشیات کی روک تھام کے لئے بچے کو ابتداء سے ہی سگریٹ نوشی یا دیگر منشیات کے نقصانات کے بارے میں معلومات دینی چاہیے۔
امریکا اور دیگر ممالک میں 12 سے13 برس کی عمر کے بچوں کو منشیات اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے بارے میں تعلیم دی جاتی ہے لیکن پاکستان میں اس عمر کے بچوں کو ایسی کوئی تعلیم نہیں دی جاتی اور نہ ہی والدین بچوں کو اس قسم کی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ سکول کی سطح سے ہی منشیات کے نقصانات کے بارے میں بچوں کو صحیح معلومات دی جائیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں اساتذہ اور والدین خود سگریٹ نوشی کرتے ہیں جس کے باعث بچے بھی سگریٹ نوشی شروع کردیتے ہیں اور پھر وہ اس کے عادی بن جاتے ہیں۔ سگریٹ نوشی کو ہمارے معاشرے میں زیادہ برا نہیں سمجھا جاتا جس کی وجہ سے سگریٹ نوشی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور نوجوان دل اورسانس کی بیماریوں سمیت دیگر بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
فرزانہ باری (نمائندہ سول سوسائٹی )
منشیات کی روک تھام کے لئے حکومتی سطح پر سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو منشیات پر قابو پانا ہے تو سب سے پہلے منشیات فراہم کرنے والوں کا ہاتھ روکنا ہوگا۔ پوری دنیا سمیت پاکستان میں منشیات کی سپلائی زیادہ تر افغانستان سے ہوتی ہے۔ منشیات کے استعمال کو روکنے کے لئے حکومتی سطح پر ایسے سخت اقدامات کئے جائیں جن سے منشیات فروشوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کیا جاسکے۔ ہمارے ملک میں منشیات کی روک تھام سمیت ہر جرم کے لئے قانون موجود ہے لیکن بدقسمتی سے اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا جس کی وجہ سے منشیات کا استعمال ہمارے معاشرے میں کینسر کی طرح پھیلا رہا ہے۔
اگر ابھی بھی حکمرانوں نے منشیات کی روک تھام کے لئے سنجیدہ اقدامات نہ کئے تو ہمارا مستقبل انتہائی تاریک ہو جائے گا۔منشیات کے استعمال اور اس میں اضافے کی ایک بڑی وجہ سماجی ناانصافی ہے، ہمارے ملک میں غریب اور امیر کے لئے انصاف کے تقاضے مختلف ہیں اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ معاشرے سے تنگ افراد انصاف نہ ملنے پر اس چیز کی طرف راغب ہوتے ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ہر ایک کام کے لئے سفارش کا ہونا لازمی ہو چکا ہے اور وہ نوجوان جو سفارش ہونے کی وجہ سے دربدر ہو جاتے ہیں وہ بھی منشیات کا استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں اور تیسری وجہ صحت مندانہ سرگرمیوں کا نہ ہونا بھی ہے جو نوجوانوں کو منشیات کے استعمال کی طرف لے جا رہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ تعلیمی اداروں سمیت ہر جگہ صحت مندانہ سرگرمیوں کے لئے سہولیات مہیاکرے تاکہ نوجوان نسل فضول چیزوں کی جگہ صحت مند سرگرمیوں کی طرف راغب ہو۔
پاکستان میں سب سے زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے اور منشیات کا استعمال نوجوانوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ انہیں روکنے کے لیے ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں میںمنشیات کے نقصانات کے بارے میں آگاہی دی جائے۔بہت ساری این جی اوز منشیات کے خلاف آگاہی فراہم کر رہی ہیں لیکن یہ ناکافی ہے، ہمارا فرض ہے کہ ہم منشیات کے استعمال کی روک تھام کے لئے ذاتی طور پر دلچسپی لیں اور بچوں کو اس کے نقصانات کے بارے میں آگاہ کریں۔
تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال عام ہو چکا ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل تباہ ہو رہی ہے۔ تمام یونیورسٹیوں اور دیگرتعلیمی اداروں کے لئے ایک جامع پالیسی بنائی جائے جس پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے اور تعلیمی اداروں، ہسپتالوں و دیگر عوامی مراکز کے اندر اور ارد گرد سگریٹ کی فروخت اور پینے پر سختی سے پابندی لگائی جائے۔منشیات کے استعمال کے بارے قانون موجود ہے لہٰذا ان پر صحیح معنوں میں عملدرآمد کرایا جائے۔