او جی ڈی سی فیلڈ سے گیس کی غیر قانونی فروخت کا انکشاف
اسلام آباد میں قائم مہرگیس اور ای گیس کمپنی راجیاں فیلڈ اورکمرپساکی فیلڈ سے سپلائی لے کر غیرمحفوظ طریقے سے بیچتی ہیں
KARACHI:
ایسے وقت میں جب ملک توانائی کے شدید ترین بحران کا شکار ہے تیل وگیس کی تلاش کرنے والے سرکاری ادارے آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی( اوجی ڈی سی )کی جانب سے2نجی کمپنیوں کو اپنے فیلڈز سے گیس کی غیرقانونی فروخت اور اس کی شہروں تک غیرمحفوظ نقل وحمل کی اجازت دینے کا انکشاف ہوا ہے۔
ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کو قابل اعتماد ذرائع نے بتایا کہ او جی ڈی سی کے اسلام آباد سے شمال مغرب میں 35 کلومیٹردور راجیاں فیلڈ اور حیدرآباد سندھ کے قریب 'کمرپساکی' فیلڈ سے غیرقانونی طورپر گیس کی نقل وحمل اور فروخت میں ملوث دونوں نجی کمپنیوں، مہر گیس کمپنی اور ای گیس کمپنی کا تعلق اسلام آباد سے ہے۔ دونوں کمپنیوں کے مالکان کا یا توبراہ راست تعلق حکمراں جماعت سے ہے یا ان کو بااثر سیاسی شخصیات کی سرپرستی حاصل ہے ۔
اسی سیاسی اثرورسوخ کی بنا پر یہ دونوں کمپنیاں اوجی ڈی سی کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوگئیں جن پر پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن بھی سراپا احتجاج ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ دونوں کمپنیاں کسی لائسنس یا اتھارٹی کی منظوری کے بغیر دھڑلے سے نہ صرف اوجی ڈی سی فیلڈز سے گیس کمپریس کرکے غیرمعیاری کھلی گاڑیوں میں لگے سلنڈروں کے ذریعے ملک بھر کے سی این جی ا سٹیشنوں پرفروخت کرکے بھاری منافع کمارہی ہیں بلکہ وہ ملک کی کئی صنعتوں کو لوڈشیڈنگ کے دوران گیس فراہم کرکے خوب مال کما رہی ہیں۔
اوجی ڈی سی کے فیلڈزسے گیس کی غیرقانونی فروخت اوراس کی شہروں میں ان کمپنیوں کے اپنے سی این جی ا سٹیشنوں تک نقل و حمل کا پہلا مبینہ معاہدہ ای گیس کمپنی نے کیا جس کے ڈائریکٹروں میں سے ایک ڈائریکٹر وزیراعظم گیلانی کابینہ کی رکن تھیں۔اس کمپنی کے غیرمعمولی منافع خوری کی بھنک پڑنے پر اسلام آباد میں موجود مہر گیس کمپنی بھی میدان میں آگئی۔ اس کے مالکان کا تعلق پیپلزپارٹی کی ایک اعلیٰ شخصیت سے بتایا جاتا ہے۔
دونوں کمپنیوں نے اپنے سیاسی تعلق کی قیمت او جی ڈی سی کے فیلڈز سے گیس کی غیرقانونی سیل اورشہروں تک نقل وحمل کے ذریعے مال بناکر وصول کی۔اوجی ڈی سی کے فیلڈز سے گیس کی غیرقانونی گیس کی فروخت اور شہروں کو منتقلی کا سلسلہ گزشتہ 2سال سے کھلے عام جاری ہے لیکن اوگرا اور وزارت صنعت کے ذیلی ادارے ایکسپلوسیو ڈپارٹمنٹ نے کوئی ایکشن لیا نہ ہی ان کمپنیوں کو کبھی چیک کیا کہ وہ کس قانون کے تحت اوجی ڈی سی فیلڈز سے گیس کھلی گاڑیوں میں لگے سلنڈروں میں لاکر شہروں میں من پسند سی این جی اسٹیشنوں پرفروخت کررہی ہیں۔
سی این جی ایسوسی ایشن کے چیئرمین غیاث پراچہ نے ایکسپریس کو بتایا کہ 2کمپنیوں کو اوجی ڈی سی کے فیلڈز سے گیس کی فروخت اورپھر شہروں تک اس کی منتقلی کے خلاف سی این جی ایسوسی ایشن کو سخت اعتراض ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ یہ سلسلہ فوری بند کیا جائے اوراگر اوجی ڈی سی فیلڈز سے گیس فروخت کی جاسکتی ہے تو اس کیلیے اوپن پالیسی اختیار کی جائے۔ مہرگیس کمپنی کے ڈائریکٹر کاشف محمود نے بتایا کہ ان کی کمپنی نے لائسنس کے اجرا کیلیے 'اوگرا' کو درخواست دے دی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی کمپنی کم پریشر والی گیس حاصل کرکے ملکی ضرورت کیلیے فراہم کررہی ہے۔ اسی قسم کا موقف 'ای گیس'' کمپنی کے انصار رضا نے بھی اختیار کیا اور یہ دعویٰ بھی کیا کہ اوگرا نے ان کی کمپنی کو لائسنس جاری کردیا ہے۔
تاہم اوگرا کے حکام نے اس بات کی سختی سے تردید کی ہے کہ انھوں نے مہر گیس اور ای گیس سمیت کسی بھی پرائیویٹ کمپنی کو کوئی لائسنس جاری کیا ہے۔ مہر گیس اور ای گیس کمپنی کی طرف سے گیس کی ترسیل اور فروخت غیرقانونی ہے جس کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔ دوسری طرف ایکسپلوسیو ڈیپارٹمنٹ بھی گیس کی غیرمحفوظ ترسیل کے خلاف ایکشن میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتا۔ ڈپارٹمنٹ کے سربراہ نے رابطے پر کہا کہ '' ان کمپنیوں کو اپنے ٹینکرز (بائوزر) معائنے کیلیے ہمارے پاس لانے چاہیئں''۔
ایسے وقت میں جب ملک توانائی کے شدید ترین بحران کا شکار ہے تیل وگیس کی تلاش کرنے والے سرکاری ادارے آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی( اوجی ڈی سی )کی جانب سے2نجی کمپنیوں کو اپنے فیلڈز سے گیس کی غیرقانونی فروخت اور اس کی شہروں تک غیرمحفوظ نقل وحمل کی اجازت دینے کا انکشاف ہوا ہے۔
ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کو قابل اعتماد ذرائع نے بتایا کہ او جی ڈی سی کے اسلام آباد سے شمال مغرب میں 35 کلومیٹردور راجیاں فیلڈ اور حیدرآباد سندھ کے قریب 'کمرپساکی' فیلڈ سے غیرقانونی طورپر گیس کی نقل وحمل اور فروخت میں ملوث دونوں نجی کمپنیوں، مہر گیس کمپنی اور ای گیس کمپنی کا تعلق اسلام آباد سے ہے۔ دونوں کمپنیوں کے مالکان کا یا توبراہ راست تعلق حکمراں جماعت سے ہے یا ان کو بااثر سیاسی شخصیات کی سرپرستی حاصل ہے ۔
اسی سیاسی اثرورسوخ کی بنا پر یہ دونوں کمپنیاں اوجی ڈی سی کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوگئیں جن پر پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن بھی سراپا احتجاج ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ دونوں کمپنیاں کسی لائسنس یا اتھارٹی کی منظوری کے بغیر دھڑلے سے نہ صرف اوجی ڈی سی فیلڈز سے گیس کمپریس کرکے غیرمعیاری کھلی گاڑیوں میں لگے سلنڈروں کے ذریعے ملک بھر کے سی این جی ا سٹیشنوں پرفروخت کرکے بھاری منافع کمارہی ہیں بلکہ وہ ملک کی کئی صنعتوں کو لوڈشیڈنگ کے دوران گیس فراہم کرکے خوب مال کما رہی ہیں۔
اوجی ڈی سی کے فیلڈزسے گیس کی غیرقانونی فروخت اوراس کی شہروں میں ان کمپنیوں کے اپنے سی این جی ا سٹیشنوں تک نقل و حمل کا پہلا مبینہ معاہدہ ای گیس کمپنی نے کیا جس کے ڈائریکٹروں میں سے ایک ڈائریکٹر وزیراعظم گیلانی کابینہ کی رکن تھیں۔اس کمپنی کے غیرمعمولی منافع خوری کی بھنک پڑنے پر اسلام آباد میں موجود مہر گیس کمپنی بھی میدان میں آگئی۔ اس کے مالکان کا تعلق پیپلزپارٹی کی ایک اعلیٰ شخصیت سے بتایا جاتا ہے۔
دونوں کمپنیوں نے اپنے سیاسی تعلق کی قیمت او جی ڈی سی کے فیلڈز سے گیس کی غیرقانونی سیل اورشہروں تک نقل وحمل کے ذریعے مال بناکر وصول کی۔اوجی ڈی سی کے فیلڈز سے گیس کی غیرقانونی گیس کی فروخت اور شہروں کو منتقلی کا سلسلہ گزشتہ 2سال سے کھلے عام جاری ہے لیکن اوگرا اور وزارت صنعت کے ذیلی ادارے ایکسپلوسیو ڈپارٹمنٹ نے کوئی ایکشن لیا نہ ہی ان کمپنیوں کو کبھی چیک کیا کہ وہ کس قانون کے تحت اوجی ڈی سی فیلڈز سے گیس کھلی گاڑیوں میں لگے سلنڈروں میں لاکر شہروں میں من پسند سی این جی اسٹیشنوں پرفروخت کررہی ہیں۔
سی این جی ایسوسی ایشن کے چیئرمین غیاث پراچہ نے ایکسپریس کو بتایا کہ 2کمپنیوں کو اوجی ڈی سی کے فیلڈز سے گیس کی فروخت اورپھر شہروں تک اس کی منتقلی کے خلاف سی این جی ایسوسی ایشن کو سخت اعتراض ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ یہ سلسلہ فوری بند کیا جائے اوراگر اوجی ڈی سی فیلڈز سے گیس فروخت کی جاسکتی ہے تو اس کیلیے اوپن پالیسی اختیار کی جائے۔ مہرگیس کمپنی کے ڈائریکٹر کاشف محمود نے بتایا کہ ان کی کمپنی نے لائسنس کے اجرا کیلیے 'اوگرا' کو درخواست دے دی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی کمپنی کم پریشر والی گیس حاصل کرکے ملکی ضرورت کیلیے فراہم کررہی ہے۔ اسی قسم کا موقف 'ای گیس'' کمپنی کے انصار رضا نے بھی اختیار کیا اور یہ دعویٰ بھی کیا کہ اوگرا نے ان کی کمپنی کو لائسنس جاری کردیا ہے۔
تاہم اوگرا کے حکام نے اس بات کی سختی سے تردید کی ہے کہ انھوں نے مہر گیس اور ای گیس سمیت کسی بھی پرائیویٹ کمپنی کو کوئی لائسنس جاری کیا ہے۔ مہر گیس اور ای گیس کمپنی کی طرف سے گیس کی ترسیل اور فروخت غیرقانونی ہے جس کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔ دوسری طرف ایکسپلوسیو ڈیپارٹمنٹ بھی گیس کی غیرمحفوظ ترسیل کے خلاف ایکشن میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتا۔ ڈپارٹمنٹ کے سربراہ نے رابطے پر کہا کہ '' ان کمپنیوں کو اپنے ٹینکرز (بائوزر) معائنے کیلیے ہمارے پاس لانے چاہیئں''۔