عشق زر

ہم حضرت عرفاروقؓ کے دور حکومت پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایک ویژن نظر آتا ہے

PESHAWAR:
دعوت خصوصی تھی لہٰذا خصوصی طیارہ بھجوایا اور اپنے خصوصی مہمان کو نہایت تپاک سے بلوایا گیا۔ یہ تھی محبت، خلوص اور اخلاق۔ یہ بات انتہائی امیر اور امریکا کے صدر ٹرمپ کی نہیں ہے بلکہ ہمارے اپنے پیارے پاکستان کی ہے، جس کی زمین انتہائی زرخیز ہے، سونا اُگلتی ہے، جس کی سرحدیں انتہائی اہم نوعیت کی ہیں، جو دنیا کے انتہائی اہم ممالک سے ملتی ہیں، یہاں کے لوگ نہایت ذہین اور محنتی ہیں اور ان میں اتنی صلاحیتیں ہیں جو انھیں دنیا کے انتہائی امیر ممالک کے مقابل کھڑا کرنے کے لیے کسی قسم کی سفارش کی ضرورت نہیں کہ ہنر خود بولتا ہے۔

ہم حضرت عرفاروقؓ کے دور حکومت پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایک ویژن نظر آتا ہے، وہ تھا ایمانداری اور عدل کے ساتھ اسلامی حکومت کا دائرہ بڑھانا، لوگوں میں سرکار کی جانب سے اعتماد بڑھانا اور یہ سمجھنا کہ کوئی ہمارا حق غصب نہیں کرسکتا، کیونکہ ہماری حکومت ظالموں اور غاصبوں کا گریبان پکڑ کر عدالت کے کٹہرے میں لاکر کھڑا کردیتی ہے، مجبور اور بے کس کی فریاد سنی جاتی ہے اور عمل بھی کیا جاتا ہے۔

ایک ایسی مثالی حکومت اس روئے سرزمین پر قائم ہوچکی ہے جہاں خلیفہ وقت بھی اگر اس پر کوئی الزام عاید کیا جاتا ہے تو کٹہرے میں آکر کھڑا ہونے کے لیے تیار ہے۔ گویا حکومت کرنا آسان کام نہیں ہے، انتہائی محنت طلب اور توجہ طلب ہے، جس میں عدل کا توازن ذرا بھی بگڑنا اس بات کی علامت ہے کہ اب فیصلہ جس ذات کی جانب سے ہوگا نہایت سخت ہوگا، اس سختی، اس قہر سے بچنے کی دعائیں کی جاتی تھیں، حالانکہ انسان تو خطا کا پتلا ہے، بھول چوک بھی ہوسکتی ہے لیکن حکومت کے معاملے میں یہ بھول چوک نہایت خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ عدل فاروقی میں اس بھول چوک کی گنجائش نہ تھی۔

ہم ذرا اتنے اعلیٰ درجے سے خاصے نیچے اتر کر دیکھیں تو اس دور میں جو کچھ ہمارے ارد گرد ہوچکا ہے اور جو ہورہا ہے اس کے لیے ترازو کا پلڑا کہیں سرکتے سرکتے زمین میں تو نہیں دھنس گیا۔


سندھ کے ایک سابق صوبائی وزیر ان دنوں علیل ہیں، ان کی اس بیماری کی وجہ کچھ بھی ہو لیکن جس بیماری کو انھوں نے اپنے دور حکومت میں گلے سے لگایا، اسے عشقِ زر کہہ سکتے ہیں۔ اس عشق نے ہمارے کتنے ہی وزرا کو نگل لیا، ان کی ساری صلاحیتوں اور چاہتوں کو جو انھوں نے وزارت کا منصب سنبھالتے سوچا تھا، لیکن یہ ظالم عشق جب سر پر چڑھ جائے تو چاہے وزیر روم کا ہو یا پاکستان کا، چمٹ کر رہ جاتا ہے۔

سنا ہے کہ بیرون پاکستان وزرا اس عشق کے عیاں ہوجانے پر خودکشی کرلیتے ہیں، لیکن ہمارے یہاں ذرا پکے قسم کے عاشق ہیں، پیار ویار سب کرلیتے ہیں، پر اپنی جان تک بات نہیں آنے دیتے، لہٰذا اس بیماری تک ہی ٹھیک ہے۔ بھئی ویسے بھی خودکشی ہمارے مذہب میں حرام ہے، حالانکہ الزام تو دل ناتواں پر 5.875 ارب روپے کی کرپشن کا ہے۔ جب ہم بچے تھے تو ان پیسے والے ارب کو سفید جبا پہننے والے عرب سمجھا کرتے تھے، وہ تو بعد میں تعلیمی شعور کے ساتھ اجاگر ہوا کہ الف سے ارب کا مطلب ہوتا ہے بہت سے نوٹ، جنھیں گننا کسی ایک بندے کے بس کی بات نہیں ہوتی، اور ع سے عرب سے مراد اپنے پیارے سعودی عرب کے عرب، وہاں کے رہائشی۔ ویسے خدا نے تیل کی دولت سے اتنا مالا مال کردیا ہے کہ ارب اور عرب دونوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں، لیکن ہمارے وزیر صاحب کو اس فرق کا بخومی اندازہ ہے کیونکہ ان کے پاس الف سے ارب تھے یا ہیں یا انھوںنے ایک ساتھ نہیں تو بار بار تو دیکھے ہی ہوںگے۔

2013-14 کے درمیان ہمارے ایک وزیر موصوف نے وزیراعلیٰ سندھ سے چار کروڑ کا فنڈ حاصل کیا، جس میں دو کروڑ روپے اسکول بلڈنگز اور دو کروڑ روپے بنیادی صحت مراکز کی مرمت کے لیے حاصل کیے۔ یہ ایک انجینئر صاحب کے ذریعے طے پایا اور اسکول کی بلڈنگز اور صحت کے مراکز بنے یا ان کی مرمت ہوئی یا نہیں، البتہ ڈھائی کروڑ روپوں کی دو وی ایٹ لینڈ کروزر خریدی گئیں اور دوسری گاڑیاں بھی، اب کیا تذکرہ کریں۔ بنگلوں کی پر تعیش تعمیرات، انسان کا دل ہی تو ہے اچھی مہنگی گاڑیوں میں گھومنا، اچھے عالیشان گھروں کا مالک بننا، خواہشات تو مگرمچھوں کی مانند ہوتی ہیں، ہر دم منہ کھولنے کو تیار کھڑے رہتی ہیں، اب اگر دو تین ایسے مگرمچھ دل میں پل گئے تو کیا ہوا، بھئی انسان ہے۔

23 جون 1981 کے حکم کے تحت ڈپٹی کمشنر نے عوامی استعمال کے لیے ڈسٹرکٹ اسپورٹس کمیٹی جیکب آباد کو چودہ پندرہ ایکڑ زمین الاٹ کی تھی، لیکن ہائے رے عشق زر، اس زمین کو ڈپٹی کمشنر کے غلط حکم نامہ کے مطابق 17 مارچ 1992 کے ذریعے اس عوامی مقاصد کے لیے زمین کو رہائشی مقاصد کے لیے ننانوے سال کی لیز پر ظاہر کرادیا، اب ننانوے برس کس نے دیکھے ہیں، آپ ان پر دکانیں بنائیے، گھر بنائیں کہ دفاتر۔ ریلوے کی زمینوں پر سی این جی پمپس لگائیے کہ اپارٹمنٹس کھڑے کردیں۔ عشق تو عشق ہے نا، سر چڑھ کر بولتا ہے۔

فہرست طویل ہے کہ اس عشق زر کے بیمار بہت سے ہیں۔ اختیارات انسان کے چہرے پر مسکراہٹیں بکھیردیتا ہے، اب سب کچھ میرا ہے، میرا راج ہے، میں سب کچھ حاصل کر سکتا ہوں، میں کسی کو بھی دم مارنے کی اجازت نہیں دیتا، اگر کسی نے آواز اٹھائی تو میں پیروں تلے روند دوںگا۔ اس روندنے کے عمل میں ہم سب شامل ہیں۔ سب اپنے اپنے اختیارات کے ناجائز کھاتوں کو تازہ کرتے رہتے ہیں۔ چاہے وہ ایک اسکول کے معصوم بچے اور استانی کا کوئی عام سا ایشو ہو، جس پر ناراض ہوکر استانی بچے کی کاپی پر ناپ تول کر نمبر دیتی ہو یا کسی بڑے وزیر، سرکاری افسر یا پولیس افسر ہو، سب اپنے اپنے عشق کے مریض ہیں۔ امت پر آزمائش ہے، اپنا اپنا علاج خود کروانا پڑے گا۔ ابھی بھی وقت ہے، سوچ لیں، بڑے بڑے طیارے، لینڈ کروزر اور ارب، الف سے بھی اور ع سے بھی کوئی ساتھ نہیں دے گا۔
Load Next Story