تمہارے اعمال تمہارے حاکم
ہر ادارے کی ایک استعدادی افرادی قوت کا فریم ورک ہے اور اس کے مطابق ملازمتیں ہیں
DI KHAN:
خبریں ذریعہ ہیں معلومات کا، حالات حاضرہ سے واقفیت کا، اور معاشرے میں ہونے والے مدوجزر سیاسی سماجی سے باخبر کرنے کا۔ اب تو تجزیوں کے نام کے پوسٹ مارٹم کا سیشن شام سے رات گئے تک جاری رہتا ہے اور اس میں ڈاکٹر سے لے کر ''اتائی ڈاکٹر'' تک یعنی وہ لوگ جو پہلے کلین شیو ٹی وی پر تشریف لائے، پھر چند علما کو ساتھ بٹھا کر گفتگو کا سلسلہ کبھی اس رخ کی حمایت، کبھی اس رخ کی، پھر رقت بھری دعائیں، لوگوں کے ذہنوں پر طلسم سا طاری کردینا، پھر کسی اور طرف، پھر وہاں سے الگ اور پھر کہیں اور بول چال، یہ ہیں صحافت کے اتائی ڈاکٹر۔ خیر تو بات دراصل خبر کی تھی مگر نیرنگی دوراں نہ جانے قلم کو کہاں کہاں لے جاتی ہے، عمر کوتاہ جہاں وسیع۔ تو خبر، اخبار، صوتی اخبار، عکسی صوتی اخبار، یہ ترجمے ہم نے ریڈیو ٹیلی ویژن کے کیے ہیں بغیر کسی کی اجازت کے۔ مسلمان پاکستان میں ساری اقلیتوں کے حصے کی شراب پی جاتے ہیں، کسی نے پوچھا؟ پارلیمنٹ لاجز میں کیا کیا ہوتا رہا، کسی نے پوچھا؟ نہیں! تو میرا تو نہایت معصومانہ ادبی جرم ہے۔ اگر جرم ہے اور ہنر ہے، تو داد کا انتظار ہے۔ پاکستان کے تمام ادارے بلا تفریق شاید سوائے ایک ادارے کے جس کا نام ہر کام میں آجاتا ہے، اچھے نام میں سیاسی ادارے بن چکے ہیں۔
ایڈہاک ازم یعنی ''چور رستہ'' پاکستان میں اب ایک عام معاملہ ہے۔ ''ادارہ تقدس گاؤ زبان'' یعنی ہماری پارلیمنٹ اور اس میں موجود ''اطبا'' یعنی عوامی نمائندے اور ان کی کہکشائیں بھی اس پر توجہ نہیں دے رہیں، کیونکہ اس میں ہر ایک کا ستارہ یا ستارے شامل ہیں۔
کانٹریکٹ ملازمین دھوکا دھڑی کا ایک اور ذریعہ۔ ہر ادارے کی ایک استعدادی افرادی قوت کا فریم ورک ہے اور اس کے مطابق ملازمتیں ہیں، مگر اس بنیادی فریم کو توڑ کر المونیم کے جوڑ لگا دیے گئے ہیں، یعنی ایڈہاک اور کانٹریکٹ دونوں سے سیاسی طور پر فائدہ لیا جاتا ہے اور اس کے بعد ادارے اور ان افراد کے درمیان ایک مسلسل تو تکار چلتی رہتی ہے اور کام یعنی آؤٹ پٹ مکمل آؤٹ۔ کورٹ کچہری اس کے علاوہ ہے۔
یہاں تک کہ یہ سیاست اور اس کے اثرات ذوالفقار علی بھٹو کے عہد سے اب تک مسلسل پروان چڑھ رہی ہے، زیادہ افراد بھرتی کردو، ایک سیٹ پر چار آدمی بھرتی کردو۔ مقصد تو بھرتی ہے، کام سے کیا تعلق، پھر شہرت یہ ہوگی کہ فلاں پارٹی کے دور میں ملازمتیں ملتی ہیں۔ اب یہ ہر پارٹی نے سوچ لیا ہے اور کرلیا ہے، کہ ایسا ہی چلے گا اور چل رہا ہے۔
کس محکمے کا نام لیں، اب تو ایک حمام ہے اور سارے ننگے۔ ہر محکمہ اپنے پاپ کے ساتھ اس حکام میں صاف نظر آتا ہے اور اب تو عوام کو بھی نظر آتا ہے مگر وہ عادت سے مجبور ہیں، ایک تو ملک سے باہر جانے کے لیے رقم دگنا کرنے کے لیے اور نوکری خریدنے کے لیے کہا گیا، جشن کرکے یہ عوام اپنا نشہ پورا کرتی ہے جب ہی تو ہر ادارے کو عوامی ادارہ اور ہر لیڈر کو عوامی لیڈر کہا جاتا ہے کیونکہ عوام ایک ایسا تڑکا ہے جو ہر عوامی کھانے یعنی سیاست میں لگایا جاتا ہے۔
نام نہیں لکھتے بری بات ہے۔ قدیمی پارٹی، عوام کی ہمدرد ہے اور اس کے لیڈر عوامی لیڈر، مرکزی پارٹی عوام کی پارٹی ہے اور اس کے لیڈر ہمیشہ عوام کی فلاح و بہبود کے کام پر ایمان رکھتے ہیں (حالانکہ شاید وہ سرے سے ایمان ہی نہ رکھتے ہوں) اس زبان کی پارٹی متوسط طبقے کی پارٹی ہے(ملا کیا کسی کو کچھ بھی نہیں، پارٹی لیڈران ہی سب کچھ لے گئے) نچلے طبقے کی پارٹی، غریبوں کی پارٹی ہے (یہاں کچھ لوگ ڈیفنس جانے کی تیاری کر رہے ہیں، غریبوں کے ووٹوں سے) فشر، ہاری، مزدور، کسان، طالب علم، نوجوان، خواتین کس کو کیا ملا؟ کچھ نہیں۔ جن کو ملا ہے ان کی تاریخ جغرافیہ بھی ان لیڈروں سے ہی ملتا ہے۔ باپ کے بعد بیٹا یا بیٹی۔ یہ ہے پاکستان کی سیاست یا Political Trade۔
اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر پوچھا جائے بیٹا یا بیٹی کیا کرتے ہیں تو جواب ہو ''سیاست کرتے ہیں''۔ مگر واضح رہے کہ یہ جواب صرف طبقہ اشرافیہ میں قابل قبول ہے، عوام میں اس جواب کا جواب ''در فٹے منہ'' برائیوں کا ایک سیلاب ہے۔ ہر طرف گٹر سے لے کر وہاں تک جہاں کا نام لے کر ''پر'' جل جاتے ہیں۔ اس ملک میں سے عوام کو نکال لیا جائے تو صورتحال بہتر ہوسکتی ہے جو ناممکن ہے۔ یہ سیاستدانوں کی کریم ہے۔
کاش ہم فلپائن میں ہوتے۔ جرم کے خلاف تحریک چلانے والے صدارتی امیدوار، روڈریگو ڈنگونگ دوترتے نے فلپائن میں ریکارڈ ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کرلی۔ ووٹنگ بھی ریکارڈ ہوئی جو آج تک اتنی تعداد میں نہیں ہوئی، اکیاسی فیصد افراد نے ووٹ ڈالے۔ کامیاب صدر کو اپنے قریبی حریف سے دگنا ووٹ ملے۔ فلپائن کے جنوبی شہر ڈاوؤ کے میئر کی حیثیت سے جرم ختم کرنے والے انسان کی حیثیت سے ان کا ذکر الیکشن کی مہم کے دوران سنا جاتا رہا۔ جب کہ ان کے مخالفین ان کو ایک پھانسی دینے والے کے اعتبار سے بیان کرتے رہے جو فلپائن میں دہشت کا ماحول پیدا کرے گا۔
یوں کیا ہم نے کہ ہمارے عوام کاش ایک بار ایسا کرکے بھی دیکھ لیں۔ بے نظیر ہمدردی ووٹ کے ذریعے سابق صدر نے صدر بن کر وہ تمام مال جائز کرلیا جو ناجائز ہے اور تھا۔ موجودہ حکومت نے افتخار چوہدری ووٹ کے ذریعے اقتدار حاصل کرکے جو اندھیرے یا روشنیاں پھیلائی ہیں، وہ سامنے ہیں۔ اپنے اپنے حساب سے نام دے لیں اندھیرا یا روشنی۔
اس ملک میں بھی جرم، اس کے احساس اور اس کی حمایت کے خلاف ووٹ کے ذریعے مہم کی ضرورت ہے جو عوام کرسکتے ہیں۔ میلوں، ٹھیلوں، کھیل تماشوں کا وقت گزر چکا۔ اے ٹی ایم مشینوں سے کافی سرمایہ نکل چکا، اب تماشا سب کا دیکھو مگر فیصلہ اپنا کرو۔
لگے ہاتھوں ایک ہلکی سی خبر خاصی پرانی بھی دیکھ لیجیے۔ سابق آب پاشی افسر کا اہم شخصیت کو ڈیڑھ ارب کمیشن دینے کا اعتراف۔ کمیشن روہڑی کینال کی لائننگ کے پہلے فیز میں پی سی ون ریوائز کرانے کو دیا۔ یہ بیان سعید جاگرانی سابق ایس ای آب پاشی نے نیب کی حراست کے دوران دیا۔ اب بقیہ تفصیل کا کیا کرنا، بات تو سمجھ میں آگئی، مگر کیا ہوا، کوئی فیصلہ ہوا، کوئی سزا ہوئی کسی بڑے کو، جس نے کمیشن لیا، پکڑا گیا؟ نہیں۔ یہ عوامی تماشے کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ ایک ایسی فلم ہے جس کے پہلے دن پر ہاؤس فل ہوتا ہے۔ اینکرز گلے پھاڑ پھاڑ کر چیختے ہیں اخبار فروشوں کی طرح۔ دوسرے دن دوسرا کھیل۔ یہ ایک مثال تھی معمولی رقم کی، قائم علی شاہ صاحب کا دور تھا یہ اور اس وقت دس پرسنٹ کی حکومت تھی۔
اب معاملہ دس پرسنٹ تک نہیں سینٹ پرسنٹ تک ہے، اب تو سیاسی مہم کے اخراجات بھی یہاں سے ہی ادا ہوں گے اور ہو رہے ہوں گے۔ طیارہ، ہیلی کاپٹر، لمبی گاڑیوں کی قطاریں، لمبے پکوان۔ یہ ہے پاکستان کی سیاست، جس میں تمام ادارے ڈوبے ہوئے ہیں۔ عوام کے ٹیکس سے وہ سیاستدانوں کی پرورش اور پرداخت کر رہے ہیں، عوام صرف انتظار کر رہے ہیں جو انھوں نے ہمیشہ کیا ہے۔ اب بھی کرتے رہیں گے، کیونکہ عوام کو بھی تماشے، بیٹھک، ناچ گانے، دھوم دھڑکے چاہئیں۔ یہ لوگ نہ مجبور ہیں نہ ان کو جمہوریت کی ضرورت ہے۔ تمہارے اعمال تمہارے حاکم۔
خبریں ذریعہ ہیں معلومات کا، حالات حاضرہ سے واقفیت کا، اور معاشرے میں ہونے والے مدوجزر سیاسی سماجی سے باخبر کرنے کا۔ اب تو تجزیوں کے نام کے پوسٹ مارٹم کا سیشن شام سے رات گئے تک جاری رہتا ہے اور اس میں ڈاکٹر سے لے کر ''اتائی ڈاکٹر'' تک یعنی وہ لوگ جو پہلے کلین شیو ٹی وی پر تشریف لائے، پھر چند علما کو ساتھ بٹھا کر گفتگو کا سلسلہ کبھی اس رخ کی حمایت، کبھی اس رخ کی، پھر رقت بھری دعائیں، لوگوں کے ذہنوں پر طلسم سا طاری کردینا، پھر کسی اور طرف، پھر وہاں سے الگ اور پھر کہیں اور بول چال، یہ ہیں صحافت کے اتائی ڈاکٹر۔ خیر تو بات دراصل خبر کی تھی مگر نیرنگی دوراں نہ جانے قلم کو کہاں کہاں لے جاتی ہے، عمر کوتاہ جہاں وسیع۔ تو خبر، اخبار، صوتی اخبار، عکسی صوتی اخبار، یہ ترجمے ہم نے ریڈیو ٹیلی ویژن کے کیے ہیں بغیر کسی کی اجازت کے۔ مسلمان پاکستان میں ساری اقلیتوں کے حصے کی شراب پی جاتے ہیں، کسی نے پوچھا؟ پارلیمنٹ لاجز میں کیا کیا ہوتا رہا، کسی نے پوچھا؟ نہیں! تو میرا تو نہایت معصومانہ ادبی جرم ہے۔ اگر جرم ہے اور ہنر ہے، تو داد کا انتظار ہے۔ پاکستان کے تمام ادارے بلا تفریق شاید سوائے ایک ادارے کے جس کا نام ہر کام میں آجاتا ہے، اچھے نام میں سیاسی ادارے بن چکے ہیں۔
ایڈہاک ازم یعنی ''چور رستہ'' پاکستان میں اب ایک عام معاملہ ہے۔ ''ادارہ تقدس گاؤ زبان'' یعنی ہماری پارلیمنٹ اور اس میں موجود ''اطبا'' یعنی عوامی نمائندے اور ان کی کہکشائیں بھی اس پر توجہ نہیں دے رہیں، کیونکہ اس میں ہر ایک کا ستارہ یا ستارے شامل ہیں۔
کانٹریکٹ ملازمین دھوکا دھڑی کا ایک اور ذریعہ۔ ہر ادارے کی ایک استعدادی افرادی قوت کا فریم ورک ہے اور اس کے مطابق ملازمتیں ہیں، مگر اس بنیادی فریم کو توڑ کر المونیم کے جوڑ لگا دیے گئے ہیں، یعنی ایڈہاک اور کانٹریکٹ دونوں سے سیاسی طور پر فائدہ لیا جاتا ہے اور اس کے بعد ادارے اور ان افراد کے درمیان ایک مسلسل تو تکار چلتی رہتی ہے اور کام یعنی آؤٹ پٹ مکمل آؤٹ۔ کورٹ کچہری اس کے علاوہ ہے۔
یہاں تک کہ یہ سیاست اور اس کے اثرات ذوالفقار علی بھٹو کے عہد سے اب تک مسلسل پروان چڑھ رہی ہے، زیادہ افراد بھرتی کردو، ایک سیٹ پر چار آدمی بھرتی کردو۔ مقصد تو بھرتی ہے، کام سے کیا تعلق، پھر شہرت یہ ہوگی کہ فلاں پارٹی کے دور میں ملازمتیں ملتی ہیں۔ اب یہ ہر پارٹی نے سوچ لیا ہے اور کرلیا ہے، کہ ایسا ہی چلے گا اور چل رہا ہے۔
کس محکمے کا نام لیں، اب تو ایک حمام ہے اور سارے ننگے۔ ہر محکمہ اپنے پاپ کے ساتھ اس حکام میں صاف نظر آتا ہے اور اب تو عوام کو بھی نظر آتا ہے مگر وہ عادت سے مجبور ہیں، ایک تو ملک سے باہر جانے کے لیے رقم دگنا کرنے کے لیے اور نوکری خریدنے کے لیے کہا گیا، جشن کرکے یہ عوام اپنا نشہ پورا کرتی ہے جب ہی تو ہر ادارے کو عوامی ادارہ اور ہر لیڈر کو عوامی لیڈر کہا جاتا ہے کیونکہ عوام ایک ایسا تڑکا ہے جو ہر عوامی کھانے یعنی سیاست میں لگایا جاتا ہے۔
نام نہیں لکھتے بری بات ہے۔ قدیمی پارٹی، عوام کی ہمدرد ہے اور اس کے لیڈر عوامی لیڈر، مرکزی پارٹی عوام کی پارٹی ہے اور اس کے لیڈر ہمیشہ عوام کی فلاح و بہبود کے کام پر ایمان رکھتے ہیں (حالانکہ شاید وہ سرے سے ایمان ہی نہ رکھتے ہوں) اس زبان کی پارٹی متوسط طبقے کی پارٹی ہے(ملا کیا کسی کو کچھ بھی نہیں، پارٹی لیڈران ہی سب کچھ لے گئے) نچلے طبقے کی پارٹی، غریبوں کی پارٹی ہے (یہاں کچھ لوگ ڈیفنس جانے کی تیاری کر رہے ہیں، غریبوں کے ووٹوں سے) فشر، ہاری، مزدور، کسان، طالب علم، نوجوان، خواتین کس کو کیا ملا؟ کچھ نہیں۔ جن کو ملا ہے ان کی تاریخ جغرافیہ بھی ان لیڈروں سے ہی ملتا ہے۔ باپ کے بعد بیٹا یا بیٹی۔ یہ ہے پاکستان کی سیاست یا Political Trade۔
اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر پوچھا جائے بیٹا یا بیٹی کیا کرتے ہیں تو جواب ہو ''سیاست کرتے ہیں''۔ مگر واضح رہے کہ یہ جواب صرف طبقہ اشرافیہ میں قابل قبول ہے، عوام میں اس جواب کا جواب ''در فٹے منہ'' برائیوں کا ایک سیلاب ہے۔ ہر طرف گٹر سے لے کر وہاں تک جہاں کا نام لے کر ''پر'' جل جاتے ہیں۔ اس ملک میں سے عوام کو نکال لیا جائے تو صورتحال بہتر ہوسکتی ہے جو ناممکن ہے۔ یہ سیاستدانوں کی کریم ہے۔
کاش ہم فلپائن میں ہوتے۔ جرم کے خلاف تحریک چلانے والے صدارتی امیدوار، روڈریگو ڈنگونگ دوترتے نے فلپائن میں ریکارڈ ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کرلی۔ ووٹنگ بھی ریکارڈ ہوئی جو آج تک اتنی تعداد میں نہیں ہوئی، اکیاسی فیصد افراد نے ووٹ ڈالے۔ کامیاب صدر کو اپنے قریبی حریف سے دگنا ووٹ ملے۔ فلپائن کے جنوبی شہر ڈاوؤ کے میئر کی حیثیت سے جرم ختم کرنے والے انسان کی حیثیت سے ان کا ذکر الیکشن کی مہم کے دوران سنا جاتا رہا۔ جب کہ ان کے مخالفین ان کو ایک پھانسی دینے والے کے اعتبار سے بیان کرتے رہے جو فلپائن میں دہشت کا ماحول پیدا کرے گا۔
یوں کیا ہم نے کہ ہمارے عوام کاش ایک بار ایسا کرکے بھی دیکھ لیں۔ بے نظیر ہمدردی ووٹ کے ذریعے سابق صدر نے صدر بن کر وہ تمام مال جائز کرلیا جو ناجائز ہے اور تھا۔ موجودہ حکومت نے افتخار چوہدری ووٹ کے ذریعے اقتدار حاصل کرکے جو اندھیرے یا روشنیاں پھیلائی ہیں، وہ سامنے ہیں۔ اپنے اپنے حساب سے نام دے لیں اندھیرا یا روشنی۔
اس ملک میں بھی جرم، اس کے احساس اور اس کی حمایت کے خلاف ووٹ کے ذریعے مہم کی ضرورت ہے جو عوام کرسکتے ہیں۔ میلوں، ٹھیلوں، کھیل تماشوں کا وقت گزر چکا۔ اے ٹی ایم مشینوں سے کافی سرمایہ نکل چکا، اب تماشا سب کا دیکھو مگر فیصلہ اپنا کرو۔
لگے ہاتھوں ایک ہلکی سی خبر خاصی پرانی بھی دیکھ لیجیے۔ سابق آب پاشی افسر کا اہم شخصیت کو ڈیڑھ ارب کمیشن دینے کا اعتراف۔ کمیشن روہڑی کینال کی لائننگ کے پہلے فیز میں پی سی ون ریوائز کرانے کو دیا۔ یہ بیان سعید جاگرانی سابق ایس ای آب پاشی نے نیب کی حراست کے دوران دیا۔ اب بقیہ تفصیل کا کیا کرنا، بات تو سمجھ میں آگئی، مگر کیا ہوا، کوئی فیصلہ ہوا، کوئی سزا ہوئی کسی بڑے کو، جس نے کمیشن لیا، پکڑا گیا؟ نہیں۔ یہ عوامی تماشے کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ ایک ایسی فلم ہے جس کے پہلے دن پر ہاؤس فل ہوتا ہے۔ اینکرز گلے پھاڑ پھاڑ کر چیختے ہیں اخبار فروشوں کی طرح۔ دوسرے دن دوسرا کھیل۔ یہ ایک مثال تھی معمولی رقم کی، قائم علی شاہ صاحب کا دور تھا یہ اور اس وقت دس پرسنٹ کی حکومت تھی۔
اب معاملہ دس پرسنٹ تک نہیں سینٹ پرسنٹ تک ہے، اب تو سیاسی مہم کے اخراجات بھی یہاں سے ہی ادا ہوں گے اور ہو رہے ہوں گے۔ طیارہ، ہیلی کاپٹر، لمبی گاڑیوں کی قطاریں، لمبے پکوان۔ یہ ہے پاکستان کی سیاست، جس میں تمام ادارے ڈوبے ہوئے ہیں۔ عوام کے ٹیکس سے وہ سیاستدانوں کی پرورش اور پرداخت کر رہے ہیں، عوام صرف انتظار کر رہے ہیں جو انھوں نے ہمیشہ کیا ہے۔ اب بھی کرتے رہیں گے، کیونکہ عوام کو بھی تماشے، بیٹھک، ناچ گانے، دھوم دھڑکے چاہئیں۔ یہ لوگ نہ مجبور ہیں نہ ان کو جمہوریت کی ضرورت ہے۔ تمہارے اعمال تمہارے حاکم۔