یاد رفتگان
کمپوزیٹرزساتھیوں نے اپنی اکثریت کے بل بوتے پر انھیں دوبار صدرمنتخب کیا۔
ISLAMABAD:
محمد موسیٰ طائر، محمد عرس ملاح اور اللہ بخش کھیڑو تینوں میرے ساتھ ایک ہی اخبار میں کام کرتے تھے۔ آفسٹ پرنٹنگ کا دور شروع ہوگیا تھا، پر ابھی تک کمپیوٹرکسی نے خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا۔اردو اخبارات میں کتابت جب کہ انگریزی اور سندھی اخبارات میں ہینڈکمپوزنگ ہوتی تھی۔ کارکنوں میں بھی وہاں کاتبوں (کیلیگرافرز) تو یہاں کمپوزیٹروں کی اکثریت ہوا کرتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ہماری ورکرز یونین کے صدر اور جنرل سیکریٹری دونوں کمپوزیٹرز تھے۔ موسیٰ طائر لیاری کے باسی اورشاعری سے شغف رکھتے تھے، طائران کا تخلص تھا۔ سادہ لوح اور شریف آدمی تھے۔
کمپوزیٹرزساتھیوں نے اپنی اکثریت کے بل بوتے پر انھیں دوبار صدرمنتخب کیا، زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن انتہائی مخلص اورسچے آدمی تھے۔ جن دو تین ساتھیوں پر بھروسہ کرتے اورضرورت پڑنے پر ان سے مشورہ کرتے تھے ، ان میں ایک میں بھی تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ میں سینئر جوائنٹ سیکریٹری ہونے کے ناتے ان کی کیبینیٹ میں بھی شامل تھا۔عرس ملاح کا گھرحیدرآباد میں تھا، رات کو دفتر میں ہی سوتے تھے،کام کے لحاظ سے کمپوزیٹر اور یونین کے منتخب جنرل سیکریٹری تھے۔
اپنے صدرکی طرح وہ بھی کم پڑھے لکھے تھے مگر دوسرے سب کمپوزیٹروں کی طرح نہ صرف تختی ( الفابیٹ) پر عبورحاصل تھا بلکہ بائیں ہاتھ میں پکڑی ہوئی اسٹک میں دائیں ہاتھ سے دوحصوں (اپر اور لوئر) میں بٹے ہوئے کیس میں بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے خانوں میں سے سیسے میں ڈھلے ہوئے حروف چن چن کر سامنے رکھی ہوئی کاپی کی عبارت کمپوزکرنے میں مہارت رکھتے تھے۔
اللہ بخش کھیڑو سب ایڈیٹر تھے، پہلے صبح کی شفٹ میں ہوا کرتے تھے لیکن پھر نائٹ شفٹ میں ہم سے آملے تھے، چالیس کے پیٹے میں تھے لیکن شادی نہیں کی تھی۔ شیخ سلطان ٹرسٹ کے ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر علی احمد بروہی نے اخبار بند کرنے کی اپنے تئیں جو منصوبہ بندی کی تھی۔اس کے تحت کارکنوں کے واجبات اور پراویڈنٹ فنڈ کے پیسوں کے عوض اخبار ان کے حوالے کیے جانے تک تو وہ پہلے بطور شفٹ انچارج اور بعد میں نیوزایڈیٹر کام کرتے رہے لیکن پھر جب بروہی صاحب کی حسب خواہش کارکن اخبار نہ چلا سکے اور وہ موجودہ مالکان کے ہاتھ بک گیا توکھیڑو نے بھی نوکری چھوڑ دی۔
فارغ ہونے کے بعد انھیں شادی کی سوجھی اور پچاس پچپن سال کی عمر میں دلہا بنے، یہی نہیں نوجوانوں کی طرح جسٹس ( ریٹائرڈ ) ناصراسلم زاہدکی زیر سرپرستی ہمدرد یونیورسٹی لا کالج میں داخلہ لے کر ایل ایل بی کیا، اگر پریکٹس کرتے تو یقینا نام کماتے لیکن موت نے مہلت نہ دی۔ ایک مدت سے رابطے میں بھی نہ تھے،ان کے انتقال کی خبر بھی کئی روز بعد ملی۔
میرے بڑے اچھے دوست تھے ، 1980ء میں جب میں ایڈیٹر بنا تو اللہ بخش کھیڑو بھی میری ٹیم میں شامل تھے۔ دوسرے چینل تھے نہیں اس لیے پی ٹی وی ہی کا خبر نامہ سننا پڑتا تھا۔ ہمارے تیسرے ساتھی اقبال دل نے پانچ منٹ پہلے ہی ٹی وی آن کردیا کہ کہیں بھول گئے تو خبریں نکل جائیں گی۔ اس وقت موسیقی کا کوئی پروگرام جاری تھا اور شہنشاہ غزل مہدی حسن نغمہ سرا تھے۔ کھیڑو اپنی سیٹ سے اٹھے اور جھٹ سے ٹی وی آف کر دیا۔ میں نے گھڑی دیکھی، 9 بجنے میں صرف ایک منٹ باقی تھا، میں نے کہا یہ کیا کیا، جواب ملا مجھے مہدی حسن بالکل اچھے نہیں لگتے، انھیں گانا ہی نہیں آتا۔
ان کی دوسری بات جو میری یاد داشت میں آج بھی تازہ ہے ، 1978ء کے ان دنوں کی ہے جب منہاج برنا کی زیر قیادت آزادی صحافت کی ملک گیر تحریک زوروں پر تھی۔ انھوں نے خود سے اپنے ذمے یہ کام لگا رکھا تھا کہ روز شام کو دفتر جانے سے پہلے پریس کلب کے استقبالیے میں آویزاں بورڈ پر بھوک ہڑتال پر بیٹھنے اورگرفتاری دینے والے ساتھیوں کے نام لکھ دیا کرتے تھے۔ ایک دن انھیں چھیڑنے کے لیے احفاظ بھائی نے مجھے کھیڑو کو یہ بتانے کو کہا کہ اگلے دن جو دوست گرفتاری دیں گے ان میں ان کا نام بھی شامل ہے۔
میرے بتانے پر پہلے تو پریشان ہو گئے، لیکن پھر سنبھل کر بیٹھ گئے اور بورڈ کی طرف اشارہ کرکے بولے پھر یہ کام کون کرے گا۔ میں نے کہا یار یہ بھی کوئی کام ہے، کوئی بھی کرلے گا۔ لاجواب ہوکر فرمایا اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ میں گرفتاری دینے سے ڈرتا ہوں تو یہ اس کی غلط فہمی ہے، میں گرفتاری دوں گا لیکن اپنی شرائط پر۔ میں نے پوچھا وہ شرائط کیا ہیں، جواب ملا پولیس جس طرح ریگل چوک پر گرفتاریاں کرتی اور ٹرکوں میں ڈال کر لے جاتی ہے وہ سرا سر غلط اور توہین آمیز ہے۔ میں اپنی بے عزتی برداشت نہیں کرسکتا۔
بولے آئی جی، ڈی آئی جی بھلے نہ آئیں، ایس پی رینک کا افسر ہی آجائے اور عزت سے سلام کر کے کہے کہ کھیڑو صاحب میں آپکو لینے آیا ہوں تو میں اس کے ساتھ کار میں جانے کو تیار ہوں۔ میں نے احفاظ بھائی کو ان کی شرط بتائی تو سن کر بہت ہنسے اور انھیں بلا کر کہا آپ کی فرمائش پر ایس پی کو آنے کے لیے کہا ہے، جب تک وہ آئے آپ اپنا موجودہ کام جاری رکھیں۔
ہمارے ایک اور دوست رشید ہمیرانی ٹی وی پر سندھی خبریں پڑھا کرتے تھے،کھیڑو صاحب ان کے ساتھ بھی وہی مہدی حسن والا سلوک کیا کرتے اور وجہ یہ بتاتے کہ وہ سندھی خبریں انگریزی میں پڑھتے ہیں۔ بطور ایڈیٹر میرے پہلے ٹینوئر میں جب کچھ لوگوں کو نکالنے کا فیصلہ ہوا تو موسیٰ طائر نے مجھ سے پوچھا برنا صاحب کو تو بتا دیا ہے نا۔ میں نے کہا انھیں بتا تو دیا ہے لیکن وہ اس سے متفق نہیں ہیں البتہ انھوں نے کہا ہے اگر یہ آپ کی یونین کا متفقہ فیصلہ ہے تو ''گو آہیڈ''۔ وہ بظاہر میری بات سن رہے تھے مگر ان کا دھیان کہیں اور تھا، شاید کوئی شعر موزوں کررہے تھے،کچھ اور ہی سمجھے۔
چھانٹی کو لے کر ٹریڈ یونین حلقوں میں ہمارے فیصلے کو ہدف تنقید بنایا جارہا تھا جب کہ اخبارکی بقا کے لیے ایسا کرنا ناگزیر تھا جس پر آگے چل کر این آئی آر سی نے بھی مہر تصدیق ثبت کی تھی۔ تو اس سلسلے میں کراچی پریس کلب میں میٹنگ ہو رہی تھی، یونین کے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے طائر صاحب نے سارا ملبہ برنا صاحب پہ ڈال دیا اور کہا کہ ہم نے جو کچھ بھی کیا، ان کی اجازت اور منظوری سے کیا۔
موسیٰ طائر صاحب کی بات سن کر برنا صا حب سکتے میں آگئے اور بڑی مشکل سے صورتحال پر قابو پایا گیا۔ بعد میں بھی یہ واقعہ یاد کر کے برنا صاحب ان کے لیے کہا کرتے تھے کہ بظاہر سیدھا نظر آتا ہے لیکن بڑا خطرناک آدمی ہے۔ عرس ملاح اور بھی ''وکھرے'' آدمی تھے، یونین بننے کے بعدکام کرنے سے کترانے لگے تھے، باز پرس ہوتی تو کہتے پھر جنرل سیکریٹری ہونے کا کیا فائدہ۔ تاش کے کئی کھیل بہت اچھے کھیلتے تھے، کبھی کاپی لیٹ ہوجاتی اور صبح تک دفتر میں رکنا پڑتا تو ان کے ساتھ بازی جمتی۔ مجھے رمی اور بلیک کوئن کھیلنا انھوں نے ہی سکھایا تھا جو اب پھر بھول گیا ہوں۔
ایسا کہاں سے لائیں کہ تم سا کہیں جسے
محمد موسیٰ طائر، محمد عرس ملاح اور اللہ بخش کھیڑو تینوں میرے ساتھ ایک ہی اخبار میں کام کرتے تھے۔ آفسٹ پرنٹنگ کا دور شروع ہوگیا تھا، پر ابھی تک کمپیوٹرکسی نے خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا۔اردو اخبارات میں کتابت جب کہ انگریزی اور سندھی اخبارات میں ہینڈکمپوزنگ ہوتی تھی۔ کارکنوں میں بھی وہاں کاتبوں (کیلیگرافرز) تو یہاں کمپوزیٹروں کی اکثریت ہوا کرتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ہماری ورکرز یونین کے صدر اور جنرل سیکریٹری دونوں کمپوزیٹرز تھے۔ موسیٰ طائر لیاری کے باسی اورشاعری سے شغف رکھتے تھے، طائران کا تخلص تھا۔ سادہ لوح اور شریف آدمی تھے۔
کمپوزیٹرزساتھیوں نے اپنی اکثریت کے بل بوتے پر انھیں دوبار صدرمنتخب کیا، زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن انتہائی مخلص اورسچے آدمی تھے۔ جن دو تین ساتھیوں پر بھروسہ کرتے اورضرورت پڑنے پر ان سے مشورہ کرتے تھے ، ان میں ایک میں بھی تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ میں سینئر جوائنٹ سیکریٹری ہونے کے ناتے ان کی کیبینیٹ میں بھی شامل تھا۔عرس ملاح کا گھرحیدرآباد میں تھا، رات کو دفتر میں ہی سوتے تھے،کام کے لحاظ سے کمپوزیٹر اور یونین کے منتخب جنرل سیکریٹری تھے۔
اپنے صدرکی طرح وہ بھی کم پڑھے لکھے تھے مگر دوسرے سب کمپوزیٹروں کی طرح نہ صرف تختی ( الفابیٹ) پر عبورحاصل تھا بلکہ بائیں ہاتھ میں پکڑی ہوئی اسٹک میں دائیں ہاتھ سے دوحصوں (اپر اور لوئر) میں بٹے ہوئے کیس میں بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے خانوں میں سے سیسے میں ڈھلے ہوئے حروف چن چن کر سامنے رکھی ہوئی کاپی کی عبارت کمپوزکرنے میں مہارت رکھتے تھے۔
اللہ بخش کھیڑو سب ایڈیٹر تھے، پہلے صبح کی شفٹ میں ہوا کرتے تھے لیکن پھر نائٹ شفٹ میں ہم سے آملے تھے، چالیس کے پیٹے میں تھے لیکن شادی نہیں کی تھی۔ شیخ سلطان ٹرسٹ کے ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر علی احمد بروہی نے اخبار بند کرنے کی اپنے تئیں جو منصوبہ بندی کی تھی۔اس کے تحت کارکنوں کے واجبات اور پراویڈنٹ فنڈ کے پیسوں کے عوض اخبار ان کے حوالے کیے جانے تک تو وہ پہلے بطور شفٹ انچارج اور بعد میں نیوزایڈیٹر کام کرتے رہے لیکن پھر جب بروہی صاحب کی حسب خواہش کارکن اخبار نہ چلا سکے اور وہ موجودہ مالکان کے ہاتھ بک گیا توکھیڑو نے بھی نوکری چھوڑ دی۔
فارغ ہونے کے بعد انھیں شادی کی سوجھی اور پچاس پچپن سال کی عمر میں دلہا بنے، یہی نہیں نوجوانوں کی طرح جسٹس ( ریٹائرڈ ) ناصراسلم زاہدکی زیر سرپرستی ہمدرد یونیورسٹی لا کالج میں داخلہ لے کر ایل ایل بی کیا، اگر پریکٹس کرتے تو یقینا نام کماتے لیکن موت نے مہلت نہ دی۔ ایک مدت سے رابطے میں بھی نہ تھے،ان کے انتقال کی خبر بھی کئی روز بعد ملی۔
میرے بڑے اچھے دوست تھے ، 1980ء میں جب میں ایڈیٹر بنا تو اللہ بخش کھیڑو بھی میری ٹیم میں شامل تھے۔ دوسرے چینل تھے نہیں اس لیے پی ٹی وی ہی کا خبر نامہ سننا پڑتا تھا۔ ہمارے تیسرے ساتھی اقبال دل نے پانچ منٹ پہلے ہی ٹی وی آن کردیا کہ کہیں بھول گئے تو خبریں نکل جائیں گی۔ اس وقت موسیقی کا کوئی پروگرام جاری تھا اور شہنشاہ غزل مہدی حسن نغمہ سرا تھے۔ کھیڑو اپنی سیٹ سے اٹھے اور جھٹ سے ٹی وی آف کر دیا۔ میں نے گھڑی دیکھی، 9 بجنے میں صرف ایک منٹ باقی تھا، میں نے کہا یہ کیا کیا، جواب ملا مجھے مہدی حسن بالکل اچھے نہیں لگتے، انھیں گانا ہی نہیں آتا۔
ان کی دوسری بات جو میری یاد داشت میں آج بھی تازہ ہے ، 1978ء کے ان دنوں کی ہے جب منہاج برنا کی زیر قیادت آزادی صحافت کی ملک گیر تحریک زوروں پر تھی۔ انھوں نے خود سے اپنے ذمے یہ کام لگا رکھا تھا کہ روز شام کو دفتر جانے سے پہلے پریس کلب کے استقبالیے میں آویزاں بورڈ پر بھوک ہڑتال پر بیٹھنے اورگرفتاری دینے والے ساتھیوں کے نام لکھ دیا کرتے تھے۔ ایک دن انھیں چھیڑنے کے لیے احفاظ بھائی نے مجھے کھیڑو کو یہ بتانے کو کہا کہ اگلے دن جو دوست گرفتاری دیں گے ان میں ان کا نام بھی شامل ہے۔
میرے بتانے پر پہلے تو پریشان ہو گئے، لیکن پھر سنبھل کر بیٹھ گئے اور بورڈ کی طرف اشارہ کرکے بولے پھر یہ کام کون کرے گا۔ میں نے کہا یار یہ بھی کوئی کام ہے، کوئی بھی کرلے گا۔ لاجواب ہوکر فرمایا اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ میں گرفتاری دینے سے ڈرتا ہوں تو یہ اس کی غلط فہمی ہے، میں گرفتاری دوں گا لیکن اپنی شرائط پر۔ میں نے پوچھا وہ شرائط کیا ہیں، جواب ملا پولیس جس طرح ریگل چوک پر گرفتاریاں کرتی اور ٹرکوں میں ڈال کر لے جاتی ہے وہ سرا سر غلط اور توہین آمیز ہے۔ میں اپنی بے عزتی برداشت نہیں کرسکتا۔
بولے آئی جی، ڈی آئی جی بھلے نہ آئیں، ایس پی رینک کا افسر ہی آجائے اور عزت سے سلام کر کے کہے کہ کھیڑو صاحب میں آپکو لینے آیا ہوں تو میں اس کے ساتھ کار میں جانے کو تیار ہوں۔ میں نے احفاظ بھائی کو ان کی شرط بتائی تو سن کر بہت ہنسے اور انھیں بلا کر کہا آپ کی فرمائش پر ایس پی کو آنے کے لیے کہا ہے، جب تک وہ آئے آپ اپنا موجودہ کام جاری رکھیں۔
ہمارے ایک اور دوست رشید ہمیرانی ٹی وی پر سندھی خبریں پڑھا کرتے تھے،کھیڑو صاحب ان کے ساتھ بھی وہی مہدی حسن والا سلوک کیا کرتے اور وجہ یہ بتاتے کہ وہ سندھی خبریں انگریزی میں پڑھتے ہیں۔ بطور ایڈیٹر میرے پہلے ٹینوئر میں جب کچھ لوگوں کو نکالنے کا فیصلہ ہوا تو موسیٰ طائر نے مجھ سے پوچھا برنا صاحب کو تو بتا دیا ہے نا۔ میں نے کہا انھیں بتا تو دیا ہے لیکن وہ اس سے متفق نہیں ہیں البتہ انھوں نے کہا ہے اگر یہ آپ کی یونین کا متفقہ فیصلہ ہے تو ''گو آہیڈ''۔ وہ بظاہر میری بات سن رہے تھے مگر ان کا دھیان کہیں اور تھا، شاید کوئی شعر موزوں کررہے تھے،کچھ اور ہی سمجھے۔
چھانٹی کو لے کر ٹریڈ یونین حلقوں میں ہمارے فیصلے کو ہدف تنقید بنایا جارہا تھا جب کہ اخبارکی بقا کے لیے ایسا کرنا ناگزیر تھا جس پر آگے چل کر این آئی آر سی نے بھی مہر تصدیق ثبت کی تھی۔ تو اس سلسلے میں کراچی پریس کلب میں میٹنگ ہو رہی تھی، یونین کے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے طائر صاحب نے سارا ملبہ برنا صاحب پہ ڈال دیا اور کہا کہ ہم نے جو کچھ بھی کیا، ان کی اجازت اور منظوری سے کیا۔
موسیٰ طائر صاحب کی بات سن کر برنا صا حب سکتے میں آگئے اور بڑی مشکل سے صورتحال پر قابو پایا گیا۔ بعد میں بھی یہ واقعہ یاد کر کے برنا صاحب ان کے لیے کہا کرتے تھے کہ بظاہر سیدھا نظر آتا ہے لیکن بڑا خطرناک آدمی ہے۔ عرس ملاح اور بھی ''وکھرے'' آدمی تھے، یونین بننے کے بعدکام کرنے سے کترانے لگے تھے، باز پرس ہوتی تو کہتے پھر جنرل سیکریٹری ہونے کا کیا فائدہ۔ تاش کے کئی کھیل بہت اچھے کھیلتے تھے، کبھی کاپی لیٹ ہوجاتی اور صبح تک دفتر میں رکنا پڑتا تو ان کے ساتھ بازی جمتی۔ مجھے رمی اور بلیک کوئن کھیلنا انھوں نے ہی سکھایا تھا جو اب پھر بھول گیا ہوں۔
ایسا کہاں سے لائیں کہ تم سا کہیں جسے