طیبہ تشدد کیس پولیس کو 10 دن میں تفتیش مکمل کرنے کا حکم
بچوں کو مار دو اور کہو جرم قابل ضمانت ہے، چیف جسٹس پاکستان کے ریمارکس
سپریم کورٹ نے طیبہ تشدد کیس میں ڈی این اے کی تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے پولیس کو 10 روز میں تفتیش مکمل کرکے چالان پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے طیبہ تشدد ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران تفتیشی افسر نے موقف اختیار کیا کہ عدالت کی جانب سے جتنا وقت دیا گیا اس میں تشدد سے متعلق حتمی رپورٹ تیار نہیں ہوسکی۔ اس کے علاوہ انہیں اب تک ڈی این اے رپورٹ بھی موصول نہیں ہوئی۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : سپریم کورٹ کے حکم پر طیبہ پاکستان سویٹ ہومز منتقل
سماعت کے دوران ایڈیشنل سیشن جج راجا خرم علی کی اہلیہ ماہین خرم کی جانب سے وکیل سردار اسلم عدالت میں پیش ہوئے، عدالتی استفسار پر سردار اسلم نے کہا کہ ان کی موکلہ کے خلاف مقدمے میں شامل دفعات قابل ضمانت ہیں اور بچی کے والدین سے راضی نامہ بھی ہوچکا ہے، اسی بنیاد پر ان کی موکلہ کی ضمانت ہوئی اور قانون کے مطابق اگر جرم قابل ضمانت ہو تو ضمانت منسوخ نہیں ہوسکتی۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : تشدد کا نشانہ بننے والی طیبہ کوبازیاب کرالیا گیا
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ یہ ایک اہم اور بڑا ایشو ہونے کے ساتھ مجرمانہ فعل ہے، استغاثہ نے چالان مکمل کرکے عدالت میں پیش کرنا ہے، چالان جمع کرائیں اور ٹرائل کرائیں۔ ہمارے علم میں ہے کہ مقدمے کی کارروائی عجلت میں کی گئی۔ ایک بے بس معصوم بچی کو والدین کی جانب سے کام میں جھونکا گیا، کیا یہ جبری مشقت کے زمرے میں نہیں آتا۔ ہمیں بار اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا تعاون درکار ہے کہ بچوں کے ساتھ تشدد جیسی برائی کو کیسے روکا جائے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : چیف جسٹس آف پاکستان کا طیبہ تشدد کیس کھلی عدالت میں سننے کا فیصلہ
چیف جسٹس پاکستان کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ بچوں کو مار دو اور کہو جرم قابل ضمانت ہے، بچی کے والدین کا تعین کیے بغیر اسے والدین کے حوالے کیا گیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس کیس میں چائلڈ لیبر، چائلڈ ابیوز اور والدین کا کردار بھی ہے۔ عدالت نے طیبہ تشدد کیس کی سماعت 25 جنوری تک ملتوی کردی جب کہ آئندہ سماعت پرڈی این اے سمیت تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے تفتیش مکمل کرنے کے لیے پولیس کو مزید دس دن کی مہلت دے دی ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے طیبہ تشدد ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران تفتیشی افسر نے موقف اختیار کیا کہ عدالت کی جانب سے جتنا وقت دیا گیا اس میں تشدد سے متعلق حتمی رپورٹ تیار نہیں ہوسکی۔ اس کے علاوہ انہیں اب تک ڈی این اے رپورٹ بھی موصول نہیں ہوئی۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : سپریم کورٹ کے حکم پر طیبہ پاکستان سویٹ ہومز منتقل
سماعت کے دوران ایڈیشنل سیشن جج راجا خرم علی کی اہلیہ ماہین خرم کی جانب سے وکیل سردار اسلم عدالت میں پیش ہوئے، عدالتی استفسار پر سردار اسلم نے کہا کہ ان کی موکلہ کے خلاف مقدمے میں شامل دفعات قابل ضمانت ہیں اور بچی کے والدین سے راضی نامہ بھی ہوچکا ہے، اسی بنیاد پر ان کی موکلہ کی ضمانت ہوئی اور قانون کے مطابق اگر جرم قابل ضمانت ہو تو ضمانت منسوخ نہیں ہوسکتی۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : تشدد کا نشانہ بننے والی طیبہ کوبازیاب کرالیا گیا
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ یہ ایک اہم اور بڑا ایشو ہونے کے ساتھ مجرمانہ فعل ہے، استغاثہ نے چالان مکمل کرکے عدالت میں پیش کرنا ہے، چالان جمع کرائیں اور ٹرائل کرائیں۔ ہمارے علم میں ہے کہ مقدمے کی کارروائی عجلت میں کی گئی۔ ایک بے بس معصوم بچی کو والدین کی جانب سے کام میں جھونکا گیا، کیا یہ جبری مشقت کے زمرے میں نہیں آتا۔ ہمیں بار اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا تعاون درکار ہے کہ بچوں کے ساتھ تشدد جیسی برائی کو کیسے روکا جائے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : چیف جسٹس آف پاکستان کا طیبہ تشدد کیس کھلی عدالت میں سننے کا فیصلہ
چیف جسٹس پاکستان کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ بچوں کو مار دو اور کہو جرم قابل ضمانت ہے، بچی کے والدین کا تعین کیے بغیر اسے والدین کے حوالے کیا گیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس کیس میں چائلڈ لیبر، چائلڈ ابیوز اور والدین کا کردار بھی ہے۔ عدالت نے طیبہ تشدد کیس کی سماعت 25 جنوری تک ملتوی کردی جب کہ آئندہ سماعت پرڈی این اے سمیت تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے تفتیش مکمل کرنے کے لیے پولیس کو مزید دس دن کی مہلت دے دی ہے۔