2012ء… کیا کھویا کیا پایا
بجلی و گیس کے بحران نے معیشت کو مفلوج کردیا ہے
2013ء کا سورج سخت سردی اور شدید دھند میں طلوع ہو گیا۔ 2012ء کا سال پاکستان کے لیے خاصا خونیں ثابت ہوا۔ دہشت گردی اور بم دھماکوں کے واقعات' ٹریفک حادثات و سانحات میں ہزاروں بے گناہ افراد اپنے پیاروں سے بچھڑ کر ان کی آنکھوں میں آنسو اور دلوں میں غم و اندوہ کے داغ چھوڑ گئے۔ ملکی ترقی اور معاشی خوشحالی کے باب کے اوراق پلٹے جائیں تو ان پر تیرگی چھائی اور کوئی قابل ذکر کارنامہ دکھائی نہیں دیتا البتہ وفاقی اور صوبائی حکمران ترقی و خوشحالی اور عوامی بہتری کے دعوے کرتے نظر آ رہے اور انھیں ہر جا ہرا ہی ہرا دکھائی دے رہا ہے۔
لیکن زمینی حقائق ان کے دعوؤں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ معاشی کامیابیوں کے دعوئوں کا جائزہ لیا جائے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں امیر زیادہ امیر ہوا ہے جب کہ غریب پہلے سے زیادہ غریب ہوا ہے۔ بے روزگاری اور غربت کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ موجودہ جمہوری سیٹ اپ کے پانچ سالہ دور حکومت میں آئینی نوعیت کی کچھ کامیابیاں بھی ہوئی ہیں، جن میں اٹھارویں ترمیم قابل ذکر ہے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے بھی کچھ معاملات بہتر ہوئے ہیں، لیکن اس حقیقت کو ماننا پڑے گا کہ ملکی معیشت پر قرضوں کا بوجھ پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے۔
2012ء میں سارا سال امن و امان کی صورتحال خوفناک حد تک خراب رہی۔ دہشت گردی اور بم دھماکوں کی وارداتوں نے 2012ء کے ہر ماہ کو خون میں نہلائے رکھا۔ کراچی میں ہونے والی قتل و غارت گری کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور اس کے تھمنے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ سیلاب سے 50 لاکھ سے زائد افراد متاثر اور سیکڑوں ہلاک ہوئے۔ سیلاب تو ہر سال آتے اور تباہی مچا کر چلے جاتے ہیں مگر حکومت نے سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے کوئی جامع منصوبہ نہیں بنایا اور بے بس عوام کو آیندہ آنے والے سیلاب کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خوشحالی کے ڈونگرے برسا رہی ہے۔
بجلی و گیس کے بحران نے معیشت کو مفلوج کردیا ہے ۔کارخانے اور چھوٹی صنعتیں دم توڑ رہی ہیں۔ رخصت ہونے والے سال میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے نے مہنگائی کا گراف ناقابل برداشت حد تک اوپر پہنچا دیا۔ دوسری جانب جرائم بڑھتے ہی چلے گئے اور حکومتی ادارے ہر سال سیکیورٹی کے نام پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود اس جن کو بوتل میں بند کرنے میں ناکام رہے۔ ڈرون حملے بھی ہوتے رہے۔ اب 2013ء کا اجالا چہار سو پھیل چکا ہے' موجودہ حکومت کی آئینی مدت بھی اسی سال ختم ہو جائے گی۔
یہ انتخابات کا سال ہے' سیاسی جماعتیں انتخابی مہم شروع کر چکی ہیں۔ لیکن حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں ترقی اور خوشحالی کا کوئی ایسا روڈ میپ نہیں بنایا جس پر چل کر نئی آنے والی حکومت ملک کی ترقی کی جانب قدم بڑھا سکے۔ کسی شعبے میں کوئی انقلابی تبدیلی نہیں آئی۔ نئے سال میں خوشحالی اور ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ نئی آنے والی حکومت کو ورثے میںخراب امن و امان اور ابتر اقتصادی صورتحال کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
اندرون و بیرون ملک قرضوں کا اتنا بوجھ ہے کہ اسے سہارنے کے لیے انقلابی اور جرات مندانے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ کیا نیا سال عوام کے لیے خوشحالی کا پیغام لے کر آئے گا؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر جانب اٹھایا جا رہا ہے۔ حکمرانوں کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ 2012ء میں انھوں نے کیا کھویا اور کیا پایا اور عوام کو کیا دیا۔ امید ہے کہ نئے سال میں حکمران صرف دعوے نہیں کریں گے بلکہ حقیقی معنوں میں دور رس اور نتیجہ خیز اقدامات بھی کیے جائیں گے جس سے ملکی معیشت درست راستے کی جانب رواں ہو سکے۔لہذا خوش کن توقعات کے ساتھ نئے سال کو خوش آمدید۔
لیکن زمینی حقائق ان کے دعوؤں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ معاشی کامیابیوں کے دعوئوں کا جائزہ لیا جائے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں امیر زیادہ امیر ہوا ہے جب کہ غریب پہلے سے زیادہ غریب ہوا ہے۔ بے روزگاری اور غربت کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ موجودہ جمہوری سیٹ اپ کے پانچ سالہ دور حکومت میں آئینی نوعیت کی کچھ کامیابیاں بھی ہوئی ہیں، جن میں اٹھارویں ترمیم قابل ذکر ہے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے بھی کچھ معاملات بہتر ہوئے ہیں، لیکن اس حقیقت کو ماننا پڑے گا کہ ملکی معیشت پر قرضوں کا بوجھ پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے۔
2012ء میں سارا سال امن و امان کی صورتحال خوفناک حد تک خراب رہی۔ دہشت گردی اور بم دھماکوں کی وارداتوں نے 2012ء کے ہر ماہ کو خون میں نہلائے رکھا۔ کراچی میں ہونے والی قتل و غارت گری کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور اس کے تھمنے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ سیلاب سے 50 لاکھ سے زائد افراد متاثر اور سیکڑوں ہلاک ہوئے۔ سیلاب تو ہر سال آتے اور تباہی مچا کر چلے جاتے ہیں مگر حکومت نے سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے کوئی جامع منصوبہ نہیں بنایا اور بے بس عوام کو آیندہ آنے والے سیلاب کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خوشحالی کے ڈونگرے برسا رہی ہے۔
بجلی و گیس کے بحران نے معیشت کو مفلوج کردیا ہے ۔کارخانے اور چھوٹی صنعتیں دم توڑ رہی ہیں۔ رخصت ہونے والے سال میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے نے مہنگائی کا گراف ناقابل برداشت حد تک اوپر پہنچا دیا۔ دوسری جانب جرائم بڑھتے ہی چلے گئے اور حکومتی ادارے ہر سال سیکیورٹی کے نام پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود اس جن کو بوتل میں بند کرنے میں ناکام رہے۔ ڈرون حملے بھی ہوتے رہے۔ اب 2013ء کا اجالا چہار سو پھیل چکا ہے' موجودہ حکومت کی آئینی مدت بھی اسی سال ختم ہو جائے گی۔
یہ انتخابات کا سال ہے' سیاسی جماعتیں انتخابی مہم شروع کر چکی ہیں۔ لیکن حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں ترقی اور خوشحالی کا کوئی ایسا روڈ میپ نہیں بنایا جس پر چل کر نئی آنے والی حکومت ملک کی ترقی کی جانب قدم بڑھا سکے۔ کسی شعبے میں کوئی انقلابی تبدیلی نہیں آئی۔ نئے سال میں خوشحالی اور ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ نئی آنے والی حکومت کو ورثے میںخراب امن و امان اور ابتر اقتصادی صورتحال کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
اندرون و بیرون ملک قرضوں کا اتنا بوجھ ہے کہ اسے سہارنے کے لیے انقلابی اور جرات مندانے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ کیا نیا سال عوام کے لیے خوشحالی کا پیغام لے کر آئے گا؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر جانب اٹھایا جا رہا ہے۔ حکمرانوں کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ 2012ء میں انھوں نے کیا کھویا اور کیا پایا اور عوام کو کیا دیا۔ امید ہے کہ نئے سال میں حکمران صرف دعوے نہیں کریں گے بلکہ حقیقی معنوں میں دور رس اور نتیجہ خیز اقدامات بھی کیے جائیں گے جس سے ملکی معیشت درست راستے کی جانب رواں ہو سکے۔لہذا خوش کن توقعات کے ساتھ نئے سال کو خوش آمدید۔