سانحہ کوئٹہ جج نے کہا شرم سے ڈوب مرو تم تم پر لعنت ہو آئی جی بلوچستان پھٹ پڑے
8 گھنٹے کھڑا رکھا گیا، خدا کی قسم کمیشن میں گالیاں دی گئیں، احسن محبوب
سانحہ کوئٹہ کیس میں آئی جی بلوچستان احسن محبوب سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور جذباتی ہوکر پھٹ پڑے۔
آئی جی احسن محبوب نے کہا کہ کوئٹہ کمیشن کے سامنے 8 گھنٹے کھڑا رکھ کر سوالات کیے گئے اور ہمارا موقف بھی نہیں سنا گیا، اس دوران وہ جذباتی ہو گئے اور آواز بھرا گئی۔ آئی جی نے کہا کہ بلوچستان کو ہم نے بہت بہتر کیا لیکن کمیشن میں سنا نہیں گیا اور 8 گھنٹے کٹہرے میں کھڑا کرکے کہا گیا کہ تم پر خدا کی لعنت ہو، کیا یہ ٹھیک ہے کہ جج نے مجھے کہا کہ شرم سے ڈوب مرو، کیا صرف ججزکی عزت ہے، ہم ذلیل ہونے کیلیے رہ گئے ہیں؟۔
آئی جی بلوچستان نے کہا کہ خدا کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ کمیشن میں مجھے گالیاں دی گئیں۔ عدالت نے وزارت داخلہ کے وکیل مخدوم علی خان کو ہدایت کی ہے کہ وہ کوئٹہ کمیشن کی رپورٹ پر وزارت داخلہ کے اعتراضات اگلی سماعت 6 فروری سے قبل جمع کرائیں اورانکی نقول تمام فریقین کو فراہم کریں۔
بلوچستان بارایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ وزیر داخلہ نے اس رپورٹ کے بارے میں میڈیا پر بھی بات کی، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ میڈیا رپورٹس کی بات نہ کریں، اس معاملے پر ہم وزیر داخلہ کے وکیل سے پوچھیں گے۔
سپریم کورٹ نے سانحہ کوئٹہ سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں وفاقی وزیرداخلہ کی جانب سے الگ وکیل کرنے پر سوال کیا کہ کیا وزارت داخلہ وفاقی حکومت کاہی ایک ادارہ ہے یا الگ سے اپنا وجود رکھتا ہے؟۔ کیا وزارت داخلہ آزاد ہے کہ اس نے الگ سے وکیل کی خدمات حاصل کی ہیں؟۔
عدالت نے پوچھا اگر وزارت داخلہ وفاقی حکومت کا حصہ ہے تو وزارت داخلہ فیڈریشن کی طرف سے جوڈیشل انکوائری کمیشن کی رپورٹ پرکیوں اعتراضات اٹھا رہی ہے، جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں فل بنچ نے سانحہ کوئٹہ سے متعلق جوڈیشل انکوائری کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد سے متعلق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی سے واضح موقف طلب کیا ہے۔
آئی جی احسن محبوب نے کہا کہ کوئٹہ کمیشن کے سامنے 8 گھنٹے کھڑا رکھ کر سوالات کیے گئے اور ہمارا موقف بھی نہیں سنا گیا، اس دوران وہ جذباتی ہو گئے اور آواز بھرا گئی۔ آئی جی نے کہا کہ بلوچستان کو ہم نے بہت بہتر کیا لیکن کمیشن میں سنا نہیں گیا اور 8 گھنٹے کٹہرے میں کھڑا کرکے کہا گیا کہ تم پر خدا کی لعنت ہو، کیا یہ ٹھیک ہے کہ جج نے مجھے کہا کہ شرم سے ڈوب مرو، کیا صرف ججزکی عزت ہے، ہم ذلیل ہونے کیلیے رہ گئے ہیں؟۔
آئی جی بلوچستان نے کہا کہ خدا کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ کمیشن میں مجھے گالیاں دی گئیں۔ عدالت نے وزارت داخلہ کے وکیل مخدوم علی خان کو ہدایت کی ہے کہ وہ کوئٹہ کمیشن کی رپورٹ پر وزارت داخلہ کے اعتراضات اگلی سماعت 6 فروری سے قبل جمع کرائیں اورانکی نقول تمام فریقین کو فراہم کریں۔
بلوچستان بارایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ وزیر داخلہ نے اس رپورٹ کے بارے میں میڈیا پر بھی بات کی، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ میڈیا رپورٹس کی بات نہ کریں، اس معاملے پر ہم وزیر داخلہ کے وکیل سے پوچھیں گے۔
سپریم کورٹ نے سانحہ کوئٹہ سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں وفاقی وزیرداخلہ کی جانب سے الگ وکیل کرنے پر سوال کیا کہ کیا وزارت داخلہ وفاقی حکومت کاہی ایک ادارہ ہے یا الگ سے اپنا وجود رکھتا ہے؟۔ کیا وزارت داخلہ آزاد ہے کہ اس نے الگ سے وکیل کی خدمات حاصل کی ہیں؟۔
عدالت نے پوچھا اگر وزارت داخلہ وفاقی حکومت کا حصہ ہے تو وزارت داخلہ فیڈریشن کی طرف سے جوڈیشل انکوائری کمیشن کی رپورٹ پرکیوں اعتراضات اٹھا رہی ہے، جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں فل بنچ نے سانحہ کوئٹہ سے متعلق جوڈیشل انکوائری کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد سے متعلق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی سے واضح موقف طلب کیا ہے۔