کراچی کی بدلتی آبادی اور نئی حلقہ بندیاں
1998 کی قومی مردم شماری میں لیاری کی آبادی کم دکھائی گئی
ان دنوں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کا حکم نامہ ''کراچی میں کثیراللسانی انتخابی حلقہ بندیاں تشکیل دی جائیں'' عوامی سطح پر زیر بحث ہے۔ ایم کیو ایم کے سوا دیگر سیاسی جماعتیں اس حکم نامے پر خوش دکھائی دے رہی ہیں جب کہ ایم کیو ایم اپنے نقطہ نظر کے مطابق اس کی مخالفت کر رہی ہے۔ مسئلہ کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کا، جائزہ لینے کے لیے پہلے ماضی قریب میں کراچی میں کرائی گئی حلقہ بندیوں پر نظر ڈالتے ہیں، جس سے موجودہ صورت حال کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
لیکن اس سے بھی پہلے ایک نظر کراچی کی بڑھتی گھٹتی آبادی کی طرف، 1931 سے 1941 کی مردم شماری کے مطابق لیاری اور ماڑی پور کے درمیان 2 ہزار ایکڑ پر مشتمل زمین پر مجموعی آبادی 3,60,000 تھی۔ قبل ازیں 1851 کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی 12.391 نفری پر مشتمل تھی۔ 1856 میں اس کی آبادی مع چھاؤنی 56.879 تھی جو 3 سال میں دگنی ہوگئی۔ آیندہ 16 برسوں میں آبادی میں اضافے کے بجائے کمی ہوگئی۔
1872 میں یہ آبادی مع گریژن 56.753 شمار کی گئی جب کہ فروری 1881 میں یہ آبادی مع چھاؤنی میں مقیم لوگوں کے 73.560 تک پہنچ گئی۔ تحقیق کے مطابق اس تاریخ سے آبادی میں اضافہ ہونا شروع ہوا جو کم و بیش 84.500 نفری تک پہنچ گئی اور سال کے آخر تک یہ آبادی ایک لاکھ سے تجاوز کرگئی۔ 1891 میں کراچی کی کل آبادی 1,05,199 اور 1901 تک 1,16,663 ہوچکی تھی۔ خیال رہے کہ 1987 کے بلدیاتی انتخابات میں کراچی کی آبادی 55 لاکھ دکھائی گئی تھی اور اقوام متحدہ کے آبادی ڈویژن کے مطابق 1995 میں کراچی کی آبادی 9.9 ملین اور آبادی کے بڑھاؤ کا سالانہ تناسب 4.27 فیصد ہے اس اعتبار سے 2001 میں کراچی کی آبادی 12.72 ملین بنتی تھی اس لحاظ سے کراچی کی آبادی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
یعنی 2001 میں کراچی کی آبادی 1,02,61,819 ہوئی، لیکن 1998 کی قومی مردم شماری کے مطابق کراچی کی کل آبادی 98,20,700 ہے (واضح رہے کہ جس میں 8811070 کی آبادی شہری حکومت کا حصہ ہیں جب کہ 1009630 کی آبادی کنٹونمنٹ بورڈ کے حصے میں شامل ہے) یہ بھی یاد رہے کہ 1998 کی قومی مردم شماری کے نتائج کو قومی رہنماؤں اور سیاسی پارٹیوں اور جماعتوں نے مسترد کیا ہوا ہے۔ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کراچی کی آبادی 2001 میں 10261819 بنتی ہے۔ اب غیرسرکاری طور پر کراچی کی آبادی 2 کروڑ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ کیا حقیقت اور کیا مبالغہ آرائی؟ کراچی کی درست آبادی کا تعین آزاد و خودمختار اور غیر جانبدارانہ قومی مردم شماری میں کیا جاسکتا ہے۔
یاد رہے کہ کراچی سٹی گورنمنٹ کے لیے نئی حد بندیوں کی منظوری سندھ کابینہ نے 30 اپریل 2001 کو دی جب کہ نوٹیفکیشن اس وقت کے گورنر سندھ میاں محمد سومرو (جو بعد میں سینیٹ کے چیئرمین بنے تھے) نے 21 اور 22 مئی 2001 کی درمیانی شب کو جاری کیا تھا۔ جس کے تحت کراچی کو 18 ٹاؤنز کونسلز اور 178 یونین کونسلز میں تقسیم کیا گیا اور یہ تین سطحی شہری حکومت کہلایا۔ اس طرح کراچی کے پانچوں اضلاع اور 26 سب ڈویژن ختم کردیے گئے تھے۔
اس وقت کی حکومت سندھ نے کراچی میں نئی حلقہ بندیوں پر اعتراضات طلب کیے تھے، اس ضمن میں 5 مئی 2001 کو پریس کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا، جس کے مطابق مذکورہ نوٹیفکیشن کی اشاعت کے 5 روز کے اندر شہریوں کو اپنے اعتراضات سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو سندھ کے پاس جمع کرانے کو کہا گیا تھا جس کے بعد سینئر ممبر بی او آر نے اپنے ممبران کے ہمراہ شہریوں کے اعتراضات سنے، کچھ کو دور کرنے کے بعد اپنے فیصلے سے 7 یوم کے اندر حکومت سندھ کو آگاہ کیا تھا جس کی تفصیلات اس وقت کے اخبارات میں شایع کرائی گئی تھیں، جس سے یہ ظاہر ہوا تھا کہ سب سے زیادہ اعتراضات جو مسترد ہوئے اور سب سے کم اعتراضات قبول ہوئے تھے، ان اعتراضات کا تعلق ضلع جنوبی اور ضلع ملیر سے تھا، جو مسترد کردیے گئے تھے۔ ضلع جنوبی میں لیاری کا علاقہ بھی شامل ہے، ان دونوں اضلاع میں برسر اقتدار سیاسی جماعت پی پی پی کی اکثریت رہی ہے۔
اول یہ کہ 1998 کی قومی مردم شماری میں لیاری کی آبادی کم دکھائی گئی اس پر مستزاد یہ کہ نئے ضلعی نظام کے تحت جو نئی حلقہ بندیاں کی گئیں اس میں لیاری کے قدیم علاقوں کو ظالمانہ لیاری سے الگ کرکے صدر ٹاؤن میں شامل کیا گیا جو آج بھی صدر ٹاؤن کا حصہ ہیں، جن میں نیو کمہار واڑہ، نیپیئر پولیس کوارٹرز، پرانا حاجی کیمپ، جناح آباد (کچھ حصے)، عثمان آباد، بادشاہی کمپاؤنڈ، حسن لشکری ولیج، دھوبی گھاٹ، لی مارکیٹ کے علاقے شامل ہیں اس طرح لیاری کا حدود اربع بھی کاٹ کر کم کردیا گیا ہے، لامحالہ لیاری کی آبادی میں مزید کمی واقع ہوگئی ہے۔
اس وقت باقی ماندہ لیاری کی آبادی 607992 ہے اگر مذکورہ بالا علاقوں کی آبادی کو شامل کیا جائے تو یہ آبادی 982070 بنتی ہے۔ ورنہ دیگر غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق لیاری کی تقسیم سے قبل لیاری کی آبادی 10 لاکھ سے زائد شمار کی جاتی تھی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جو علاقے لیاری سے کاٹ کر صدر ٹاؤن میں ضم کیے گئے ہیں تقریباً پوری پٹی آمدنی والی ہے یعنی انکم زون ہے۔ اس لحاظ سے لیاری کی آبادی اور لیاری کی زمین کے ساتھ ساتھ لیاری کی آمدنی بھی چھین لی گئی ہے اور کوئی اف کرنے والا نہیں ہے۔
نتیجتاً ٹاؤن بننے کے شروع دنوں سے آج تک لیاری ایک غریب ٹاؤن ہے جہاں اکثر مالی بحران رہتا ہے۔ ایک اور زیادتی لیاری والوں کے ساتھ یہ ہونے والی تھی کہ ارباب اختیار لیاری کو اولڈ ٹاؤن کا نام دینا چاہتے تھے جس کی تشہیر بھی کی گئی تھی اس ضمن میں راقم الحروف سمیت لیاری کے ممتاز سماجی رہنما شیر محمد رئیس نے اعتراض داخل کیا اور اپیل کی کہ لیاری کا نام اولڈ ٹاؤن کے بجائے ''لیاری ٹاؤن'' رکھ دیا جائے بعدازاں ارباب اختیار نے لیاری کا نام ''لیاری ٹاؤن'' رکھ دیا۔
لیاری ایک مثال ہے جو 2001 کی نئی حلقہ بندیوں کا شکار رہا۔ کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے متعلق تفصیل کے ساتھ راقم کا مضمون 12 اپریل 2012 کو ایکسپریس میں شایع ہوا جس میں یہ بات زور دے کر کہی گئی تھی کہ ''کل ملاکر 4156 ذمے داران کراچی کا بلدیاتی نظام چلاتے تھے اور یہ نظام عوامی سطح پر مقبولیت حاصل کرچکا تھا لیکن سیاسی لحاظ سے غیرمنصفانہ بلدیاتی حلقہ بندیوں کی وجہ سے انتشار اور خلفشار کا باعث بنا رہا جس وجہ سے کراچی کے مضافاتی علاقے ترقیاتی کاموں سے محروم رہ گئے اور سینٹرل کراچی میں تاریخ ساز ترقیاتی کام ہوئے، اس طرح کراچی کی آبادی پسند وناپسند کے دائرے میں رہی، جس وجہ سے امتیازی لسانیت سے احساس محرومی پیدا ہوا اور بالآخر شہر کراچی بدامنی کا مرکز رہا۔
حلقہ بندیاں جغرافیائی لحاظ سے نہیں بلکہ آبادی کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہے لیکن جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے اپنے اتحادیوں کو مضبوط کرنے کے لیے آبادی کے بجائے جغرافیائی اصولوں کے تحت حلقہ بندیاں کرائیں۔ واضح رہے مذکورہ تجزیہ پچھلے سال سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے مطابق کہ ''حکومت سندھ نے کراچی میں حلقہ بندیوں کی ازسر نو تشکیل کے سلسلے میں باضابطہ طور پر عمل درآمد شروع کردیا ہے '' کی خبر پر کیا تھا لیکن اس وقت اس خبر کو اتنی شہرت نہ ملی جو اب کراچی میں نئی حلقہ بندیوں والی خبر کو حاصل ہے۔
لیکن اس سے بھی پہلے ایک نظر کراچی کی بڑھتی گھٹتی آبادی کی طرف، 1931 سے 1941 کی مردم شماری کے مطابق لیاری اور ماڑی پور کے درمیان 2 ہزار ایکڑ پر مشتمل زمین پر مجموعی آبادی 3,60,000 تھی۔ قبل ازیں 1851 کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی 12.391 نفری پر مشتمل تھی۔ 1856 میں اس کی آبادی مع چھاؤنی 56.879 تھی جو 3 سال میں دگنی ہوگئی۔ آیندہ 16 برسوں میں آبادی میں اضافے کے بجائے کمی ہوگئی۔
1872 میں یہ آبادی مع گریژن 56.753 شمار کی گئی جب کہ فروری 1881 میں یہ آبادی مع چھاؤنی میں مقیم لوگوں کے 73.560 تک پہنچ گئی۔ تحقیق کے مطابق اس تاریخ سے آبادی میں اضافہ ہونا شروع ہوا جو کم و بیش 84.500 نفری تک پہنچ گئی اور سال کے آخر تک یہ آبادی ایک لاکھ سے تجاوز کرگئی۔ 1891 میں کراچی کی کل آبادی 1,05,199 اور 1901 تک 1,16,663 ہوچکی تھی۔ خیال رہے کہ 1987 کے بلدیاتی انتخابات میں کراچی کی آبادی 55 لاکھ دکھائی گئی تھی اور اقوام متحدہ کے آبادی ڈویژن کے مطابق 1995 میں کراچی کی آبادی 9.9 ملین اور آبادی کے بڑھاؤ کا سالانہ تناسب 4.27 فیصد ہے اس اعتبار سے 2001 میں کراچی کی آبادی 12.72 ملین بنتی تھی اس لحاظ سے کراچی کی آبادی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
یعنی 2001 میں کراچی کی آبادی 1,02,61,819 ہوئی، لیکن 1998 کی قومی مردم شماری کے مطابق کراچی کی کل آبادی 98,20,700 ہے (واضح رہے کہ جس میں 8811070 کی آبادی شہری حکومت کا حصہ ہیں جب کہ 1009630 کی آبادی کنٹونمنٹ بورڈ کے حصے میں شامل ہے) یہ بھی یاد رہے کہ 1998 کی قومی مردم شماری کے نتائج کو قومی رہنماؤں اور سیاسی پارٹیوں اور جماعتوں نے مسترد کیا ہوا ہے۔ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کراچی کی آبادی 2001 میں 10261819 بنتی ہے۔ اب غیرسرکاری طور پر کراچی کی آبادی 2 کروڑ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ کیا حقیقت اور کیا مبالغہ آرائی؟ کراچی کی درست آبادی کا تعین آزاد و خودمختار اور غیر جانبدارانہ قومی مردم شماری میں کیا جاسکتا ہے۔
یاد رہے کہ کراچی سٹی گورنمنٹ کے لیے نئی حد بندیوں کی منظوری سندھ کابینہ نے 30 اپریل 2001 کو دی جب کہ نوٹیفکیشن اس وقت کے گورنر سندھ میاں محمد سومرو (جو بعد میں سینیٹ کے چیئرمین بنے تھے) نے 21 اور 22 مئی 2001 کی درمیانی شب کو جاری کیا تھا۔ جس کے تحت کراچی کو 18 ٹاؤنز کونسلز اور 178 یونین کونسلز میں تقسیم کیا گیا اور یہ تین سطحی شہری حکومت کہلایا۔ اس طرح کراچی کے پانچوں اضلاع اور 26 سب ڈویژن ختم کردیے گئے تھے۔
اس وقت کی حکومت سندھ نے کراچی میں نئی حلقہ بندیوں پر اعتراضات طلب کیے تھے، اس ضمن میں 5 مئی 2001 کو پریس کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا، جس کے مطابق مذکورہ نوٹیفکیشن کی اشاعت کے 5 روز کے اندر شہریوں کو اپنے اعتراضات سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو سندھ کے پاس جمع کرانے کو کہا گیا تھا جس کے بعد سینئر ممبر بی او آر نے اپنے ممبران کے ہمراہ شہریوں کے اعتراضات سنے، کچھ کو دور کرنے کے بعد اپنے فیصلے سے 7 یوم کے اندر حکومت سندھ کو آگاہ کیا تھا جس کی تفصیلات اس وقت کے اخبارات میں شایع کرائی گئی تھیں، جس سے یہ ظاہر ہوا تھا کہ سب سے زیادہ اعتراضات جو مسترد ہوئے اور سب سے کم اعتراضات قبول ہوئے تھے، ان اعتراضات کا تعلق ضلع جنوبی اور ضلع ملیر سے تھا، جو مسترد کردیے گئے تھے۔ ضلع جنوبی میں لیاری کا علاقہ بھی شامل ہے، ان دونوں اضلاع میں برسر اقتدار سیاسی جماعت پی پی پی کی اکثریت رہی ہے۔
اول یہ کہ 1998 کی قومی مردم شماری میں لیاری کی آبادی کم دکھائی گئی اس پر مستزاد یہ کہ نئے ضلعی نظام کے تحت جو نئی حلقہ بندیاں کی گئیں اس میں لیاری کے قدیم علاقوں کو ظالمانہ لیاری سے الگ کرکے صدر ٹاؤن میں شامل کیا گیا جو آج بھی صدر ٹاؤن کا حصہ ہیں، جن میں نیو کمہار واڑہ، نیپیئر پولیس کوارٹرز، پرانا حاجی کیمپ، جناح آباد (کچھ حصے)، عثمان آباد، بادشاہی کمپاؤنڈ، حسن لشکری ولیج، دھوبی گھاٹ، لی مارکیٹ کے علاقے شامل ہیں اس طرح لیاری کا حدود اربع بھی کاٹ کر کم کردیا گیا ہے، لامحالہ لیاری کی آبادی میں مزید کمی واقع ہوگئی ہے۔
اس وقت باقی ماندہ لیاری کی آبادی 607992 ہے اگر مذکورہ بالا علاقوں کی آبادی کو شامل کیا جائے تو یہ آبادی 982070 بنتی ہے۔ ورنہ دیگر غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق لیاری کی تقسیم سے قبل لیاری کی آبادی 10 لاکھ سے زائد شمار کی جاتی تھی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جو علاقے لیاری سے کاٹ کر صدر ٹاؤن میں ضم کیے گئے ہیں تقریباً پوری پٹی آمدنی والی ہے یعنی انکم زون ہے۔ اس لحاظ سے لیاری کی آبادی اور لیاری کی زمین کے ساتھ ساتھ لیاری کی آمدنی بھی چھین لی گئی ہے اور کوئی اف کرنے والا نہیں ہے۔
نتیجتاً ٹاؤن بننے کے شروع دنوں سے آج تک لیاری ایک غریب ٹاؤن ہے جہاں اکثر مالی بحران رہتا ہے۔ ایک اور زیادتی لیاری والوں کے ساتھ یہ ہونے والی تھی کہ ارباب اختیار لیاری کو اولڈ ٹاؤن کا نام دینا چاہتے تھے جس کی تشہیر بھی کی گئی تھی اس ضمن میں راقم الحروف سمیت لیاری کے ممتاز سماجی رہنما شیر محمد رئیس نے اعتراض داخل کیا اور اپیل کی کہ لیاری کا نام اولڈ ٹاؤن کے بجائے ''لیاری ٹاؤن'' رکھ دیا جائے بعدازاں ارباب اختیار نے لیاری کا نام ''لیاری ٹاؤن'' رکھ دیا۔
لیاری ایک مثال ہے جو 2001 کی نئی حلقہ بندیوں کا شکار رہا۔ کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے متعلق تفصیل کے ساتھ راقم کا مضمون 12 اپریل 2012 کو ایکسپریس میں شایع ہوا جس میں یہ بات زور دے کر کہی گئی تھی کہ ''کل ملاکر 4156 ذمے داران کراچی کا بلدیاتی نظام چلاتے تھے اور یہ نظام عوامی سطح پر مقبولیت حاصل کرچکا تھا لیکن سیاسی لحاظ سے غیرمنصفانہ بلدیاتی حلقہ بندیوں کی وجہ سے انتشار اور خلفشار کا باعث بنا رہا جس وجہ سے کراچی کے مضافاتی علاقے ترقیاتی کاموں سے محروم رہ گئے اور سینٹرل کراچی میں تاریخ ساز ترقیاتی کام ہوئے، اس طرح کراچی کی آبادی پسند وناپسند کے دائرے میں رہی، جس وجہ سے امتیازی لسانیت سے احساس محرومی پیدا ہوا اور بالآخر شہر کراچی بدامنی کا مرکز رہا۔
حلقہ بندیاں جغرافیائی لحاظ سے نہیں بلکہ آبادی کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہے لیکن جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے اپنے اتحادیوں کو مضبوط کرنے کے لیے آبادی کے بجائے جغرافیائی اصولوں کے تحت حلقہ بندیاں کرائیں۔ واضح رہے مذکورہ تجزیہ پچھلے سال سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے مطابق کہ ''حکومت سندھ نے کراچی میں حلقہ بندیوں کی ازسر نو تشکیل کے سلسلے میں باضابطہ طور پر عمل درآمد شروع کردیا ہے '' کی خبر پر کیا تھا لیکن اس وقت اس خبر کو اتنی شہرت نہ ملی جو اب کراچی میں نئی حلقہ بندیوں والی خبر کو حاصل ہے۔