مسائل روحانی علاج یو نانی
غرض پچھلے تین سو سال سے مغرب نفس کو ہی روح سمجھا رہا ہے۔
حسن عسکری مرحوم نے ایک جگہ لکھا کہ یونانی فلسفی روح کی حقیقت سے پوری طرح آگاہ نہیں تھے، اس لیے وہ روح اور نفس کو ایک دوسرے میں ملا دیتے تھے، اس کا نتیجہ ہے کہ سترہویں صدی کے بعد سے مغرب اس فرق کو بالکل بھول گیا ہے، یہاں تک کہ مغربی لوگ ''عقل'' کی طرح لفظ روح کے معنی ذرا بھی نہیں سمجھ سکتے، بلکہ نفس کو ہی روح خیال کرتے ہیں۔ یو نانیوں کے یہاں روح یا عقل کل کے لیے لفظ تھا Nous آج اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے ''ذہن'' (Mind)، نفس کے لیے یونانی لفظ تھا Psyche اس لفظ کو ''ذہن'' کے ہم معنی سمجھا جاتا ہے، پھر روح کے لیے لاطینی لفظ تھا Spiritus آج کل مغربی زبانوں میں لفظ Sprit انگریزی لفظ Soul کے مترادف سمجھا جاتا ہے، جس کے معنی ''نفس''۔
غرض پچھلے تین سو سال سے مغرب نفس کو ہی روح سمجھا رہا ہے۔ اس سوچ کے ساتھ مغرب نے جہاں جدید دنیا ترتیب دی وہیں اس نے کئی طرح کے نئے نئے ''علم'' بھی پیدا کردیے جس میں میڈیکل سائنس بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس علم تک پہنچنے کے لیے مغرب نے ذہن کی سطح پر نا جانے کیا کیا تبدیلیاں کیں تو پھر کہیں جا کر اس نے یہ ''مقام'' حاصل کیا۔ اس سوچ کے ساتھ پروان چڑھتے دماغ نے ہر اس چیز کا انکار کردیا جو تجربے سے ثابت نہ ہو سکے، مثلاً خدا، وحی، نبوت، آسمانی کتابیں، پیمانہ خیر و شر اور ہر وہ چیز جس کا تعلق ایمان اور یقین کے ساتھ تھا، سب کو رد کردیا۔
جس کا نتیجہ یہ ہوا کے مغرب کو ایک ایک جز کا علم ''پیدا'' کر نا پڑا اور دنیا میں انقلابی پیمانے پر سائنسی ترقی ہوئی۔ اس سائنسی دماغ نے انسانوں کو بھی اپنے حوالوں میں ترتیب دیا جس کے مطابق انسان میں ایک روح پائی تو جاتی ہے لیکن شاید وہ کوئی انرجی کی Form میں ہے اور وہ جس جگہ جہاں سے ہدایت لیتی ہے (دماغ) اس میں کچھ اس طرح کے مادے پائے جاتے ہیں جن کو درست رکھ کر انسانی جسم کو اعتدال پر رکھا جاسکتا ہے اور دنیا میں اپنا من پسند ''عدل'' قائم کیا جاسکتا ہے۔ اس علم کو آج ہم سائیکالوجی کے نام سے جانتے ہیں۔ اس علم کے ماہر حضرات کا ماننا ہے کہ انسانی دماغ میں کچھ اس طرح کے ''کیمیائی لوچے'' ہوتے ہیں جو انسان کی طبیعت پر ناگوار گزرتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ مختلف قسم کے امراض اور مسائل کا شکار ہوجاتا ہے، جس میں بغض، جلن، حسد، نفرت، غصہ، ڈپریشن، خوف، احساس کمتری اور دیگر احساسات شامل ہیں۔ ان تمام مسائل کے علاج کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے ہیں جس میں سب سے پہلے اس 'مسئلے' کے شکار افراد کو دوائیں دی جاتی ہیں جس کا تعلق اس فرد کے دماغی حصوں سے ہوتا ہے جسے پرسکون کیا جاتا ہے، بعد ازاں مریض کی کیس ہسٹری لے کر باقی کے مراحل طے کیے جاتے ہیں جیسے کہ سائیکوتھراپی وغیرہ۔
یہاں یہ سب بتانے کے بعد چند سوالات اٹھتے ہیںکہ کیا واقعی ان تما م مسائل کا تعلق انسانی دماغ سے ہے یا پھر اس کے علاوہ بھی ان کی کوئی حقیقت ہے؟ جب ہم انسانی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس قسم کے مسائل ہر دور میں موجود رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ان کو حل کرنے کے لیے کبھی بھی باقاعدہ کوئی خاص ''علم'' نہیں ترتیب دیا گیا۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پوری انسانی اور اسلامی تاریخ میں ان مسائل کو کبھی بھی انسانی دماغ سے نہیں جوڑا گیا بلکہ ہمیشہ اس طرح کی چیزوں کو ''روحانی'' یا'' نفسانی'' مسائل کے طور پر لیا گیا اور ان کا علاج بھی ان ہی قدیم روایتی تہذیبوں اور مذاہب سے کیا گیا جو دنیا میں موجود رہی ہیں، یہاں روایتی تہذیبوں کے بجائے مذہب کی روایتوں پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ جب تم کو غصہ آئے تو وضو کرلیا کرو، کھڑے ہو تو بیٹھ جائو، پانی پی لو یا لاحول پڑھ لیا کرو شیطا ن بھاگ جائے گا۔ اس کی حکمت جو بیان کی جاتی ہے وہ یہ کہ غصہ ایک آتشی کیفیت ہے اور پانی اس کو ٹھنڈا کردیتا ہے یعنی ''پانی کا نفس'' شیطانی نفس کو قابو کرلیتا ہے اور انسان اس کیفیت سے نکل آتا ہے جس میں وہ کسی بھی وجہ سے گرفتار ہو گیا تھا۔ اب نہ تو اس میں کوئی دماغی کیمیائی مسئلہ ہوا اور نہ ہی کسی کیمیکل کے ذریعے اس ''مرض'' کا علاج ہوا۔ اس کے علاوہ ایک اور بہت اہم مسئلہ جس کا نفسیات کے ماہرین علاج کرتے ہیں اور تقریباََ ہر فرد میں اسے 'تلاشتے' ہیں وہ ہے ''خوف''۔ ہر مریض میں کسی نہ کسی طرح کا کوئی خوف پیدا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی زندگی کی تمام رونقیں ماند پڑجاتی ہیں اور اس خوف کی کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ واقعی اتنے کمزور اعصاب کے مالک ہوتے ہوں کہ وہ اس طرح کی باتیں سن کر بھی ڈر جاتے ہوں لیکن ان کی وجہ سے ایک 'سوچ' پیدا کردی جائے تو یقیناً وہ درست بات نہ ہوگی۔
14سو سال تک مسلمانوں نے دنیا کے تمام علوم کو اسلام کے مطابق ڈھالا ہے ۔ تمام علوم نے مذہب کی اجازت کے بعد اپنے ڈھانچے ترتیب دیے ہیں، مذہب کی رہنمائی میں ہی اپنے دائرے وضع کیے ہیں، نا کہ مذہب کو ان علوم کے مطابق کیا جائے۔ مغرب نے ان علوم کی بنیاد اس کائنات سے خدا کو بے دخل (نعوذباﷲ) کرکے رکھی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کے آج مغرب کو سائیکوتھراپسٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ مسلمانوں کی روایت میں یہ حضرات کیوں پیدا نہ ہوسکے؟... اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ مغرب نے تنہائی کا معاشرہ ترتیب دیا ہے جس میں کسی خاندان کا کوئی وجود نہیں ہے، ہر فرد تنہا پرواز کررہا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے مسائل کا کسی سے ذکر نہیں کرسکتا اور نہ ہی کوئی فرد اِس کے مسائل سننے کا روادار ہے۔ جس کے لیے وہ لاکھوں روپے خرچ کے ایک نفسیات کے معالج کے پاس جا کر اس کو اپنے دکھڑے سناتا ہے اور معالج بھی ایک پروفیشنل کی طرح صرف اِن کو سنتا ہے، اُس کی فرد کے ساتھ کوئی جذباتی وابستگی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں نفسیات کا علاج کرنے والے ڈاکٹرز ہی خودکشی کرلیتے ہیں۔ اسلامی معاشرے میں ایک فرد اکیلا نہیں ہوتا، خاندان کا ہر فرد اس کے غم اور خوشی میں شریک ہوتا ہے، بچے اپنے تمام معاملات اپنے والدین سے شیئر کرتے ہیں، میاں بیوی ایک دوسرے کے حامی و مونس ہوتے ہیں اور ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ سب سے اہم رشتہ اس فرد کا خدا کے ساتھ ہوتا ہے جو پیسے لیے بغیر اس کی اک اک بات سنتا ہے، انسان اس کے آگے روتا ہے اس سے تمام باتیں شیئر کرتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان زندگی بھر اطمینان کی کیفیت میں رہتا ہے اور یہ صرف اسلام میں ہی نہیں بلکہ جب تک مغرب میں عیسائیت مضبوط رہی اس وقت تک وہاں بھی ماہرین نفسیات پیدا نہ ہوسکے، کیونکہ کمزور ترین عیسائی مذہب میں Confess کرنے کا سلسلہ تھا اور آج بھی کچھ حد تک باقی ہے جس میں فرد گرجا گھر جا کر اپنے گناہ کا اقرار پادری کے سامنے کرتا ہے اور پادری ایک دیوار کے پیچھے سے اس کے گناہ سنتا ہے اور اس کی شکل تک نہیں دیکھتا۔
اگر مسلم معاشرے میں کوئی بچہ یا بچی اپنے مسائل کا ذکر معالج کے سامنے کررہی ہے تو یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ ہمارا خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، جب کسی بچے کے والدین کو باہر بٹھا کر اس کے مسائل سنے اور حل کیے جائیں گے تو بچوں میں یہ ہی سوچ پروان چڑھے گی کہ ہمارے حقیقی ''خیرخواہ'' تو یہ ڈاکٹر حضرات ہیں نا کہ ہمارے والدین!!
بحیثیت مسلمان ہمارے معاشروں میں ان نفسیاتی مسائل کو پیدا ہی نہیں ہونا چاہیے اور اگر ہو بھی رہے ہیں تو ان کا حل مذہبی روایت سے ہی کیا جانا چاہیے، نا کہ کچھ دوائیں دے کر۔ مدینہ میں آنے والا ایک حکیم ایک مہینے تک فارغ رہنے کے بعد جب روانہ ہوا تو اس کو پتا چلا کے مسلمان سنت کے مطابق زندگی گزارتے ہیں اس لیے معاشرہ صحت مند ہے نا کہ معالجوں کا محتاج۔
غرض پچھلے تین سو سال سے مغرب نفس کو ہی روح سمجھا رہا ہے۔ اس سوچ کے ساتھ مغرب نے جہاں جدید دنیا ترتیب دی وہیں اس نے کئی طرح کے نئے نئے ''علم'' بھی پیدا کردیے جس میں میڈیکل سائنس بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس علم تک پہنچنے کے لیے مغرب نے ذہن کی سطح پر نا جانے کیا کیا تبدیلیاں کیں تو پھر کہیں جا کر اس نے یہ ''مقام'' حاصل کیا۔ اس سوچ کے ساتھ پروان چڑھتے دماغ نے ہر اس چیز کا انکار کردیا جو تجربے سے ثابت نہ ہو سکے، مثلاً خدا، وحی، نبوت، آسمانی کتابیں، پیمانہ خیر و شر اور ہر وہ چیز جس کا تعلق ایمان اور یقین کے ساتھ تھا، سب کو رد کردیا۔
جس کا نتیجہ یہ ہوا کے مغرب کو ایک ایک جز کا علم ''پیدا'' کر نا پڑا اور دنیا میں انقلابی پیمانے پر سائنسی ترقی ہوئی۔ اس سائنسی دماغ نے انسانوں کو بھی اپنے حوالوں میں ترتیب دیا جس کے مطابق انسان میں ایک روح پائی تو جاتی ہے لیکن شاید وہ کوئی انرجی کی Form میں ہے اور وہ جس جگہ جہاں سے ہدایت لیتی ہے (دماغ) اس میں کچھ اس طرح کے مادے پائے جاتے ہیں جن کو درست رکھ کر انسانی جسم کو اعتدال پر رکھا جاسکتا ہے اور دنیا میں اپنا من پسند ''عدل'' قائم کیا جاسکتا ہے۔ اس علم کو آج ہم سائیکالوجی کے نام سے جانتے ہیں۔ اس علم کے ماہر حضرات کا ماننا ہے کہ انسانی دماغ میں کچھ اس طرح کے ''کیمیائی لوچے'' ہوتے ہیں جو انسان کی طبیعت پر ناگوار گزرتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ مختلف قسم کے امراض اور مسائل کا شکار ہوجاتا ہے، جس میں بغض، جلن، حسد، نفرت، غصہ، ڈپریشن، خوف، احساس کمتری اور دیگر احساسات شامل ہیں۔ ان تمام مسائل کے علاج کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے ہیں جس میں سب سے پہلے اس 'مسئلے' کے شکار افراد کو دوائیں دی جاتی ہیں جس کا تعلق اس فرد کے دماغی حصوں سے ہوتا ہے جسے پرسکون کیا جاتا ہے، بعد ازاں مریض کی کیس ہسٹری لے کر باقی کے مراحل طے کیے جاتے ہیں جیسے کہ سائیکوتھراپی وغیرہ۔
یہاں یہ سب بتانے کے بعد چند سوالات اٹھتے ہیںکہ کیا واقعی ان تما م مسائل کا تعلق انسانی دماغ سے ہے یا پھر اس کے علاوہ بھی ان کی کوئی حقیقت ہے؟ جب ہم انسانی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس قسم کے مسائل ہر دور میں موجود رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ان کو حل کرنے کے لیے کبھی بھی باقاعدہ کوئی خاص ''علم'' نہیں ترتیب دیا گیا۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پوری انسانی اور اسلامی تاریخ میں ان مسائل کو کبھی بھی انسانی دماغ سے نہیں جوڑا گیا بلکہ ہمیشہ اس طرح کی چیزوں کو ''روحانی'' یا'' نفسانی'' مسائل کے طور پر لیا گیا اور ان کا علاج بھی ان ہی قدیم روایتی تہذیبوں اور مذاہب سے کیا گیا جو دنیا میں موجود رہی ہیں، یہاں روایتی تہذیبوں کے بجائے مذہب کی روایتوں پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ جب تم کو غصہ آئے تو وضو کرلیا کرو، کھڑے ہو تو بیٹھ جائو، پانی پی لو یا لاحول پڑھ لیا کرو شیطا ن بھاگ جائے گا۔ اس کی حکمت جو بیان کی جاتی ہے وہ یہ کہ غصہ ایک آتشی کیفیت ہے اور پانی اس کو ٹھنڈا کردیتا ہے یعنی ''پانی کا نفس'' شیطانی نفس کو قابو کرلیتا ہے اور انسان اس کیفیت سے نکل آتا ہے جس میں وہ کسی بھی وجہ سے گرفتار ہو گیا تھا۔ اب نہ تو اس میں کوئی دماغی کیمیائی مسئلہ ہوا اور نہ ہی کسی کیمیکل کے ذریعے اس ''مرض'' کا علاج ہوا۔ اس کے علاوہ ایک اور بہت اہم مسئلہ جس کا نفسیات کے ماہرین علاج کرتے ہیں اور تقریباََ ہر فرد میں اسے 'تلاشتے' ہیں وہ ہے ''خوف''۔ ہر مریض میں کسی نہ کسی طرح کا کوئی خوف پیدا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی زندگی کی تمام رونقیں ماند پڑجاتی ہیں اور اس خوف کی کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ واقعی اتنے کمزور اعصاب کے مالک ہوتے ہوں کہ وہ اس طرح کی باتیں سن کر بھی ڈر جاتے ہوں لیکن ان کی وجہ سے ایک 'سوچ' پیدا کردی جائے تو یقیناً وہ درست بات نہ ہوگی۔
14سو سال تک مسلمانوں نے دنیا کے تمام علوم کو اسلام کے مطابق ڈھالا ہے ۔ تمام علوم نے مذہب کی اجازت کے بعد اپنے ڈھانچے ترتیب دیے ہیں، مذہب کی رہنمائی میں ہی اپنے دائرے وضع کیے ہیں، نا کہ مذہب کو ان علوم کے مطابق کیا جائے۔ مغرب نے ان علوم کی بنیاد اس کائنات سے خدا کو بے دخل (نعوذباﷲ) کرکے رکھی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کے آج مغرب کو سائیکوتھراپسٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ مسلمانوں کی روایت میں یہ حضرات کیوں پیدا نہ ہوسکے؟... اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ مغرب نے تنہائی کا معاشرہ ترتیب دیا ہے جس میں کسی خاندان کا کوئی وجود نہیں ہے، ہر فرد تنہا پرواز کررہا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے مسائل کا کسی سے ذکر نہیں کرسکتا اور نہ ہی کوئی فرد اِس کے مسائل سننے کا روادار ہے۔ جس کے لیے وہ لاکھوں روپے خرچ کے ایک نفسیات کے معالج کے پاس جا کر اس کو اپنے دکھڑے سناتا ہے اور معالج بھی ایک پروفیشنل کی طرح صرف اِن کو سنتا ہے، اُس کی فرد کے ساتھ کوئی جذباتی وابستگی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں نفسیات کا علاج کرنے والے ڈاکٹرز ہی خودکشی کرلیتے ہیں۔ اسلامی معاشرے میں ایک فرد اکیلا نہیں ہوتا، خاندان کا ہر فرد اس کے غم اور خوشی میں شریک ہوتا ہے، بچے اپنے تمام معاملات اپنے والدین سے شیئر کرتے ہیں، میاں بیوی ایک دوسرے کے حامی و مونس ہوتے ہیں اور ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ سب سے اہم رشتہ اس فرد کا خدا کے ساتھ ہوتا ہے جو پیسے لیے بغیر اس کی اک اک بات سنتا ہے، انسان اس کے آگے روتا ہے اس سے تمام باتیں شیئر کرتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان زندگی بھر اطمینان کی کیفیت میں رہتا ہے اور یہ صرف اسلام میں ہی نہیں بلکہ جب تک مغرب میں عیسائیت مضبوط رہی اس وقت تک وہاں بھی ماہرین نفسیات پیدا نہ ہوسکے، کیونکہ کمزور ترین عیسائی مذہب میں Confess کرنے کا سلسلہ تھا اور آج بھی کچھ حد تک باقی ہے جس میں فرد گرجا گھر جا کر اپنے گناہ کا اقرار پادری کے سامنے کرتا ہے اور پادری ایک دیوار کے پیچھے سے اس کے گناہ سنتا ہے اور اس کی شکل تک نہیں دیکھتا۔
اگر مسلم معاشرے میں کوئی بچہ یا بچی اپنے مسائل کا ذکر معالج کے سامنے کررہی ہے تو یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ ہمارا خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، جب کسی بچے کے والدین کو باہر بٹھا کر اس کے مسائل سنے اور حل کیے جائیں گے تو بچوں میں یہ ہی سوچ پروان چڑھے گی کہ ہمارے حقیقی ''خیرخواہ'' تو یہ ڈاکٹر حضرات ہیں نا کہ ہمارے والدین!!
بحیثیت مسلمان ہمارے معاشروں میں ان نفسیاتی مسائل کو پیدا ہی نہیں ہونا چاہیے اور اگر ہو بھی رہے ہیں تو ان کا حل مذہبی روایت سے ہی کیا جانا چاہیے، نا کہ کچھ دوائیں دے کر۔ مدینہ میں آنے والا ایک حکیم ایک مہینے تک فارغ رہنے کے بعد جب روانہ ہوا تو اس کو پتا چلا کے مسلمان سنت کے مطابق زندگی گزارتے ہیں اس لیے معاشرہ صحت مند ہے نا کہ معالجوں کا محتاج۔