حقیقی تصور عدل
ڈاکٹر حافظ سید زاہد حسین کی مذکورہ بالا بات ہمارے آج کے ملکی حالات اور مسائل کی جانب واضح اشارہ کر رہی ہے
ہم میں سے اکثر لوگ ایک مغربی ملک کے حکمراں کا یہ مشہور جملہ بیان کرتے ہیں کہ ''دوران جنگ دشمن ملک کی فوج شکست نہیں دے سکتی اگر ملک کے اندر عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہوں۔'' بحیثیت مسلمان ہم ایک واقعہ اکثر بیان کرتے ہیں جس میں پیغام دیا گیا کہ ''تم سے پہلے کی قومیں اس لیے تباہ ہوگئیں کہ ان کے ہاں جب کوئی معزز یا اعلیٰ خاندان کا فرد جرم کرتا تو اسے معاف کردیا جاتا اور غریب کو سزا سنا دی جاتی۔'' قابل غور بات یہ ہے کہ اسلام میں نظام عدل صرف عدالتوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر شخص خواہ وہ کسی بھی حیثیت میں زندگی گزار رہا ہو، اپنے معاملات میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کے بگاڑ سے پورے معاشرے یا ریاست کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ آج ہمارے ملک میں موجودہ مسائل خواہ وہ کرپشن کے ضمن میں ہوں یا معاشرتی یا کسی اور ضمن میں ہوں۔
معروف عالم دین ڈاکٹر حافظ سید زاہد حسین لکھتے ہیں کہ جس کا جو حق ہو وہ اسے دیا جائے یہ عدل ہے اور اسی طرح ظلم کی تعریف یہ ہے کہ ''جس کا جو حق ہے وہ اسے نہ دیا جائے یا حق دار کا حق، ناحق دوسرے کو دے دیا جائے''۔ اسی طرح وہ مزید لکھتے ہیں کہ حکومت کے عہدے اور منصب جتنے ہیں وہ سب اللہ کی امانتیں ہیں جس کے امین وہ حکام اور افسر ہیں جن کے ہاتھ میں عزل ونصب کے اختیارات ہیں، ان کے لیے جائز نہیں کہ کوئی عہدہ کسی ایک ایسے شخص کے سپردکردیں جو اپنی عملی یا علمی قابلیت کے اعتبار سے اس کا اہل نہیں ہے بلکہ ان پر لازم ہے کہ ہر کام اور ہر عہدے کے لیے اپنے دائرہ حکومت میں اس کے مستحق کو تلاش کریں۔ کسی منصب پر غیر اہل کو بٹھانے والا ملعون ہے۔
پوری اہلیت والا تمام شرائط کا جامع کوئی نہ ملے تو موجودہ لوگوں میں قابلیت اور امانت داری کے اعتبار سے جو سب سے زیادہ فائق ہو اس کو ترجیح دی جائے۔ بعض روایت میں ہے کہ جس شخص نے کوئی عہدہ کسی شخص کے سپرد کیا حالانکہ اس کے علم میں تھا کہ دوسرا آدمی اس عہدے کے لیے اس سے زیادہ قابل اور اہل ہے تو اس نے اللہ کی خیانت کی اور رسولؐ کی اور سب مسلمانوں کی۔ پورے ملک میں عدل و انصاف کا قیام اس کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا کہ جن کے ہاتھ میں ملک کا اقتدار ہے وہ پہلے ادائے امانت کا فریضہ درست طور پر ادا کریں یعنی حکومت کے عہدوں پر صرف انھی لوگوں کو مقرر کریں جو صلاحیت کار اور امانت و دیانت کی رو سے اس عہدے کے لیے سب سے زیادہ بہتر نظر آئیں، دوستی اور تعلقات یا محض سفارش یا رشوت کو اس میں راہ نہ دیں ورنہ نتیجہ یہ ہوگا کہ نااہل، ناقابل یا خائن اور ظالم لوگ عہدوں پر قابض ہوجائیں گے۔ پھر اگر ارباب اقتدار دل سے بھی یہ چاہیں کہ ملک میں عدل وانصاف کا رواج ہوتو ان کے لیے ناممکن ہوجائے گا کیونکہ عہدیداران حکومت ہی حکومت کے ہاتھ اور پیر ہیں جب یہ خائن یا ناقابل اعتبار ہوجائے تو عدل و انصاف قائم کرنے کی کیا راہ ہے؟
ڈاکٹر حافظ سید زاہد حسین کی مذکورہ بالا بات ہمارے آج کے ملکی حالات اور مسائل کی جانب واضح اشارہ کر رہی ہے کہ ان کی وجوہات کیا ہیں۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہر دوسرا شخص انصاف کے حصول کے لیے درخواست کرتا نظر آتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ کوئی خود سے وہ انصاف کرتا نظر نہیں آتا جو اس کے اختیار یا ذمے داریوں میں شامل ہے۔ کوئی فرد اگر انصاف کے حصول کے لیے FIR درج کرانا چاہے تو بغیر سفارش و رشوت کے یہ بھی ممکن نہیں، اگر اعلیٰ عہدے کے حامل وی آئی پی شخصیات سے مل کر اپنا حال بیان کرنا چاہیں تو ملاقات بھی کرنا ممکن نہیں، انصاف کا حصول تو دور کی بات ہے۔ ایف آئی آر درج نہ کرنے والا اور ملاقات کا وقت نہ دینے والا بھی درحقیقت عدل اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں کررہا۔
اسی طرح کسی چپڑاسی کی چھوٹی سی نوکری سے لے کر اعلیٰ سرکاری و غیر سرکاری ملازمت کے لیے جیوری یا انٹرویو بورڈ میں بیٹھ کر فیصلے کے وقت قابلیت کے بجائے سفارش، رشوت یا امیدوار سے کسی تعلق کی بنیاد پر فیصلے مخصوص افراد کے حق میں دینا بھی عدل و انصاف کے خلاف ہے۔ امتحان، ٹیسٹ و انٹرویو میں عدل کے تقاضوں کو پامال کرنا اب عام سی بات ہوگئی ہے، کوئی برائی ہی نہیں سمجھی جاتی، حالانکہ بحیثیت مسلمان اس کے متعلق واضح اور سخت احکامات موجود ہیں، مثلاً ایک حدیث میں حضورؐ کا ارشاد ہے کہ جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی ذمے داری سپرد کی گئی ہو، پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی و تعلق کی مد میں بغیر اہلیت معلوم کیے ہوئے دے دیا اس پر اللہ کی لعنت ہے۔ نہ اس کا فرض مقبول ہے نہ نفل، یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہوجائے۔ (جمع الفوائد ، ص325)
اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ جب دیکھو کہ کاموں کی ذمے داری ایسے لوگوں کے سپرد کردی گئی جو اس کام کے اہل اور قابل نہیں تو (اب اس فساد کا کوئی علاج نہیں) قیامت کا انتظار کرو۔
بحیثیت مسلمان ہم اتنی واضح ہدایات اور سخت تنبیہہ کے باوجود کتنی آسانی سے روزمرہ زندگی میں صبح و شام ان احکامات کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، خصوصاً سرکاری عہدوں پر بیٹھ کر شاید یہ سوچتے ہیں کہ یہ سرکاری عمل ہے حالانکہ اس کا براہ راست تعلق حقوق العباد ہے اور حقوق العباد کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ جب تک متاثرہ بندہ خود معاف نہ کردے اس کی معافی بھی نہیں ہے۔ ذرا سوچیے کہ ایف آئی آر کا درج نہ کرنا کسی پولیس افسر کا سرکاری حق ہے یا یہ حقوق العباد کا معاملہ ہے۔ اسی طرح منصب پر بیٹھ کر کسی سائل کی بات نہ سننے اور اس کو انصاف فراہم نہ کرنا، محض سرکاری یا ادارے کا معاملہ ہے یا حقوق العباد کا معاملہ ہے؟ یہ ڈگریاں لیے گھومتے پڑھے لکھے قابل نوجوان جو محض سفارش اور رشوت نہ دینے کے باعث انٹرویو میں کامیاب نہیں ہوتے کیا یہ حقوق العباد کا معاملہ نہیں؟ کیا روز قیامت یہ انٹرویو لینے والے کا دامن نہیں پکڑیں گے کہ انھیں ان کے حق سے محض سفارش نہ ہونے کے باعث کیوں روکا گیا؟ کیا مختلف عوامی خدمت کے محکموں میں بیٹھے افسران و ذمے داران سے یہ خلق خدا روز قیامت یہ سوال نہ کرے گی کہ کیوں نہ انھیں وہ شہری سہولیات اور حقوق نہ دیے گئے جو ان کے حق تھے۔
کیا ضرورت اس امر کی نہیں ہے کہ اسلام کے ماننے والے اسلام کے حقیقی تصور عدل کو واضح کریں اپنے ذات کے ذریعے بھی اور معاشرے کے ذریعے بھی۔
معروف عالم دین ڈاکٹر حافظ سید زاہد حسین لکھتے ہیں کہ جس کا جو حق ہو وہ اسے دیا جائے یہ عدل ہے اور اسی طرح ظلم کی تعریف یہ ہے کہ ''جس کا جو حق ہے وہ اسے نہ دیا جائے یا حق دار کا حق، ناحق دوسرے کو دے دیا جائے''۔ اسی طرح وہ مزید لکھتے ہیں کہ حکومت کے عہدے اور منصب جتنے ہیں وہ سب اللہ کی امانتیں ہیں جس کے امین وہ حکام اور افسر ہیں جن کے ہاتھ میں عزل ونصب کے اختیارات ہیں، ان کے لیے جائز نہیں کہ کوئی عہدہ کسی ایک ایسے شخص کے سپردکردیں جو اپنی عملی یا علمی قابلیت کے اعتبار سے اس کا اہل نہیں ہے بلکہ ان پر لازم ہے کہ ہر کام اور ہر عہدے کے لیے اپنے دائرہ حکومت میں اس کے مستحق کو تلاش کریں۔ کسی منصب پر غیر اہل کو بٹھانے والا ملعون ہے۔
پوری اہلیت والا تمام شرائط کا جامع کوئی نہ ملے تو موجودہ لوگوں میں قابلیت اور امانت داری کے اعتبار سے جو سب سے زیادہ فائق ہو اس کو ترجیح دی جائے۔ بعض روایت میں ہے کہ جس شخص نے کوئی عہدہ کسی شخص کے سپرد کیا حالانکہ اس کے علم میں تھا کہ دوسرا آدمی اس عہدے کے لیے اس سے زیادہ قابل اور اہل ہے تو اس نے اللہ کی خیانت کی اور رسولؐ کی اور سب مسلمانوں کی۔ پورے ملک میں عدل و انصاف کا قیام اس کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا کہ جن کے ہاتھ میں ملک کا اقتدار ہے وہ پہلے ادائے امانت کا فریضہ درست طور پر ادا کریں یعنی حکومت کے عہدوں پر صرف انھی لوگوں کو مقرر کریں جو صلاحیت کار اور امانت و دیانت کی رو سے اس عہدے کے لیے سب سے زیادہ بہتر نظر آئیں، دوستی اور تعلقات یا محض سفارش یا رشوت کو اس میں راہ نہ دیں ورنہ نتیجہ یہ ہوگا کہ نااہل، ناقابل یا خائن اور ظالم لوگ عہدوں پر قابض ہوجائیں گے۔ پھر اگر ارباب اقتدار دل سے بھی یہ چاہیں کہ ملک میں عدل وانصاف کا رواج ہوتو ان کے لیے ناممکن ہوجائے گا کیونکہ عہدیداران حکومت ہی حکومت کے ہاتھ اور پیر ہیں جب یہ خائن یا ناقابل اعتبار ہوجائے تو عدل و انصاف قائم کرنے کی کیا راہ ہے؟
ڈاکٹر حافظ سید زاہد حسین کی مذکورہ بالا بات ہمارے آج کے ملکی حالات اور مسائل کی جانب واضح اشارہ کر رہی ہے کہ ان کی وجوہات کیا ہیں۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہر دوسرا شخص انصاف کے حصول کے لیے درخواست کرتا نظر آتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ کوئی خود سے وہ انصاف کرتا نظر نہیں آتا جو اس کے اختیار یا ذمے داریوں میں شامل ہے۔ کوئی فرد اگر انصاف کے حصول کے لیے FIR درج کرانا چاہے تو بغیر سفارش و رشوت کے یہ بھی ممکن نہیں، اگر اعلیٰ عہدے کے حامل وی آئی پی شخصیات سے مل کر اپنا حال بیان کرنا چاہیں تو ملاقات بھی کرنا ممکن نہیں، انصاف کا حصول تو دور کی بات ہے۔ ایف آئی آر درج نہ کرنے والا اور ملاقات کا وقت نہ دینے والا بھی درحقیقت عدل اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں کررہا۔
اسی طرح کسی چپڑاسی کی چھوٹی سی نوکری سے لے کر اعلیٰ سرکاری و غیر سرکاری ملازمت کے لیے جیوری یا انٹرویو بورڈ میں بیٹھ کر فیصلے کے وقت قابلیت کے بجائے سفارش، رشوت یا امیدوار سے کسی تعلق کی بنیاد پر فیصلے مخصوص افراد کے حق میں دینا بھی عدل و انصاف کے خلاف ہے۔ امتحان، ٹیسٹ و انٹرویو میں عدل کے تقاضوں کو پامال کرنا اب عام سی بات ہوگئی ہے، کوئی برائی ہی نہیں سمجھی جاتی، حالانکہ بحیثیت مسلمان اس کے متعلق واضح اور سخت احکامات موجود ہیں، مثلاً ایک حدیث میں حضورؐ کا ارشاد ہے کہ جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی ذمے داری سپرد کی گئی ہو، پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی و تعلق کی مد میں بغیر اہلیت معلوم کیے ہوئے دے دیا اس پر اللہ کی لعنت ہے۔ نہ اس کا فرض مقبول ہے نہ نفل، یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہوجائے۔ (جمع الفوائد ، ص325)
اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ جب دیکھو کہ کاموں کی ذمے داری ایسے لوگوں کے سپرد کردی گئی جو اس کام کے اہل اور قابل نہیں تو (اب اس فساد کا کوئی علاج نہیں) قیامت کا انتظار کرو۔
بحیثیت مسلمان ہم اتنی واضح ہدایات اور سخت تنبیہہ کے باوجود کتنی آسانی سے روزمرہ زندگی میں صبح و شام ان احکامات کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، خصوصاً سرکاری عہدوں پر بیٹھ کر شاید یہ سوچتے ہیں کہ یہ سرکاری عمل ہے حالانکہ اس کا براہ راست تعلق حقوق العباد ہے اور حقوق العباد کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ جب تک متاثرہ بندہ خود معاف نہ کردے اس کی معافی بھی نہیں ہے۔ ذرا سوچیے کہ ایف آئی آر کا درج نہ کرنا کسی پولیس افسر کا سرکاری حق ہے یا یہ حقوق العباد کا معاملہ ہے۔ اسی طرح منصب پر بیٹھ کر کسی سائل کی بات نہ سننے اور اس کو انصاف فراہم نہ کرنا، محض سرکاری یا ادارے کا معاملہ ہے یا حقوق العباد کا معاملہ ہے؟ یہ ڈگریاں لیے گھومتے پڑھے لکھے قابل نوجوان جو محض سفارش اور رشوت نہ دینے کے باعث انٹرویو میں کامیاب نہیں ہوتے کیا یہ حقوق العباد کا معاملہ نہیں؟ کیا روز قیامت یہ انٹرویو لینے والے کا دامن نہیں پکڑیں گے کہ انھیں ان کے حق سے محض سفارش نہ ہونے کے باعث کیوں روکا گیا؟ کیا مختلف عوامی خدمت کے محکموں میں بیٹھے افسران و ذمے داران سے یہ خلق خدا روز قیامت یہ سوال نہ کرے گی کہ کیوں نہ انھیں وہ شہری سہولیات اور حقوق نہ دیے گئے جو ان کے حق تھے۔
کیا ضرورت اس امر کی نہیں ہے کہ اسلام کے ماننے والے اسلام کے حقیقی تصور عدل کو واضح کریں اپنے ذات کے ذریعے بھی اور معاشرے کے ذریعے بھی۔