گوٹہارڈ بیس ٹنل دنیا کی سب سے طویل ریلوے سرنگ کا افتتاح کر دیا گیا
گوٹہارڈ سرنگ کے اوپر ڈھائی کلومیٹر اونچے پہاڑ کا بوجھ ہے۔
''یہ سائنس اور آرٹ کی فتح ہے، ایلپس میں نقب لگا دی ہے، اب ملک قریب آ گئے ہیں، تجارتی منڈی سب کے لیے کُھلی ہے۔'' 1882ء میں سوئٹزرلینڈ میں ایلپس کے پہاڑی سلسلے میں پہلی ریلوے لائن بچھائی گئی تو افتتاحی تقریب کے بعد اُس وقت کے صدر نے اپنے پیغام میں یہ الفاظ ادا کیے تھے۔ 17 سال پہلے سوئٹزر لینڈ نے اِسی پہاڑی سلسلے میں دنیا کی سب سے طویل اور گہری ریلوے سرنگ کی تعمیر کا کام شروع کیا، جو گذشتہ سال جون کے مہینے میں مکمل ہوا اور 11 دسمبر کو سرنگ کا باقاعدہ افتتاح کردیا گیا۔ اس ریلوے سرنگ کا نام گوٹہارڈ ہے جو یورپی ممالک کے درمیان تجارت اور رابطے کا بڑا ذریعہ ثابت ہوگی۔
قدرتی حسن سے مالامال ایلپس کے پہاڑی راستوں سے یورپی ملکوں کے درمیان آمدورفت کا سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ بلند و بالا پہاڑی چوٹیوں اور حسین وادیوں سے مزین ہے۔ ان وادیوں اور گھاٹیوں میں انواع و اقسام کے نباتات، جنگلی حیات، جھیلیں، دریا اور حسین نظارے سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ یورپ کا یہ راستہ زمانۂ قدیم میں بھی اہم تجارتی گزر گاہ رہا ہے۔
تجارت اور معاش کی غرض سے ہی نہیں بلکہ یہ راستے جنگوں کے دوران بھی فوجوں کے زیرِاستعمال رہے۔ ان پہاڑوں اور وادیوں نے انسانوں کے مختلف گروہوں میں خونیں تصادم، لوٹ مار اور قتل و غارت گری بھی دیکھی ہے۔ قدیم زمانے میں انسان اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے گھوڑوں اور خچروں پر سوار ہو کر یہاں سے گزرتا رہا ہے۔ صدیوں پہلے ان راستوں پر مسافروں نے موسم کی سختی کا مقابلہ اور ناگہانی آفات کا سامنا کیا اور اس دوران کئی انسانی جانیں ضایع بھی ہوئیں۔
موجودہ دور میں بھی اس پہاڑی سلسلے کے راستوں کی اہمیت برقرار ہے۔ آج سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت تیزرفتار سواریوں نے دنوں کا سفر گھنٹوں میں سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ 1992ء میں سوئس عوام نے ووٹ کے ذریعے ایلپس میں ایک ہائی اسپیڈ ریل کے منصوبے کی تعمیر کے حق میں فیصلہ دیا تھا جو پچھلے سال مکمل کرلیا گیا۔ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے سوئس حکومت نے ماحولیاتی، تعمیراتی اور مالی چیلنجز کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
ایلپس، دراصل جنوبی وسطی یورپ کا ایک ہزار کلومیٹر سے زائد پر محیط پہاڑی سلسلہ ہے۔ یہ بحیرۂ روم پر اطالوی، فرانسیسی ساحلوں سے شروع ہو کر ویانا کے دریائے ڈینیوب تک دراز ہو جاتا ہے۔ اس کے پہاڑ سلوانیا، آسٹریا، اٹلی، سوئٹزر لینڈ، فرانس اور جرمنی تک پھیلے ہوئے ہیں۔ مذکورہ ملکوں کے لیے اِسی نسبت سے 'ایلپس ممالک' کی اصطلاح برتی جاتی ہے۔
دنیا بھر میں مشہور اس پہاڑی سلسلے کو مشرق اور مغرب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایلپس سلسلے کی مختلف چوٹیاں مہم جوئی اور کوہ پیمائی کا شوق رکھنے والوں میں مشہور ہیں۔ مونٹ بلانک کو اس سلسلے کی سب سے اونچی چوٹی مانا جاتا ہے۔ یہ اٹلی اور فرانس کی سرحد پر واقع ہے۔ اس کے علاوہ میٹر ہارن، ایگر، جینگفراؤ، اورٹلر، پِز برنینا، ڈوم، اوبر اور ٹوڈی بھی بلند چوٹیوں میں شامل ہیں اور کوہ پیماؤں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ ایلپس کے پہاڑی سلسلوں سے کئی دریا بھی نکلتے ہیں جن کا حُسن سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لیتا ہے۔
انہی میں سے ایک مشہور دریا کا نام رائن ہے جو سوئٹزر لینڈ میں اس پہاڑی سلسلے سے نکلتا ہے اور سوئٹزرلینڈ اور فرانس کے بعد جرمنی میں داخل ہوتا ہے۔ یہ دریا نیدرلینڈز سے گزر کر بحیرۂ شمال میں گرتا ہے۔ مختلف ملکوں سے گزرنے والے رائن نامی دریا کے کنارے پر بھی کئی شہر موجود ہیں۔ یہ دریا ایک بڑی جھیل بھی تشکیل دیتا ہے جس کا نام کونسٹنس ہے۔ یہ آسٹریا، سوئٹزرلینڈ اور جرمنی کی سرحد پر واقع جھیل ہے اور اسے جنوب مغربی جرمنی میں پینے کے پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ مانا جاتا ہے۔
ملکوں ملکوں پھیلے اس پہاڑی سلسلے کی خوب صورت وادیوں کا بلندی سے نظارہ کرنے کے لیے مختلف مقامات پر لکڑی اور شیشے کے مضبوط پُل اور بلند چبوترے تعمیر کیے گئے ہیں۔ یہاں مقامی لوگوں کے علاوہ غیر ملکی سیاح بھی قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے لیے آتے ہیں۔ بعض ملکوں میں ان پہاڑی سلسلوں کی دو چوٹیوں کے درمیان ماہر لوگ رسی پر چلنے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ نظارہ دم بخود کردینے والا ہوتا ہے۔ اس خطرناک کھیل میں توازن اور یک سوئی کا بڑا دخل ہے اور ذرا سی غفلت سیکڑوں فٹ گہری کھائی میں گرا سکتی ہے۔
مختلف ممالک کی حدود میں واقع ایلپس کے پہاڑی سلسلے میں سرنگیں اور درّے تعمیر کرنے کا کام دورِ جدید میں سائنسی آلات اور بھاری مشینوں کی مدد سے نہایت آسان اور محفوظ ہو گیا ہے۔ پچھلے سال کا آخری مہینہ گوٹہارڈ بیس ٹنل کے افتتاح سے یادگار بن گیا۔ دنیا کی سب سے بڑی ریلوے سرنگ کا افتتاح سوئٹزرلینڈ کے صدر نے کیا۔ اس موقع پر وہاں موجود دو ریل گاڑیوں میں پانچ پانچ سو مسافروں نے پہلی مرتبہ سرنگ کے راستے سفر کیا۔ ان مسافروں میں جرمنی کی چانسلر انگیلا میرکل، فرانسیسی صدر فرانسو اولانڈ اور اٹلی کے وزیرِاعظم ماتیو رینزی بھی شامل تھے۔
یہ سرنگ شمالی اور جنوبی یورپ کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ اس ریل منصوبے کو یورپ میں بہت اہمیت دی جارہی ہے۔ 57 کلومیٹر طویل اس سرنگ پر 12 ارب ڈالر سے زیادہ لاگت آئی ہے۔ اس سے قبل دنیا کی طویل ترین سرنگ جاپان کی سائیکان ٹنل تھی جو 53.9 کلومیٹر طویل ہے۔ یہ سرنگ دو جاپانی جزائر کو ٹرین کے ذریعے ایک دوسرے سے ملاتی ہے۔
گوٹہارڈ سرنگ کا تصور سب سے پہلے 1947ء میں پیش کیا گیا تھا۔ یہ آئیڈیا سوئٹزر لینڈ کے ایک انجینئر کا تھا۔ اس ٹنل کا ایک مقصد جرمنی، اٹلی اور سوئٹزرلینڈ کے بڑے صنعتی شہروں کو ایک دوسرے سے جوڑنا اور فاصلہ کم سے کم کرنا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس سوئس ٹنل کی وجہ سے مال بردار ٹرینوں کے ذریعے سامان کی ترسیل 2030ء تک دگنی ہو سکتی ہے اور یہ تجارت کا اہم ذریعہ ثابت ہو گی۔
سوئس حکام کا کہنا ہے کہ اس سرنگ کی وجہ سے یورپ میں مال برداری کے میدان میں انقلاب آ جائے گا۔ آج بھی اٹلی، ہالینڈ، جرمنی کے علاوہ چین اور انڈیا کا ہزاروں ٹن مال انہی راستوں سے گزرتا ہے۔ تاہم راستے اور نقل و حمل کے ذرایع پرانے ہوچکے ہیں اور اس پہاڑی سلسلے میں تیز رفتار سفری نظام متعارف کروایا جارہا ہے۔
گوٹہارڈ سرنگ کے اوپر ڈھائی کلومیٹر اونچے پہاڑ کا بوجھ ہے اور اس بوجھ کو سہارنے کے لیے سرنگ کی چھتوں میں مضبوط اسٹیل کے شہتیر ڈالے گئے ہیں۔ اس سرنگ پر چوبیس گھنٹے کام جاری رہا اور اس میں دو ہزار سے زائد افراد نے شریک رہے۔ اس دوران حادثات میں نو مزدور بھی اپنی جانوں سے گئے۔ یہاں دوڑنے والی ٹرینوں کی رفتار ڈھائی سو کلومیٹر فی گھنٹہ ہوگی۔ ماہرین کے مطابق جس راستے پر پٹڑی بچھائی گئی ہے وہ ہم وار اور سیدھا ہے۔ گوٹہارڈ کے علاوہ کاروں اور ٹرینوں کی آمدورفت کے لیے کئی کلومیٹر طویل مشہور سرنگوں میں جاپان کی سائیکان بھی شامل ہے۔ یہ 53.9 کلومیٹر طویل ہے اور 1988ء سے استعمال کی جارہی ہے۔
50 کلومیٹر سے زائد طویل یورو ٹنل، فرانس اور برطانیہ میں رابطے کا ذریعہ بنی۔ یہ 1994ء میں آمدورفت کے لیے کھولی گئی تھی۔ جنوبی کوریا نے 50 کلومیٹر طویل یلہییون نامی زمین دوز راستے کا افتتاح 2015ء میں کیا تھا۔ سوئٹزرلینڈ ہی کی 34.6 کلومیٹر طویل لوشبرگ بیس سرنگ بھی دنیا میں مشہور ہے۔ یہ 2007ء سے آمدورفت کے لیے استعمال ہورہی ہے۔
قدرتی حسن سے مالامال ایلپس کے پہاڑی راستوں سے یورپی ملکوں کے درمیان آمدورفت کا سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ بلند و بالا پہاڑی چوٹیوں اور حسین وادیوں سے مزین ہے۔ ان وادیوں اور گھاٹیوں میں انواع و اقسام کے نباتات، جنگلی حیات، جھیلیں، دریا اور حسین نظارے سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ یورپ کا یہ راستہ زمانۂ قدیم میں بھی اہم تجارتی گزر گاہ رہا ہے۔
تجارت اور معاش کی غرض سے ہی نہیں بلکہ یہ راستے جنگوں کے دوران بھی فوجوں کے زیرِاستعمال رہے۔ ان پہاڑوں اور وادیوں نے انسانوں کے مختلف گروہوں میں خونیں تصادم، لوٹ مار اور قتل و غارت گری بھی دیکھی ہے۔ قدیم زمانے میں انسان اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے گھوڑوں اور خچروں پر سوار ہو کر یہاں سے گزرتا رہا ہے۔ صدیوں پہلے ان راستوں پر مسافروں نے موسم کی سختی کا مقابلہ اور ناگہانی آفات کا سامنا کیا اور اس دوران کئی انسانی جانیں ضایع بھی ہوئیں۔
موجودہ دور میں بھی اس پہاڑی سلسلے کے راستوں کی اہمیت برقرار ہے۔ آج سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت تیزرفتار سواریوں نے دنوں کا سفر گھنٹوں میں سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ 1992ء میں سوئس عوام نے ووٹ کے ذریعے ایلپس میں ایک ہائی اسپیڈ ریل کے منصوبے کی تعمیر کے حق میں فیصلہ دیا تھا جو پچھلے سال مکمل کرلیا گیا۔ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے سوئس حکومت نے ماحولیاتی، تعمیراتی اور مالی چیلنجز کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
ایلپس، دراصل جنوبی وسطی یورپ کا ایک ہزار کلومیٹر سے زائد پر محیط پہاڑی سلسلہ ہے۔ یہ بحیرۂ روم پر اطالوی، فرانسیسی ساحلوں سے شروع ہو کر ویانا کے دریائے ڈینیوب تک دراز ہو جاتا ہے۔ اس کے پہاڑ سلوانیا، آسٹریا، اٹلی، سوئٹزر لینڈ، فرانس اور جرمنی تک پھیلے ہوئے ہیں۔ مذکورہ ملکوں کے لیے اِسی نسبت سے 'ایلپس ممالک' کی اصطلاح برتی جاتی ہے۔
دنیا بھر میں مشہور اس پہاڑی سلسلے کو مشرق اور مغرب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایلپس سلسلے کی مختلف چوٹیاں مہم جوئی اور کوہ پیمائی کا شوق رکھنے والوں میں مشہور ہیں۔ مونٹ بلانک کو اس سلسلے کی سب سے اونچی چوٹی مانا جاتا ہے۔ یہ اٹلی اور فرانس کی سرحد پر واقع ہے۔ اس کے علاوہ میٹر ہارن، ایگر، جینگفراؤ، اورٹلر، پِز برنینا، ڈوم، اوبر اور ٹوڈی بھی بلند چوٹیوں میں شامل ہیں اور کوہ پیماؤں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ ایلپس کے پہاڑی سلسلوں سے کئی دریا بھی نکلتے ہیں جن کا حُسن سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لیتا ہے۔
انہی میں سے ایک مشہور دریا کا نام رائن ہے جو سوئٹزر لینڈ میں اس پہاڑی سلسلے سے نکلتا ہے اور سوئٹزرلینڈ اور فرانس کے بعد جرمنی میں داخل ہوتا ہے۔ یہ دریا نیدرلینڈز سے گزر کر بحیرۂ شمال میں گرتا ہے۔ مختلف ملکوں سے گزرنے والے رائن نامی دریا کے کنارے پر بھی کئی شہر موجود ہیں۔ یہ دریا ایک بڑی جھیل بھی تشکیل دیتا ہے جس کا نام کونسٹنس ہے۔ یہ آسٹریا، سوئٹزرلینڈ اور جرمنی کی سرحد پر واقع جھیل ہے اور اسے جنوب مغربی جرمنی میں پینے کے پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ مانا جاتا ہے۔
ملکوں ملکوں پھیلے اس پہاڑی سلسلے کی خوب صورت وادیوں کا بلندی سے نظارہ کرنے کے لیے مختلف مقامات پر لکڑی اور شیشے کے مضبوط پُل اور بلند چبوترے تعمیر کیے گئے ہیں۔ یہاں مقامی لوگوں کے علاوہ غیر ملکی سیاح بھی قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے لیے آتے ہیں۔ بعض ملکوں میں ان پہاڑی سلسلوں کی دو چوٹیوں کے درمیان ماہر لوگ رسی پر چلنے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ نظارہ دم بخود کردینے والا ہوتا ہے۔ اس خطرناک کھیل میں توازن اور یک سوئی کا بڑا دخل ہے اور ذرا سی غفلت سیکڑوں فٹ گہری کھائی میں گرا سکتی ہے۔
مختلف ممالک کی حدود میں واقع ایلپس کے پہاڑی سلسلے میں سرنگیں اور درّے تعمیر کرنے کا کام دورِ جدید میں سائنسی آلات اور بھاری مشینوں کی مدد سے نہایت آسان اور محفوظ ہو گیا ہے۔ پچھلے سال کا آخری مہینہ گوٹہارڈ بیس ٹنل کے افتتاح سے یادگار بن گیا۔ دنیا کی سب سے بڑی ریلوے سرنگ کا افتتاح سوئٹزرلینڈ کے صدر نے کیا۔ اس موقع پر وہاں موجود دو ریل گاڑیوں میں پانچ پانچ سو مسافروں نے پہلی مرتبہ سرنگ کے راستے سفر کیا۔ ان مسافروں میں جرمنی کی چانسلر انگیلا میرکل، فرانسیسی صدر فرانسو اولانڈ اور اٹلی کے وزیرِاعظم ماتیو رینزی بھی شامل تھے۔
یہ سرنگ شمالی اور جنوبی یورپ کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ اس ریل منصوبے کو یورپ میں بہت اہمیت دی جارہی ہے۔ 57 کلومیٹر طویل اس سرنگ پر 12 ارب ڈالر سے زیادہ لاگت آئی ہے۔ اس سے قبل دنیا کی طویل ترین سرنگ جاپان کی سائیکان ٹنل تھی جو 53.9 کلومیٹر طویل ہے۔ یہ سرنگ دو جاپانی جزائر کو ٹرین کے ذریعے ایک دوسرے سے ملاتی ہے۔
گوٹہارڈ سرنگ کا تصور سب سے پہلے 1947ء میں پیش کیا گیا تھا۔ یہ آئیڈیا سوئٹزر لینڈ کے ایک انجینئر کا تھا۔ اس ٹنل کا ایک مقصد جرمنی، اٹلی اور سوئٹزرلینڈ کے بڑے صنعتی شہروں کو ایک دوسرے سے جوڑنا اور فاصلہ کم سے کم کرنا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس سوئس ٹنل کی وجہ سے مال بردار ٹرینوں کے ذریعے سامان کی ترسیل 2030ء تک دگنی ہو سکتی ہے اور یہ تجارت کا اہم ذریعہ ثابت ہو گی۔
سوئس حکام کا کہنا ہے کہ اس سرنگ کی وجہ سے یورپ میں مال برداری کے میدان میں انقلاب آ جائے گا۔ آج بھی اٹلی، ہالینڈ، جرمنی کے علاوہ چین اور انڈیا کا ہزاروں ٹن مال انہی راستوں سے گزرتا ہے۔ تاہم راستے اور نقل و حمل کے ذرایع پرانے ہوچکے ہیں اور اس پہاڑی سلسلے میں تیز رفتار سفری نظام متعارف کروایا جارہا ہے۔
گوٹہارڈ سرنگ کے اوپر ڈھائی کلومیٹر اونچے پہاڑ کا بوجھ ہے اور اس بوجھ کو سہارنے کے لیے سرنگ کی چھتوں میں مضبوط اسٹیل کے شہتیر ڈالے گئے ہیں۔ اس سرنگ پر چوبیس گھنٹے کام جاری رہا اور اس میں دو ہزار سے زائد افراد نے شریک رہے۔ اس دوران حادثات میں نو مزدور بھی اپنی جانوں سے گئے۔ یہاں دوڑنے والی ٹرینوں کی رفتار ڈھائی سو کلومیٹر فی گھنٹہ ہوگی۔ ماہرین کے مطابق جس راستے پر پٹڑی بچھائی گئی ہے وہ ہم وار اور سیدھا ہے۔ گوٹہارڈ کے علاوہ کاروں اور ٹرینوں کی آمدورفت کے لیے کئی کلومیٹر طویل مشہور سرنگوں میں جاپان کی سائیکان بھی شامل ہے۔ یہ 53.9 کلومیٹر طویل ہے اور 1988ء سے استعمال کی جارہی ہے۔
50 کلومیٹر سے زائد طویل یورو ٹنل، فرانس اور برطانیہ میں رابطے کا ذریعہ بنی۔ یہ 1994ء میں آمدورفت کے لیے کھولی گئی تھی۔ جنوبی کوریا نے 50 کلومیٹر طویل یلہییون نامی زمین دوز راستے کا افتتاح 2015ء میں کیا تھا۔ سوئٹزرلینڈ ہی کی 34.6 کلومیٹر طویل لوشبرگ بیس سرنگ بھی دنیا میں مشہور ہے۔ یہ 2007ء سے آمدورفت کے لیے استعمال ہورہی ہے۔