سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے مثبت اشارہ
عالمی بینک کو چاہیے کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈال کر اسے مذاکرات کی میز پر لائے
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے جمعرات کو سندھ طاس معاہدے سے متعلق بین الوزارتی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ سندھ طاس معاہدہ پانی کی تقسیم کا مفید اور آزمودہ میکنزم ہے' پاکستان اس معاہدہ کے تحت اپنی ذمے داریاں پوری کرتا رہے گا۔ اس موقع پر ورلڈ بینک میں پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ناصر محمود کھوسہ نے اجلاس کو بریفنگ دی اور امید ظاہر کی کہ عالمی بینک سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے اپنے کردار سے آگاہ اور وہ معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے تعمیری کردار ادا کرے گا۔
جہاں تک سندھ طاس معاہدہ پر ذمے داریاں پوری کرنے کا تعلق ہے تو پاکستان نے آج تک اس سلسلے میں کبھی کوئی مسئلہ پیدا نہیں کیا اور نہ بھارت ہی کو اس سلسلے میں کبھی شکایت کا موقع ملا۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آنے والے دریائے جہلم اور چناب مقبوضہ کشمیر سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں جن پر بھارت کو کنٹرول حاصل ہے۔ بھارت اس جغرافیائی صورت حال کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے گزشتہ کچھ عشروں سے ان دریاؤں پر ڈیم تعمیر کر رہا نتیجتاً ان دریاؤں سے پاکستان میں پہلے کی نسبت پانی میں کمی آ رہی ہے جس کے باعث یہاں پانی کا بحران جنم لیتا نظر آ رہا ہے۔
کچھ عرصہ قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے اور پاکستان کا پانی روکنے کی دھمکی دے ڈالی۔ بھارت کے ان جارحانہ عزائم کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے عالمی بینک کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اسے بطور ثالث اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا کیونکہ عالمی بینک سندھ طاس معاہدے کا ضامن ہے۔ لہٰذا عالمی بینک کو اس معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ بھارت کے جارحانہ اور غیر ذمے دارانہ رویے سے یہ عیاں ہو چکا کہ وہ اس عالمی معاہدے کی کھلم کھلا دھجیاں اڑا رہا ہے دوسری جانب جو افسوسناک صورت حال سامنے آئی ہے کہ عالمی بینک بھی اپنا موثر کردار ادا کرنے کے بجائے پاکستان اور بھارت کو یہ معاملہ باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دے رہا ہے۔
عالمی بینک کو چاہیے کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈال کر اسے مذاکرات کی میز پر لائے اور معاہدے کے مطابق ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے اس مسئلے کا مناسب حل نکالے مگر تاحال اس نے اس سے گریز کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ پاکستان تو بھارت کو مذاکرات کی بار بار دعوت دے رہا ہے لیکن وہ اس طرف آنے کے بجائے سندھ طاس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے۔
بھارت کو بھی ادراک ہو چکا ہے کہ عالمی بینک' اقوام متحدہ اور بڑی قوتیں اس کے ہر جارحانہ رویے پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں کیونکہ عالمی طاقتوں کے تجارتی اور علاقائی مفادات بھارت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس تناظر میں صورت حال کافی پیچیدہ ہو چکی ہے۔ پاکستان کو مستقبل میں پیدا ہونے والے پانی کے بحران پر قابو پانے کے لیے ابھی سے ڈیموں کی تعمیر پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورمز پر سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے بھارت کے جارحانہ رویے پر بھرپور طور پر احتجاج کرنا چاہیے اور عالمی بینک سے یہ کہا جائے کہ وہ بطور ضامن اپنا کردار ادا کرے۔ بہرحال اگر عالمی بینک کی جانب سے مثبت اشارہ ملا ہے تو یہ خوش آیند ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں عالمی بینک اپنا مثبت کردار ادا کرے گا۔
جہاں تک سندھ طاس معاہدہ پر ذمے داریاں پوری کرنے کا تعلق ہے تو پاکستان نے آج تک اس سلسلے میں کبھی کوئی مسئلہ پیدا نہیں کیا اور نہ بھارت ہی کو اس سلسلے میں کبھی شکایت کا موقع ملا۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آنے والے دریائے جہلم اور چناب مقبوضہ کشمیر سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں جن پر بھارت کو کنٹرول حاصل ہے۔ بھارت اس جغرافیائی صورت حال کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے گزشتہ کچھ عشروں سے ان دریاؤں پر ڈیم تعمیر کر رہا نتیجتاً ان دریاؤں سے پاکستان میں پہلے کی نسبت پانی میں کمی آ رہی ہے جس کے باعث یہاں پانی کا بحران جنم لیتا نظر آ رہا ہے۔
کچھ عرصہ قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے اور پاکستان کا پانی روکنے کی دھمکی دے ڈالی۔ بھارت کے ان جارحانہ عزائم کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے عالمی بینک کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اسے بطور ثالث اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا کیونکہ عالمی بینک سندھ طاس معاہدے کا ضامن ہے۔ لہٰذا عالمی بینک کو اس معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ بھارت کے جارحانہ اور غیر ذمے دارانہ رویے سے یہ عیاں ہو چکا کہ وہ اس عالمی معاہدے کی کھلم کھلا دھجیاں اڑا رہا ہے دوسری جانب جو افسوسناک صورت حال سامنے آئی ہے کہ عالمی بینک بھی اپنا موثر کردار ادا کرنے کے بجائے پاکستان اور بھارت کو یہ معاملہ باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دے رہا ہے۔
عالمی بینک کو چاہیے کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈال کر اسے مذاکرات کی میز پر لائے اور معاہدے کے مطابق ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے اس مسئلے کا مناسب حل نکالے مگر تاحال اس نے اس سے گریز کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ پاکستان تو بھارت کو مذاکرات کی بار بار دعوت دے رہا ہے لیکن وہ اس طرف آنے کے بجائے سندھ طاس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے۔
بھارت کو بھی ادراک ہو چکا ہے کہ عالمی بینک' اقوام متحدہ اور بڑی قوتیں اس کے ہر جارحانہ رویے پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں کیونکہ عالمی طاقتوں کے تجارتی اور علاقائی مفادات بھارت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس تناظر میں صورت حال کافی پیچیدہ ہو چکی ہے۔ پاکستان کو مستقبل میں پیدا ہونے والے پانی کے بحران پر قابو پانے کے لیے ابھی سے ڈیموں کی تعمیر پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورمز پر سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے بھارت کے جارحانہ رویے پر بھرپور طور پر احتجاج کرنا چاہیے اور عالمی بینک سے یہ کہا جائے کہ وہ بطور ضامن اپنا کردار ادا کرے۔ بہرحال اگر عالمی بینک کی جانب سے مثبت اشارہ ملا ہے تو یہ خوش آیند ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں عالمی بینک اپنا مثبت کردار ادا کرے گا۔