تیسری جنگ عظیم کا جھانسا

ایک سپرپاور چین مشرق میں طلوع ہورہا ہےاور دوسرا بزرگ سپرپاور امریکا مغرب بادل نخواستہ ہی سہی آہستہ آہستہ غروب ہورہا ہے

دنیا 2016 سے 2017 میں داخل ہوچکی ہے، ایک سپرپاور چین مشرق میں طلوع ہورہا ہے اور دوسرا بزرگ سپرپاور امریکا مغرب بادل نخواستہ ہی سہی آہستہ آہستہ غروب ہورہا ہے۔ آثار بتا رہے ہیں اسی سال امریکا اور چین کے درمیان جنوبی چین کے سمندر میں چارج دینے اور چارج لینے کی رسم ادا کی جائے گی۔ سوال یہ ہے کیا تیسری جنگ عظیم کے بعد یا اس سے پہلے؟

آج چین نہیں چاہتا، جنوبی چین کے سمندر بشمول بحر ہند پر امریکا کا تسلط برقرار رہے، جہاں سے سالانہ 5 کھرب ڈالرکا تجارتی سامان شمالی افریقہ، مشرق وسطیٰ اور یورپی منڈیوں میں بھیجا جاتا ہے۔ جواباً امریکا بھی جنوبی چین کے سمندر اپنے پرانے حلیف فلپائن کو آگے رکھ کر (جس کا چین سے چند جزیروں کی ملکیت پر براہ راست تنازعہ ہے) اور بحر ہند میں بھارت کو خطے کا تھانیدار بنانے کا جھانسا دے کر چین سے دو دو ہاتھ کرنے کو تیار نظر آتا ہے، جس کے لیے وہ اپنی 60 فیصد بحری فوج اس خطے میں جمع کر رہا ہے۔ نتیجتاً جو صف بندی وجود میں آئی ہے، وہ درج ذیل ہے۔

A۔ چین، روس اور پاکستان۔B۔ امریکا، فلپائن، بھارت، جاپان، ویت نام، جنوبی کوریا وغیرہ۔

چین، روس اور پاکستان کیونکہ دفاعی پوزیشن میں ہیں، اس لیے ان کو جارحانہ کارروائی کے خلاف ہر حال میں اپنا دفاع کرنا ہے، چاہے وہ سات سمندر پار سے آنے والے دشمن امریکا کی طرف سے ہو یا ان کے پڑوسی فلپائن اور بھارت کی طرف سے۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ آیا تیسری جنگ عظیم کا غبارہ فضا میں بلند ہوگا بھی یا اس سے پہلے ہی ہوا نکل جائے گی۔

فلپائن: جولائی 2016 میں موجودہ فلپائن کے صدر نے اپنے عہدے کا چارج لیا اور آتے ہی امریکی صدر اوباما کو ''بازاری عورت کا بیٹا'' کہہ کر مخاطب کیا، نہ صرف یہ بلکہ امریکا کو دھمکی دی کہ چین سے دوستانہ تعلقات بھی پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ نہ صرف دھمکی دی بلکہ عملی اقدامات بھی شروع کردیے۔ اس کو کہتے ہیں جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔ یہ تیسری جنگ عظیم کے غبارے کا پہلا پنکچر ہے۔

بھارت: اس وقت نریندر مودی بھارت کے وزیراعظم ہیں، جو ہندوتوا کے حامی ہیں اور بھارت کو ہندو ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ وہ دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت کے دشمن ہیں، جس نے 70 سال سے بھارت کے درجنوں مذاہب کے ماننے والوں، بیسیوں زبانیں بولنے والوں کو ایک کنبے کی طرح جوڑ رکھا ہے۔ وہ RSS جیسی کٹر ہندو انتہاپسند جماعت کے کارکن ہیں، جس نے گؤ ہتھیا کے نام پر مسلم، عیسائی اور دلت اقلیتوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی گائے کے تقدس، اس کے پیشاب کی حرمت اور اس کے گوبر کی افادیت کے پرچارک ہیں۔

متعصب انسان سے دو صلاحیتیں چھن جاتی ہیں، گہرائی فکر اور وسعت نظر۔ وہ مسائل کو سطحی سوچ اور تنگ نظری سے حل کرنے کی کوشش کرتا ہے، مسائل سلجھنے کے بجائے الجھنے لگتے ہیں۔ اس وقت اندرون ملک گؤ ہتھیا کے نام پر تشدد کرنے سے، گھر واپسی کے نام پر اقلیتوں کو زبردستی ہندو مذہب اختیار کرنے پر مجبور کرنے سے، اور اچانک بینکوں کو اطلاع دیے بغیر ہزار اور پانچ سو کے نوٹ بند کرکے دو ہزار کے نوٹ کے اجرا کا اعلان کردینے سے خلفشار مچا ہوا ہے۔ یہاں میں صرف ایک اہم مسئلے پر تفصیل سے روشنی ڈالوں گا، جس کا پاکستان سے براہ راست تعلق ہے۔


1۔ ایک طرف بھارتی وزیراعظم مودی کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت دینے کے بجائے کشمیر کی 70 سال سے جاری خصوصی حیثیت کو ختم کرکے، بھارت میں شامل کرنے کا عندیہ دے کرکشمیری عوام کو بھڑکا رہا ہے۔

نوجوان نسل سڑکوں پر آگئی، بزرگ قیادت کو حکومت نے گھروں میں محصورکردیا۔ برہان وانی کے قتل نے جلتی پر تیل کا کام کیا، طویل ترین کرفیو نافذ ہوا، جو اتنا سخت تھا کہ عید کی نماز کا وقفہ تک نہیں دیا گیا۔ جلسوں، جلوسوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ کھلے بندوں پاکستانی پرچم لہرانے لگے، شہیدوں کی نماز جنازہ پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر ادا کی جانے لگی۔ گویا اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق عوامی ریفرنڈم جاری ہوگیا، جس کو دنیا دیکھ رہی ہے۔ پیلٹ گن کے چھروں سے تقریباً سو نوجوان اندھے ہوچکے ہیں، اتنے ہی شہید ہوچکے ہیں۔ جلوسوں اور شہادتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ لگتا ہے یہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ کشمیری عوام بھارت کی غلامی سے آزاد نہیں ہو جاتے۔

2۔ دوسری طرف مودی نے پاکستان کو دریاؤں کا پانی بند کرکے پیاسا مارنے کی دھمکی دے ڈالی، جو سندھ طاس بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ ان کو یہ اندازہ ہی نہیں ہے کہ 20 کروڑ عوام کو پیاسا مارنے کی دھمکیوں کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ایک بھوکا اگر روٹی نہ ملے تو روٹی کے لیے قانون توڑ سکتا ہے، تو 20 کروڑ پیاسے عوام کیا نہیں کرسکتے؟ برداشت کا بند ٹوٹنے کی دیر ہے، دریا کے بند کی کیا حیثیت ہے؟ ایک میزائل کی مار ہوتا ہے۔ ایک دراڑ کافی ہے، باقی کام دریا خود کرلیتا ہے، بھارت کو سیلاب میں ڈبو سکتا ہے تو پاکستان کو سیراب بھی کرسکتا ہے۔

3۔ تیسری طرف مودی مہاراج نے پاکستان چین اقتصادی راہداری پر اعتراض کرکے کہ وہ غیر قانونی ہے کیونکہ متنازعہ علاقے سے گزر رہی ہے، پاکستان سمیت چین، روس کو بھی مشتعل کردیا ہے۔ شاہراہ ریشم عشروں سے رواں دواں ہے لیکن کسی بھارتی وزیراعظم نے اعتراض نہیں کیا۔ ایشیا کی چار ایٹمی طاقتوں میں سے جن کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں، کشمیر کے مسئلے پر تین ایٹمی طاقتیں (چین، روس ، پاکستان) ایک پیج پر آگئی ہیں اور بھارت تنہا کھڑا ہے۔ یاد رہے پاکستان کو دھمکی کے جواب میں چین نے ہمالیہ سے آنے والے دریا کا پانی (مرمت کے بہانے) روک کر ایک ہلکا سا جھٹکا دیا ہے۔

امریکا: کھربوں سال قبل فضا میں ایک عظیم دھماکا (Big Bang) ہوا اور دنیا وجود میں آئی۔ 2016 میں دنیا میں دوسرا عظیم دھماکا ہوا اور امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوگئے۔ دنیا تو یقین کرنے پر تیار ہی نہیں تھی، وہ تو اللہ بھلا کرے امریکی عوام سراپا احتجاج سڑکوں پر آگئے، توڑ پھوڑ، لوٹ مار، جلاؤ گھیراؤ ہوا، تب دنیا والوں کو یقین آیا کہ امریکا میں جو صدر منتخب ہوا ہے وہ ڈونلڈ ٹرمپ ہی ہوسکتا ہے۔

انتخابات سے پہلے ٹرمپ کی وجہ شہرت یہ تھی کہ وہ انتہائی متعصب، ٹیکس چور، سیاہ فام امریکیوں اور مسلمانوں سے نفرت کرنے والے، عورتوں سے شرارتاً دست درازی کے شوقین ہیں۔ انتخابات کے بعد جو سنسنی خیز انکشافات ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں کہ روس نے ان کے انتخابی عمل کو ہیک کرکے ان کی مدد کی، روس میں ان کا کاروبار چل رہا ہے۔ وہ ماضی میں روس کا دورہ بھی کرچکے ہیں۔ CIA کو خدشہ ہے کہ روسی خفیہ ایجنسی نے ایسی فلم بنائی ہو جس سے مسٹر ٹرمپ کو بلیک میل کیا جاسکتا ہے، وغیرہ۔ غور کیجیے یہ سارے انکشافات صدارت کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے کے ہیں۔ 20 جنوری کو امریکی صدارت کا چارج لیں گے۔ ایسے انتہائی ناقابل قیاس (Most Unpredictable) شخص پر مزید تبصرے سے معذرت۔

آخری سوال یہ ہے کہ اب تیسری جنگ عظیم کے غبارے کا کیا بنے گا؟ اس میں تو مینوفیکچرنگ فالٹ نکل آیا۔ہراول دستے کے سرغنہ فلپائن کے صدر روڈریگو نے چین سے دوستی کرلی۔ امریکی صدر ٹرمپ (سرپرست اعلیٰ) روسی صدر کے گہرے دوست نکلے۔ چین اور روس میں تو پہلے ہی برادرانہ تعلقات ہیں۔ ایشیا کی چار ایٹمی طاقتوں میں سے تین ایٹمی طاقتیں چین، روس، پاکستان ایک پیج پر ہیں اور بھارت امریکی اسلحے کا دوسرا بڑا خریدار، ڈھیروں روایتی اسلحے کے ساتھ تنہا کھڑا ہے لیکن بھگوان کی کرپا سے نریندر مودی آزاد ہیں کہ وہ گائے کے تقدس، اس کے پیشاب کی حرمت اور اس کے گوبر کی افادیت کا دل کھول کر پرچار کریں۔
Load Next Story