امریکا سے آسٹریا تک قوم پسندوں کا عروج
دنیا بھر میں اپنے ملک وقوم پر بے جا تفاخر وغرور کا بڑھتا رجحان بنی نوع انسان کو تصادم کی راہ پہ ڈال سکتا ہے
بھارتی پنجاب میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کچھ عرصہ قبل بھارتی وزیراعظم،نریندر مودی نے اشتعال انگیز بیان داغا کہ وہ اپنے دریاؤں کی ایک بوند بھی پاکستان نہیں جانے دیں گے۔یہ ایک قوم پرست لیڈر کا مخصوص اندازِفکر ہے۔مودی قوم پرستی کی لہر کے سہارے اقتدار تک پہنچے۔ مسلمانوں کی مخالف قوم پرست جماعت، آر ایس ایس کے سکّہ بند لیڈر ہیں۔ اب وہ بھارت کو ''ہندوستان'' میں بدلنا چاہتے ہیں جہاں اقلیتوں کو ہندو اکثریت کے سامنے سر جھکانا ہوگا۔ قوم پرست لیڈر ہونے کے باعث جنگجو مودی اکثر پاکستان، چین اور دیگر پڑوسیوں کو دھمکیاں دیتے ہیں۔ تصادم اور جنگجوئی ہی سے قوم پرست جماعتیں پھلتی پھولتی ہیں۔
ہم جس دیس میں جنم لیں، اس سے الفت رکھنا فطری امر ہے۔ ہم بہ رضا و رغبت اپنے دیس کی روایات اور رسوم و رواج اپنا لیتے اور اسے ترقی دینے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ مثبت رویّہ اصطلاح میں ''وطن پرستی'' (Patriotism) کہلاتا ہے۔ لیکن جب وطن سے محبت اتنی زیادہ بڑھ جائے کہ ہم اس کی خامیوں کو بھی خوبیاں کہنے پر اصرار کریں اور اپنے دیس کی خاطر غیر ملکیوں کو مارنے پر تل جائیں، تو یہ جذبہ منفی چولا پہن لیتا ہے۔ ایسا شخص اپنی قوم و نسل پر بے جا تفاخر کرتا اور اسے تمام اقوام میں اعلیٰ و برتر سمجھتا ہے۔ یوں وہ ایک خطرناک رویّے میں گرفتار ہوجاتا ہے جسے ماہرین نے ''قوم پرستی'' (Nationalism) کا نام دیا۔
تاریخ انسانی عیاں کرتی ہے کہ جیّد و باشعور دماغوں نے قوم پرستی کو مفید اور انسان دوست قرار نہیں دیا ۔ مثال کے طور پر مشہور برطانوی ڈراما نگار جارج برنارڈ شا کا کہنا ہے :''قوم پرستی بنیادی طور پر یہ تصّور ہے کہ فلاں ملک دنیا میں سب سے زیادہ اعلیٰ ہے کیونکہ میں وہاں پر پیدا ہوا۔'' اسی طرح ایک اور ممتاز برطانوی ادیب، آسکر وائلڈ نے کہا :''قوم پسندی ظالم و شیطان کی خوبی ہے۔''آرتھر شوپنہار مشہور جرمن فلسفی گزرا ہے۔ اس نے قوم پسندی کی تعریف کچھ یوں کی: ''جب کسی احمق و بے وقوف کے پاس فخر کرنے کی کوئی شے نہیں بچتی تو وہ بطور آخری چارہ کار قوم پرستی کا جھنڈا بلند کردیتا ہے۔ تب وہ بخوشی اور رضا مندی سے اپنی قوم کی تمام خرابیوں اور ناکامیوں کا دفاع کرتے ہوئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا اور یوں اپنے ہاتھوں اپنی تباہی و بربادی کا سبب بنتا ہے۔''
قوم پرستی کی تمام تر خامیوں کے باوجود حیرت ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک میں یہ سیاسی و معاشرتی نظریہ مقبول ہوچکا۔ اس کی حالیہ مثال امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ہیں۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں سبھی غیر ملکیوں کو نشانہ بنایا اور ''امریکا کوپھر عظیم بناؤ'' (Make America Great Again) کا نعرہ لگایا۔ چناں چہ چھ کروڑ سے زائد امریکی ان کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے۔ماضی میں بھی امریکی صدارتی الیکشن کے مواقع پر قوم پرستانہ نظریات کا چرچا رہا، لیکن ٹرمپ نے انہیں جس شدت و دیوانگی سے اختیار کیا، اس کی مثال پہلے نظر نہیں آتی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ کی قوم پرستی امریکیوں اور غیر ملکیوں کے لیے کیا گل کھلاتی ہے۔
ٹرمپ کی کامیابی سے دنیا بھر میں ان لیڈروں کو تقویت ملی جو اپنے اپنے ملک میں قوم پرستی کا علم بلند کیے ہوئے ہیں۔یورپ میں خصوصاً قوم پسندی کے نئے دور نے براعظم میں مسلمانوں کی بڑھتی تعداداور معاشی بحران کے باعث جنم لیا۔حالیہ چند برس میں لاکھوں مسلم تارکین وطن کی آمد نے کئی یورپی ممالک میں قوم پسندی کا عجوبہ پیدا کر ڈالا۔ان ممالک میں یہ احساس عام ہو چکا کہ مہاجرین اور تارکین وطن مقامی لوگوں سے روزگار اور ان کی اقدار چھین کر یورپ میں اپنی تہذیب ومعاشرت پروان چڑھا رہے ہیں۔
اہم یورپی ملک برطانیہ میں قوم پرست یوکے انڈی پینڈینس پارٹی کا لیڈر، نیل فراج یہی نظریات رکھتا ہے ۔ یہ نیل فراج ہی ہے جس کی پروپیگنڈا مہم اور تقریروں نے ''برایگزٹ'' (Brexit) کو جنم دیا یعنی برطانیہ نے یورپی یونین کو خیرباد کہہ دیا۔ جناب نیل نے ٹرمپ کی فتح پر ازحد اظہار مسّرت کیا۔ تقریباً تمام یورپی قوم پرست لیڈروں کی طرح نیل بھی مسلمان پناہ گزینوں اور مہاجرین کا سخت مخالف ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ برطانیہ میں مقیم مسلمانوں کی اکثریت اپنی تہذیب و ثقافت چھوڑنے کو تیار نہیں... لہٰذا ایک طرح سے وہ انگریز قوم کے دشمن ہیں۔ ایسے مسلمان کسی بھی وقت برطانوی عوام پر حملے کرسکتے ہیں۔ نیل چاہتا ہے کہ صرف عیسائی مہاجرین اور پناہ گزینوں کو برطانیہ مقیم ہونے کی اجازت دی جائے۔
ہنگری کا وزیراعظم، وکٹر اوربان بھی کٹر قوم پرست ہے۔ یہ پہلا یورپی لیڈر ہے جس نے ٹرمپ کو بطور صدارتی امیدوار سراہا اور اس کی جیت کو عیسائی سفید فاموں کے لیے نئی امید قرار دیا۔ جب شام، افغانستان اور دیگر اسلامی ممالک سے لاکھوں تارکین وطن نے یورپ کا رخ کیا، تو اوربان چراغ پا ہوگیا۔ اس نے اعلان کیا کہ وہ مسلم تارکین وطن کو ہنگری آنے سے روکنے کے لیے سرحد پر خاردار باڑ لگوائے گا۔ اوربان نے صرف عیسائی پناہ گزینوں کو ہنگری میں سکونت کی اجازت دی۔اسکا خیال ہے کہ اگر ہنگری میں مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی، تو مقامی تہذیب و ثقافت اور رسوم و رواج خطرے میں پڑ جائیں گے۔ اسی لیے اوربان نے ملک بھر میں یہ پابندی لگادی کہ مسلمان اسلامی رسوم و رواج پر کھلے عام عمل پیرا نہیں ہوسکتے۔
اُدھر ایک اہم یورپی ملک فرانس میں مارین لی پن کا غلغلہ بلند ہے۔ یہ 48 سالہ خاتون ایک قوم پرست اور قدامت پسند پارٹی، فرنٹ نیشنل کی لیڈر ہے۔ فرانس میں اس سال صدارتی الیکشن ہونے ہیں۔ ماہرین سیاسیات کا دعویٰ ہے کہ مارلین الیکشن جیت کر سبھی کو متحیر کرسکتی ہے۔مارین بھی مسلمانوں کی مخالف ہے۔ یاد رہے، فرانس میںغیر سرکاری جائزوں کے مطابق تقریباً ساٹھ لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ گویا فرانس مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا یورپی ملک بن چکا۔ مارین بھی مسلم مہاجرین کی آمد روکنا چاہتی ہے۔ نیز اس کا منصوبہ ہے کہ اسلامی رسوم و رواج پر عمل پیرا تمام فرانسیسی مسلمانوں کو فرانس سے نکال دیا جائے۔ یورپی یونین کو بھی خیر باد کہنا چاہتی ہے تاکہ فرانس کو ''دوبارہ عظیم'' بنایا جاسکے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو منتخب کرنے والے قوم پرست امریکیوں کے مانند فرانسیسیوں کی اکثریت بھی گلوبلآئزیشن اور عالمی تجارت کے خلاف ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مہاجرین کی آمد نے فرانس پر مثبت اثرات مرتب نہیں کیے۔ اگر مارین لی پن برسراقتدار آئی اور اس نے یورپی یونین میں ''رہنے یا نہ رہنے'' کے معاملے پر قومی ریفرنڈم کرایا، تو امکان یہی ہے کہ فرانسیسی ''نہ رہنے'' کا فیصلہ کریں گے۔ برطانیہ اور فرانس کی رخصتی کے بعد عین ممکن ہے کہ یورپی یونین قصہِ ماضی بن جائے۔
قوم پرست نظریات کے باعث مارین کو عوام میں مقبول ہوتا دیکھ کر موقع پرست فرانسیسی سیاست داں بھی اپنی کینچلی بدلنے لگے۔ سابق صدر، نکولاس سرکوزی کاشمار اعتدال پسند فرانسیسی لیڈروں میں ہوتا ہے۔ مگر اب وہ بھی قوم پرستانہ نظریات کا مبلغ بن چکا تاکہ عوام میں مقبول ہوکر دوبارہ صدر بن چکے۔ ایک حالیہ جلسے میں سرکوزی نے اعلان کیا: ''جب کوئی غیر ملکی جیسے ہی فرانس کا شہری بنے، (فرانسیسیوں کے اجداد) گال اس کے جدامجد بن جاتے ہیں۔''
ایک اور جلسے میں نکولاس سرکوزی نے میں بیان دیا ''اسکولوں میں جو بچے ''پورک'' نہیں کھانا چاہتے، وہ اپنا بندوبست خود کرکے آئیں۔'' معنی یہ کہ جن بچوں کا مذہب انہیں پورک کھانے کی اجازت نہیں دیتا، تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنا پیٹ بھرنے کا خود بندوبست کریں، یہ سکول کی ذمے داری نہیں۔ پروفیسر ڈومنیک مویسی فرانس کا مشہور عمرانیات داں ہے۔ وہ کہتا ہے :''آج کا فرانس ''دفاعی قوم پرستی'' کا شکار ہوچکا کیونکہ فرانسیسی اب مہاجرین پر اعتبار نہیں کرتے۔ لہٰذا وہ دوسروں کے حملے روکنے کے لیے اپنا دفاع کرنا چاہتے ہیں۔''
اسی سال یورپ کے ایک اور اہم ملک، جرمنی میں بھی وفاقی الیکشن ہونے ہیں جن کے ذریعے نئے چانسلر کا انتخاب ہوگا۔ انجیلا مرکل نے چوتھی بار وفاقی الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا ہے۔ وہ 2005ء سے جرمن چانسلر چلی آرہی ہیں۔ تاہم یورپ میں رواں دواں قوم پرستی کی طوفانی لہر ان کے اقتدار کی کشتی کو بھی ڈبو سکتی ہے۔دراصل پچھلے دو برس میں انجیلا مرکل نے دس لاکھ پناہ گزینوں اور مہاجرین کو جرمنی آنے کی اجازت دی تھی۔ ان پناہ گزینوں میں بیشتر مسلمان تھے۔ بعدازاں آوارہ مزاج نوجوان پناہ گزین قابل نفرت واقعات میں ملوث ہوگئے۔ ان واقعات نے جرمن عوام کی اکثریت کو خصوصاً مسلمان پناہ گزینوں کا مخالف بنا دیا۔چناںچہ اب جرمنی میں مذہبی قدامت پسند اور قوم پرست سیاسی جماعتیں تیزی سے مقبول ہورہی ہیں۔ ماہرین سیاسیات کا دعوی ہیٰ کہ اس سال کے وفاقی الیکشن میں درج بالا پارٹیاں پارلیمنٹ کی زیادہ نشستیں جیت کر فیصلہ کن برتری حاصل کرسکتی ہیں۔ یوں انجیلا مرکل کے اقتدار کا سورج غروب ہوجائے گا۔ انہیں یورپ میں لبرل ازم اور اعتدال پسندی کا آخری ستون قرار دیا جارہا ہے۔
اگر جرمنی میں قوم پرست اور قدامت پسند لیڈروں نے حکومت سنبھال لی، تو یہ خصوصاً مسلمانوں کے لیے اچھا شگون نہیں ہوگا۔جرمن قوم پرست لیڈر مسلسل پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ ملک میں مسلمانوں کی بڑھتی تعداد کے باعث ان کا مذہب، تہذیب و ثقافت اور اقدار خطرے میں ہیں۔ نیز یہ کہ یہ مسلمان ایک نہ ایک دن جرمنوں کو خود ان کے وطن میں اقلیت بنادیں گے۔
پچھلے سال 4 دسمبر کو یورپی یونین کی تیسری بڑی معاشی قوت، اٹلی میں اہم ریفرنڈم ہوا۔ اس کے ذریعے اطالوی عوام نے اپنے وزیراعظم، ماتیورنزی کی مجوزہ آئینی اصلاحات کو نامنظور کردیا۔ ماتیو ان کی مدد سے سینٹ اور صوبوں کی طاقت کم کرنا چاہتے تھے۔ مدعا یہ تھا کہ قانون سازی کا عمل تیز ہوسکے۔لیکن قوم پرست جماعتیں ریفرنڈم میں آئینی اصلاحات کی مخالف تھیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اصلاحات سے عہدہ ِوزیراعظم طاقتوں کا محور بن جائے گا۔ریفرنڈم میں ماتیو کی شکست اطالوی قوم پرستوں کی فتح بن گئی ۔ ماتیو نے استعفی دے دیا۔اب قوم پرست اگلے الیکشن جیت کر اقتدار سنبھال سکتے ہیں۔ ماہرین سیاسیات کی رو سے جب بھی ایسا ہوا، اٹلی میں بھی یورپی یونین سے رخصتی کا عمل شروع ہوسکتا ہے۔
ہالینڈ میں بھی ایک نامی گرامی مسلم دشمن قوم پرست، خیرت ویلدرس (Geert Wilders) کی پتنگ چڑھی ہوئی ہے۔ موصوف پارٹی آف فریڈم نامی سیاسی جماعت کا سربراہ ہے۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اس سال کے پارلیمانی انتخابات میں یہ پارٹی برسراقتدار آسکتی ہے۔ خیرت ویلدرس کی حکومت میں ولذیزی مسلمانوں کو نہایت سخت دور سے گزرنا پڑے گا۔ یہ شخص ہالینڈ میں مساجد اور اسلامی علامات ہی نہیں قرآن پاک پڑھنے پر بھی پابندی لگانا چاہتا ہے۔ گویا خیرت عیسائی انتہائی پسند طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔
پارٹی آف فریڈم مارچ 2017ء کے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لے گی۔ اس کا منشور یہ ہے کہ مسلمان مہاجرین کی آمد پر پابندی لگائی جائے۔ مسلم خواتین عوامی مقامات پر حجاب نہ پہنیں۔ پارٹی یورپی یونین کو بھی خیرباد کہہ کر ہر قسم کی غیر ملکی امداد روک دینا چاہتی ہے۔
یورپ کے ایک اور اہم ملک، آسٹریا میں بھی قوم پرست لیڈر، نوربرت ہومز کا غلغلہ بلند ہے۔ موصوف کو ''آسٹریائی ڈونلڈ ٹرمپ'' کہا جاتا ہے۔ خیال تھا کہ پچھلے سال 4 دسمبر کو ہونے والا صدارتی الیکشن جیت کر نوربرت آسٹریا کا صدر بن جائے گا۔ یہ قوم پرست اور قدامت پسند جماعت، فریڈم پارٹی کا صدر ہے۔تاہم لبرل جماعت،گرین پارٹی کے امیدوار،الیگزنڈر بیلن نے اسے مات دے دی۔ نوربرت ہومز بھی مسلمانوں کا سخت مخالف ہے۔ حجاب پر پابندی لگانا چاہتا ہے۔ اعلان کرچکا کہ اگر ترکی یورپی یونین میں شامل ہوا تو آسٹریا یہ اتحاد چھوڑ دے گا۔ آسٹریا میں مسلمانوں کی آمد پر پابندی لگانے کا حامی ہے۔
درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ دنیا کے اہم ممالک میں قوم پرستی کا دور دورہ ہوچکا۔ یہ خصوصاً مسلم مہاجرین کے لیے اچھی خبر نہیں جو مستقبل بہتر بنانے کی چاہ میں مغربی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ اب مغربی معاشرے سے ہم آہنگ ہونے کی خاطر انہیں اپنی اسلامی و قومی شناخت، روایات اور رسوم و رواج کو خیر باد کہنا ہوگا۔ تبھی وہ مغربی معاشرے میں دوسرے درجے کے شہری بن کر رہ سکیں گے۔
ماہرین عمرانیات کی رو سے اندھیرے میں امید کی کرن البتہ روشن ہے۔ جدید ترین جائزوں کی رو سے مغربی ممالک میںنئی نسل اب بھی ''کاسموپولٹین'' یا عالمی شخصیت رکھتی ہے اور نفرت آلود قوم پرستانہ نظریات سے متاثر نہیں ہوئی۔ گویا مستقبل میں اہل مغرب دوبارہ قوم پرستی سے چھٹکارا پاکر پھر عالمگیریت کا انسان دوست تصّور اپنا سکتے ہیں۔
ہم جس دیس میں جنم لیں، اس سے الفت رکھنا فطری امر ہے۔ ہم بہ رضا و رغبت اپنے دیس کی روایات اور رسوم و رواج اپنا لیتے اور اسے ترقی دینے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ مثبت رویّہ اصطلاح میں ''وطن پرستی'' (Patriotism) کہلاتا ہے۔ لیکن جب وطن سے محبت اتنی زیادہ بڑھ جائے کہ ہم اس کی خامیوں کو بھی خوبیاں کہنے پر اصرار کریں اور اپنے دیس کی خاطر غیر ملکیوں کو مارنے پر تل جائیں، تو یہ جذبہ منفی چولا پہن لیتا ہے۔ ایسا شخص اپنی قوم و نسل پر بے جا تفاخر کرتا اور اسے تمام اقوام میں اعلیٰ و برتر سمجھتا ہے۔ یوں وہ ایک خطرناک رویّے میں گرفتار ہوجاتا ہے جسے ماہرین نے ''قوم پرستی'' (Nationalism) کا نام دیا۔
تاریخ انسانی عیاں کرتی ہے کہ جیّد و باشعور دماغوں نے قوم پرستی کو مفید اور انسان دوست قرار نہیں دیا ۔ مثال کے طور پر مشہور برطانوی ڈراما نگار جارج برنارڈ شا کا کہنا ہے :''قوم پرستی بنیادی طور پر یہ تصّور ہے کہ فلاں ملک دنیا میں سب سے زیادہ اعلیٰ ہے کیونکہ میں وہاں پر پیدا ہوا۔'' اسی طرح ایک اور ممتاز برطانوی ادیب، آسکر وائلڈ نے کہا :''قوم پسندی ظالم و شیطان کی خوبی ہے۔''آرتھر شوپنہار مشہور جرمن فلسفی گزرا ہے۔ اس نے قوم پسندی کی تعریف کچھ یوں کی: ''جب کسی احمق و بے وقوف کے پاس فخر کرنے کی کوئی شے نہیں بچتی تو وہ بطور آخری چارہ کار قوم پرستی کا جھنڈا بلند کردیتا ہے۔ تب وہ بخوشی اور رضا مندی سے اپنی قوم کی تمام خرابیوں اور ناکامیوں کا دفاع کرتے ہوئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا اور یوں اپنے ہاتھوں اپنی تباہی و بربادی کا سبب بنتا ہے۔''
قوم پرستی کی تمام تر خامیوں کے باوجود حیرت ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک میں یہ سیاسی و معاشرتی نظریہ مقبول ہوچکا۔ اس کی حالیہ مثال امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ہیں۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں سبھی غیر ملکیوں کو نشانہ بنایا اور ''امریکا کوپھر عظیم بناؤ'' (Make America Great Again) کا نعرہ لگایا۔ چناں چہ چھ کروڑ سے زائد امریکی ان کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے۔ماضی میں بھی امریکی صدارتی الیکشن کے مواقع پر قوم پرستانہ نظریات کا چرچا رہا، لیکن ٹرمپ نے انہیں جس شدت و دیوانگی سے اختیار کیا، اس کی مثال پہلے نظر نہیں آتی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ کی قوم پرستی امریکیوں اور غیر ملکیوں کے لیے کیا گل کھلاتی ہے۔
ٹرمپ کی کامیابی سے دنیا بھر میں ان لیڈروں کو تقویت ملی جو اپنے اپنے ملک میں قوم پرستی کا علم بلند کیے ہوئے ہیں۔یورپ میں خصوصاً قوم پسندی کے نئے دور نے براعظم میں مسلمانوں کی بڑھتی تعداداور معاشی بحران کے باعث جنم لیا۔حالیہ چند برس میں لاکھوں مسلم تارکین وطن کی آمد نے کئی یورپی ممالک میں قوم پسندی کا عجوبہ پیدا کر ڈالا۔ان ممالک میں یہ احساس عام ہو چکا کہ مہاجرین اور تارکین وطن مقامی لوگوں سے روزگار اور ان کی اقدار چھین کر یورپ میں اپنی تہذیب ومعاشرت پروان چڑھا رہے ہیں۔
اہم یورپی ملک برطانیہ میں قوم پرست یوکے انڈی پینڈینس پارٹی کا لیڈر، نیل فراج یہی نظریات رکھتا ہے ۔ یہ نیل فراج ہی ہے جس کی پروپیگنڈا مہم اور تقریروں نے ''برایگزٹ'' (Brexit) کو جنم دیا یعنی برطانیہ نے یورپی یونین کو خیرباد کہہ دیا۔ جناب نیل نے ٹرمپ کی فتح پر ازحد اظہار مسّرت کیا۔ تقریباً تمام یورپی قوم پرست لیڈروں کی طرح نیل بھی مسلمان پناہ گزینوں اور مہاجرین کا سخت مخالف ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ برطانیہ میں مقیم مسلمانوں کی اکثریت اپنی تہذیب و ثقافت چھوڑنے کو تیار نہیں... لہٰذا ایک طرح سے وہ انگریز قوم کے دشمن ہیں۔ ایسے مسلمان کسی بھی وقت برطانوی عوام پر حملے کرسکتے ہیں۔ نیل چاہتا ہے کہ صرف عیسائی مہاجرین اور پناہ گزینوں کو برطانیہ مقیم ہونے کی اجازت دی جائے۔
ہنگری کا وزیراعظم، وکٹر اوربان بھی کٹر قوم پرست ہے۔ یہ پہلا یورپی لیڈر ہے جس نے ٹرمپ کو بطور صدارتی امیدوار سراہا اور اس کی جیت کو عیسائی سفید فاموں کے لیے نئی امید قرار دیا۔ جب شام، افغانستان اور دیگر اسلامی ممالک سے لاکھوں تارکین وطن نے یورپ کا رخ کیا، تو اوربان چراغ پا ہوگیا۔ اس نے اعلان کیا کہ وہ مسلم تارکین وطن کو ہنگری آنے سے روکنے کے لیے سرحد پر خاردار باڑ لگوائے گا۔ اوربان نے صرف عیسائی پناہ گزینوں کو ہنگری میں سکونت کی اجازت دی۔اسکا خیال ہے کہ اگر ہنگری میں مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی، تو مقامی تہذیب و ثقافت اور رسوم و رواج خطرے میں پڑ جائیں گے۔ اسی لیے اوربان نے ملک بھر میں یہ پابندی لگادی کہ مسلمان اسلامی رسوم و رواج پر کھلے عام عمل پیرا نہیں ہوسکتے۔
اُدھر ایک اہم یورپی ملک فرانس میں مارین لی پن کا غلغلہ بلند ہے۔ یہ 48 سالہ خاتون ایک قوم پرست اور قدامت پسند پارٹی، فرنٹ نیشنل کی لیڈر ہے۔ فرانس میں اس سال صدارتی الیکشن ہونے ہیں۔ ماہرین سیاسیات کا دعویٰ ہے کہ مارلین الیکشن جیت کر سبھی کو متحیر کرسکتی ہے۔مارین بھی مسلمانوں کی مخالف ہے۔ یاد رہے، فرانس میںغیر سرکاری جائزوں کے مطابق تقریباً ساٹھ لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ گویا فرانس مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا یورپی ملک بن چکا۔ مارین بھی مسلم مہاجرین کی آمد روکنا چاہتی ہے۔ نیز اس کا منصوبہ ہے کہ اسلامی رسوم و رواج پر عمل پیرا تمام فرانسیسی مسلمانوں کو فرانس سے نکال دیا جائے۔ یورپی یونین کو بھی خیر باد کہنا چاہتی ہے تاکہ فرانس کو ''دوبارہ عظیم'' بنایا جاسکے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو منتخب کرنے والے قوم پرست امریکیوں کے مانند فرانسیسیوں کی اکثریت بھی گلوبلآئزیشن اور عالمی تجارت کے خلاف ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مہاجرین کی آمد نے فرانس پر مثبت اثرات مرتب نہیں کیے۔ اگر مارین لی پن برسراقتدار آئی اور اس نے یورپی یونین میں ''رہنے یا نہ رہنے'' کے معاملے پر قومی ریفرنڈم کرایا، تو امکان یہی ہے کہ فرانسیسی ''نہ رہنے'' کا فیصلہ کریں گے۔ برطانیہ اور فرانس کی رخصتی کے بعد عین ممکن ہے کہ یورپی یونین قصہِ ماضی بن جائے۔
قوم پرست نظریات کے باعث مارین کو عوام میں مقبول ہوتا دیکھ کر موقع پرست فرانسیسی سیاست داں بھی اپنی کینچلی بدلنے لگے۔ سابق صدر، نکولاس سرکوزی کاشمار اعتدال پسند فرانسیسی لیڈروں میں ہوتا ہے۔ مگر اب وہ بھی قوم پرستانہ نظریات کا مبلغ بن چکا تاکہ عوام میں مقبول ہوکر دوبارہ صدر بن چکے۔ ایک حالیہ جلسے میں سرکوزی نے اعلان کیا: ''جب کوئی غیر ملکی جیسے ہی فرانس کا شہری بنے، (فرانسیسیوں کے اجداد) گال اس کے جدامجد بن جاتے ہیں۔''
ایک اور جلسے میں نکولاس سرکوزی نے میں بیان دیا ''اسکولوں میں جو بچے ''پورک'' نہیں کھانا چاہتے، وہ اپنا بندوبست خود کرکے آئیں۔'' معنی یہ کہ جن بچوں کا مذہب انہیں پورک کھانے کی اجازت نہیں دیتا، تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنا پیٹ بھرنے کا خود بندوبست کریں، یہ سکول کی ذمے داری نہیں۔ پروفیسر ڈومنیک مویسی فرانس کا مشہور عمرانیات داں ہے۔ وہ کہتا ہے :''آج کا فرانس ''دفاعی قوم پرستی'' کا شکار ہوچکا کیونکہ فرانسیسی اب مہاجرین پر اعتبار نہیں کرتے۔ لہٰذا وہ دوسروں کے حملے روکنے کے لیے اپنا دفاع کرنا چاہتے ہیں۔''
اسی سال یورپ کے ایک اور اہم ملک، جرمنی میں بھی وفاقی الیکشن ہونے ہیں جن کے ذریعے نئے چانسلر کا انتخاب ہوگا۔ انجیلا مرکل نے چوتھی بار وفاقی الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا ہے۔ وہ 2005ء سے جرمن چانسلر چلی آرہی ہیں۔ تاہم یورپ میں رواں دواں قوم پرستی کی طوفانی لہر ان کے اقتدار کی کشتی کو بھی ڈبو سکتی ہے۔دراصل پچھلے دو برس میں انجیلا مرکل نے دس لاکھ پناہ گزینوں اور مہاجرین کو جرمنی آنے کی اجازت دی تھی۔ ان پناہ گزینوں میں بیشتر مسلمان تھے۔ بعدازاں آوارہ مزاج نوجوان پناہ گزین قابل نفرت واقعات میں ملوث ہوگئے۔ ان واقعات نے جرمن عوام کی اکثریت کو خصوصاً مسلمان پناہ گزینوں کا مخالف بنا دیا۔چناںچہ اب جرمنی میں مذہبی قدامت پسند اور قوم پرست سیاسی جماعتیں تیزی سے مقبول ہورہی ہیں۔ ماہرین سیاسیات کا دعوی ہیٰ کہ اس سال کے وفاقی الیکشن میں درج بالا پارٹیاں پارلیمنٹ کی زیادہ نشستیں جیت کر فیصلہ کن برتری حاصل کرسکتی ہیں۔ یوں انجیلا مرکل کے اقتدار کا سورج غروب ہوجائے گا۔ انہیں یورپ میں لبرل ازم اور اعتدال پسندی کا آخری ستون قرار دیا جارہا ہے۔
اگر جرمنی میں قوم پرست اور قدامت پسند لیڈروں نے حکومت سنبھال لی، تو یہ خصوصاً مسلمانوں کے لیے اچھا شگون نہیں ہوگا۔جرمن قوم پرست لیڈر مسلسل پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ ملک میں مسلمانوں کی بڑھتی تعداد کے باعث ان کا مذہب، تہذیب و ثقافت اور اقدار خطرے میں ہیں۔ نیز یہ کہ یہ مسلمان ایک نہ ایک دن جرمنوں کو خود ان کے وطن میں اقلیت بنادیں گے۔
پچھلے سال 4 دسمبر کو یورپی یونین کی تیسری بڑی معاشی قوت، اٹلی میں اہم ریفرنڈم ہوا۔ اس کے ذریعے اطالوی عوام نے اپنے وزیراعظم، ماتیورنزی کی مجوزہ آئینی اصلاحات کو نامنظور کردیا۔ ماتیو ان کی مدد سے سینٹ اور صوبوں کی طاقت کم کرنا چاہتے تھے۔ مدعا یہ تھا کہ قانون سازی کا عمل تیز ہوسکے۔لیکن قوم پرست جماعتیں ریفرنڈم میں آئینی اصلاحات کی مخالف تھیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اصلاحات سے عہدہ ِوزیراعظم طاقتوں کا محور بن جائے گا۔ریفرنڈم میں ماتیو کی شکست اطالوی قوم پرستوں کی فتح بن گئی ۔ ماتیو نے استعفی دے دیا۔اب قوم پرست اگلے الیکشن جیت کر اقتدار سنبھال سکتے ہیں۔ ماہرین سیاسیات کی رو سے جب بھی ایسا ہوا، اٹلی میں بھی یورپی یونین سے رخصتی کا عمل شروع ہوسکتا ہے۔
ہالینڈ میں بھی ایک نامی گرامی مسلم دشمن قوم پرست، خیرت ویلدرس (Geert Wilders) کی پتنگ چڑھی ہوئی ہے۔ موصوف پارٹی آف فریڈم نامی سیاسی جماعت کا سربراہ ہے۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اس سال کے پارلیمانی انتخابات میں یہ پارٹی برسراقتدار آسکتی ہے۔ خیرت ویلدرس کی حکومت میں ولذیزی مسلمانوں کو نہایت سخت دور سے گزرنا پڑے گا۔ یہ شخص ہالینڈ میں مساجد اور اسلامی علامات ہی نہیں قرآن پاک پڑھنے پر بھی پابندی لگانا چاہتا ہے۔ گویا خیرت عیسائی انتہائی پسند طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔
پارٹی آف فریڈم مارچ 2017ء کے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لے گی۔ اس کا منشور یہ ہے کہ مسلمان مہاجرین کی آمد پر پابندی لگائی جائے۔ مسلم خواتین عوامی مقامات پر حجاب نہ پہنیں۔ پارٹی یورپی یونین کو بھی خیرباد کہہ کر ہر قسم کی غیر ملکی امداد روک دینا چاہتی ہے۔
یورپ کے ایک اور اہم ملک، آسٹریا میں بھی قوم پرست لیڈر، نوربرت ہومز کا غلغلہ بلند ہے۔ موصوف کو ''آسٹریائی ڈونلڈ ٹرمپ'' کہا جاتا ہے۔ خیال تھا کہ پچھلے سال 4 دسمبر کو ہونے والا صدارتی الیکشن جیت کر نوربرت آسٹریا کا صدر بن جائے گا۔ یہ قوم پرست اور قدامت پسند جماعت، فریڈم پارٹی کا صدر ہے۔تاہم لبرل جماعت،گرین پارٹی کے امیدوار،الیگزنڈر بیلن نے اسے مات دے دی۔ نوربرت ہومز بھی مسلمانوں کا سخت مخالف ہے۔ حجاب پر پابندی لگانا چاہتا ہے۔ اعلان کرچکا کہ اگر ترکی یورپی یونین میں شامل ہوا تو آسٹریا یہ اتحاد چھوڑ دے گا۔ آسٹریا میں مسلمانوں کی آمد پر پابندی لگانے کا حامی ہے۔
درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ دنیا کے اہم ممالک میں قوم پرستی کا دور دورہ ہوچکا۔ یہ خصوصاً مسلم مہاجرین کے لیے اچھی خبر نہیں جو مستقبل بہتر بنانے کی چاہ میں مغربی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ اب مغربی معاشرے سے ہم آہنگ ہونے کی خاطر انہیں اپنی اسلامی و قومی شناخت، روایات اور رسوم و رواج کو خیر باد کہنا ہوگا۔ تبھی وہ مغربی معاشرے میں دوسرے درجے کے شہری بن کر رہ سکیں گے۔
ماہرین عمرانیات کی رو سے اندھیرے میں امید کی کرن البتہ روشن ہے۔ جدید ترین جائزوں کی رو سے مغربی ممالک میںنئی نسل اب بھی ''کاسموپولٹین'' یا عالمی شخصیت رکھتی ہے اور نفرت آلود قوم پرستانہ نظریات سے متاثر نہیں ہوئی۔ گویا مستقبل میں اہل مغرب دوبارہ قوم پرستی سے چھٹکارا پاکر پھر عالمگیریت کا انسان دوست تصّور اپنا سکتے ہیں۔