ہم کب انسان بنیں گے
غالبؔ تو یہ کہہ کر فارغ ہو گئے کہ ’’آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا‘‘
غالبؔ تو یہ کہہ کر فارغ ہو گئے کہ ''آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا'' مگر ہم نے دیکھا کہ اس فلسفیانہ خیال کا عملی اطلاق بھی کئی معاشروں میں رہنے والے ''آدمیوں'' پر ہوا ہے کہ وہ مکمل نہ سہی ایک خاص حد تک ''انسان'' ضرور بن گئے ہیں اور یہ کہ ان کے نامکمل حصے کا تعلق بھی روزمرہ زندگی سے نہیں بلکہ ان تصورات سے ہے۔ جہاں ہمیں اپنے خالق حقیقی اور ان کے احکامات کو مان کر چلنا ہوتا ہے اور جس کا حساب کتاب بھی کسی اور موقع پر کچھ خاص حوالوں سے ہو گا۔ ہر کارواں ایک طرح کا ہجوم بھی ہوتا ہے مگر چند اصولوں کی پابندی اس ہجوم کو ایک ایسی مرتب اور منظم شکل دے دیتی ہے کہ سب لوگ ایک دوسرے سے ٹکرائے اور رستہ کاٹے بغیر آگے بڑھ سکتے ہیں۔
ہمارے یہاں ایسا کیوں نہیں ہوا؟ یہ ایک بہت طویل کہانی ہے جو نہ صرف کئی بار دہرائی جا چکی ہے بلکہ کم یا زیادہ ہمارے معاشرے کے بیشتر افراد اس کی تفصیلات سے بھی آگاہ ہیں۔ اس دیس کے بندے کس طرح پہلے غلام بنے اور پھر غلامی پہ رضا مند ہوئے اور کیسے اس طویل غلامی کے صحرا سے گزر کر آزادی کے نخلستان تک پہنچے اور اب کیسے کم و بیش ستر برس سے اس آزادی کے ساتھ بدسلوکی کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے مگر شرم اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس سارے سفر میں ہم بار بار انسان سے آدمی تک کا سفر تو کرتے رہے مگر آدمی سے انسان بننے کی توفیق ہمیں کم کم ہی نصیب ہوئی ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ سب لوگ چھوٹے گھروں میں بڑے دلوں کے ساتھ رہتے تھے، اب دل چھوٹے اور مکان بڑے ہوگئے ہیں۔ پہلے گلیاں اور سڑکیاں صرف گزرگاہیں ہی نہیں پوری معاشرتی زندگی کا عکس ہوا کرتی تھیں، لوگ ایک دوسرے کے حال سے واقف بھی رہتے تھے اور اپنے محدود وسائل کے باوجود انھیں مشترکہ سطح پر حل کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔
اب کہنے کو ہمارے پاس دنیاوی اعتبار سے سب کچھ ہے۔ سڑکوں پر انسانوں سے زیادہ موٹریں دوڑتی پھر رہی ہیں، ہوٹل کھانے والوں سے اور ان کی چھوڑی ہوئی پلیٹیں خوراک سے بھری پڑی ہیں، نئے سے نئے راستے تو بن رہے ہیں مگر لوگوں نے ایک دوسرے کو رستہ دینا چھوڑ دیا ہے۔ کسی بھی ٹریفک سگنل پر چند لمحے رک کر آتے جاتے لوگوں کو دیکھئے تو دماغ سائیں سائیں کرنے لگتا ہے۔ گاڑی بڑی ہو یا چھوٹی سوار بائیک پر ہو یا سائیکل پر یہاں تک کہ پیدل چلنے والے بھی قانون کی پیروی تو ایک طرف اس کو توڑنے کے درپے نظر آتے ہیں۔
محفل میں کسی سے ملتے وقت سامنے والے کے دنیاوی درجے کے حساب سے معانقہ یا مصافحہ کیا جاتا ہے۔ یہی حال مہمانداری کا ہے، کم درجے کے مہمانوں کے لیے اپنی جگہ سے اٹھنا تو کیا ان سے ہاتھ ملانا بلکہ مسکرا کر دیکھنا تک تضیع اوقات سمجھا جاتا ہے۔ یہ المیہ جدید ٹیکنالوجی کے ایجاد کنندگان کے معاشروں میں کم اور ہمارے جیسے صارفین اور اعلیٰ انسانی قدروں کے قصیدہ خوانوں اور خود ساختہ محافظوں کے ہاں نسبتاً بہت زیادہ ہے۔
ہماری تعلیم سے تربیت کا عنصر یکسر خارج ہو گیا ہے اور نودولتیہ اخلاقیات نے رہی سہی انسانیت کا بھی جنازہ نکال دیا ہے۔ اس حوالے سے ایک نظم ہوئی ہے فنی اعتبار سے ابھی اس کی فائن ٹیوننگ ہونی ہے لیکن اس لیے درج کر رہا ہوں کہ شعر میں یہی باتیں شاید نثری اظہار کی نسبت بہتر طور سے قلم بند ہوئی ہیں۔ کہتے ہیں آئینہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا تو آئیے اس سچ کو اس نظم کے آئینے میں دیکھتے ہیں کہ اپنے دامن کو دیکھنے کی روایت تو ہم کب کی ترک کر چکے ہیں۔
سودا
نیا انسان کہنے کو نیا تو ہوگیا ہے
کہ اس کی دسترس میں ایک جادو کی چھڑی ہے
سہولت کا یہ عالم ہے
کہ ہر شے اس کی انگلی کے اشارے پر
غلاموں کی طرح حاضر کھڑی ہے
بہت آسانیاں چاروں طرف ہیں
وہ جو چاہے، جہاں اور جس طرح چاہے
مہیا پل میں ہوتا ہے
کسی بھی شے کے بارے میں کوئی تفصیل بھی اس کی
رسائی سے نہیں باہر
کہ انٹرنیٹ میں سب کچھ ہے
اسے یہ زعم ہے روئے زمیں پر
جو بھی موجودات کے زمرے میں آتا ہے
وہ اس سے خوب واقف ہے
کہ ڈیٹا بیس کی زنبیل صحرا سے بڑی ہے
یہ دعویٰ بھی حقیقت ہے
کہ وہ چیزوں کے بارے میں اب اتنا علم رکھتا ہے
کہ جو پچھلی صدی میں ابن آدم کے تصور سے بھی آگے تھا
پر اس پانے میں جو کچھ کھو گیا ہے اس کو دیکھیں تو
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ یہ کیسا تماشا ہے!
نئی دنیا میں رہنے کا یہ سودا کتنا مہنگا ہے!
''ہمارے گھر دوبارہ سے عمارت بنتے جاتے ہیں
جو اب یہ اپنی اپنی ہے یہ دنیا سب کی ہوتی تھی
ہمیں اپنوں سے ملنے کی بھی فرصت اب نہیں ملتی
پرندوں اور درختوں اور پھولوں اور موسم سے
ہماری گفتگو کا سلسلہ موقوف ہے کب سے
ستاروں، بادلوں، شمس و قمر سے اور فطرت سے
تعلق تک نہیں باقی۔''
ہم اس دنیا میں رہتے ہیں کسی روبوٹ کی صورت
کہ جو سنتا سمجھتا، دیکھتا اور بولتا تو ہے
مگر جو اپنے سینے میں دل، زندہ نہیں رکھتا
کسی بھی غم سے اس کی آنکھ میں آنسو نہیں آتے
نہ اُسکا چین چھنتا ہے
نہ اس کی نیند اڑتی ہے
کہ وہ ایک چیز ہے اور چیز میں جذبے نہیں ہوتے
نئے انساں کی دنیا میں فقط چیزیں ہی چیزیں ہیں
ضرورت بھی ان ہی کی ہے، حکومت بھی ان ہی کی ہے
یہی چیزیں ہیں جو اس کو اٹھاتی اور بٹھاتی ہیں
پرانے لوگ بھی چیزیں بناتے اور ان کے ساتھ رہتے تھے
مگر یہ فرق تھا شائد
وہ ان سے اپنی خوشیوں کے لیے رستے بناتے
دوسروں کی منزلیں آسان کرتے تھے
نئے انسان کی دنیا بس اس کی ذات ہی کے دائرے میں رقص کرتی ہے
اسے اپنے علاوہ کچھ نہیں دکھتا
یہ خود غرضی کی دیواریں کہ جن کی حد نہیں کوئی
یہ اس نے خود اٹھائی ہیں
وہ ان چیزوں کا قیدی ہے جو اس نے خود بنائی ہیں
کہ ان سے ماورا اس کو دکھائی کچھ نہیں دیتا، سنائی کچھ نہیں دیتا
یہ خود کو بیچ کر جینا سمجھ میں ہی نہیں آتا
نئے انساں کا یہ سودا سمجھ میں ہی نہیں آتا
ہمارے یہاں ایسا کیوں نہیں ہوا؟ یہ ایک بہت طویل کہانی ہے جو نہ صرف کئی بار دہرائی جا چکی ہے بلکہ کم یا زیادہ ہمارے معاشرے کے بیشتر افراد اس کی تفصیلات سے بھی آگاہ ہیں۔ اس دیس کے بندے کس طرح پہلے غلام بنے اور پھر غلامی پہ رضا مند ہوئے اور کیسے اس طویل غلامی کے صحرا سے گزر کر آزادی کے نخلستان تک پہنچے اور اب کیسے کم و بیش ستر برس سے اس آزادی کے ساتھ بدسلوکی کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے مگر شرم اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس سارے سفر میں ہم بار بار انسان سے آدمی تک کا سفر تو کرتے رہے مگر آدمی سے انسان بننے کی توفیق ہمیں کم کم ہی نصیب ہوئی ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ سب لوگ چھوٹے گھروں میں بڑے دلوں کے ساتھ رہتے تھے، اب دل چھوٹے اور مکان بڑے ہوگئے ہیں۔ پہلے گلیاں اور سڑکیاں صرف گزرگاہیں ہی نہیں پوری معاشرتی زندگی کا عکس ہوا کرتی تھیں، لوگ ایک دوسرے کے حال سے واقف بھی رہتے تھے اور اپنے محدود وسائل کے باوجود انھیں مشترکہ سطح پر حل کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔
اب کہنے کو ہمارے پاس دنیاوی اعتبار سے سب کچھ ہے۔ سڑکوں پر انسانوں سے زیادہ موٹریں دوڑتی پھر رہی ہیں، ہوٹل کھانے والوں سے اور ان کی چھوڑی ہوئی پلیٹیں خوراک سے بھری پڑی ہیں، نئے سے نئے راستے تو بن رہے ہیں مگر لوگوں نے ایک دوسرے کو رستہ دینا چھوڑ دیا ہے۔ کسی بھی ٹریفک سگنل پر چند لمحے رک کر آتے جاتے لوگوں کو دیکھئے تو دماغ سائیں سائیں کرنے لگتا ہے۔ گاڑی بڑی ہو یا چھوٹی سوار بائیک پر ہو یا سائیکل پر یہاں تک کہ پیدل چلنے والے بھی قانون کی پیروی تو ایک طرف اس کو توڑنے کے درپے نظر آتے ہیں۔
محفل میں کسی سے ملتے وقت سامنے والے کے دنیاوی درجے کے حساب سے معانقہ یا مصافحہ کیا جاتا ہے۔ یہی حال مہمانداری کا ہے، کم درجے کے مہمانوں کے لیے اپنی جگہ سے اٹھنا تو کیا ان سے ہاتھ ملانا بلکہ مسکرا کر دیکھنا تک تضیع اوقات سمجھا جاتا ہے۔ یہ المیہ جدید ٹیکنالوجی کے ایجاد کنندگان کے معاشروں میں کم اور ہمارے جیسے صارفین اور اعلیٰ انسانی قدروں کے قصیدہ خوانوں اور خود ساختہ محافظوں کے ہاں نسبتاً بہت زیادہ ہے۔
ہماری تعلیم سے تربیت کا عنصر یکسر خارج ہو گیا ہے اور نودولتیہ اخلاقیات نے رہی سہی انسانیت کا بھی جنازہ نکال دیا ہے۔ اس حوالے سے ایک نظم ہوئی ہے فنی اعتبار سے ابھی اس کی فائن ٹیوننگ ہونی ہے لیکن اس لیے درج کر رہا ہوں کہ شعر میں یہی باتیں شاید نثری اظہار کی نسبت بہتر طور سے قلم بند ہوئی ہیں۔ کہتے ہیں آئینہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا تو آئیے اس سچ کو اس نظم کے آئینے میں دیکھتے ہیں کہ اپنے دامن کو دیکھنے کی روایت تو ہم کب کی ترک کر چکے ہیں۔
سودا
نیا انسان کہنے کو نیا تو ہوگیا ہے
کہ اس کی دسترس میں ایک جادو کی چھڑی ہے
سہولت کا یہ عالم ہے
کہ ہر شے اس کی انگلی کے اشارے پر
غلاموں کی طرح حاضر کھڑی ہے
بہت آسانیاں چاروں طرف ہیں
وہ جو چاہے، جہاں اور جس طرح چاہے
مہیا پل میں ہوتا ہے
کسی بھی شے کے بارے میں کوئی تفصیل بھی اس کی
رسائی سے نہیں باہر
کہ انٹرنیٹ میں سب کچھ ہے
اسے یہ زعم ہے روئے زمیں پر
جو بھی موجودات کے زمرے میں آتا ہے
وہ اس سے خوب واقف ہے
کہ ڈیٹا بیس کی زنبیل صحرا سے بڑی ہے
یہ دعویٰ بھی حقیقت ہے
کہ وہ چیزوں کے بارے میں اب اتنا علم رکھتا ہے
کہ جو پچھلی صدی میں ابن آدم کے تصور سے بھی آگے تھا
پر اس پانے میں جو کچھ کھو گیا ہے اس کو دیکھیں تو
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ یہ کیسا تماشا ہے!
نئی دنیا میں رہنے کا یہ سودا کتنا مہنگا ہے!
''ہمارے گھر دوبارہ سے عمارت بنتے جاتے ہیں
جو اب یہ اپنی اپنی ہے یہ دنیا سب کی ہوتی تھی
ہمیں اپنوں سے ملنے کی بھی فرصت اب نہیں ملتی
پرندوں اور درختوں اور پھولوں اور موسم سے
ہماری گفتگو کا سلسلہ موقوف ہے کب سے
ستاروں، بادلوں، شمس و قمر سے اور فطرت سے
تعلق تک نہیں باقی۔''
ہم اس دنیا میں رہتے ہیں کسی روبوٹ کی صورت
کہ جو سنتا سمجھتا، دیکھتا اور بولتا تو ہے
مگر جو اپنے سینے میں دل، زندہ نہیں رکھتا
کسی بھی غم سے اس کی آنکھ میں آنسو نہیں آتے
نہ اُسکا چین چھنتا ہے
نہ اس کی نیند اڑتی ہے
کہ وہ ایک چیز ہے اور چیز میں جذبے نہیں ہوتے
نئے انساں کی دنیا میں فقط چیزیں ہی چیزیں ہیں
ضرورت بھی ان ہی کی ہے، حکومت بھی ان ہی کی ہے
یہی چیزیں ہیں جو اس کو اٹھاتی اور بٹھاتی ہیں
پرانے لوگ بھی چیزیں بناتے اور ان کے ساتھ رہتے تھے
مگر یہ فرق تھا شائد
وہ ان سے اپنی خوشیوں کے لیے رستے بناتے
دوسروں کی منزلیں آسان کرتے تھے
نئے انسان کی دنیا بس اس کی ذات ہی کے دائرے میں رقص کرتی ہے
اسے اپنے علاوہ کچھ نہیں دکھتا
یہ خود غرضی کی دیواریں کہ جن کی حد نہیں کوئی
یہ اس نے خود اٹھائی ہیں
وہ ان چیزوں کا قیدی ہے جو اس نے خود بنائی ہیں
کہ ان سے ماورا اس کو دکھائی کچھ نہیں دیتا، سنائی کچھ نہیں دیتا
یہ خود کو بیچ کر جینا سمجھ میں ہی نہیں آتا
نئے انساں کا یہ سودا سمجھ میں ہی نہیں آتا