کتابوں کی روشنی حصہ اول
ابو نثر جانے پہچانے قلم کار ہیں
ممتاز افسانہ نگار اے خیام کے افسانوں کا مجموعہ ''جنت جہنم'' حال ہی میں شایع ہوا ہے۔ یہ کتاب 224 صفحات اور 18 افسانوں کا احاطہ کرتی ہے۔ ہر افسانہ اپنی بنت، اسلوب بیان اور انفرادیت کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔
ڈاکٹر انور سدید نے مصنف کے افسانوں کے بارے میں اپنی رائے کو تحریر کے قالب میں کچھ اس انداز میں ڈھالا ہے کہ ''اے خیام اولاً ایک درویش صفت گوشہ نشین افسانہ نگار ہے جو گرد و پیش پر گہری نظر رکھتا ہے، حالات و واقعات اور حادثات کا تجزیہ بھی کرتا ہے، لیکن افسانہ اس وقت تک نہیں لکھتا ہے جب تک تلخ حقائق اور انسان پر انسان کا جبر و استحصال اس کے باطن میں طوفان بپا نہیں کردیتا، میں نے اے خیام کے افسانوں کے دونوں مجموعے ''کپل وستو کا شہزادہ'' اور ''خالی ہاتھ '' کسی وقفے کے بغیر پڑھے ہیں اور میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اے خیام نے اپنی تخلیقی ذمے داری کو نہ صرف ہمیشہ پیش نظر رکھا بلکہ اپنے خلوص و مشاہدے کو افسانوی بنت میں اس طرح شامل کیا کہ وہ اپنے عہد کے بیشتر افسانہ نگاروں سے انوکھا اور منفرد افسانہ نگار نظر آتا ہے''۔
اس سے قبل اے خیام کا ناول ''سراب منزل'' شایع ہوکر ناقدین و قارئین سے داد و تحسین وصول کرچکا ہے، ''سراب منزل'' کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ ایک خاص موضوع پہ لکھا گیا ہے اور وہ موضوع نوجوانوں کی بے روزگاری، تعلیمی ناقدری اور پھر ملک سے باہر جانے کی خواہش پر روشنی ڈالتا ہے کہ بیرون ملک جانے والوں کو کن کن مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور پھر ایجنٹ حضرات کی دھوکا دہی اور لوٹ مار، معاشی مسئلے کو حل کرنیوالے نوجوانوں کو مزید مشکلات میں مبتلا کردیتا ہے۔
خیام کے بالترتیب 3 افسانوں کے مجموعے کپل وستو کا شہزادہ (1993)، خالی ہاتھ (2005)، جنت جہنم اور دوسرے افسانے 2016 میں شایع ہوئے۔ اے خیام مبصر و نقاد بھی ہیں، وہ گاہے بگاہے کتابوں پر مضامین لکھتے اور تقریبات میں پڑھتے رہے ہیں۔ ''ترسیل و ترویج'' جوکہ مضامین کا مجموعہ ہے، وہ پچھلے برسوں اشاعت کے مرحلے سے گزر چکا ہے۔ اے خیام ممتاز و معتبر قلمکار ہیں، ان کی تحریریں پڑھی جاتی ہیں اور ادبی حلقوں میں اکثر موضوع بحث بنی رہتی ہیں اور یہی ان کی تحریر کی خوبی ہے۔
''وہ جو اکثر یاد آتے ہیں'' ابو نثر کے تحریر کردہ خاکوں کی کتاب ہے، ضخامت کے اعتبار سے 280 صفحات پر مشتمل ہے، ٹائٹل ان اعلیٰ حضرات کی تصاویر سے مزین ہے، جن کے بارے میں بے حد محبت و نفاست کے ساتھ خامہ فرسائی کی گئی ہے۔ ابو نثر جانے پہچانے قلم کار ہیں، ان کی تحریریں اخبار و جرائد میں شایع ہوتی رہتی ہیں، وہ بہت اچھے نثر نگار ہیں، روانی، شگفتگی و شائستگی ان کی نگارشات کا خاصا ہے، سلاست و سادگی نے مصنف کی تحریروں کو قابل مطالعہ بنادیا ہے۔
قاری ایک بار ان کا کالم یا مضمون پڑھنے کے بعد دوبارہ پڑھنے کی آرزو کرتا ہے۔ کتاب کا نام پڑھ کر اچانک ذہن میں ایک خیال ابھرتا ہے کہ شاید یہ سب حضرات گزر چکے ہیں، لیکن نہیں جناب، ماشا اللہ وہ نابغہ روزگار شخصیات بھی موجود ہیں جو حیات ہیں، اللہ ان کی عمروں میں مزید اضافہ کرے، آمین۔
میں اپنی ذاتی مصروفیت کے باعث پوری کتاب تو نہ پڑھ سکی، البتہ چند خاکے ضرور پڑھے اور بڑے شوق اور تجسس کے ساتھ کہ ابو نثر نے ان کے اہم در وا کیے ہیں اور شخصیت کے بارے میں بہت سی معلومات، عادات و اطوار کو بے حد دلچسپ پیرائے میں لکھا ہے کہ ان کی تحریروں کی یہی خاصیت ہے کہ پڑھنے والا بدمزہ ہرگز نہیں ہوتا ہے۔ کسی بھی تحریر سے خوشی اور طمانیت حاصل ہوجائے تو یہ بات یقینی ہے کہ مصنف نے اپنی تحریروں کو اپنی محنت و عرق ریزی سے موثر بنادیا ہے۔
سب سے پہلا خاکہ افتخار عارف کا ہے، اس خاکے میں جہاں ہمیں افتخار عارف کے اوصاف نظر آتے ہیں وہاں ان کی شاعری بھی شان بان کے ساتھ جلوہ گر ہے اور یہ مصنف کا کمال ہے کہ انھوں نے کچھ مشہور اشعار اور نظم 'بارہواں کھلاڑی' شامل کردی ہے۔ یہ بات بھی اچھی لگی، جسے ابو نثر نے اپنے قارئین کو پیش کیا ہے کہ جب افتخار عارف نے پروفیسر سحر انصاری کا خط پڑھ کر انھیں بحیثیت کاپی رائٹر کے ملازمت کی پیش کش کی اور مصنف نے یہ سمجھا بلکہ ترجمہ کیا کاپی رائٹ ''نقل نویس'' اور فوراً انکار میں گردن ہلادی، لیکن جب مصنف کو کاپی رائٹر کا مطلب معلوم ہوا تو بہت دیر ہوچکی تھی۔
پروفیسر سحر انصاری کا کردار بھی اسی خاکے کے ذریعے سامنے آتا ہے کہ استاد کس طرح اپنے طلبا کا خیال رکھتے اور ان کی ہر طرح سے مدد کرنے کی کوشش کرتے تھے اور آج، روایات، خلوص اور ذمے دارانہ رویے کے حوالے سے سب کچھ بدل چکا ہے۔ اور اب پروفیسر سحر انصاری جیسے اساتذہ کے برعکس معاملات نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر حمید اللہ کی شخصیت، علمیت و لیاقت پر لکھا ہوا بے حد دلنشیں خاکہ ہے اور عنوان بھی ڈاکٹر حمید اللہ ہی ہے۔ ابو نثر نے بہت خوبصورت منظرنگاری کرتے ہوئے ڈاکٹر حمید اللہ کی شخصیت کی سنہری پرتوں کی پردہ کشائی کی ہے۔
سچے مسلمان اور صاحب ایمان محقق مولف، مفسر اور مبلغ ڈاکٹر حمید اللہ کے علم و تقویٰ سے متاثر ہوکر کئی خواتین نے اسلام قبول کیا اور ان کے بتائے ہوئے ان علوم سے استفادہ کیا جو قرآن و سنت کے مطابق تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے پیرس اور دوسری جگہوں پر رہتے ہوئے تبلیغ دین کے حوالے سے بے شمار لیکچرز دیے، مصنف نے اپنے طرز تحریر سے کسی بھی خاکے کو غیر ضروری فقروں سے بوجھل ہونے نہیں دیا ہے۔
خاکہ حفیظ جالندھری کا ہو یا حکیم محمد سعید کا، یا پھر سراج الحق کا، مولانا شاہ احمد نورانی یا مشفق خواجہ کا ہو، اپنا جواب آپ ہے اور بے شمار تحریروں میں خاکوں کی یہ کتاب یکتا نظر آتی ہے، کیوں نہ آئے کہ یہ خاکے ابو نثر کی لیاقت کے شاہکار ہیں۔ ان کا نام ہی ابو نثر پڑ چکا ہے، یعنی نثر کا باپ۔ مصنف کے لکھے ہوئے خاکوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ منظر نگاری و مکالمہ نگاری کے حوالے سے افسانہ و ناول کا مزہ دیتے ہیں۔
ڈاکٹر زاہد حسین کی کتاب کئی حوالوں سے مجھ تک پہنچی، پہلا حوالہ تو شاعر صدیقی کا ہے اور دوسرا شفیق احمد شفیق کا اور بھی کئی لوگوں نے یاددہانی کرائی کہ کتاب مل گئی؟ جناب مل گئی ہے۔ (جاری ہے)
ڈاکٹر انور سدید نے مصنف کے افسانوں کے بارے میں اپنی رائے کو تحریر کے قالب میں کچھ اس انداز میں ڈھالا ہے کہ ''اے خیام اولاً ایک درویش صفت گوشہ نشین افسانہ نگار ہے جو گرد و پیش پر گہری نظر رکھتا ہے، حالات و واقعات اور حادثات کا تجزیہ بھی کرتا ہے، لیکن افسانہ اس وقت تک نہیں لکھتا ہے جب تک تلخ حقائق اور انسان پر انسان کا جبر و استحصال اس کے باطن میں طوفان بپا نہیں کردیتا، میں نے اے خیام کے افسانوں کے دونوں مجموعے ''کپل وستو کا شہزادہ'' اور ''خالی ہاتھ '' کسی وقفے کے بغیر پڑھے ہیں اور میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اے خیام نے اپنی تخلیقی ذمے داری کو نہ صرف ہمیشہ پیش نظر رکھا بلکہ اپنے خلوص و مشاہدے کو افسانوی بنت میں اس طرح شامل کیا کہ وہ اپنے عہد کے بیشتر افسانہ نگاروں سے انوکھا اور منفرد افسانہ نگار نظر آتا ہے''۔
اس سے قبل اے خیام کا ناول ''سراب منزل'' شایع ہوکر ناقدین و قارئین سے داد و تحسین وصول کرچکا ہے، ''سراب منزل'' کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ ایک خاص موضوع پہ لکھا گیا ہے اور وہ موضوع نوجوانوں کی بے روزگاری، تعلیمی ناقدری اور پھر ملک سے باہر جانے کی خواہش پر روشنی ڈالتا ہے کہ بیرون ملک جانے والوں کو کن کن مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور پھر ایجنٹ حضرات کی دھوکا دہی اور لوٹ مار، معاشی مسئلے کو حل کرنیوالے نوجوانوں کو مزید مشکلات میں مبتلا کردیتا ہے۔
خیام کے بالترتیب 3 افسانوں کے مجموعے کپل وستو کا شہزادہ (1993)، خالی ہاتھ (2005)، جنت جہنم اور دوسرے افسانے 2016 میں شایع ہوئے۔ اے خیام مبصر و نقاد بھی ہیں، وہ گاہے بگاہے کتابوں پر مضامین لکھتے اور تقریبات میں پڑھتے رہے ہیں۔ ''ترسیل و ترویج'' جوکہ مضامین کا مجموعہ ہے، وہ پچھلے برسوں اشاعت کے مرحلے سے گزر چکا ہے۔ اے خیام ممتاز و معتبر قلمکار ہیں، ان کی تحریریں پڑھی جاتی ہیں اور ادبی حلقوں میں اکثر موضوع بحث بنی رہتی ہیں اور یہی ان کی تحریر کی خوبی ہے۔
''وہ جو اکثر یاد آتے ہیں'' ابو نثر کے تحریر کردہ خاکوں کی کتاب ہے، ضخامت کے اعتبار سے 280 صفحات پر مشتمل ہے، ٹائٹل ان اعلیٰ حضرات کی تصاویر سے مزین ہے، جن کے بارے میں بے حد محبت و نفاست کے ساتھ خامہ فرسائی کی گئی ہے۔ ابو نثر جانے پہچانے قلم کار ہیں، ان کی تحریریں اخبار و جرائد میں شایع ہوتی رہتی ہیں، وہ بہت اچھے نثر نگار ہیں، روانی، شگفتگی و شائستگی ان کی نگارشات کا خاصا ہے، سلاست و سادگی نے مصنف کی تحریروں کو قابل مطالعہ بنادیا ہے۔
قاری ایک بار ان کا کالم یا مضمون پڑھنے کے بعد دوبارہ پڑھنے کی آرزو کرتا ہے۔ کتاب کا نام پڑھ کر اچانک ذہن میں ایک خیال ابھرتا ہے کہ شاید یہ سب حضرات گزر چکے ہیں، لیکن نہیں جناب، ماشا اللہ وہ نابغہ روزگار شخصیات بھی موجود ہیں جو حیات ہیں، اللہ ان کی عمروں میں مزید اضافہ کرے، آمین۔
میں اپنی ذاتی مصروفیت کے باعث پوری کتاب تو نہ پڑھ سکی، البتہ چند خاکے ضرور پڑھے اور بڑے شوق اور تجسس کے ساتھ کہ ابو نثر نے ان کے اہم در وا کیے ہیں اور شخصیت کے بارے میں بہت سی معلومات، عادات و اطوار کو بے حد دلچسپ پیرائے میں لکھا ہے کہ ان کی تحریروں کی یہی خاصیت ہے کہ پڑھنے والا بدمزہ ہرگز نہیں ہوتا ہے۔ کسی بھی تحریر سے خوشی اور طمانیت حاصل ہوجائے تو یہ بات یقینی ہے کہ مصنف نے اپنی تحریروں کو اپنی محنت و عرق ریزی سے موثر بنادیا ہے۔
سب سے پہلا خاکہ افتخار عارف کا ہے، اس خاکے میں جہاں ہمیں افتخار عارف کے اوصاف نظر آتے ہیں وہاں ان کی شاعری بھی شان بان کے ساتھ جلوہ گر ہے اور یہ مصنف کا کمال ہے کہ انھوں نے کچھ مشہور اشعار اور نظم 'بارہواں کھلاڑی' شامل کردی ہے۔ یہ بات بھی اچھی لگی، جسے ابو نثر نے اپنے قارئین کو پیش کیا ہے کہ جب افتخار عارف نے پروفیسر سحر انصاری کا خط پڑھ کر انھیں بحیثیت کاپی رائٹر کے ملازمت کی پیش کش کی اور مصنف نے یہ سمجھا بلکہ ترجمہ کیا کاپی رائٹ ''نقل نویس'' اور فوراً انکار میں گردن ہلادی، لیکن جب مصنف کو کاپی رائٹر کا مطلب معلوم ہوا تو بہت دیر ہوچکی تھی۔
پروفیسر سحر انصاری کا کردار بھی اسی خاکے کے ذریعے سامنے آتا ہے کہ استاد کس طرح اپنے طلبا کا خیال رکھتے اور ان کی ہر طرح سے مدد کرنے کی کوشش کرتے تھے اور آج، روایات، خلوص اور ذمے دارانہ رویے کے حوالے سے سب کچھ بدل چکا ہے۔ اور اب پروفیسر سحر انصاری جیسے اساتذہ کے برعکس معاملات نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر حمید اللہ کی شخصیت، علمیت و لیاقت پر لکھا ہوا بے حد دلنشیں خاکہ ہے اور عنوان بھی ڈاکٹر حمید اللہ ہی ہے۔ ابو نثر نے بہت خوبصورت منظرنگاری کرتے ہوئے ڈاکٹر حمید اللہ کی شخصیت کی سنہری پرتوں کی پردہ کشائی کی ہے۔
سچے مسلمان اور صاحب ایمان محقق مولف، مفسر اور مبلغ ڈاکٹر حمید اللہ کے علم و تقویٰ سے متاثر ہوکر کئی خواتین نے اسلام قبول کیا اور ان کے بتائے ہوئے ان علوم سے استفادہ کیا جو قرآن و سنت کے مطابق تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے پیرس اور دوسری جگہوں پر رہتے ہوئے تبلیغ دین کے حوالے سے بے شمار لیکچرز دیے، مصنف نے اپنے طرز تحریر سے کسی بھی خاکے کو غیر ضروری فقروں سے بوجھل ہونے نہیں دیا ہے۔
خاکہ حفیظ جالندھری کا ہو یا حکیم محمد سعید کا، یا پھر سراج الحق کا، مولانا شاہ احمد نورانی یا مشفق خواجہ کا ہو، اپنا جواب آپ ہے اور بے شمار تحریروں میں خاکوں کی یہ کتاب یکتا نظر آتی ہے، کیوں نہ آئے کہ یہ خاکے ابو نثر کی لیاقت کے شاہکار ہیں۔ ان کا نام ہی ابو نثر پڑ چکا ہے، یعنی نثر کا باپ۔ مصنف کے لکھے ہوئے خاکوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ منظر نگاری و مکالمہ نگاری کے حوالے سے افسانہ و ناول کا مزہ دیتے ہیں۔
ڈاکٹر زاہد حسین کی کتاب کئی حوالوں سے مجھ تک پہنچی، پہلا حوالہ تو شاعر صدیقی کا ہے اور دوسرا شفیق احمد شفیق کا اور بھی کئی لوگوں نے یاددہانی کرائی کہ کتاب مل گئی؟ جناب مل گئی ہے۔ (جاری ہے)