کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان کے لیے آنے والے برس انتہائی حساس ہیں
ASIR, SAUDI ARABIA:
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان کے لیے آنے والے برس انتہائی حساس ہیں، حکومت اور ارباب اختیار کے لیے مسائل کا انبار ہے اور ان حالات میں اگر تجربے کار اورصائب ویژن کے حامل سیاست دان سامنے نہ آئے تو شاید ملک تاریخ کے نازک ترین دور میں داخل ہوجائے اور حکمران قیادت کے لیے ملک کو سنبھالنا مشکل ہوجائے۔
ہماری دانست میں اس وقت وطن عزیزکا سب سے ہولناک اور سلگتا ہوا مسئلہ ''پانی'' ہے اور ہمیں اس وقت پانی کی ایک ایک شفاف بوند کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی مرنے والے کوآکسیجن کی ہوتی ہے۔ صوبہ سندھ میں واقع ''منچھر جھیل'' پاکستان ہی نہیں پورے ایشیا میں میٹھے اور تازہ پانی کی سب سے بڑی جھیل ہے جو ہمارے ارباب اختیارکی حد درجہ لاپرواہی اورغیرذمے داری کے نتیجے میں تباہی کے سنگین خطرات سے دوچار ہے۔
اس جھیل میں صنعتوں اور زرعی فصلوں کا کیمیائی طور پر آلودہ فضلہ جھیل میں کئی عشروں سے چھوڑے جانے کے باعث اس کا پانی انتہائی زہریلا ہو چکا ہے جس کی وجہ سے مچھلیوں کی افزائش تقریباً ختم ہوکر رہ گئی ہے جس کی وجہ سے ہزاروں ماہی گیر خاندانوں کی گزر بسر ہر آنیوالے دن کے ساتھ ساتھ دشوار سے دشوار تر ہوتی جا رہی ہے کیونکہ ان ماہی گیروں کی آمدنی کا واحد ذریعہ اس جھیل سے پکڑی جانے والی مچھلیاں تھیں۔
ماہرین اور تجزیہ کاروں کی متفقہ رائے ہے کہ اگر صورتحال جوں کی توں رہی تو یہ خوبصورت جھیل آنیوالے چند برسوں میں مکمل طور پر تباہ ہوجائے گی اور یہی وہ عرصہ ہے جس میں اسے بچایا جاسکتا ہے اوراس کے بعد اس کی بحالی ناممکن ہوجائے گی۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ منچھر جھیل پاکستان میں میٹھے پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ سمجھی جاتی ہے۔ جس میں پانی کا ذخیرہ بارش پرانحصار کرتا ہے، یہ جھیل سالانہ مون سون سیزن میں 250 مربع کلومیٹر تک پھیل جاتی ہے۔ 1970 کی دہائی میں سندھ کے مختلف اضلاع کی صنعتوں کا فضلہ اور زہریلا مواد اور ساتھ ہی چاول کی پیڈی کا اضافی پانی جس میں کیڑے مار ادویات اورکیمیائی مواد شامل ہوتا ہے کی نکاسی جھیل میں کرنے کے لیے کینال تعمیر کیے گئے۔
اسی دوران پہاڑی سلسلوں سے آنیوالے میٹھے پانی کی جھیل میں سپلائی میں بھی کمی واقع ہوگئی۔ پہلے اس جھیل کا زہریلا مواد بحیرہ عرب میں ڈالنے کے لیے ایک پلان تجویزکیا گیا تھا لیکن فنڈزکی کمی اور زہریلے مواد کی بدستور جھیل میں نکاسی کی وجہ سے پلان پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
2010 میں ہماری سپریم کورٹ نے منچھر جھیل کی آلودگی کا کیس ازخود سماعت کے لیے منظور کیا تھا لیکن یہ عدالت بھی حکومت کو کسی کارروائی پر مجبور نہیں کرپائی۔ یہ جھیل خدا کا تحفہ ہے جسے ہمارے ارباب اختیارکے تجاہل عارفانہ نے اس کی تمام ترخوبصورتیوں کے ساتھ تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ ہمارے ارباب اختیار جس مقام پر ہیں بہت مزے میں ہیں۔ اگر خسارے میں کوئی ہے تو وہ ہمارا ملک ہے، ہمارا معاشرہ ہے، اس کی سالمیت ہے، اس کی آزادی ہے اور اس کی قوم ہے اور مورخین کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ وہ قومیں بہت جلد تاریخ کے قبرستان تک پہنچ جاتی ہیں جو اپنی لاپرواہیوں اور اپنی غلطیوں کی اصلاح نہیں کرتیں جو اپنی کوتاہیوں پر شرمسار نہیں ہوتیں۔
ہمارے ملک کو پانی کی جس شدید قلت کا سامنا ہے اور آنیوالے برسوں میں اس کی شدت میں جس اضافے کا خدشہ ہے، اس کے پیش نظر پانی ملک میں موجود آبی ذخائر کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش ہوش مندی کا تقاضا ہے۔ منچھر جھیل کے فطری حسن کی پامالی کی وجہ سے ہر سال لاکھوں خوبصورت پرندوں کی آمد میں بھی نمایاں کمی ہوچکی ہے جس کی وجہ سے سیاحوں کے لیے بھی اس کی کشش میں مسلسل کمی واقع ہوتی جا رہی ہے، جب کہ ہزاروں ماہی گیر خاندانوں کی مکمل بے روزگاری کے اندیشے کی بنا پر یہ ایک فوری توجہ طلب قومی اور انسانی مسئلہ بھی بن گیا ہے جس سے ہمارے حکمران پہلو تہی برتتے چلے آرہے ہیں۔
بڑے دکھ اور بڑے شرم کی بات ہے کہ چھ سال پہلے ملک کی سب سے بڑی عدلیہ نے بطور خاص اس معاملے کا ازخود نوٹس بھی لیا مگر اس کی مداخلت بھی بے نتیجہ ہی ثابت ہوئی۔ہمارے سیاستدانوں یا حکمرانوں کا ملک کے حساس سے حساس مسئلے یا معاملے میں دل کیوں نہیں نرم ہوتا؟ بس صرف اور صرف انھیں اپنی سیاست سے ہی کیوں سروکار ہوتا ہے؟ شاید اس لیے بھی کہ وطن عزیز میں سیاست کا دل ہی نہیں ہوتا، یہ کسی کی نہیں ہوتی وقت آئے تو یہ خون دینے والوں کا ہی خون چوس لیتی ہے۔
ایک منچھر جھیل ہی کے مسئلے پرکیا آنکھوں کا پانی ضایع کرنا، ایک سے بڑھ کر ایک دلدوز معاملے پر ہمارے حکمرانوں کی ڈھٹائی روز روشن کی طرح عیاں چلی آرہی ہے اور وقت بالآخر یہ بات بھی بارہا ثابت کرچکا ہے کہ ہمارے سیاستداں، ہمارے حکمراں اس ملک سے کسی طور مخلص اور ہمدرد نہیں ہیں۔ کاش ہم ''سی پیک منصوبے'' پر ہی بغلیں نہ بجاتے رہیں بلکہ اس سے آگے یہ دیکھیں یہ سوچیں کہ ہم اپنے محسن پڑوسی ملک چین سے کچھ نہیں تو صرف حب الوطنی اور جدوجہد کا چلن ہی سیکھ لیں۔
یہ ایک مسلم امر ہے کہ ہمارے عوام، ہمارے ماہرین، ہمارے صلاحیتوں اور حب الوطنی سے لبریز اذہان کسی طور چینی عوام سے پیچھے نہیں ہیں، بس انھیں صرف اور صرف ایک ماؤزے تنگ کی تلاش اور ضرورت ہے۔ ستم ظریفی دیکھیے ہم نے ایٹم بم تو بنالیا مگر سوئی چین سے امپورٹ کرتے ہیں اور ایشین ٹائیگر بننے کے خواب دیکھتے ہیں۔ سخت سردیوں میں گھنٹوں بجلی آنے کا انتظار کرتے ہیں اور شدید گرمیوں میں اپنا خون پسینہ جلا کر اپنی مجبوریوں اور بے بسیوں کو کوستے رہتے ہیں۔
کاش ہم جان پاتے کہ ہمارے حکمرانوں کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں صرف جھوٹے وعدوں کی شیرینیاں ہیں اور ہم بھولے یہ نہیں جانتے کہ بہت سی شیرینیاں زہر سے بھی زیادہ زہریلی ہوتی ہیں اور یہ بھی کہ بددیانت حکمرانوں سے بہتری کی توقع صحرا سے مچھلیاں مانگنے کے مترادف ہوتا ہے۔اس وقت جب کہ بھارت واشگاف لفظوں میں ہمیں بوند بوند پانی کو ترسا کر مار دینے کا عندیہ دے چکا ہے، ہمیں اب سے ہوش کے ناخن لے لینے چاہئیں اور اپنے آبی ذخائر کو وسعت دینی چاہیے، اس پر گہری نگاہ کرنی چاہیے اور اگر وطن عزیز کے کسی چپے کسی گوشے سے ہمیں پانی مہیا ہو رہا ہے تو اس کی قدر ہمیں فوری کرنی چاہیے۔ اسے برباد اور ضایع نہیں کرنا چاہیے۔
ہماری اعلیٰ عدلیہ کو اپنے چھ سالہ ماضی کے ''سو موٹو ایکشن'' کو پھر سے ایکشن میں لانا چاہیے۔ اور ہماری عدلیہ کو یہ باورکرا دینا چاہیے کہ ملکوں کو فوجیں، توپیں، گولہ بارود اور میزائل نہیں بچایا کرتے، ملک قانون قاعدے کے ذریعے بنتے ہیں اور انھیں عدالتیں اور جج ہی قائم رکھتے ہیں۔ عالمی منظر نامے پر اگر نگاہ کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ آپ کو دنیا کا ہر وہ ملک ترقی کرتا دکھائی دے گا جس میں عدالتی نظام مضبوط ہے، جس میں صدر سے چپڑاسی تک ہر شخص عدالت میں جواب دہ ہے اور جس میں جج کا فرمایا ہوا حرف آخر ہوتا ہے۔
مسند اقتدار پر براجمان میاں محمد نواز شریف اور اگلی باری کے منتظر آصف علی زرداری دونوں کو اب اپنے مستقبل کے لیے نہایت اہم فیصلے کرنے ہیں اور منچھر جھیل بھی ان ہی میں سے ایک اہم مسئلہ ہے اور آئندہ الیکشن زیادہ فاصلے پر بھی نہیں رہے لہٰذا اب ان کی ماضی اور حال کی غلط کاریاں انھیں شکست فاش سے بھی دوچار کرسکتی ہے۔ ویسے بھی یہ دونوں صاحبان اب ایک ایسے مقام پر آگئے ہیں جہاں ذرا سی بے احتیاطی انھیں تاریخ کے بوسیدہ اوراق میں جذب کردے گی۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان کے لیے آنے والے برس انتہائی حساس ہیں، حکومت اور ارباب اختیار کے لیے مسائل کا انبار ہے اور ان حالات میں اگر تجربے کار اورصائب ویژن کے حامل سیاست دان سامنے نہ آئے تو شاید ملک تاریخ کے نازک ترین دور میں داخل ہوجائے اور حکمران قیادت کے لیے ملک کو سنبھالنا مشکل ہوجائے۔
ہماری دانست میں اس وقت وطن عزیزکا سب سے ہولناک اور سلگتا ہوا مسئلہ ''پانی'' ہے اور ہمیں اس وقت پانی کی ایک ایک شفاف بوند کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی مرنے والے کوآکسیجن کی ہوتی ہے۔ صوبہ سندھ میں واقع ''منچھر جھیل'' پاکستان ہی نہیں پورے ایشیا میں میٹھے اور تازہ پانی کی سب سے بڑی جھیل ہے جو ہمارے ارباب اختیارکی حد درجہ لاپرواہی اورغیرذمے داری کے نتیجے میں تباہی کے سنگین خطرات سے دوچار ہے۔
اس جھیل میں صنعتوں اور زرعی فصلوں کا کیمیائی طور پر آلودہ فضلہ جھیل میں کئی عشروں سے چھوڑے جانے کے باعث اس کا پانی انتہائی زہریلا ہو چکا ہے جس کی وجہ سے مچھلیوں کی افزائش تقریباً ختم ہوکر رہ گئی ہے جس کی وجہ سے ہزاروں ماہی گیر خاندانوں کی گزر بسر ہر آنیوالے دن کے ساتھ ساتھ دشوار سے دشوار تر ہوتی جا رہی ہے کیونکہ ان ماہی گیروں کی آمدنی کا واحد ذریعہ اس جھیل سے پکڑی جانے والی مچھلیاں تھیں۔
ماہرین اور تجزیہ کاروں کی متفقہ رائے ہے کہ اگر صورتحال جوں کی توں رہی تو یہ خوبصورت جھیل آنیوالے چند برسوں میں مکمل طور پر تباہ ہوجائے گی اور یہی وہ عرصہ ہے جس میں اسے بچایا جاسکتا ہے اوراس کے بعد اس کی بحالی ناممکن ہوجائے گی۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ منچھر جھیل پاکستان میں میٹھے پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ سمجھی جاتی ہے۔ جس میں پانی کا ذخیرہ بارش پرانحصار کرتا ہے، یہ جھیل سالانہ مون سون سیزن میں 250 مربع کلومیٹر تک پھیل جاتی ہے۔ 1970 کی دہائی میں سندھ کے مختلف اضلاع کی صنعتوں کا فضلہ اور زہریلا مواد اور ساتھ ہی چاول کی پیڈی کا اضافی پانی جس میں کیڑے مار ادویات اورکیمیائی مواد شامل ہوتا ہے کی نکاسی جھیل میں کرنے کے لیے کینال تعمیر کیے گئے۔
اسی دوران پہاڑی سلسلوں سے آنیوالے میٹھے پانی کی جھیل میں سپلائی میں بھی کمی واقع ہوگئی۔ پہلے اس جھیل کا زہریلا مواد بحیرہ عرب میں ڈالنے کے لیے ایک پلان تجویزکیا گیا تھا لیکن فنڈزکی کمی اور زہریلے مواد کی بدستور جھیل میں نکاسی کی وجہ سے پلان پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
2010 میں ہماری سپریم کورٹ نے منچھر جھیل کی آلودگی کا کیس ازخود سماعت کے لیے منظور کیا تھا لیکن یہ عدالت بھی حکومت کو کسی کارروائی پر مجبور نہیں کرپائی۔ یہ جھیل خدا کا تحفہ ہے جسے ہمارے ارباب اختیارکے تجاہل عارفانہ نے اس کی تمام ترخوبصورتیوں کے ساتھ تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ ہمارے ارباب اختیار جس مقام پر ہیں بہت مزے میں ہیں۔ اگر خسارے میں کوئی ہے تو وہ ہمارا ملک ہے، ہمارا معاشرہ ہے، اس کی سالمیت ہے، اس کی آزادی ہے اور اس کی قوم ہے اور مورخین کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ وہ قومیں بہت جلد تاریخ کے قبرستان تک پہنچ جاتی ہیں جو اپنی لاپرواہیوں اور اپنی غلطیوں کی اصلاح نہیں کرتیں جو اپنی کوتاہیوں پر شرمسار نہیں ہوتیں۔
ہمارے ملک کو پانی کی جس شدید قلت کا سامنا ہے اور آنیوالے برسوں میں اس کی شدت میں جس اضافے کا خدشہ ہے، اس کے پیش نظر پانی ملک میں موجود آبی ذخائر کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش ہوش مندی کا تقاضا ہے۔ منچھر جھیل کے فطری حسن کی پامالی کی وجہ سے ہر سال لاکھوں خوبصورت پرندوں کی آمد میں بھی نمایاں کمی ہوچکی ہے جس کی وجہ سے سیاحوں کے لیے بھی اس کی کشش میں مسلسل کمی واقع ہوتی جا رہی ہے، جب کہ ہزاروں ماہی گیر خاندانوں کی مکمل بے روزگاری کے اندیشے کی بنا پر یہ ایک فوری توجہ طلب قومی اور انسانی مسئلہ بھی بن گیا ہے جس سے ہمارے حکمران پہلو تہی برتتے چلے آرہے ہیں۔
بڑے دکھ اور بڑے شرم کی بات ہے کہ چھ سال پہلے ملک کی سب سے بڑی عدلیہ نے بطور خاص اس معاملے کا ازخود نوٹس بھی لیا مگر اس کی مداخلت بھی بے نتیجہ ہی ثابت ہوئی۔ہمارے سیاستدانوں یا حکمرانوں کا ملک کے حساس سے حساس مسئلے یا معاملے میں دل کیوں نہیں نرم ہوتا؟ بس صرف اور صرف انھیں اپنی سیاست سے ہی کیوں سروکار ہوتا ہے؟ شاید اس لیے بھی کہ وطن عزیز میں سیاست کا دل ہی نہیں ہوتا، یہ کسی کی نہیں ہوتی وقت آئے تو یہ خون دینے والوں کا ہی خون چوس لیتی ہے۔
ایک منچھر جھیل ہی کے مسئلے پرکیا آنکھوں کا پانی ضایع کرنا، ایک سے بڑھ کر ایک دلدوز معاملے پر ہمارے حکمرانوں کی ڈھٹائی روز روشن کی طرح عیاں چلی آرہی ہے اور وقت بالآخر یہ بات بھی بارہا ثابت کرچکا ہے کہ ہمارے سیاستداں، ہمارے حکمراں اس ملک سے کسی طور مخلص اور ہمدرد نہیں ہیں۔ کاش ہم ''سی پیک منصوبے'' پر ہی بغلیں نہ بجاتے رہیں بلکہ اس سے آگے یہ دیکھیں یہ سوچیں کہ ہم اپنے محسن پڑوسی ملک چین سے کچھ نہیں تو صرف حب الوطنی اور جدوجہد کا چلن ہی سیکھ لیں۔
یہ ایک مسلم امر ہے کہ ہمارے عوام، ہمارے ماہرین، ہمارے صلاحیتوں اور حب الوطنی سے لبریز اذہان کسی طور چینی عوام سے پیچھے نہیں ہیں، بس انھیں صرف اور صرف ایک ماؤزے تنگ کی تلاش اور ضرورت ہے۔ ستم ظریفی دیکھیے ہم نے ایٹم بم تو بنالیا مگر سوئی چین سے امپورٹ کرتے ہیں اور ایشین ٹائیگر بننے کے خواب دیکھتے ہیں۔ سخت سردیوں میں گھنٹوں بجلی آنے کا انتظار کرتے ہیں اور شدید گرمیوں میں اپنا خون پسینہ جلا کر اپنی مجبوریوں اور بے بسیوں کو کوستے رہتے ہیں۔
کاش ہم جان پاتے کہ ہمارے حکمرانوں کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں صرف جھوٹے وعدوں کی شیرینیاں ہیں اور ہم بھولے یہ نہیں جانتے کہ بہت سی شیرینیاں زہر سے بھی زیادہ زہریلی ہوتی ہیں اور یہ بھی کہ بددیانت حکمرانوں سے بہتری کی توقع صحرا سے مچھلیاں مانگنے کے مترادف ہوتا ہے۔اس وقت جب کہ بھارت واشگاف لفظوں میں ہمیں بوند بوند پانی کو ترسا کر مار دینے کا عندیہ دے چکا ہے، ہمیں اب سے ہوش کے ناخن لے لینے چاہئیں اور اپنے آبی ذخائر کو وسعت دینی چاہیے، اس پر گہری نگاہ کرنی چاہیے اور اگر وطن عزیز کے کسی چپے کسی گوشے سے ہمیں پانی مہیا ہو رہا ہے تو اس کی قدر ہمیں فوری کرنی چاہیے۔ اسے برباد اور ضایع نہیں کرنا چاہیے۔
ہماری اعلیٰ عدلیہ کو اپنے چھ سالہ ماضی کے ''سو موٹو ایکشن'' کو پھر سے ایکشن میں لانا چاہیے۔ اور ہماری عدلیہ کو یہ باورکرا دینا چاہیے کہ ملکوں کو فوجیں، توپیں، گولہ بارود اور میزائل نہیں بچایا کرتے، ملک قانون قاعدے کے ذریعے بنتے ہیں اور انھیں عدالتیں اور جج ہی قائم رکھتے ہیں۔ عالمی منظر نامے پر اگر نگاہ کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ آپ کو دنیا کا ہر وہ ملک ترقی کرتا دکھائی دے گا جس میں عدالتی نظام مضبوط ہے، جس میں صدر سے چپڑاسی تک ہر شخص عدالت میں جواب دہ ہے اور جس میں جج کا فرمایا ہوا حرف آخر ہوتا ہے۔
مسند اقتدار پر براجمان میاں محمد نواز شریف اور اگلی باری کے منتظر آصف علی زرداری دونوں کو اب اپنے مستقبل کے لیے نہایت اہم فیصلے کرنے ہیں اور منچھر جھیل بھی ان ہی میں سے ایک اہم مسئلہ ہے اور آئندہ الیکشن زیادہ فاصلے پر بھی نہیں رہے لہٰذا اب ان کی ماضی اور حال کی غلط کاریاں انھیں شکست فاش سے بھی دوچار کرسکتی ہے۔ ویسے بھی یہ دونوں صاحبان اب ایک ایسے مقام پر آگئے ہیں جہاں ذرا سی بے احتیاطی انھیں تاریخ کے بوسیدہ اوراق میں جذب کردے گی۔