تعلیم کا حقیقی تصور
تربیت اور کردار سازی کو تعلیمی نظریئے میں شامل کرنا مثبت تبدیلی کے لیے اہم ہے
تعلیم کا مقصد انسان کو بتانا نہیں بلکہ انسان کو بنانا ہے''یہ قولِ زریں اِس عظیم خادمِ علم کا ہے جو شہنشاہِ علم کا مرید تھا۔ اِس خادمِ علم کو دنیا علامہ سید سلیمان ندوی کے نام سے جانتی ہے جو علامہ شبلی نعمانی کے خلفِ رشید تھے۔ اِس قول میں کئی راز پوشیدہ ہیں جنھیں آج ہم جاننے سے قاصر ہیں۔
ہمارے آباؤ اجداد تعلیم کے مقصد کو بخوبی سمجھتے تھے اور اِسی وجہ سے قدرت نے اْنہیں وہ عروج عطا فرمایا جو آج بھی ہمارے لیے فخر و مسرت کا باعث ہے۔ اسلاف نے تعلیم کو ہمیشہ تربیت سے جوڑے رکھا اور اِس رشتے کی مضبوطی نے اْنھیں اندرونی اور بیرونی طور پراستحکام عطا کیا لیکن اِس کلیدی رشتے کو آج ہم نے مجروح کرنے میں کوئی کسر نہیں اْٹھا رکھی ہے۔
جب ہم انسانی نشوونما کے اساسی پہلوؤں کی بات کرتے ہیں تو اکثر ہمارا میلان مادی اور ظاہری ترقی کی جانب ہوتا ہے، جبکہ اْس کی روحانی اور باطنی تربیت یکسر نظر انداز کر دی جاتی ہے جس کے انتہائی منفی نتائج ہم اپنے معاشرے میں روزانہ دیکھتے ہیں اور اْن پر ہمارادل کڑھتا رہتاہے۔ عصرِحاضر میںتعلیم کا بلند پایہ مفہوم ہماری تنگ نظری اور جمودی سوچ کے سبب کلیتاً مسخ ہو چکا ہے۔
تعلیم پہلے دنیاوی اور دینوی علوم کے حصول کا نام تھا اور اِن کے درمیان میں کسی تفریق کی گنجائش نہیں تھی۔ اس ضمن میں تاریخِ اسلام ثبوت کے طور پر پیش کی جاسکتی ہے کہ مسلم حکمرانوں نے ہر خطے میں درس گاہیں تعمیر کروائیں جہاں ہر طرح کے علوم بغیر کسی تفریق اور فوقیت کے پڑھائے جاتے تھے۔ علمِ نجوم، علمِ ہیئت، ریاضی، فلکیات، جغرافیہ، کیمیا، تاریخ، حدیث، فقہ، قرآن، تفسیر وغیرہ سب علوم کی مشترکہ تعلیم دی جاتی تھی۔ دنیاوی اور دینوی علوم کے اِس امتزاج نے طلبہ کو اخلاقی اورمادی دونوں لحاظ سے پختہ بنا دیا تھااوراْس دور کی مجموعی حالت اسی لیے ہماری موجودہ حالت سے لاکھ درجے بہتر تھی۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم آج کثرتِ اساتذہ کے باوجود مجموعی طور پر جمود کا شکار کیوں ہیں۔سبب یہ تھا کہ ماضی میںاساتذہ اخلاق کا بہترین نمونہ ہوتے تھے جن سے طلبہ گہرا اثر لیتے تھے جبکہ عصرِحاضرکے اساتذہ اخلاقی قدروں کی خود پاسداری نہیں کرتے جس سے طلبہ پر منفی اثر پڑتا ہے۔اْس عہد میں کتاب سے زیادہ استاد سے علم حاصل کیا جاتا تھا' جبکہ آج استاد محض ایک علامتی کردار بن کے رہ گیا ہے۔
اچھے دنوں میں اساتذہ اپنی خوشی سے اور دولت کی خواہش کے بغیر طلبہ کو تعلیم دیتے تھے اورنوجوانوںکی تعلیم و تربیت کا احساس اْن میں ہر لمحہ ایک ایسا جذبہ بیدار کیے رکھتا تھا جس کا دیا کبھی نہیں بجھتا تھا۔ وہ علم کو اللہ سے قربت کا ذریعہ جان کر اس کی بھرپور ترویج کرتے تھے۔ اْن کے نزدیک تعلیمی درس گاہیں محض ایک ٹکسال کے بجائے اْس گلستان کا درجہ رکھتی تھیں جہاں نونہال کلیوں کی دیکھ بھال ایک مقدس فریضے کے طور پر کی جاتی تھی' لیکن بد قسمتی سے آج علم پیشہ ورانہ اساتذہ کے ہتھے چڑھ گیا ہے جو تعلیم کو محض ایک کاروبارسمجھتے اور اْسے اپنی مادی خواہشات پورا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
مسلم حکومتوں میں اساتذہ اور معلمین کو خاطر خواہ مشاہرے ملا کرتے تھے جو انھیں مالی تنگی کا احساس نہیں ہونے دیتے تھے۔ اِس کے نتیجے میں وہ اپنے فرائضِ منصبی پوری دیانت داری اور دلجمعی سے سر انجام دیتے تھے۔جبکہ عصرِ حاضر کے اکثر معلمین مالی تنگ دستی کی وجہ سے بے سکونی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔
بحیثیت مجموعی یہ معاشرہ استاد کی قدر کھو چکا ہے اور علم کے داعی کی جو تذلیل و تحقیر تعلیمی اداروں میں ہوتی ہے وہ ناقابلِ بیان ہے۔ہماری زندگی سے اعلیٰ مقاصد کا نظریہ ختم ہوتاجا رہا ہے اور صرف دولت کی ریل پیل ہماری نظروں کو بھاتی ہے۔
ہمیں اپنے اسلاف کے کارناموں کے بارے ہی کچھ پتا ہے نہ ہم چاہتے ہیں کہ آنے والے لوگ ہمارے کارناموں کے حوالے سے ہمیں یاد رکھیں۔ہم عام طور پر مغرب کی تقلید کرتے ہیں مگر وہ ممالک اپنی تاریخ پر فخر محسوس کرتے ہیں جو عظمت سے خالی ہے۔ہماری تاریخ جو انسانی تہذیب کی تشکیل اور ارتقا کی عظیم داستانوں سے معمور ہے اْس پر ہمیںفخر کرنا اور مستقبل کی تعمیر کا چیلنج قبول کرنا چاہیے۔
ہم مذہب اور سائنس کو ایک دوسرے سے جدا کر کے بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں۔ مذہب انسان کے اندر پاکیزہ جذبہ اور ایک احساسِ ذمے داری پیدا کرتا ہے جو طالب علم کوحصولِ علم ایک مذہبی فریضہ کی حیثیت سے ادا کرنے کی طرف مائل کرتا ہے، جبکہ بیشترطلبہ کا نظریہ، یہ ہے کہ علوم دولت کمانے کے لیے حاصل کیے جائیں۔اْن کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ تعلیم کا مقصد حصولِ روزگار کے سوا اورکچھ نہیں ا ور وہ بچارے مشین کی طرح کام میںجْتے رہتے ہیں۔
ہمارے بڑے بڑے تعلیمی ادارے طلبہ کو چار دیواری کے اندر انسان کے بجائے مشین بنارہے ہیں۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ اپنی قوم کو مشین بنانا ہے یاعمدہ انسان۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نئی نسل کے اندر قومی خدمت کا جذبہ مفقود ہے اور ہمارے بہترین اذہان غیروں کی خدمت میں مصروف ہیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ قربانی کا جذبہ اور میلان بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔ بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری حکومت تعلیمی نصاب کی بہتری میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہی اور ہمارااسلامی تشخص بری طرح مجروح ہو رہا ہے۔
دراصل ہمارے اندر سے اعتدال پسندی کا عنصرناپید ہوتا جا رہا ہے۔ مذہبی اور دنیاوی تعلیم کو ساتھ ساتھ لے کر چلنے سے ہم گھبراتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یا تو آپ کو اِس ملک میں قدامت پسند طبقہ مدرسوں میں ملے گا جو جدید تعلیمی تقاضوں سے ناآشنا ہے یا پھر مغرب پرست جدید تعلیم کا علمبردار طبقہ جو دینی تعلیم کی اہمیت سمجھنے کے لیے ذہنی طور پر آمادہ نظر نہیں آتا۔
جس دن ہم تربیت اور کردار سازی کو اپنے تعلیمی نظریے میں شامل کر لیں گے اْسی روز سے اِن شاء اللہ ہمارا مقدر تبدیل ہونا شروع ہو جائے گا اور تعلیم کاحقیقی تصور شرمندہ ٔ تعبیر ہونا شروع ہو جائے گا۔
ہمارے آباؤ اجداد تعلیم کے مقصد کو بخوبی سمجھتے تھے اور اِسی وجہ سے قدرت نے اْنہیں وہ عروج عطا فرمایا جو آج بھی ہمارے لیے فخر و مسرت کا باعث ہے۔ اسلاف نے تعلیم کو ہمیشہ تربیت سے جوڑے رکھا اور اِس رشتے کی مضبوطی نے اْنھیں اندرونی اور بیرونی طور پراستحکام عطا کیا لیکن اِس کلیدی رشتے کو آج ہم نے مجروح کرنے میں کوئی کسر نہیں اْٹھا رکھی ہے۔
جب ہم انسانی نشوونما کے اساسی پہلوؤں کی بات کرتے ہیں تو اکثر ہمارا میلان مادی اور ظاہری ترقی کی جانب ہوتا ہے، جبکہ اْس کی روحانی اور باطنی تربیت یکسر نظر انداز کر دی جاتی ہے جس کے انتہائی منفی نتائج ہم اپنے معاشرے میں روزانہ دیکھتے ہیں اور اْن پر ہمارادل کڑھتا رہتاہے۔ عصرِحاضر میںتعلیم کا بلند پایہ مفہوم ہماری تنگ نظری اور جمودی سوچ کے سبب کلیتاً مسخ ہو چکا ہے۔
تعلیم پہلے دنیاوی اور دینوی علوم کے حصول کا نام تھا اور اِن کے درمیان میں کسی تفریق کی گنجائش نہیں تھی۔ اس ضمن میں تاریخِ اسلام ثبوت کے طور پر پیش کی جاسکتی ہے کہ مسلم حکمرانوں نے ہر خطے میں درس گاہیں تعمیر کروائیں جہاں ہر طرح کے علوم بغیر کسی تفریق اور فوقیت کے پڑھائے جاتے تھے۔ علمِ نجوم، علمِ ہیئت، ریاضی، فلکیات، جغرافیہ، کیمیا، تاریخ، حدیث، فقہ، قرآن، تفسیر وغیرہ سب علوم کی مشترکہ تعلیم دی جاتی تھی۔ دنیاوی اور دینوی علوم کے اِس امتزاج نے طلبہ کو اخلاقی اورمادی دونوں لحاظ سے پختہ بنا دیا تھااوراْس دور کی مجموعی حالت اسی لیے ہماری موجودہ حالت سے لاکھ درجے بہتر تھی۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم آج کثرتِ اساتذہ کے باوجود مجموعی طور پر جمود کا شکار کیوں ہیں۔سبب یہ تھا کہ ماضی میںاساتذہ اخلاق کا بہترین نمونہ ہوتے تھے جن سے طلبہ گہرا اثر لیتے تھے جبکہ عصرِحاضرکے اساتذہ اخلاقی قدروں کی خود پاسداری نہیں کرتے جس سے طلبہ پر منفی اثر پڑتا ہے۔اْس عہد میں کتاب سے زیادہ استاد سے علم حاصل کیا جاتا تھا' جبکہ آج استاد محض ایک علامتی کردار بن کے رہ گیا ہے۔
اچھے دنوں میں اساتذہ اپنی خوشی سے اور دولت کی خواہش کے بغیر طلبہ کو تعلیم دیتے تھے اورنوجوانوںکی تعلیم و تربیت کا احساس اْن میں ہر لمحہ ایک ایسا جذبہ بیدار کیے رکھتا تھا جس کا دیا کبھی نہیں بجھتا تھا۔ وہ علم کو اللہ سے قربت کا ذریعہ جان کر اس کی بھرپور ترویج کرتے تھے۔ اْن کے نزدیک تعلیمی درس گاہیں محض ایک ٹکسال کے بجائے اْس گلستان کا درجہ رکھتی تھیں جہاں نونہال کلیوں کی دیکھ بھال ایک مقدس فریضے کے طور پر کی جاتی تھی' لیکن بد قسمتی سے آج علم پیشہ ورانہ اساتذہ کے ہتھے چڑھ گیا ہے جو تعلیم کو محض ایک کاروبارسمجھتے اور اْسے اپنی مادی خواہشات پورا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
مسلم حکومتوں میں اساتذہ اور معلمین کو خاطر خواہ مشاہرے ملا کرتے تھے جو انھیں مالی تنگی کا احساس نہیں ہونے دیتے تھے۔ اِس کے نتیجے میں وہ اپنے فرائضِ منصبی پوری دیانت داری اور دلجمعی سے سر انجام دیتے تھے۔جبکہ عصرِ حاضر کے اکثر معلمین مالی تنگ دستی کی وجہ سے بے سکونی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔
بحیثیت مجموعی یہ معاشرہ استاد کی قدر کھو چکا ہے اور علم کے داعی کی جو تذلیل و تحقیر تعلیمی اداروں میں ہوتی ہے وہ ناقابلِ بیان ہے۔ہماری زندگی سے اعلیٰ مقاصد کا نظریہ ختم ہوتاجا رہا ہے اور صرف دولت کی ریل پیل ہماری نظروں کو بھاتی ہے۔
ہمیں اپنے اسلاف کے کارناموں کے بارے ہی کچھ پتا ہے نہ ہم چاہتے ہیں کہ آنے والے لوگ ہمارے کارناموں کے حوالے سے ہمیں یاد رکھیں۔ہم عام طور پر مغرب کی تقلید کرتے ہیں مگر وہ ممالک اپنی تاریخ پر فخر محسوس کرتے ہیں جو عظمت سے خالی ہے۔ہماری تاریخ جو انسانی تہذیب کی تشکیل اور ارتقا کی عظیم داستانوں سے معمور ہے اْس پر ہمیںفخر کرنا اور مستقبل کی تعمیر کا چیلنج قبول کرنا چاہیے۔
ہم مذہب اور سائنس کو ایک دوسرے سے جدا کر کے بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں۔ مذہب انسان کے اندر پاکیزہ جذبہ اور ایک احساسِ ذمے داری پیدا کرتا ہے جو طالب علم کوحصولِ علم ایک مذہبی فریضہ کی حیثیت سے ادا کرنے کی طرف مائل کرتا ہے، جبکہ بیشترطلبہ کا نظریہ، یہ ہے کہ علوم دولت کمانے کے لیے حاصل کیے جائیں۔اْن کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ تعلیم کا مقصد حصولِ روزگار کے سوا اورکچھ نہیں ا ور وہ بچارے مشین کی طرح کام میںجْتے رہتے ہیں۔
ہمارے بڑے بڑے تعلیمی ادارے طلبہ کو چار دیواری کے اندر انسان کے بجائے مشین بنارہے ہیں۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ اپنی قوم کو مشین بنانا ہے یاعمدہ انسان۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نئی نسل کے اندر قومی خدمت کا جذبہ مفقود ہے اور ہمارے بہترین اذہان غیروں کی خدمت میں مصروف ہیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ قربانی کا جذبہ اور میلان بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔ بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری حکومت تعلیمی نصاب کی بہتری میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہی اور ہمارااسلامی تشخص بری طرح مجروح ہو رہا ہے۔
دراصل ہمارے اندر سے اعتدال پسندی کا عنصرناپید ہوتا جا رہا ہے۔ مذہبی اور دنیاوی تعلیم کو ساتھ ساتھ لے کر چلنے سے ہم گھبراتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یا تو آپ کو اِس ملک میں قدامت پسند طبقہ مدرسوں میں ملے گا جو جدید تعلیمی تقاضوں سے ناآشنا ہے یا پھر مغرب پرست جدید تعلیم کا علمبردار طبقہ جو دینی تعلیم کی اہمیت سمجھنے کے لیے ذہنی طور پر آمادہ نظر نہیں آتا۔
جس دن ہم تربیت اور کردار سازی کو اپنے تعلیمی نظریے میں شامل کر لیں گے اْسی روز سے اِن شاء اللہ ہمارا مقدر تبدیل ہونا شروع ہو جائے گا اور تعلیم کاحقیقی تصور شرمندہ ٔ تعبیر ہونا شروع ہو جائے گا۔