جرنلسٹس پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بل 7 برس بعد بھی نافذ نہ ہوسکا

بل 2011میں سینیٹ، قومی اسمبلی کی کمیٹیوں نے تیار کیا، عملی جامہ نہ پہنایا

حکومت کو صحافیوں کے تحفظ کیلیے عملی اقدامات کرنے چاہئیں، سینیٹر میاں عتیق۔ فوٹو: فائل

صحافت کے شعبے کے حوالے سے دنیا کا خطرناک ترین ملک پاکستان جمہوری حکومتوں کی طرف سے7 برس گزرجانے کے باوجود صحافیوں کو کسی قسم کا کوئی تحفظ فراہم نہیں کرسکا جبکہ وزارت اطلاعات و نشریات کی طرف سے بار بار ورکنگ پیپرز اور میٹنگز کے باوجود کسی بھی اقدام کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔


وزارت اطلاعات کے باخبرذرائع سے معلوم ہواہے کہ2011 میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات اوروزارت کے ذیلی اداروں اورصحافتی تنظیموں کے ساتھ وابستہ افرادکی مشاورت سے جرنلسٹس پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بل 2011 تیار کیا گیا جس کی تیاری میں وزارت کے متعلقہ شعبوں نے خطیررقم خرچ کی جبکہ مختلف اجلاسوں میں تجاویز دی گئیں جن میں صحافیوں کو لاحق بیماریوں ہیپاٹائیٹس اور کینسرکے علاج کی سہولت، اقوام متحدہ ایکشن پلان کے تحت صحافیوں کے جان ومال کا تحفظ، پنجاب، سندھ، بلوچستان، کے پی کے، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر، فاٹا میں حکومتی اور مقامی پریس کلبوں کی طرف سے فوکل پرسنزکی تعیناتی شامل تھی۔

دوسری جانب اس حوالے سے سینیٹر میاں عتیق ایکسپریس سے گفتگو میں بتایا کہ ہم آزادی صحافت پرمکمل یقین رکھتے ہیں، حکومت کو صحافیوں کے جان ومال کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہئیں، اگرصحافی محفوظ، صحت مند ہو گا تو موثر ا ندازمیں قومی تشخص دنیا بھرمیں اجاگر ہوگا، 7 برس بعد بھی اس بل کونافذ نہ کرنابڑی ناکامی ہے۔
Load Next Story