اہل ہنراتنے بے توقیرکیوں ہیں

دینی علماء پرتنقیدکرناآج کل ایک فیشن بن چکا ہے

raomanzarhayat@gmail.com

KARACHI:
سول سروسزاکیڈمی کے ڈائریکٹرجنرل شیخ منظورالٰہی کے کمرے میں ملک کے لکھنے والوں کاایک نایاب ساہجوم تھا۔1984ء کی اس شام کواکیڈمی میں مشاعرہ تھا۔ منیر نیازی سفیدکرتے شلوارمیں ملبوس تھے اوراوپرایک گرم چادر اوڑھ رکھی تھی۔مشاعرہ شروع ہواورلازم ہے کہ ختم بھی ہو گیا۔یہ اس بڑے شاعرسے شناسائی کی ابتداء تھی۔آہستہ آہستہ دوستی میں تبدیل ہوتی گئی۔ٹاؤن شپ میں ان کے گھر آنا جانا شروع ہوگیا۔

ایک دن نیازی صاحب سے پوچھا کہ کسی قسم کاکوئی کام ہوتوبتائیں۔انھوں نے سوال سنااَن سناکردیا۔میں بھی خاموش ہوگیا۔ڈیڑھ دوماہ کے بعد اصرار سے دوبارہ پوچھا،توکافی دیرتک سوچتے رہے۔پتہ نہیں کیا سوچ رہے تھے۔نیازی صاحب بہت کم گوانسان تھے۔ آہستہ آہستہ بے تکلفی ہوئی توپتہ چلاکہ اتنے بڑے شاعر ہونے کے باوجودانتہائی بنیادی درجہ کے مسائل کاشکار ہیں۔ہرقوم کا"ذہنی یاعلمی گھیرا "(Intellectual Critical Mass ہوتا ہے۔ اس میں ہر طبقے کے وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جنھیں آپ سوچنے یافکرکرنے والے لوگ کہتے ہیں۔ یہی معدودے چندلوگ کسی بھی قوم کی اصل پہچان ہوتے ہیں۔

غور کریں تو اس میں شاعر، ادیب، ایکٹر، مفکر،دینی علماء یعنی سماج کے ہرحصے کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ انھیں کسی بھی ملک کے ذہنی شعورکاپیمانہ کہاجاسکتا ہے۔اگریہ لوگ کم ہو جائیں توقوںمیں زوال کی گراوٹ انتہاپرہوتی ہیں۔ زندہ قومیں ان عجیب وغریب لوگوں کو دل سے لگاکررکھتی ہیں۔آسودہ حال کردیتی ہیں۔انھیں ماحول عطاکرتی ہیں جس سے یہ لوگ صرف اورصرف اپنے کام پر مرکوزرہتے ہیں۔ان لوگوں کی حفاظت لازم ہوتی ہے۔ مگر اتفاق سے ہمارے ملک میں اس ملکی اثاثہ پرکسی بھی اہم شخص کی کوئی توجہ نہیں۔نتیجہ سامنے ہے،کہ ملک فکری طور پر تقریباً بنجر ہوچکاہے۔

احمدندیم قاسمی کی ادبی خدمات کس کے سامنے اجاگر نہیں۔ان کے متعددافسانے اوراشعارہمارے ذہنوں پرکندہ ہوچکے ہیں۔ان سے بھی کئی ملاقاتیں رہیں۔انتہائی وضع داراورقدآورانسان۔ان کے ادبی ورثہ کااندازہ کرنابہت مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ان کے کہے بغیر محسوس یہ ہواکہ سفید پوشی کی زندگی گزاررہے ہیں۔ بہاولپور میں متعدد مشاعروں میں ان سے نشست رہی۔بلاکاذہین انسان۔مگرہمیشہ مجھے اپنے تئیں یہی محسوس ہواکہ ہمارے نظام اورقوم نے ان کی وہ قدرنہیں کی جسکے مستحق تھے۔انھوں نے زبان سے کبھی کوئی گلہ شکوہ نہیں کیا۔

اگر قاسمی صاحب فرانس یالندن میں پیدا ہوتے،انھی ملکوں کی زبان میں شاعری اورافسانہ نگاری کرتے،توشائدملک کاصدراوروزیراعظم مسائل پوچھنے ان کے گھرجاتا۔خیران ملکوں میں اہل علم کوکیامسائل ہونے ہیں۔یہ تکالیف بلکہ مصائب توصرف ہمارے جیسی قوموں کے حصے میں آئے ہیں۔

دینی علماء پرتنقیدکرناآج کل ایک فیشن بن چکا ہے۔ ہمارے مستندترین دینی علماء بھی حکومتی سرپرستی کے بغیرزندگی گزارتے ہیں۔انتہائی بلندسطح کے دینی محقیقین اورعلما ء بھی چپ سادھنے پرمجبورہوتے ہیں۔انھیںاندازہ ہوتاہے کہ مشکلات کوحل کرنے کے لیے کوئی حکومت یاادارہ موجود نہیں۔ فرقہ وارانہ تنظیموں کے لیڈروں کی بات نہیں کررہا۔وہ تو کروڑوںروپے کی گاڑیوں میں سفرکرتے ہیں۔درجنوں محافظ اردگردموجودہوتے ہیں۔ان دینی مفکرین کی بابت عرض کررہاہوں جوانتہائی محنت بلکہ مشقت سے دین کی نئی جہتوں پرغوروفکرکرتے ہیں۔

ایک صائب رائے رکھتے ہیں اورلوگوں میں روشنی پھیلاتے ہیں۔نام نہیں لینا چاہتا۔ مگر، اس طبقہ میں بھی ناقدری کااحساس بھرپور طریقے سے موجود ہے۔ہمارامعاشرہ کیونکہ تضادات سے بھرپورہے لہذا بھرپوراستفادے کے باوجودبھی ان لوگوں کے اقتصادی اور سماجی مسائل کوئی حل کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔

فلموں اورڈراموں میں کام کرنے والے لوگ جوہری طورپرمختلف ہوتے ہیں۔ان کے سوچنے کااندازبالکل الگ ڈگرکاہوتاہے۔کسی بھی معاشرے میں اخلاقیات کے پیمانوں میں قیدنہ رہنے والے یہ لوگ اپنے عصرکی آواز ہوتے ہیں۔ان شعبوں سے منسلک ایک دوفیصدلوگ تو پھر بھی آسودہ حالی سے زندگی گزاردیتے ہیں۔مگراکثریت کی زندگی کے مسائل وہیں کے وہیں موجودرہتے ہیں۔ خاموش سا ہوگیا۔کافی دیربعدکہنے لگا کہ ہنسانے کاکام صرف اور صرف اپنی زندگی گزارنے کے لیے کرتاہے۔

یہ اسکا ذریعہ معاش ہے۔ورنہ اسے لوگوں کو محظوظ کرنے میں کسی قسم کا کوئی مزانھیں آتا۔یہ اس عظیم کامیڈین کے لفظ ہیں جو لوگوں کوپوری عمرخوش کرتارہا اور یہی کرتے کرتے دنیاسے چلاگیا۔اسی نشست میں بتانے لگاکہ بہت زیادہ محنت کے باوجودبھی کشادگی سے رہنااس کے بس کی بات نہیں۔یہ احساس محرومی اکثریت مرداورخواتین میں موجودہے،جوکسی بھی طرز سے ڈراموں اورفلموں کے شعبے سے منسلک ہیں۔


ہمسایہ ملک پرنظرڈالیں توصورتحال بہت مختلف نظرآتی ہے۔وہاں اسکرین پرآنایاتھیٹرکرنانہ صرف اعزازکی بات ہے بلکہ اس سے وافرمالی منفعت بھی وابسطہ ہے۔ ہندوستان کے ایک معمولی درجے کے کامیڈین نے جب ایک چینل چھوڑا تو پتہ چلاکہ دوسے ڈھائی کروڑروپے توصرف ٹیکس ہی دیتاہے۔اصل آمدنی کا حساب کیا ہوگا۔ یہ کم ازکم میرے قیافے سے بالکل باہر ہے۔

ہماری فلمیں توخیردم توڑچکی ہیں۔لہذااس شعبے کی ناقدری کی بات کرناتومحض وقت کا ضیاع ہے۔ مگرکیاکسی کے ادراک میں ہے کہ وہ بے مثال اسٹوڈیوجن سے لاکھوں لوگوں کاباعزت روزگار منسلک تھا۔ان کے بندہونے سے کتنے گھرمالی طورپربرباد ہوگئے ہیں۔جن نگارخانوں میں سیکڑوں فلمیں بنیں،آج وہ گودام بن چکے ہیں۔ فلم کاشعبہ کسی ملک کے لیے حیرت انگیزنتائج برپاکرسکتاہے۔اسکاخیال بمبئی کی انڈسٹری کودیکھ کر ہوتا ہے۔

کھربوں ڈالرکی یہ صنعت اپنے ملک کے لیے وہ کام کررہی ہے جوبہترین سے بہترین سفارت کارنہیں کرسکتا۔اپنے ملک کے فن کاروں کی ناقدری دیکھ کرسوائے افسوس کے کیا کیا جا سکتا ہے۔ مگر صرف افسوس تومردہ معاشرے کرتے ہیں۔زندہ نظام تو تمام مسائل کوحل کرنے کی استطاعت حاصل کرلیتا ہے۔یہ استطاعت مجھے اپنے ہاں دوردورتک نظرنہیں آتی۔

گلوکار، فلمی شعراء اورموسیقاروں کی طرف دیکھئے۔ ہمارے ہاں کمال کے اہل ہنرلوگ ہیں۔ایسے گلوکار جو گاتے ہیں توسماء بندھ جاتاہے۔انسان ان کی آوازمیں محو ہوجاتاہے۔حیرت اس بات پربھی ہوتی ہے کہ کس آسانی سے کتنا مشکل گانایاغزل گالیتے ہیں۔چندایک کوچھوڑ کر اکثریت شدیدمالی مسائل کاشکارہیں۔کوئی ادارہ یانظام کا کوئی حصہ ان کی جائزبات سننے کے لیے تیارنہیں۔ایسے گائک جنھیں ہندوستان میں ہاتھوں ہاتھ لیاجاتاہے۔جنھیں سننے کے لیے انکا وزیراعظم تک وقت نکالتاہے۔

ہمارے نظام میں ایسے اشخاص کی اکثریت مفلوک الحالی اوربے قدری کاشکار ہے۔ایک ایسے گلوکارکوجانتاہوں جواپنے فن میں کمال عروج پرہے۔پیرانہ سالی کے باوجودکیاخوب گاتا ہے۔ مگر معاشی تنگی کی وجہ سے ملک چھوڑ کر اپنے مزدوربیٹے کے پاس یورپ منتقل ہونے پر مجبور ہوچکا ہے۔ اسکا ہمارے ملک میں کوئی والی وارث نہیں۔فلمی شعراء بھی اسی طرح کی اذیت ناک صورتحال کاشکارہیں۔اول توکوئی کام ہی نہیں ہے، اگر ہے تومعاوضہ اتناکم ہے کہ شاعری کوذریعہ معاش بناہی نہیں سکتے۔

ہمارے پاس انتہائی ذہین میوزک ڈائریکٹر موجود ہیں۔یہ لوگ کم ہیں مگربہرحال موجود ہیں۔ ان کی اکثریت بھی زندگی کے بنیادی مسائل کوحل کرنے میں گزرجاتی ہے۔حل پھربھی نہیں ہوپاتے۔ سلیم اقبال جیسے عظیم میوزک ڈائریکٹر کو انتہائی عسرت میں دیکھا ہے۔ ہوسٹل آکربیٹھے رہتے تھے۔ ذریعہ آمدن تقریباًنہ ہونے کے برابرتھا۔ایک ایسا موسیقار جس نے کمال دھنیں ترتیب دیں۔جس کی بنائی ہوئی دھنوں کی بدولت گلوکاروں کوبے حدفنی اورمالی فائدہ ہوا۔ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں دنیاسے رخصت ہوا۔

سکے کے دوسرے رخ کی طرف آتاہوں۔تمام اہل ہنر جنھیں اس بات کاطعنہ دیاجاتاہے کہ ایک خاص حکومت یامنفعت بخش سوچ کے زاویے سے کام کرتے ہیں۔سوال ہے کہ کیامعروضی حالات میں درست نہیں کررہے۔ان کے علم میں ہی ہے کہ اس پورے نظام میں اہلیت کاکوئی فائدہ نہیں۔فن اورہنرکی کوئی قدرنہیں۔انتہائی سمجھداری سے ایسی سوچ کواپنالیتے ہیں جسکے خریدارموجودہوتے ہیں۔

طعنہ دینے سے پہلے سوچناچاہیے کہ انھیں معلوم ہے کہ ان کے مالی مسائل حل نہیں ہونگے۔دال روٹی اوردوائی کاخرچہ ہی نہیں پوراہوگا،جب تک وہ بکنے والے گروہ میں شامل نہیں ہونگے۔انکومعتوب نہیں کرناچاہیے۔ذہنی اختلاف کے باوجودانھیں غلط نہیں کہاجاسکتا۔اگرکوئی لکھاری شاعر،ادیب یاکسی قسم کاسوچنے والاانسان ایک مخصوص سوچ سے معاملات کوآگے بڑھاتاہے جس میں اسے زندہ رہنے کی آسودگی حاصل ہوجائے تواس میں کیا حرج ہے۔

نظام میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے سے بہت بہترہے کہ ایک خاص فکرکوآگے بڑھاناشروع کردیں تاکہ جسم اورروح کارشتہ توبرقراررہ سکے۔کیونکہ انھیں یقین ہے کہ مددکے لیے کوئی بھی آگے نہیں آئیگا۔کوئی بھی ان کے مسائل تک نہیں پوچھے گا۔ انھیں مرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا جائیگا۔ ہاں مرنے کے بعد، ایک ایوارڈ،ایک خبراورچندسکے نہیں ضروردیے جائینگے۔ لہذایہ ذہین لوگ اپنافن بیچنے پرمجبورہوجاتے ہیں۔ مگر جوہری سوال وہیں کاوہیں رہتاہے کہ ہمارے معاشرے میں اہل ہنرکی اتنی ناقدری کیوں ہے!
Load Next Story