استاد دامن کی یاد میں

’’وے منڈیا سیالکوٹیا۔۔۔۔ تیرے مکھڑے دا کالا کالا تل وے، میرا کڈ کے لے گیا دل وے‘‘

SUKKUR:
''وے منڈیا سیالکوٹیا۔۔۔۔ تیرے مکھڑے دا کالا کالا تل وے، میرا کڈ کے لے گیا دل وے''

یہ مشہور ''اسٹریٹ سانگ'' پنجابی زبان کے مشہور عوامی انقلابی شاعر استاد دامن نے لکھا تھا اور ملکہ ترنم نورجہاں نے گایا تھا۔ استاد دامن نے اور بھی فلمی گیت لکھے، لیکن میں ان کا ذکر ان کی فکر اور کردار کے حوالے سے کروں گا۔

استاد دامن آزادی انسان کے علمبرداروں میں شامل تھے، یہ مشہور صوفی بزرگ شاعر حضرت شاہ حسین کے پیروکار تھے۔ حضرت شاہ حسین مغل اعظم کہلانے والے بادشاہ اکبر کے زمانے میں موجود تھے۔ بادشاہ اکبر نے پورا زور لگالیا کہ شاہ حسین کسی صورت بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوجائیں، مگر بادشاہ کی حسرت دل کی دل میں ہی مچلتی رہ گئی اور وقت کے درویش نے دربار میں حاضری نہیں لگائی۔ یہ شاہ حسین وہی بزرگ ہیں جن کی یاد میں میلہ چراغاں ہر سال ہوتا ہے اور لاہور شہر کے گھروں کی منڈیروں پر چراغ روشن کیے جاتے ہیں۔

شاہ حسین کا مزار لاہور کے مشہور شالامار باغ سے متصل واقع ہے اور استاد دامن کو بھی ان کی وصیت کے مطابق اپنے مرشد کے احاطے میں ہی دفن کیا گیا۔ ایک اور بات بھی قابل غور ہے کہ شاہی قلعہ لاہور کے باہر حضرت شاہ حسین ایک کھولی (چھوٹے سے کمرے) میں رہتے تھے۔ استاد دامن نے بھی ساری زندگی اسی کھولی میں گزاردی اور یہ بھی کہ اسی کھولی میں وقت کے بڑے بڑے لوگ استاد سے ملنے آتے تھے خصوصاً ان کے خیالات سے ہم آہنگ لوگ یہی فیض احمد فیض، سبط حسن، حبیب جالب، مولانا کوثر نیازی، اداکار علاؤ الدین، یاد رہے کہ اداکار علاؤالدین کو استاد دامن اپنا بیٹا کہا کرتے تھے۔

فاطمہ جناح نے صدارتی انتخاب لڑا تھا، لاہور کے مشہور سیاسی میدان موچی دروازے میں انتخابی جلسہ تھا، جلسے سے عین دو روز قبل حبیب جالب کو قتل کے جھوٹے مقدمے میں حکومت نے گرفتار کرلیا تھا۔ یہ محض اس لیے کیا گیا کہ حبیب جالب، قائداعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دے رہے تھے اور جلسوں میں حبیب جالب کا انقلابی کلام سننے کے لیے لوگ آیا کرتے تھے۔ 2 اکتوبر 1964 کے دن بھی اخباری رپورٹوں کے مطابق مادر ملت کے جلسہ منعقدہ بیرون موچی گیٹ لاہور میں پانچ لاکھ کا مجمع موجود تھا اور اس عظیم الشان جلسے میں حبیب جالب کی گرفتاری کے بعد استاد دامن نے اپنا انقلابی کلام سنایا تھا۔ لاہور شہر کا یہ واحد شاعر تھا جو عوام اور جمہوریت کے لیے میدان میں اترا تھا۔ اس وقت مجھے استاد دامن کا لکھا ہوا ایک فلمی گیت یاد آرہا ہے۔ گانے کے بول تھے:

نہ میں چاندی دی، نہ سونے دی، نہ میں پیتل بھری پرات
مینوں دھرتی کلی کرا دے، میں نچاں ساری رات

اپنے مرشد شاہ حسین کی طرح استاد دامن کا بھی حکمرانوں سے کوئی تعلق واسطہ نہیں تھا، وہ عوام کے شاعر تھے اور عوامی بود و باش کے ساتھ ٹکسالی گیٹ کے علاقے میں اپنے مرشد کی چھوڑی ہوئی کھولی میں رہتے تھے۔

ہندوستان، پاکستان علیحدہ علیحدہ ملک بن گئے تو 1954 میں استاد دامن کو انڈو پاک مشاعرے میں بلایا گیا۔ دہلی کے لال قلعہ میں ہونے والے مشاعرے کی صدارت وزیراعظم ہندوستان پنڈت جواہر لال نہرو کر رہے تھے۔ بٹوارے کے زخم ابھی تازہ تھے، استاد نے یہ شعر پڑھے:

آزادیاں ہتھوں مجبور یارو

ہوئے تسی وی او، ہوئے اسی وی آں

لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے
روئے تسی وی او، روئے اسی وی آں

یعنی ''آزادی حاصل کرنے کے ہاتھوں ہم بھی مجبور ہوئے اور تم بھی مجبور ہوئے اور ہم دونوں کی آنکھوں کی سرخی بتا رہی ہے کہ روئے ہم بھی ہیں، روئے تم بھی ہو۔'' استاد کے اشعار سن کر پورا مشاعرہ، ہندو، سکھ، مسلمان، عیسائی کھڑے ہوگئے، سب کی آنکھوں سے اشک رواں تھے۔ پنڈت نہرو نے استاد کو گلے لگایا، پنڈت جی کی آنکھیں بھی نم تھیں۔

استاد دامن حکومتوں کی عوام دشمن اور غلط پالیسیوں کے خلاف بولنے سے نہیں چوکتے تھے۔ ایسا ہی ایک واقعہ بھٹو کے دور حکومت میں پیش آیا تھا۔ امریکا کے وزیر خارجہ ہنری کسنجر پاکستان اور ہندوستان کے دوروں پر تھے، پاکستان کے علاقے مری اور ہندوستان کے علاقے شملہ میں ''ملاقاتیں'' ہو رہی ہیں کہ استاد نے یہ لکھ دیا:

کی کری جاریاں ایں
کدی شملے جاریاں ایں

کدی مری جاریاں ایں
کی کری جاریاں ایں

یہ تو اردو کے بہت قریب قریب پنجابی شاعری ہے مگر پھر بھی میں ترجمہ کیے دیتا ہوں ''کیا کرے جا رہے ہو، کبھی شملے جا رہے ہو، کبھی مری جا رہے ہو، کیا کرے جا رہے ہو''۔ بس جناب حکومت نے استاد دامن کو گرفتار کرلیا اور اخبارات میں خبر شایع ہوئی ''استاد دامن کی کھولی سے دستی بم اور رائفلیں برآمد'' (ہائے ری قسمت! ہم نے امریکا کے لیے کیا کیا کام کر ڈالے) خیر استاد لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت پر رہا ہوئے تو انھوں نے عدالت کے باہر آکر کہا ''شکر ہے میری کھولی تھی، اگر بڑا گھر ہوتا تو حکومت نے رانی توپ بھی وہاں سے برآمد کرلینا تھی۔'' یاد رہے 65 کی جنگ میں رانی توپ نے محاذ پر افواج پاکستان کا بڑا ساتھ دیا تھا۔

استاد دامن بادشاہوں کے شہر لاہور کے بادشاہ تھے۔ جب کبھی فیض احمد فیض یا دوسرے احباب استاد سے ملنے آتے تو استاد خود ہانڈی پکاتے اور سامنے رہنے والی رقاصہ (استاد کی کھولی لاہور کی ہیرا منڈی کے علاقے میں تھی) سے کہتے ''بیٹی! کچھ مہمان آئے ہیں، آٹھ دس روٹیاں پکا کے بھجوا دو۔'' اور استاد کا کہا یوں جیسے باپ کا کہا۔ وہ رقاصہ آٹا گوندھ کر روٹیاں پکاتی اور بھجوا دیتی، پھر استاد اپنے کسی شاگرد کو رقعہ لکھ کر دیتے کہ نعمت کدہ (لاہور کا مشہور ہوٹل جس کے کھانے بڑے لذیذ ہوتے تھے) بھجواتے اور نعمت کدے والے استاد کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کھانا بھجوا دیتے اور پھر استاد کے ہاتھوں کا پکا کھانا، رقاصہ کے ہاتھ اور کمائی کی روٹیاں فیض، سبط حسن و دیگر کھاتے تھے۔

انسان سے اتنا پیار اور احترام کرنے والے استاد دامن جیسے فقیر منش، درویش صفت لوگ ہی ہوتے ہیں، فیض کے انتقال پر استاد دامن سروسز اسپتال میں داخل تھے، ساتھ والے کمرے میں آپریشن زدہ حبیب جالب بھی بستر پر پڑے تھے، مگر باوجود پابندی کے استاد دامن دوستوں کا سہارا لے کر فیض کے جنازے میں شریک ہوئے اور ہفتہ دس روز بعد خود بھی فیض کے پیچھے روانہ ہوگئے۔ جالب آپریشن کے باعث فیض کے جنازے میں شریک نہ ہوسکے۔
Load Next Story