شہید ملک محمد سعد خانعظیم قربانی کے دس سال

شہید ڈی آئی جی پولیس ملک محمد سعد خان کی دسویں برسی کی تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں

LAHORE:
شہید ڈی آئی جی پولیس ملک محمد سعد خان کی دسویں برسی کی تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔ یہ برسی بھی خاموشی سے گذر جاتی لیکن وہ پہلے شہید ہیں جن کی ملک و قوم کے لیے دی جانے والی عظیم قربانی کو دس سال کا عرصہ بیت گیا ہے اور ایک طویل عرصہ گذرنے کے باعث اس سال برسی کے موقع پر تمام شہیدوں کو یاد رکھنے کی خاطر مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔جوں جوں ان کی شہادت کا دن قریب آ رہا ہے ذہن دس سال پہلے اس صوبے اور صوبائی دارالحکومت کی صورت حال کی جانب لوٹ گیا ہے۔

محرم الحرام کی ساتویں تاریخ تھی۔ ملک سعد نئے نئے سی سی پی او پشاور تعینات ہوئے تھے۔پولیس فورس میں ایک فرض شناس اور دیانت دار کے طور شہرت رکھنے والے ملک محمد سعد خان نے دو برس سابق انسپکٹر جنرل پولیس رفعت پاشا کے ساتھ مصروف ترین گذارے تھے ایسا لگتا تھا کہ آئی جی کی ساری ذمے داریاں ان پر آن پڑی ہیں لیکن صبح آٹھ بجے سے رات گئے تک وہ کسی شکوے کے بغیر اپنے باس کے احکامات بجا لاتے۔پھر ایک دن رفعت پاشا نے انھیں اپنے دفتر بلایا اور کہا کہ شہر میں جرائم بڑھ گئے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ وہ چیف کیپیٹل پولیس آفیسر کا عہدہ سنبھالیں۔

ملک سعد چیلنج قبول کرنے والوں میں شمار ہوا کرتے تھے یہ عہدہ بھی ان کے لیے ایک بڑے چیلنج سے کم نہیں تھا چنانچہ انھوں نے سی سی پی او کا چارج سنبھالا اور پھر محض چند دنوں میں جرائم پیشہ افراد کے گرد گھیرا تنگ کر دیا شہر میں جرائم ناقابل یقین حد تک کم ہو گئے۔اس وقت یہ بات زبان زد عام تھی کہ چھوٹے موٹے جرم کرنے والوں نے فیصلہ کر لیا کہ جب تک ملک سعد اس عہدے پر ہیں وہ کہیں دور چلے جائیں۔

یہ باتیں بھی سننے کو ملیں کہ ملک سعد خان نے بڑا واضح پیغام دیا کہ اب پشاور شہر میں امن و سکون ہو گا اور جب تک وہ پشاور پولیس کے سربراہ ہیں تب تک جرائم پیشہ افراد کے لیے شہر میں رہنے کی کوئی گنجائش نہیں۔تب وہ بہت سے لوگ جو ملک سعد خان کو جانتے تھے اور وہ بھی جو نہیں جانتے تھے کم از کم یہ ضرور جان گئے کہ اس پولیس افسر کا ماضی بڑا شاندار رہا ہے پولیس فورس جوائن کرنے کے بعد وہ ایس پی لاہور ڈیفنس بنے، اے ایس پی راولپنڈی رہے، اے ایس پی واہ کینٹ بنے، سوات، دیر اور بونیر میں ایس پی کے عہدے پر فائز رہے، پشاور میں ایس پی رینج کی ذمے داریاں نبھائیں،فرنٹئیر کانسٹیبلری میں رہے، ایس پی ٹریفک بنے ،ایس ایس پی کے عہدے پر ترقی پائی اور جہاں جہاں بھی رہے اپنی یادیں لوگوں کے دل و دماغ میں چھوڑ کر آئے۔شاید یہی ایمانداری تھی کہ پہلے انھیں میونسپل کارپوریشن کا ایڈمنسٹریٹر بنایا گیا اور بعد میں انھیں پشاور کے ترقیاتی ادارے پی ڈی اے کا سربراہ بنا دیا گیا۔

ان کے بڑے بھائی ملک اسد ان کے بارے میں بتاتے ہیں کہ انجینئرنگ یونی ورسٹی پشاور سے گریجویشن کے بعد انھوں نے اسی یونی ورسٹی میں لیکچرار کے طور بھی فرائض انجام دیے۔ایک پرائیویٹ کمپنی میں بھی کچھ عرصہ کام کیا۔کچھ عرصہ سول ایوی ایشن اتھارٹی میں بھی خدمات انجام دیں جب کہ چند ماہ سی اینڈ ڈبلیو کے محکمہ میں انجینئر کے طور کام کیا اور بعد میں انھوں نے سول سروس کا امتحان پاس کیا جس کے بعد پولیس میں صرف اور صرف ایک جذبہ لے کر آئے کہ وہ اپنے عوام کی خدمت کریں گے۔بہت کم لوگ اس بات سے واقف تھے کہ پولیس سروس جوائن کرنے سے پہلے انھوں نے مختلف اداروں میں ملازمت بھی کی۔


خیبر پختون خوا پولیس کے بارے میں یہ تاثر اب نہیں بلکہ بہت عرصے سے ہے کہ یہ فورس دوسرے صوبوں کی نسبت کافی بہتر ہے اگرچہ کسی سطح پر روایتی پولیس گردی بھی ہو گی لیکن اس کے باوجود خیبر پختون خوا کی پولیس فورس بہت بہتر امیج کی حامل رہی ہے۔ملک محمد سعد خان اسی فورس کا حصہ تھے اور ذاتی حیثیت میں انھوں نے بے شمار ایسی مثالیں قائم کیں جو عوام میںپولیس فورس کاعزت و افتخار میں بہتری کا باعث بنیں۔ جب ملک سعد خان سی سی پی او پشاور بنے تو جرائم میں نمایاں کمی تو اپنی جگہ مگر آنے والے دنوں میں دہشت گردی کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ کسی کے وہم و گماں میں نہ تھا۔

متحدہ مجلس عمل کی حکومت کا آخری سال تھا کہ اچانک دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔اس کا آغاز قبائلی علاقوں میں طالبان کی آمد اور دھماکوں سے ہوا۔پشاور کیا کسی بھی شہر میں خود کش دھماکوں کا سوچا بھی نہ جا سکتا تھا ۔اس دوران ملک سعد خان سے میری آخری ملاقات محرم الحرام کی ساتویں تاریخ کو ہوئی وہ خود ڈھکی دالگراں میں نکلنے والے جلوس کے سیکیورٹی انتظامات لینے جا رہے تھے اس کی دو وجوہات انھوں نے بتائیں پہلی تو یہ کہ انھیں خفیہ ذرایع سے اطلاع ملی تھی کہ ایک خود کش پشاور میں داخل ہو چکا ہے اور دھماکہ کر سکتا ہے اسے وہ خود تلاش کرنا چاہتے تھے اور دوسری وجہ سی سی پی او بننے کے بعد پہلا محرم کا مہینہ تھا عام طور پر یہ مہینہ پولیس اور سیکیورٹی اداروں کے لیے بڑا اہم تصور کیا جاتا ہے چنانچہ وہ خود موقع پر جا کر پولیس جوانوں کا حوصلہ بڑھانا چاہتے تھے تاکہ اگلے تین دن بھی وہ اپنے پیشہ وارانہ فرائض تندہی سے انجام دے سکیں۔

انھوں نے بارگاہ نجم الحسن کراروی کا دورہ کیا اور انتظامات کا جائزہ لینے کے بعد واپس روانہ ہوئے، ڈی ایس پی خان رازق، ناظم نوتھیہ آصف خان باغی، ناظم اندر شہر محمد علی صافی اور نائب ناظم افتخار خان بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اس دوران ایک نوجوان تیزی سے ان کے قریب بڑھا اور پلک جھپکنے میں خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔

27 جنوری2007 کی اس سہ پہر شہر پشاور میں بھی تاریخ کا پہلا خود کش دھماکہ ہو گیا اور پولیس فورس کا قابل فخر افسر اپنے ساتھیوں سمیت ملک و قوم کی بقاء اور سالمیت پر قربان ہو گیا۔یہ واقعہ رونما ہوئے پورے دس سال یعنی ایک دہائی بیت گئی مگر ملک محمدسعد خان کی یادیں آج بھی شہریوں کے دلوں میں تازہ ہیں۔آج جب کہ پاکستان سے دہشت گردی کا عفریت ختم ہونے کو ہے دہشت گردی کا نشانہ بننے والے شہیدوں اور غازیوں کو کسی بھی طور فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔

اس شہر نے ایڈیشنل آئی جی پولیس اور فرنٹئیر کانسٹیبلری کے کمانڈنٹ صفوت غیور، ڈی آئی جی عابد علی،لاتعداد ایس ایس پی، ایس پی، ڈی ایس پی، ہیڈ کانسٹیبلز اور کانسٹیبلوں کی قربانیاں دی ہیں۔ہزاروں بے گناہ عوام دہشت گردی کا شکار ہوئے، سیاست دانوں کو نشانہ بنایا گیا، الغرض سیکیورٹی فورسز کے جوان ہوں یا آرمی پبلک اسکول کے شہید بچے ان سب نے نئی نسل کے روشن مستقبل کے لیے قیمتی جانیں نچھاور کر دیں۔

زندہ قومیں اپنی یادوں کے سہارے بہتری کا سفر طے کیا کرتی ہیں اور خاص طور پر ہمیں اپنی تاریخ کا یہ مشکل باب ریکارڈ پر رکھنا چاہیے تاکہ نئی نسل کو پتہ چلے کہ کس طرح اور کس کس نے ہمیں جینے کی امنگ دی انھیں یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ ہم دہشت گردی کا شکار کیوں بنے اور کس طرح ہمیں آگ و خون کی جنگ میں دھکیلا گیا،بہرطور آیندہ جمعہ کو ملک محمد سعد خان اور ان کے ساتھیوں کی دسویں برسی ہے جو یقیناً اس عزم کے ساتھ منائی جائے گی کہ ملک و قوم کے لیے آیندہ بھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔
Load Next Story