’دنیا کا مقدس ترین رشتہ‘

اے بیٹیوں کو بیاہنے والو! تمہاری عظمت کو سلام، کہ تم دنیا کے مقدس ترین رشتے کے امین ہو۔

آسانی سے سمجھ آنے والی بات ہے کہ ماں باپ نے اپنی جوانیاں اور توانائیاں اس بیٹی اور اپنی دیگر اولاد کیلئے قربان کردی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں؟ فوٹو: فائل

اِس ویک اینڈ پر اپنے ایک عزیز کی بیٹی کی شادی کیلئے گوجرانوالہ گیا۔ کچھ دیر پہلے واپس اپنے گھر لاہور پہنچا ہوں اور مسلسل ایک سوچ گھیرے ہوئے ہے کہ

''بیٹی کا والدین سے رشتہ کیسا ہوتا ہے''

بچپن سے ہم شادی بیاہ میں شرکت کرتے آرہے ہیں مگر کبھی ایسا خیال نہیں آیا لیکن اس شادی کے بعد یہ سوچ کیوں آرہی ہے؟

شاید اِس کی وجہ یہ ہے کہ جوں جوں انسان عمر کی منزلیں طے کرتا جاتا ہے، حالات و واقعات کو دیکھنے کا انداز بدلتا جاتا ہے اور اس کے محسوسات تبدیل ہوتے جاتے ہیں۔ جب یہ بیٹی پیدا ہوئی تھی تو والد کے بال سیاہ اور جوانی بھرپور تھی جبکہ والدہ بھی ہر طرح سے توانا تھیں۔ یہ میرے سامنے کی بات ہے۔ آج بیٹی رخصت ہوئی تو والد کے بال اور داڑھی چاندی کی طرح سفید ہوچکی تھی جبکہ ماں لاغر اور کمزور۔

آسانی سے سمجھ آنے والی بات ہے کہ ماں باپ نے اپنی جوانیاں اور توانائیاں اس بیٹی اور اپنی دیگر اولاد کیلئے قربان کردی ہیں۔ مگر کیوں؟ ہم نے سن رکھا ہے کہ دنیا کا خالص اور بے لوث ترین رشتہ والدین کا اولاد سے ہوتا ہے۔ میں اِس جملے کو ہلکا سا تبدیل کروں گا۔ میری نظر میں دنیا کا خالص اور بے لوث ترین رشتہ والدین کا اپنی بیٹی سے ہوتا ہے۔ اگرچہ بیٹے سے محبت بھی کمال درجے کی ہوتی ہے مگر اُن میں سے کوئی نہ کوئی غرض ضرور شامل ہوتی ہے کہ،

  • اس کے ذریعے جہیز کی لکشمی آئے گی۔

  • بیٹے کے سسرال کا ایک پورا گھرانہ مطیع ہوجائے گا۔

  • کما کر لائے گا اور مالی تعاون کرے گا، سہارا بنے گا۔

  • بستر مرگ پر پڑے والدین کی خدمت کرے گا۔

  • بہو کی شکل میں چوبیس گھنٹے کی مفت خادمہ ملے گی۔


بیٹی تو شادی کے بعد اِن میں سے ایک بھی سروس نہیں دے سکتی۔ وہ تو،

  • جہیز لانے کے بجائے جہیز لے کر جاتی ہے۔

  • شادی کے بعد کمائے تو والدین کو نہیں دے سکتی۔

  • خاوند کی اجازت کے بغیر بیمار والدین کی خدمت کرنے اپنے میکے میں نہیں رک سکتی۔

  • چوبیس گھنٹے کی خادمہ خود بن جاتی ہے سسرال میں۔

  • سہارا بننے کی بجائے تاحیات ایک ذمہ داری بنی رہتی ہے۔


پھر کس مقصد کے تحت یہ والدین بیٹی کے جوان ہونے تک

  • اُسے سینے سے لگائے رکھتے ہیں؟

  • اُس کی جان اور عصمت کی حفاظت کرتے ہیں؟

  • اُسے تعلیم دلواتے ہیں؟

  • اُس کی تربیت کرکے اُس کی صلاحیتوں کو نکھارتے ہیں؟

  • اپنا تن من دھن بیچ کر اچھی جگہ اُس کی شادی کرتے ہیں اور کسی اور کے حوالے کردیتے ہیں۔

  • پھر اُس کی خاطر اُس کے سسرال والوں کے آگے تاحیات بچھے بچھے رہتے ہیں۔


شاید انہی بے لوث اور انتہائی بے غرض قربانیوں کے صلے میں ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے فرمایا کہ (مفہوم) جس نے تین بیٹیوں کی نیک تربیت کرکے انہیں بیاہا تو وہ میرے ساتھ جنت میں یوں (شہادت اور درمیانی انگلی مبارک کو جوڑ کر) ہوگا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآل وسلم سے پوچھا گیا کہ جس کی تین کی بجائے دو بیٹیاں ہوں تو اُس کے لئے کیا حکم ہے؟ فرمایا وہ بھی میرے ساتھ ایسے ہی جنت میں ہوگا۔


پھر پوچھا گیا کہ اگر کسی کی صرف ایک ہی بیٹی ہو تو اُس کے لئے کیا حکم ہے؟ فرمایا کہ وہ بھی میرے ساتھ جنت میں ایسے ہی ہوگا۔

اے بیٹیوں والے خوش قسمت، بے غرض اور عظیم لوگو!

اپنی بیٹیوں کی نیک تربیت کرکے اچھی جگہ بیاہ دو۔

جنتیں تمہاری منتظر ہیں۔

تمہی جنتوں کے وارث ہو۔

تمہاری قربانیاں اللہ کبھی رائیگاں نہیں جانے دے گا کہ اِس سے زیادہ کوئی قدردان نہیں۔

وہ بڑا مسبب الاسباب ہے۔

اُسی پر بھروسہ اور توکل کرو۔

وہ تمہاری اولادوں کے ساتھ تم سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے۔

کیونکہ تمہاری بیٹیاں تمہاری تو اولاد ہیں مگر اُس کی مخلوق ہیں۔

اور

وہ اپنی مخلوق کے ساتھ ماں باپ سے زیادہ محبت کرتا ہے۔

اے بیٹیوں کو بیاہنے والو!

تمہاری عظمت کو سلام

تمہارے وجود کو سلام

تمہاری ہستی کو سلام

کہ تم دنیا کے مقدس ترین رشتے کے امین ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔
Load Next Story