’’ شائننگ انڈیا‘‘

بھارتی فوج کے صرف تین معمولی جوانوں کے ویڈیو پیغامات نے مودی اور جنرل راوت کے فخریہ غبارے سے ہوا نکال دی ہے

tanveer.qaisar@express.com.pk

بھارتی وزیر اعظم جناب نریندر مُودی کو اپنی مستحکم جمہوریت پر اور بھارتی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل بپن راوت کو اپنی تیرہ لاکھ فوج پر یقینا بہت مان اور ناز ہوگا۔ پچھلے چند ہفتوں کے دوران مگر بھارتی فوج کے صرف تین معمولی جوانوں کے ویڈیو پیغامات نے مودی اور جنرل راوت کے فخریہ غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔بھارتی BSFکے سپاہی تیج بہادر اور بھارتی CRPF کے سپاہی جیت سنگھ اور نائک پرتاپ سنگھ نے بڑی جرات کے ساتھ بھارتی فوج میں ظلم اور نا انصافی کی جو کہانیاں اپنے ویڈیو پیغامات کے ساتھ اَپ لوڈ کی ہیں، انھوں نے ساری دنیا میں بھارتی فوج کو رسوا کر دیا ہے؛چنانچہ بھارتی سپہ سالارنے مارے شرمندگی کے تحریری طور پر اعلان کیا ہے کہ آیندہ جو بھی فوجی جوان ایسی شکایت کرے گا، اُسے سخت سزا دی جائے گی۔

اطلاعات ہیں کہ جن تین بھارتی فوجیوں نے یہ ''کام'' دکھایاہے، اُنہیں یونٹوں سے تبدیل کرکے کہیں ''غائب'' کر دیا گیا ہے۔ اِس سلسلے میں نائک پرتاپ سنگھ کی بیوی، ریچا، نے بھارتی میڈیا کو بتایا ہے کہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اُن کے گھر پر دھاوا بولا اوراُن کے شوہر کے ساتھ وہ موبائل فون بھی ساتھ لے گئے جس میں بھارتی فوجی افسروں کے مظالم اور زیادتیوں کی ویڈیوز بنائی گئی تھیں۔اورمقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی فوجی، چندو بابو لال چوہان، کی کہانی بھی قابلِ غور ہے جس نے 29 ستمبر2016ء کواپنے افسروں کی زیادتیوں سے تنگ آکرایل او سی پار کی اور خود کو افواجِ پاکستان کے سامنے سرنڈر کردیا۔ اب اُسے پاک فوج نے 21جنوری2017ء کو واہگہ بارڈر پر بھارت کے حوالے کیا ہے کہ شائد بھارت کو کچھ شرم آئے۔

ہمارے اِس ہمسایہ ملک، بھارت، کی طرف سے ہمیشہ یہ الزام عائد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ '' ایٹمی معاملات میں پاکستان ایک غیر محتاط ملک ہے''۔ واقعہ تویہ ہے کہ ایٹمی مواد کے حساس معاملات میں خود بھارت کاریکارڈ داغدار ہے۔ اِسی حوالے سے ایک تازہ واقعہ بلکہ سانحہ ظہور میںآیا ہے جس نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے کہ بھارت اتنا بھی لاپرواہ ہو سکتاہے: ابھی چندہفتے قبل بھارتی پولیس نے ممبئی کے قریب 9کلو گرام خطرناک یورینیم پکڑی ہے۔ اوپن مارکیٹ میں اِس کی مالیت 24کروڑ روپے بتائی گئی ہے۔ دو بھارتی شہری ، جن میں سے ایک کا نام '' کشور پراجپتی''بتایا گیا ہے، موقع پر گرفتار کیے گئے۔ حراست میں لینے والے پولیس افسر، روندر، کا کہنا ہے کہ لیبارٹری ٹیسٹ کے بعد اس امر کی تصدیق ہو گئی ہے کہ پکڑا جانے والا یہ تخفیفی ایٹمی مواد (Depleted Uranium ( خالصتاً جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے بھی استعمال ہوسکتا ہے۔

بھارت کے ایٹمی مرکز(بھابا اٹامک ریسرچ سینٹر) نے بھی اس مواد کے مہلک ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔ دونوں ملزمان اِسے بلیک مارکیٹ میں فروخت کرنے جا رہے تھے کہ مخبری ہونے پر دھر لیے گئے۔دنیا حیران ہے کہ بھارت اپنے جوہری معاملات میں اتنا بھی غیر محتاط ہو سکتا ہے کہ اُس کے عام شہری آزادی سے یورینیم ایسا خطرناک ایٹمی مواد فروخت کے لیے بازاروں میں لیے پھرتے ہیں!یہی ہے وہ بھارت جہاں 8201 کسانوں نے خود کشیاں کی ہیں۔وجہ؟ بھارت ہی کے ایک سرکاری ادارے، نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو، نے بھی کسانوں کی اِس تعداد میں خود کشیوں کی تصدیق کر دی ہے۔ اِسی تصدیق کی بنیاد پر ممتاز بھارتی ماہرِ سماجیات، دیپتی مان تیواری، نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مُودی کی گوشمالی کرتے ہُوئے لکھا ہے: یہ ہے آپکا ''شائننگ انڈیا'' جہاں تھوڑے سے عرصے میں آٹھ ہزار کاشتکار خود کشی کرلیں؟


ویسے تو دنیا کے تقریباً ہر ملک میں، بد قسمتی سے، خواتین کی بے حرمتی(ریپ) کے سانحات جنم لیتے ہیں۔ بھارت میں مگر اس حوالے سے جو اندھیر مچا ہے، اس نے سب کو شرما دیا ہے۔ بھارت کے دو شہر، دہلی اور جبل پور، ریپ کے شرمناک سانحات میں سب پر بازی لے گئے ہیں۔ بھارتی سرکاری ادارے(NCRB )کا کہنا ہے کہ بھارت میں 2016ء کے دوران 36735عورتوں کی عصمتوں کو تاراج کیا گیا۔اِنہی شرمناک واقعات کے پیشِ نظر بھارت کے محکمہ سیاحت کو 2017ء کا سال طلوع ہوتے ہی غیر ملکی سیاح خواتین کے لیے ملک بھر میں یہ اعلان کروانا پڑا ہے کہ یہ مغربی سیاح عورتیں بازاروں میں آئیں تو اسکرٹ پہننے سے گریز کریں۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی پروفیسر جیوتی گھوش نے بھارت بھر میں جنم لینے والے ریپ کے اِن متواتر واقعات پر تبصرہ کرتے ہُوئے ایک معروف بھارتی اخبار میں یوں لکھا:''یہ اعدادو شمار ہم سب کے لیے شرم سے ڈوب مرنے کے لیے کافی ہونے چاہئیں۔'' بھارت ہی کی مشہور صحافی، برکھا دت، نے اپنی خود نوشت سوانح حیات( This Unquiet Land( میں بھارت میں جنم لینے والی ریپ کی بڑھتی وارداتوں اور دلتوں سے بد سلوکی کی جو کہانیاں لکھی ہیں، پڑھ کر انسان کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔گزرتی ہُوئی اِس اکیسویں صدی میں بھی ''دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ'' بھارت میں غریب اور بے آواز دلتوں، شودروں اور اچھوتوں سے جو غیر انسانی سلوک کیا جارہا ہے، تحقیقی اورواقعاتی رپورٹیں پڑھ کر انسان حیرت سے سوچتا ہے: یا خدایا، کیا بھارت کا ذات پرست طاقتور ہندواپنے ہی ہم مذہبوں اور ہم وطنوں پر ایسے مظالم بھی ڈھا سکتاہے؟باقی مستند رپورٹیں تو ایک طرف رکھ دیجئے۔

اگر اس سلسلے میں صرف بھارت کے معروف دلت دانشور اور ادیب،اوم پرکاش والمیکی ،کی خود نوشت سوانح حیات ''جُوٹھن''ہی کا مطالعہ کر لیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ بھارت میں نچلی ذاتوں پر کیسے کیسے ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں! کوئی بھی صاحبِ ضمیر و دل ''جوٹھن'' پڑھتے ہوئے اشکبار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔بھارتی ہندو کے اِسی استکبار اور ستمرانی کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ بھارت بھر میں نچلی ذاتوں نے اپنی سیاسی جماعتیں کھڑی کر لی ہیں تاکہ ظالموں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اُتر پردیش میں مایاوتی کی سیاسی جماعت، بھوجن سماج پارٹی،انھی میں سے ایک ہے جسے اب ہندوستان کی تیسری بڑی پولیٹیکل پارٹی ہونے کا اعزاز مل چکا ہے۔

شیر دل مایاوتی، جو کبھی معمولی سی استانی تھیں، اُتر پردیش کے حالیہ ریاستی انتخابات میں اکیلے ہی نریندرمودی اور اُن کی پارٹی کو للکار رہی ہیں۔وہ جانتی ہیں کہ نریندر مودی بھارت کے اُس مقتدر اور متکبر طبقے کا نمایندہ ہیں جو اعلیٰ ذاتی ہندو ہونے کے زعم میں نچلی ذات کے ہندوؤں کو جانوروں کا درجہ بھی دینے پر تیار نہیں۔ اب تو ہماری عاصمہ جہانگیر نے بھی (20 جنوری2017ء کو بی بی سی سے گفتگو کرتے ہُوئے یوں)کہہ دیا ہے: ''بھارتی سیاست میں مذہب کا استعمال بڑھ گیا ہے۔مذہب کے نام پر بھارت ایسی بڑی جمہوریت کو تباہ کر دیا گیا ہے۔اب وہاں مسلمانوں کے خلاف کوئی بات کی جاتی ہے تو شرمندگی کا احساس بھی نہیں ہوتا۔'' شائد یہی وجہ ہے کہ جب 26 جنوری کو بھارت میں''یومِ جمہوریہ'' منایا جاتا ہے تو اُسی روز مقبوضہ کشمیر میں سیاہ جھنڈے لہرائے جاتے ہیں۔
Load Next Story