سوتے رہوکھوتے رہو
پاکستان کی لاکھوں ایکڑ زمین بنجر ہوچکی اور لاکھوں ایکڑ بنجر ہوجائے گی
KARACHI:
جاوید چوہدری نے 4 اکتوبر کو اسی اخبار میں ایک چشم کشا کالم ''پانی پانی کے محتاج'' لکھا تھا جسے پڑھ کر میرے علاوہ شاید ذمے داروں کی ایک چشم بھی کشا نہیں ہوئی اور نہ ہوگی۔ کیونکہ ہم خرگوش ہیں اور ہمارے خواب معروف ہیں جوکچھوے کی چال 1970 سے چلنا شروع ہوئی یعنی بھارت اس نے 2016 تک آپ کو اپنے حصے کے بیشتر پانی سے محروم کردیا ہے اور بقیہ سے آیندہ چند سال میں محروم کردے گا۔
تفصیل اس کی تو آپ اس کالم میں پڑھ سکتے ہیں جس کا تذکرہ میں نے کیا ہے مگر لیاقت علی خان کے عزم سے لے کر جماعت علی شاہ کی داستان اس کالم میں رقم ہے جس کے تحت پاکستان انڈس واٹر کمیشن نے ان صاحب نے جو اس کے چیئرمین تھے دو مقدمے پاکستان کے جان بوجھ کر اس وکیل کو دیے جو یہ مقدمے ہار گیا اور بھارت سے مل گیا جس کے بعد ان صاحب کو ملازمت سے فارغ کیا گیا صرف ملازمت سے فارغ، شاید یہ اس کے بعد پاکستان سے باہر چلے گئے تھے اور اب آرام سے پاکستان میں گھوم پھر رہے ہیں بلکہ اس کالم کے مطابق چینلز پر تبصرے کررہے ہیں۔
اس سے بدتر مثال مشکل ہے جس کے تحت پاکستان کی لاکھوں ایکڑ زمین بنجر ہوچکی اور لاکھوں ایکڑ بنجر ہوجائے گی۔ دریائے سندھ اور دریائے جہلم کے سوکھنے کا وقت آپہنچا ہے اور پاکستان نے دنیا بھر کے دباؤ کی وجہ سے اور اپنے سیاست دانوں کے کردار کی وجہ سے کالا باغ ڈیم نہیں بنایا اور پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کو کچھ نہیں ہے مگر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے پانی ہوگا تو ذخیرہ ہوگا نا؟
ایک خاص ذہن پاکستان میں پاکستان کے خلاف کام کرتا ہے اور وہ آج سے نہیں قیام پاکستان کے وقت سے آج تک یہی کام کررہا ہے اور اس کی شاخیں اب دوسرے علاقوں میں بھی پھیل چکی ہیں اور دوسرے بھی ہم نوا ہیں،کالاباغ پر آپ واویلا سن چکے ہیں اور سنتے رہتے ہیں۔ خیرکالاباغ تو بعد میں آیا جس پر سرحد اورسندھ کے سیاست دان ایک ہوگئے کہ ملک کو پانی ذخیرہ نہیں کرنے دیںگے۔ سوال یہ ہے کہ اختلاف مقام پر تھا تو کام پر تو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ڈیم بنتا یا ڈیم بنتے کہیں اور بنتے مگر سب کچھ سیاست کی نذرکردیاگیا اس جرم کو تو شاید خدا بھی معاف نہ کرے کیونکہ خدا ان کی مدد کرتا ہے جو آپ اپنی مدد کرتے ہیں۔
ہمارے دانشور، سول سوسائٹی وہ ابھی تک لیلیٰ کی انگلیاں، مجنوں کی پسلیاں، غزل گیت میں گم ہیں۔ لیڈر دھرنے، نا دھرنے میں مبتلا ہیں، ان کو وطن سے کوئی دلچسپی ہے نہ لوگوں سے یہ صرف اقتدارکی بندر بانٹ میں لگے ہوئے ہیں، باہر بیٹھ کر بھی اور اندر رہ کر بھی ملک کی جڑیں کھوکھلی کررہے ہیں۔
اقتدار پرستوں اور لالچ کے غلام لوگوں کا کوئی وطن نہیں ہوتا۔ ''سیاسی خانہ بدوش'' ہیں۔ جہاں پانی اورگھاس دیکھیں گے وہاں چلے جائیں گے ان کے اکاؤنٹ دولت سے بھرے ہوئے ہیں سات پشتوں تک کمانے کی ضرورت نہیں ہے بیٹھ کر کھاسکتے ہیں۔ بیٹھ کر ہی کھائیںگے ایمان کے راستے پر کھڑے نہیں ہونگے یہ ان کا مقدر ہے۔
قدرت نے ہر قوم کا مقدر لکھا ہوا ہے اور اس میں تبدیلی قوم خود لاسکتی ہے۔ قدرت کو ضرورت نہیں ہے۔ جس ملک میں سیاسی نورا کشتیاں، قوی ہوں اورجن کی وجہ سے قوم کے بچے ہلاکت میں پڑتے ہوں، ہلاک ہوتے ہوں اس ملک کا انجام اس سے مختلف نہیں ہوسکتا جو ہم دیکھ رہے ہیں۔ قومی مسائل پرکوئی دلچسپی نہیں ہے۔ سیاست پر ایمان ہے اقتدار مقصد سیاست ہے اور کچھ نہیں۔ اور عوام اس چکی میں پس رہے ہیں،کوئی بلے سے پس رہا ہے کوئی تیر سے شیر والے اپنی جماعت کو جانتے بھی ہیں اور اس کے فعل میں شریک بھی۔ وہ پاکستان بننے سے پہلے سے ہی اس سیاست کے عادی ہیں اور سینہ بہ سینہ سیاست اب بھارت پرستی تک آپہنچی ہے۔
چند محب وطن بہرحال اس سے مستثنیٰ ہیں اور ہمیشہ رہے ہیں ورنہ زیادہ تر تو جماعت علی شاہ ہی ہیں دنیا بھر میں کہیں بھی چلے جائیں آپ کو پاکستان کا نام بگاڑنے میں غیر قانونی حرکتوں میں یہ لوگ آگے آگے ملیںگے۔ ہیں میرے بھائی کیونکہ پاکستانی میں بھی ہوں اور وہ بھی مگر بالکل ایسے ہی جیسے ایک گھر میں چند بچوں کے مزاج اورکردار الگ الگ ہوتے ہیں۔
کسی سیاسی لیڈر نے، کسی جماعت نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ جماعت علی شاہ کو قرار واقعی سزا دی جائے، مقدمہ چلایا جائے، اعتراف جرم کرایا جائے دوبارہ مقدمات بین الاقومی طور پر کھولے جائیں۔ مودی کی والدہ کو ساڑھی بھجوانا ضروری نہیں ہے کہ آپ کا فرزند ہمارے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار رہا ہے، ہم ان سازشوں پر آپ کو اور آپ کے صاحبزادے کو مبارکباد دیتے ہیں۔
سوتے رہو اور ہم نے دیکھ لیا ہے کہ ہماری قوم میں اب قائداعظم،لیاقت علی خان، سردارعبدالرب نشتر اور ایسے لوگ پیدا نہیں ہوںگے، اب کچھ ایسے لوگ پیدا ہوںگے جو اس ملک کو تباہی سے دو چار کرتے رہیںگے۔
یہ ملک مملکت خداداد پاکستان ہے اور جو دے سکتا ہے وہ لے بھی سکتا ہے کہ خدا ہے اور اس نے کہاہے کہ وہ ایک قوم کی جگہ دوسری قوم پیدا کرتا ہے جب وہ چاہتا ہے۔ نہ جانے کیوں مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید اب قوم کے بدلنے کا وقت آنے والا ہے اﷲ کی طرف سے۔
قرآن کی آیتیں پڑھ پڑھ کر ان سیاست دانوں نے اس قدر جھوٹ بولا ہے اتنا ملک کو برباد کیا ہے کہ اب خدا نے شاید فیصلہ کرلیا ہے کہ ملک نہیں بدلے گا قوم بدل دے گا اور یہ بھی کیا پتا کہ کیا کیا بدل جائے۔ یہ سارے پرندے اڑجائیںگے جو ابھی اپنی اپنی بولیاں بول رہے ہیں۔ رہ جائے گا اﷲ کا نام اور اﷲ کے غریب پسماندہ مفلوک الحال ستم رسیدہ بندے کہ جن کا ان تجارتی سیاست دانوں نے خون نچوڑ لیا ہے۔ عوام اور ملک دونوں کی رگوں سے خون نچوڑ کر انھوں نے اپنے خزانے بھرے ہیں، یہ ڈرپوک ہیں کیونکہ چورکھٹکے پر فرار ہوجاتا ہے اورکھٹکا ہورہاہے فرارکا وقت آپہنچا ہے۔
لوگ تھک چکے ہیں وہ تمام لیڈروں سے تنگ آئے ہوئے ہیں کوئی ماں باپ، نانا کے حوالے سے اقتدار کا طالب ہے کوئی دھرنوں سے اقتدار مانگ رہا ہے جانے والے بھی خوب عیش کرکے اس جہاں سے گئے تھے بعد میں جذباتی نعروں میں استعمال ہورہے ہیں اب ایک طرف لاشوں کی سیاست ہے دوسری طرف لالچ کی سیاست، ایک طرف دھوکا اور فراڈ کی سیاست اور ان تمام کا محور ہے ''پاکستان کا منصب اعلیٰ'' تاکہ وہاں بیٹھ کر مزید کمایا جاسکے، یااﷲ اب پاکستان کے ان لوگوں کی بھی سن لے جو مرگئے جو مرنے والے ہیں اور جن کی لاشوں پر بھی سیاست کی جائے گی۔ خدا پاکستان کو پاکستان اور پاکستان کے عوام کو پاکستان نصیب کرے۔ (آمین)
جاوید چوہدری نے 4 اکتوبر کو اسی اخبار میں ایک چشم کشا کالم ''پانی پانی کے محتاج'' لکھا تھا جسے پڑھ کر میرے علاوہ شاید ذمے داروں کی ایک چشم بھی کشا نہیں ہوئی اور نہ ہوگی۔ کیونکہ ہم خرگوش ہیں اور ہمارے خواب معروف ہیں جوکچھوے کی چال 1970 سے چلنا شروع ہوئی یعنی بھارت اس نے 2016 تک آپ کو اپنے حصے کے بیشتر پانی سے محروم کردیا ہے اور بقیہ سے آیندہ چند سال میں محروم کردے گا۔
تفصیل اس کی تو آپ اس کالم میں پڑھ سکتے ہیں جس کا تذکرہ میں نے کیا ہے مگر لیاقت علی خان کے عزم سے لے کر جماعت علی شاہ کی داستان اس کالم میں رقم ہے جس کے تحت پاکستان انڈس واٹر کمیشن نے ان صاحب نے جو اس کے چیئرمین تھے دو مقدمے پاکستان کے جان بوجھ کر اس وکیل کو دیے جو یہ مقدمے ہار گیا اور بھارت سے مل گیا جس کے بعد ان صاحب کو ملازمت سے فارغ کیا گیا صرف ملازمت سے فارغ، شاید یہ اس کے بعد پاکستان سے باہر چلے گئے تھے اور اب آرام سے پاکستان میں گھوم پھر رہے ہیں بلکہ اس کالم کے مطابق چینلز پر تبصرے کررہے ہیں۔
اس سے بدتر مثال مشکل ہے جس کے تحت پاکستان کی لاکھوں ایکڑ زمین بنجر ہوچکی اور لاکھوں ایکڑ بنجر ہوجائے گی۔ دریائے سندھ اور دریائے جہلم کے سوکھنے کا وقت آپہنچا ہے اور پاکستان نے دنیا بھر کے دباؤ کی وجہ سے اور اپنے سیاست دانوں کے کردار کی وجہ سے کالا باغ ڈیم نہیں بنایا اور پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کو کچھ نہیں ہے مگر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے پانی ہوگا تو ذخیرہ ہوگا نا؟
ایک خاص ذہن پاکستان میں پاکستان کے خلاف کام کرتا ہے اور وہ آج سے نہیں قیام پاکستان کے وقت سے آج تک یہی کام کررہا ہے اور اس کی شاخیں اب دوسرے علاقوں میں بھی پھیل چکی ہیں اور دوسرے بھی ہم نوا ہیں،کالاباغ پر آپ واویلا سن چکے ہیں اور سنتے رہتے ہیں۔ خیرکالاباغ تو بعد میں آیا جس پر سرحد اورسندھ کے سیاست دان ایک ہوگئے کہ ملک کو پانی ذخیرہ نہیں کرنے دیںگے۔ سوال یہ ہے کہ اختلاف مقام پر تھا تو کام پر تو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ڈیم بنتا یا ڈیم بنتے کہیں اور بنتے مگر سب کچھ سیاست کی نذرکردیاگیا اس جرم کو تو شاید خدا بھی معاف نہ کرے کیونکہ خدا ان کی مدد کرتا ہے جو آپ اپنی مدد کرتے ہیں۔
ہمارے دانشور، سول سوسائٹی وہ ابھی تک لیلیٰ کی انگلیاں، مجنوں کی پسلیاں، غزل گیت میں گم ہیں۔ لیڈر دھرنے، نا دھرنے میں مبتلا ہیں، ان کو وطن سے کوئی دلچسپی ہے نہ لوگوں سے یہ صرف اقتدارکی بندر بانٹ میں لگے ہوئے ہیں، باہر بیٹھ کر بھی اور اندر رہ کر بھی ملک کی جڑیں کھوکھلی کررہے ہیں۔
اقتدار پرستوں اور لالچ کے غلام لوگوں کا کوئی وطن نہیں ہوتا۔ ''سیاسی خانہ بدوش'' ہیں۔ جہاں پانی اورگھاس دیکھیں گے وہاں چلے جائیں گے ان کے اکاؤنٹ دولت سے بھرے ہوئے ہیں سات پشتوں تک کمانے کی ضرورت نہیں ہے بیٹھ کر کھاسکتے ہیں۔ بیٹھ کر ہی کھائیںگے ایمان کے راستے پر کھڑے نہیں ہونگے یہ ان کا مقدر ہے۔
قدرت نے ہر قوم کا مقدر لکھا ہوا ہے اور اس میں تبدیلی قوم خود لاسکتی ہے۔ قدرت کو ضرورت نہیں ہے۔ جس ملک میں سیاسی نورا کشتیاں، قوی ہوں اورجن کی وجہ سے قوم کے بچے ہلاکت میں پڑتے ہوں، ہلاک ہوتے ہوں اس ملک کا انجام اس سے مختلف نہیں ہوسکتا جو ہم دیکھ رہے ہیں۔ قومی مسائل پرکوئی دلچسپی نہیں ہے۔ سیاست پر ایمان ہے اقتدار مقصد سیاست ہے اور کچھ نہیں۔ اور عوام اس چکی میں پس رہے ہیں،کوئی بلے سے پس رہا ہے کوئی تیر سے شیر والے اپنی جماعت کو جانتے بھی ہیں اور اس کے فعل میں شریک بھی۔ وہ پاکستان بننے سے پہلے سے ہی اس سیاست کے عادی ہیں اور سینہ بہ سینہ سیاست اب بھارت پرستی تک آپہنچی ہے۔
چند محب وطن بہرحال اس سے مستثنیٰ ہیں اور ہمیشہ رہے ہیں ورنہ زیادہ تر تو جماعت علی شاہ ہی ہیں دنیا بھر میں کہیں بھی چلے جائیں آپ کو پاکستان کا نام بگاڑنے میں غیر قانونی حرکتوں میں یہ لوگ آگے آگے ملیںگے۔ ہیں میرے بھائی کیونکہ پاکستانی میں بھی ہوں اور وہ بھی مگر بالکل ایسے ہی جیسے ایک گھر میں چند بچوں کے مزاج اورکردار الگ الگ ہوتے ہیں۔
کسی سیاسی لیڈر نے، کسی جماعت نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ جماعت علی شاہ کو قرار واقعی سزا دی جائے، مقدمہ چلایا جائے، اعتراف جرم کرایا جائے دوبارہ مقدمات بین الاقومی طور پر کھولے جائیں۔ مودی کی والدہ کو ساڑھی بھجوانا ضروری نہیں ہے کہ آپ کا فرزند ہمارے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار رہا ہے، ہم ان سازشوں پر آپ کو اور آپ کے صاحبزادے کو مبارکباد دیتے ہیں۔
سوتے رہو اور ہم نے دیکھ لیا ہے کہ ہماری قوم میں اب قائداعظم،لیاقت علی خان، سردارعبدالرب نشتر اور ایسے لوگ پیدا نہیں ہوںگے، اب کچھ ایسے لوگ پیدا ہوںگے جو اس ملک کو تباہی سے دو چار کرتے رہیںگے۔
یہ ملک مملکت خداداد پاکستان ہے اور جو دے سکتا ہے وہ لے بھی سکتا ہے کہ خدا ہے اور اس نے کہاہے کہ وہ ایک قوم کی جگہ دوسری قوم پیدا کرتا ہے جب وہ چاہتا ہے۔ نہ جانے کیوں مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید اب قوم کے بدلنے کا وقت آنے والا ہے اﷲ کی طرف سے۔
قرآن کی آیتیں پڑھ پڑھ کر ان سیاست دانوں نے اس قدر جھوٹ بولا ہے اتنا ملک کو برباد کیا ہے کہ اب خدا نے شاید فیصلہ کرلیا ہے کہ ملک نہیں بدلے گا قوم بدل دے گا اور یہ بھی کیا پتا کہ کیا کیا بدل جائے۔ یہ سارے پرندے اڑجائیںگے جو ابھی اپنی اپنی بولیاں بول رہے ہیں۔ رہ جائے گا اﷲ کا نام اور اﷲ کے غریب پسماندہ مفلوک الحال ستم رسیدہ بندے کہ جن کا ان تجارتی سیاست دانوں نے خون نچوڑ لیا ہے۔ عوام اور ملک دونوں کی رگوں سے خون نچوڑ کر انھوں نے اپنے خزانے بھرے ہیں، یہ ڈرپوک ہیں کیونکہ چورکھٹکے پر فرار ہوجاتا ہے اورکھٹکا ہورہاہے فرارکا وقت آپہنچا ہے۔
لوگ تھک چکے ہیں وہ تمام لیڈروں سے تنگ آئے ہوئے ہیں کوئی ماں باپ، نانا کے حوالے سے اقتدار کا طالب ہے کوئی دھرنوں سے اقتدار مانگ رہا ہے جانے والے بھی خوب عیش کرکے اس جہاں سے گئے تھے بعد میں جذباتی نعروں میں استعمال ہورہے ہیں اب ایک طرف لاشوں کی سیاست ہے دوسری طرف لالچ کی سیاست، ایک طرف دھوکا اور فراڈ کی سیاست اور ان تمام کا محور ہے ''پاکستان کا منصب اعلیٰ'' تاکہ وہاں بیٹھ کر مزید کمایا جاسکے، یااﷲ اب پاکستان کے ان لوگوں کی بھی سن لے جو مرگئے جو مرنے والے ہیں اور جن کی لاشوں پر بھی سیاست کی جائے گی۔ خدا پاکستان کو پاکستان اور پاکستان کے عوام کو پاکستان نصیب کرے۔ (آمین)