قائمہ کمیٹی نے انسانی اعضا عطیہ کرنے کے بل کی منظوری دے دی
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قومی صحت کا اجلاس چیئرمین خالدمگسی کی صدارت میں ہوا جس میں انسانی اعضا کی پیوند کاری کے ترمیمی بل کی منظوری دے دی گئی ہے۔
کشور زہرانے کمیٹی کو بریفنگ ہوئے کہاکہ انسانی اعضا کو عطیہ کرنے کے رحجان کوبڑھانا چاہیے لوگوں میں آگاہی ہوکہ وہ وصیت کر جائیں کہ ان کے فوت ہونے کے بعد اعضا عطیہ کیے جاسکتے ہیں، بے شمار لوگوں کی زندگیاں عطیہ کئے جانے والے اعضا سے بچائی جاسکتی ہیں۔
ادھر کمیٹی ارکان نے کشور زہرا کے بل کی حمایت کرتے ہوئے مرنے کے بعد اپنے اعضاء عطیہ کرنے کا اعلان کیا، عطیہ کرنے کے لیے شناختی کارڈ میں اندراج کراسکے گا۔ سیکریٹری صحت نے بریفنگ میں بتایاکہ ادویات پر بار کوڈ لگایا جائے گا، بارکوڈ والی ادویات اصل ادویات تصورہوں گی۔ بارکوڈ کے ذریعہ قیمتوں اور معیار کا تعین اورچیک ہوگا۔
اجلاس میں کراچی میں پولیو ویکسین سے بچے کی مبینہ موت کامعاملہ بھی زیر غور آیا، سیکرٹری صحت نے کہا ضرور ی نہیں کہ بچے کی موت پولیو ویکسین سے ہوئی ہو کراچی میں لاکھوں بچوں کو ویکسین دی گئی تاہم وفاقی وزارت صحت پولیو ویکسین سے بچے کی مبینہ ہلاکت معاملے کی انکوائری کررہی ہے۔ معاملے کی مکمل تحقیقات کے باقاعدہ رپورٹ جاری کی جائیگی۔
دریں اثناء سینٹ خصوصی کمیٹی برائے محروم طبقات کے کنونیئر سینیٹر نثارمحمدکی زیرصدارت اجلاس میں وزارت سیفران سے فاٹاسے بے گھر ہونے والے شہریوں کی کل تعداد حکومت اور بیرونی اداروں کیطرف سے دی گئی امداد گھروں میں واپس جانیوالے خاندانوں کو دی گئی امداد، قومی انسانی حقوق کمیشن کے مسائل اور حل کیلئے اقدامات کے ایجنڈے پر غور ہوا۔
کنونیئر کمیٹی سینیٹر نثارمحمد مالاکنڈ نے کہا کہ کیری لوگر بل میں سے جس طرح خبیر پختونخوا کاایک فیصد حصہ ہے اسی طرح فاٹا کا بھی حصہ بڑھایا جائے، بے گھرخاندانوں کو باعزت واپس لاکرجائیدادوں کی بحالی کی جائے۔ افواج پاکستان کی قربانیوں پرفخرہے، سول انتظامیہ کے اختیارات جلد بحال کرکے فوج کو واپس بلایا جائے۔ 65 فیصد نقصانات کے علاقے فاٹا میں بچے بے آسرا اور والدین بے گھر ہیں، کینسر کے مریض کی طرح بستر پر ڈالنے کی بجائے لوگوں کو اپنے گھروں میں باعزت واپس کرکے نیکی اور اچھائی کمائی جائے۔
علاوہ ازیں وزارت سیفران حکام نے بتایا کہ فی خاندان پچیس ہزار روپیہ ماہانہ کے علاوہ دس ہزار ٹرانسپورٹ کیلئے اور نوے کلوگرام کا فوڈ پیکیج دیا جاتا ہے۔ اس وقت تین لاکھ چھتیس ہزاربے گھرخاندان رجسٹرڈ ہیں، دولاکھ اٹھتر ہزار خاندان واپس لوٹ گئے ہیں۔ ہدف ہے کہ 31 مارچ کے بعد کوئی شہری اپنے علاقے سے باہر نہ رہے۔