’’غلطی‘‘ یا پھر ہمارے ’’کارنامے‘‘

اُس کی ماں مستقبل میں لندن میں پڑھنے اور شفٹ ہونے کے خواب دیکھ رہی تھی۔ اب بھلا اِس ’’غلطی‘‘ کو وہ کیوں اٹھائے پھرتی؟

عبداللہ سوچنے لگا کہ وطن عزیز میں ملنے والے ایسے ہزاروں بچے کس امریکہ یا اسرائیل کی سازش ہیں؟ جن لوگوں نے جعلی فیس بک پیجز بنا کر بچے کے نام پر پیسے جمع کئے، وہ سارے پاکستانی ہی تھے ناں؟ فوٹو: فائل

''کاش تُو مرگئی ہوتی، تُو نے ہمیں کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا''۔ یہ پہلی آواز تھی جو ننھے سے بچے کے کان میں پڑی اور یاداشت میں نقش ہوگئی۔ اُسے کچھ خبر نہیں تھی کہ اُس کا مطلب کیا ہے؟ وہ تو سات ماہ کا نومولود بچہ تھا جو ابھی تک اپنی ماں کے پیٹ میں تھا۔ اب آئے روز ایسے ہی جملے اور طعنے سننا اُس کا معمول بن چکا تھا۔

ایک دن تو حد ہی ہوگئی جب کسی نے لاتوں اور گھونسوں سے اُس کی ماں کو مارنا شروع کردیا۔ دو چار گھونسے اور لاتیں تو اُسے بھی لگیں اور درد کا وہ طوفان اٹھا جو تھمتے نہ تھمے۔ ماں نے رات کی تاریکی میں نجانے کون سی دوا پی لی کہ اُسے اپنا سانس رکتا محسوس ہوا۔ وہ جگہ جو کسی نا مولود کیلئے محفوظ ترین پناہ گاہ تھی، اب وہ آگ بن گئی اور کسی سیلابی ریلے کی طرح اُس کی پناہ گاہ نے اُسے ظالموں کی دنیا میں اُگل دیا۔ بمشکل تمام اُس کو پہلی سانس نصیب ہوئی۔

اُس کی ماں بہت خوبصورت تھی۔ بڑی بڑی دلکش آنکھیں، بھرا بھرا جسم، ننھے نومولود نے ابھی رونے کیلئے منہ کھولا ہی تھا کہ کچھ غذا طلب کرسکے کہ اُسے اخبار میں لپیٹ کر باہر لے جایا گیا۔ سردی کی ایک برف کردینے والی ہوا نے اُس کی ریڑھ کی ہڈی تک سُن کردی۔ فجر کا وقت ہونے والا تھا۔ اذان کی آواز کانوں میں پڑی مگر وہ ننھا وجود خدا اور خدائی کے رحم و کرم پر گاڑی میں جھولتا چلا جا رہا تھا۔ ایک دم گاڑی کو بریک لگی، نہایت بدبودار جگہ تھی، اُس کا کلیجہ باہر آنے لگا مگر اُس کی ماں نے اُسے جلد ہی ایک بڑے سے کچرہ دان کے اندر رکھ دیا۔

ننھا وجود پہلے تو حیران و پریشان سوچتا ہی رہا کہ اُس کے ساتھ کیا ہوا ہے، مگر سوچنے کی طاقت تو تجربے سے آتی ہے اور ابھی اُس کا تجربہ تھا ہی کتنا؟ اُسے شدید نیند آرہی تھی مگر بھوک، بدبو اور ٹھنڈ سب اسے موت کی طرف دھکیل رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں اسے اپنے بدن پر کیڑے رینگتے نظر آئے، اُس نے رونے کیلئے منہ کھولا مگر اُس میں اتنی طاقت ہی کہاں تھی کہ وہ رو سکے۔ ویسے بھی دکھ کی ایک منزل ایسی ہوتی ہے جہاں آنکھیں خُشک، چہرہ ویران اور سوچ ساکت ہوجاتی ہے، وہ بھی کسی ایسی ہی منزل سے گزر رہا تھا۔

کچھ ہی دیر میں اُس کے پاؤں، ننھے منے ہاتھ، ناف کی نالی، جو کہ ابھی تک نہ کاٹے جانے کے سبب باہر لٹک رہی تھی اور آنکھیں سب چیونٹیوں اور کیڑے مکوڑوں کی لپیٹ میں تھیں۔ زندہ درگور ہونا اُسے ایک دن کی ہی زندگی میں سمجھ آگیا تھا۔

اُس نے درد کی شدت سے آنکھیں بند کرلیں، اُسے آنکھ بند کرتے ہی اپنی پیاری سی ماں نظر آئی، پھر چُبھن، پھر درد، پھر خوف، اُسے تو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ موت کیا ہوتی ہے۔ ہاں، وہ یہ ضرور سوچ رہا تھا کہ جو بھی ہو، اُس زندگی سے تو بہتر ہی ہوگی۔

یوں پڑے پڑے کوئی 4 گھنٹے گزر گئے، دن چڑھ آیا تھا اور سانس رُک رہی تھی۔ دل کی دھڑکن نہ ہونے کے برابر ہوچکی تھی، موت مدھم مدھم شبنم کے قطروں کی طرح نازل ہورہی تھی۔ ننھے سے بچے نے ہمت کرکے آخری بار آنکھ کھولنی چاہی مگر وہ مکمل نہ کُھل سکی، ادھ کھلی آنکھ سے اُس نے ایک سایہ سا اپنی طرف بڑھتے دیکھا۔

اُس کی ماں اُسے چھوڑ آئی تھی مگر اُسے کوئی پچھتاوا، کوئی صدمہ، کوئی دکھ نہ تھا۔ دوستوں کے ساتھ گزاری چھٹیاں، تھوڑا سا نشہ، ایک ایڈونچر، 4 منٹ اور 32 سیکنڈز۔ اُس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اُس کی اِس غلطی کا یہ خوف ناک نتیجہ نکلے گا۔ اُسے تو اُس کے باپ کی شکل تک یاد نہ تھی۔ اُس کا معاشرے میں ایک مقام تھا، ایک بڑے پرائیویٹ اسکول میں ٹیچر تھی اور آگے مستقبل میں لندن میں پڑھنے اور شفٹ ہونے کے خواب دیکھ رہی تھی۔ اب اِس ''غلطی'' کو کون اٹھائے پھرتا؟

عبداللہ کی نظر بچے پر پڑی تو اُس کی روح تک کانپ گئی۔ اُس نے لرزتے ہاتھوں سے بچے کو اٹھایا اور قریبی سرکاری اسپتال لے گیا مگر انہوں نے پولیس کیس کا کہہ کر اُسے ایڈمٹ کرنے سے منع کردیا۔ اب عبداللہ جتنی دیر میں پولیس لاتا، بچہ تو مر ہی جاتا۔ ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا۔ اتنے بڑے شہر میں لاوارث کا کوئی نہیں۔ بڑی مشکل سے ایک نجی اسپتال نے بچے کو ایڈمٹ کیا۔ ڈاکٹرز نے 3 لاکھ کا خرچہ بتایا کہ بچے کی ایمبیکل کورڈ کاٹنی پڑے گی اور انفیکشن کی وجہ سے پوری ناف ہی نکالنی پڑے گی۔ ڈاکٹرز نے بہتیرا سمجھایا کہ کچھ دیر کی بات ہے، کسی کی ''غلطی'' پر کیوں اتنے پیسے برباد کرتے ہیں؟ مگر عبداللہ ایسے موقع کب ہاتھ سے جانے دیتا ہے۔


اگلے 3 ماہ میں بچہ صحت یاب ہوگیا۔ کورٹ سے زندگی بھر کی قانونی سرپرستی بھی مل گئی مگر جو کچھ اِن 90 دنوں میں گزری، اُس نے عبداللہ کی روح تک چھلنی کردی۔

ڈاکٹروں کی فیس، ایک ظالم منسٹر کی جانب سے بچہ اُٹھا کر لے جانے کی کوشش، رشہ داروں کے طعنے، ناجائز کے اعلانات، وکیل اور ججز کے سوالات، مچلکے اور ایک ختم نہ ہونے والی ڈاکیومنٹیشن (کاغذی کارروائی)۔ عبداللہ سوچنے لگا کہ وطنِ عزیز میں ملنے والے ایسے ہزاروں بچے کس امریکہ یا اسرائیل کی سازش ہیں؟ یہ تو اسی ملک کی پیداوار ہے ناں؟ جن لوگوں نے جعلی فیس بُک پیجز بنا کر بچے کے نام پر پیسے جمع کئے، وہ سارے پاکستانی ہی تھے ناں؟

کورٹ میں عبداللہ کی ملاقات 2 درجن سے اوپر بچوں سے ہوئی، جنہیں کچرا چنتے یا ایسے ہی کوئی کام کرتے چائلڈ پروٹیکشن والے اٹھا لائے تھے۔ اُن بچوں سے مکالمہ دُکھ کی ایسی داستان ہے جو لکھنے کیلئے پتھر کا کلیجہ چاہیئے۔ ایک 6 سالہ سلمان کا کہنا تھا،
''صاحب جی، یہ گورنمنٹ والے اب اغواء برائے تاوان کی طرح ہمارے ماں باپ سے کورٹ کی ضمانت کے نام پر پیسے لیں گے اور پھر ہمیں وہ پیسے کما کر اپنے والدین کو واپس دینے ہوں گے''۔

9 سالہ امجد کا کہنا تھا،
''ہمارے لوگ جان نکال کر زندہ رہنے کو چھوڑ دیتے ہیں۔''

11 سالہ انیسہ ہر وقت مسکراتی رہتی،
کہتی تھی کہ بابو لوگ کے بچے ہاتھوں میں بستہ اٹھاتے ہیں، اُن میں علم ہوتا ہے۔ ہم ہاتھوں میں بوری اٹھاتے ہیں، اُن میں کچرا اور کچرا ہماری جِندگی ہے۔ اُن کی اُترن ہمارا پہناوا، اُن کا جھوٹ ہمارا سچ، اُن کا صدقہ ہمارا ایمان، یہ سب یونہی چلتا ہے۔

عبداللہ کو ملنے والا بچہ خوش نصیب نظر آنے لگا کہ اُسے یہ دن تو نہ دیکھنے پڑے۔ آج وہ ننھے سے مُنے کو گود میں کھلاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ قیامت میں نامہ اعمال میں کون زیادہ بھاری ہوگا، یہ ''غلطی'' یا ہمارے ''کارنامے''۔

آپ بھی سوچئے!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں
Load Next Story