افواہیں دم توڑ گئیںسپیکر بلوچستان اسمبلی بلامقابلہ منتخب
موجودہ دور حکومت میں اگرچہ بعض اوقات ارکان کے درمیان اختلافات بھی پیدا ہوئے مگر اس کے باوجود آج تک ہم ساتھ ہیں۔
بلوچستان حکومت کیلئے 2012ء آئینی بحران کے حوالے سے کچھ زیادہ بہتر نہیں رہا لیکن سال کا آخری دن یعنی31 دسمبر صوبائی حکومت کو اچھی یادیں دے گیا۔
کیونکہ اس روز برطرف اسپیکر بلوچستان اسمبلی محمد اسلم بھوتانی کی جگہ متفقہ طور پر جمعیت علماء اسلام (ف) کے ڈپٹی اسپیکر سید مطیع اﷲ آغا کو اسپیکر بلوچستان اسمبلی اور بی این پی (عوامی) سے تعلق رکھنے والی وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم خان رئیسانی کی مشیر ڈاکٹر فوزیہ نذیر مری کو بلا مقابلہ ڈپٹی اسپیکر منتخب کرلیا گیا اور مسلم لیگ (ق) کے حوالے سے اسپیکر شپ کیلئے اپنا اُمیدوار لانے کی جو باتیں سامنے آرہی تھیں وہ بھی ختم ہوگئیں۔ بلاشبہ یہ وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی پر مخلوط حکومت میں شامل اراکین اسمبلی کے بھرپور اعتماد کا مظہر ہے۔
31 دسمبر کو ہی عدالت عالیہ بلوچستان نے سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی محمد اسلم بھوتانی کی جانب سے ان کے وکیل باز محمد کاکڑ کی درخواست مسترد کردی گئی جس میں حکومت کی جانب سے اسپیکر کی برطرفی اور ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو چیلنج کیا گیا تھا، یہ فیصلہ بھی وزیراعلیٰ بلوچستان اور ان کی پوری ٹیم کیلئے خوشی کا باعث بن گیا۔ بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ممبر آف پینل چیئرمین آف دی ہائوس ڈاکٹر فوزیہ نذیر مری کی زیر صدارت شروع ہوا تو مقررہ وقت تک سپیکر کے عہدے کے لئے صرف جمعیت علماء اسلام ( ف) کے مطیع اللہ آغا نے ہی کاغذات جمع کئے ،سپیکر منتخب ہونے کے بعد مطیع اللہ آغا سے ممبر آف پینل چیئرمین آف دی ہائوس ڈاکٹر فوزیہ نذیر مری نے حلف لیا بعد ازاں مطیع اللہ آغا نے اجلاس کی صدارت کی اور تمام ارکان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آج سے ان کا تعلق صرف جمعیت علماء اسلام (ف) سے نہیں بلکہ اس پورے ایوان سے ہے ۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے نومنتخب سپیکر سید مطیع اللہ آغا کو مبارکباد دی اور کہا کہ تمام ارکان بھر پور تعاون پر مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ میری خواہش ہے کہ آنے والے انتخابات میں تمام ارکان دوبارہ منتخب ہو کر آئیں اور مخلوط حکومت بنے، چاہے میں جیتوں یا نہ جیتوں ۔ انہوںنے کہا کہ موجودہ دور حکومت میں اگرچہ بعض اوقات ارکان کے درمیان اختلافات بھی پیدا ہوئے مگر اس کے باوجود آج تک ہم ساتھ ہیںجو جمہوریت اور پارلیمانی نظام کے لئے خوش آئند ہے، جمہوری اداروں کو بلوچستان اسمبلی سے سیکھنا چاہیے یہاں مختلف نظریات اور خیالات کے لوگوں کے باوجود بدمزگی پید انہیں ہوئی۔
بعد ازاں سپیکر بلوچستان اسمبلی سید مطیع اللہ آغا نے ایک گھنٹے وقفہ کا اعلان کرتے ہوئے رولنگ دی کہ اس دوران خواہش مند ارکان ڈپٹی سپیکر کے عہدے کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرائیں، وقفے کے بعد جب اجلاس کا آغاز ہوا تو سپیکر نے کہا کہ ہمیشہ کی طرح ایک مرتبہ پھر ارکان نے اپنی روایت برقرار رکھی جس کا ثبوت صرف ایک ڈاکٹر فوزیہ نذیر مری کی جانب سے کاغذات نامزدگی کا جمع کرانا ہے، اس موقع پر انہوں نے ڈاکٹر فوزیہ مری کو بلامقابلہ ڈپٹی سپیکر منتخب ہونے کا اعلان کیا اور ان سے حلف لیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے انہیں مبارکباد دی اور کہا کہ گزشتہ دنوں مسلم لیگ (ق) کے اقلیتی رہنماء بسنت لعل گلشن نے ڈپٹی سپیکر کے عہدے کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
تاہم میری درخواست پر مسلم لیگ (ق) کے دوستوں نے ایسا نہیں کیا، اس موقع پر سینئر صوبائی وزیر مولانا عبدالواسع ، حاجی علی مدد جتک ، انجینئر زمرک خان سمیت دیگر ارکان نے ڈپٹی سپیکر کو مبارکباد دی اور کہا کہ ان کا انتخاب اور اتفاق رائے سے عدم اعتماد کی تحریک کے بعد سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب مشکل ہونے کے باوجود خوش آئندہ ہے، یہ وزیراعلیٰ کی قیادت میں مخلوط حکومت کی ایک اور کامیابی ہے، جو تاثر یہاں کے آئینی بحران کے حوالے سے باہر پایا جاتا تھا وہ یقینا ختم ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ ارکان اسمبلی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جسے چاہے سپیکر منتخب کرے۔
دوسری طرف بلوچستان ہائیکورٹ نے سابق اسپیکراسلم بھوتانی کی برطرفی اور تحریک عدم اعتماد کے خلاف دائر آ ئینی درخواست خارج کردی ۔ یہ آ ئینی درخواست سابق اسپیکر اسلم بھوتانی کی جانب سے ان کے وکیل بازمحمدکاکڑ نے دائر کی تھی جس کی سماعت بلوچستان ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد نور مسکانزئی نے کی ۔گزشتہ سماعت پر ہائی کورٹ نے محمد اسلم بھوتانی کی آ ئینی درخواست منظور کرتے ہوئے فریقین کو پیر31دسمبر کے لئے نوٹسز جاری کئے تھے ۔
سماعت کے دوران موجودہ سپیکر بلوچستان اسمبلی مطیع اللہ آ غا کی جانب سے سابق گورنرپنجاب سردار لطیف کھوسہ جبکہ محمد اسلم بھوتانی کی جانب سے باز محمدکاکڑ ایڈوکیٹ عدالت میں پیش ہوئے ۔ سماعت کے دوران ایک موقع پر سر دار لطیف کھوسہ نے جسٹس جمال خان مندوخیل کی بینچ میں موجودگی پر اعتراض کیا اور ان سے مخاطب ہو کر کہاکہ چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ بیرون ملک دورے پر ہیں اور آپ نے قائم مقام چیف جسٹس کے عہدے کا حلف نہیں اُٹھایا اس لئے کیس کی سماعت نہیں کر سکتے ہیں۔
جس پر جسٹس جمال مندوخیل اور محمد اسلم بھوتانی کے وکلاء نے مختلف دلائل دئیے، بینچ کی جانب سے سردار لطیف کھو سہ کو جسٹس جمال خان مندوخیل کے بطور قائم مقام چیف جسٹس کا نو ٹیفکیشن دکھا یا تا ہم سردار لطیف کھوسہ نے عدالت کے سامنے آ ئینی نقطہ اٹھا تے ہو ئے دلائل جاری رکھے کہ نو ٹیفکیشن کے با وجو د قائم مقام چیف جسٹس کو بھی اپنے عہدے کا حلف اٹھا نا پڑ تا ہے جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جسٹس محمد نور مسکانزئی موجود ہے وہ ابھی مجھ سے حلف لے لیں گے ۔
جس کے بعد سر دار لطیف کھوسہ نے اپنے موقف پر زور نہیں دیا ۔ سماعت کے دوران اسلم بھوتانی کے وکلا نے عدالت سے استدعا کی کہ سابق اسپیکر اسلم بھوتانی کے خلاف تحر یک عدم اعتماد پاس کرانے کے لئے آئینی اور قانونی تقاضے پورے نہیں کئے گئے ، انہوں نے بتایا کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کیلئے ایک ہفتہ پہلے تمام ارکان اسمبلی کو تحر یر ی اطلاع دی جاتی ہے مگر اس طریقہ کا ر کی بھی خلاف ورزی کی گئی، اس کے علاہ بلوچستان اسمبلی کے اپنے بنا ئے گئے رولز کی خلاف ورزی کی گئی ، اس موقع پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ایڈوکیٹ جنرل امان اللہ کنرانی سے استفسار کیا کہ کیوں نا ں۔
اسپیکر کے انتخاب کو عدالت میں کیس پر فیصلہ ہو نے تک روکا جائے جس پر ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ اسپیکر کے انتخاب کو روکنا جمہوری عمل میں مداخلت تصور ہو گا، سردار لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ اسپیکر کی بر طر فی کے حوالے سے اسمبلی کے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی نہیں کی گئی ، اگر کہیں آئین کی خلاف ورزی کی گئی ہوتو پھر عدالت اسپیکر کے انتخاب کو روکنے کے لئے مداخلت کرسکتی ہے جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس کیس میں جب اسمبلی کے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی نہیں ہو ئی تو آئین کی خلاف ورزی کا کو ئی سوال پیدا نہیں ہوتا ، اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے ایڈوکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہو ئے کہا کہ عدالت کی طر ف سے کو ئی بھی فیصلہ آنے سے قبل اسپیکر کا انتخاب نہیں کر نا چاہیے تھا۔
، اسپیکر کا انتخاب کرکے صوبائی حکومت کی اس کیس میں بددیانتی واضح ہو گئی ہے عدالت کے احترام کا تقاضہ تھا کہ حکومت عدالت کافیصلہ آنے تک انتظار کر تی تاہم انہوں نے کہا کہ عدالت جمہہوری اداروں کے خلاف نہیں جائے گی اور جمہوریت و آ ئین کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں دیا جائے گا، ایڈو کیٹ جنر ل امان اللہ کنرانی اور سردار لطیف کھو سہ نے عدالت کو بتا یا کہ اس میں حکومت کی کوئی بدیانتی شا مل نہیں اور ہم عدا لتوں کا احترام کرتے ہیں سردار لطیف کھو سہ نے دلائل دیئے کہ محمد اسلم بھوتانی کی جانب سے دائر درخواست آئین اور بلوچستان اسمبلی کے قواعد وضوابط کے تحت کسی طور بھی قابل سماعت نہیں لہذا اسے خارج کیا جائے، انہوں نے عدالت کو بتا یا کہ تحریک عدم اعتماد کیلئے قرارد اد پیش کر نے کے بعد ایک ہفتہ کا نوٹس بھی دیا گیا جو قا نو نی تقا ضا ہے ۔
محمد اسلم بھوتانی کے وکلاء نے عدالت کو بتا یا کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دوران خفیہ رائے دہی کی بھی خلاف ورزی کی گئی اور متعد وزراء نے ووٹ کی پرچیاں ظا ہر کرکے بیلٹ بکس میں ڈالیں ۔ وکلاء کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا اور مختصر وقفے کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہو ئی، دو رکنی بنچ نے مختصر فیصلہ سناتے ہو ئے محمد اسلم بھوتا نی کی جانب سے دائر آ ئینی درخواست خارج کر دی، عدالت نے کہاکہ درخواست پر تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
کیونکہ اس روز برطرف اسپیکر بلوچستان اسمبلی محمد اسلم بھوتانی کی جگہ متفقہ طور پر جمعیت علماء اسلام (ف) کے ڈپٹی اسپیکر سید مطیع اﷲ آغا کو اسپیکر بلوچستان اسمبلی اور بی این پی (عوامی) سے تعلق رکھنے والی وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم خان رئیسانی کی مشیر ڈاکٹر فوزیہ نذیر مری کو بلا مقابلہ ڈپٹی اسپیکر منتخب کرلیا گیا اور مسلم لیگ (ق) کے حوالے سے اسپیکر شپ کیلئے اپنا اُمیدوار لانے کی جو باتیں سامنے آرہی تھیں وہ بھی ختم ہوگئیں۔ بلاشبہ یہ وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی پر مخلوط حکومت میں شامل اراکین اسمبلی کے بھرپور اعتماد کا مظہر ہے۔
31 دسمبر کو ہی عدالت عالیہ بلوچستان نے سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی محمد اسلم بھوتانی کی جانب سے ان کے وکیل باز محمد کاکڑ کی درخواست مسترد کردی گئی جس میں حکومت کی جانب سے اسپیکر کی برطرفی اور ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو چیلنج کیا گیا تھا، یہ فیصلہ بھی وزیراعلیٰ بلوچستان اور ان کی پوری ٹیم کیلئے خوشی کا باعث بن گیا۔ بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ممبر آف پینل چیئرمین آف دی ہائوس ڈاکٹر فوزیہ نذیر مری کی زیر صدارت شروع ہوا تو مقررہ وقت تک سپیکر کے عہدے کے لئے صرف جمعیت علماء اسلام ( ف) کے مطیع اللہ آغا نے ہی کاغذات جمع کئے ،سپیکر منتخب ہونے کے بعد مطیع اللہ آغا سے ممبر آف پینل چیئرمین آف دی ہائوس ڈاکٹر فوزیہ نذیر مری نے حلف لیا بعد ازاں مطیع اللہ آغا نے اجلاس کی صدارت کی اور تمام ارکان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آج سے ان کا تعلق صرف جمعیت علماء اسلام (ف) سے نہیں بلکہ اس پورے ایوان سے ہے ۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے نومنتخب سپیکر سید مطیع اللہ آغا کو مبارکباد دی اور کہا کہ تمام ارکان بھر پور تعاون پر مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ میری خواہش ہے کہ آنے والے انتخابات میں تمام ارکان دوبارہ منتخب ہو کر آئیں اور مخلوط حکومت بنے، چاہے میں جیتوں یا نہ جیتوں ۔ انہوںنے کہا کہ موجودہ دور حکومت میں اگرچہ بعض اوقات ارکان کے درمیان اختلافات بھی پیدا ہوئے مگر اس کے باوجود آج تک ہم ساتھ ہیںجو جمہوریت اور پارلیمانی نظام کے لئے خوش آئند ہے، جمہوری اداروں کو بلوچستان اسمبلی سے سیکھنا چاہیے یہاں مختلف نظریات اور خیالات کے لوگوں کے باوجود بدمزگی پید انہیں ہوئی۔
بعد ازاں سپیکر بلوچستان اسمبلی سید مطیع اللہ آغا نے ایک گھنٹے وقفہ کا اعلان کرتے ہوئے رولنگ دی کہ اس دوران خواہش مند ارکان ڈپٹی سپیکر کے عہدے کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرائیں، وقفے کے بعد جب اجلاس کا آغاز ہوا تو سپیکر نے کہا کہ ہمیشہ کی طرح ایک مرتبہ پھر ارکان نے اپنی روایت برقرار رکھی جس کا ثبوت صرف ایک ڈاکٹر فوزیہ نذیر مری کی جانب سے کاغذات نامزدگی کا جمع کرانا ہے، اس موقع پر انہوں نے ڈاکٹر فوزیہ مری کو بلامقابلہ ڈپٹی سپیکر منتخب ہونے کا اعلان کیا اور ان سے حلف لیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے انہیں مبارکباد دی اور کہا کہ گزشتہ دنوں مسلم لیگ (ق) کے اقلیتی رہنماء بسنت لعل گلشن نے ڈپٹی سپیکر کے عہدے کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
تاہم میری درخواست پر مسلم لیگ (ق) کے دوستوں نے ایسا نہیں کیا، اس موقع پر سینئر صوبائی وزیر مولانا عبدالواسع ، حاجی علی مدد جتک ، انجینئر زمرک خان سمیت دیگر ارکان نے ڈپٹی سپیکر کو مبارکباد دی اور کہا کہ ان کا انتخاب اور اتفاق رائے سے عدم اعتماد کی تحریک کے بعد سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب مشکل ہونے کے باوجود خوش آئندہ ہے، یہ وزیراعلیٰ کی قیادت میں مخلوط حکومت کی ایک اور کامیابی ہے، جو تاثر یہاں کے آئینی بحران کے حوالے سے باہر پایا جاتا تھا وہ یقینا ختم ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ ارکان اسمبلی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جسے چاہے سپیکر منتخب کرے۔
دوسری طرف بلوچستان ہائیکورٹ نے سابق اسپیکراسلم بھوتانی کی برطرفی اور تحریک عدم اعتماد کے خلاف دائر آ ئینی درخواست خارج کردی ۔ یہ آ ئینی درخواست سابق اسپیکر اسلم بھوتانی کی جانب سے ان کے وکیل بازمحمدکاکڑ نے دائر کی تھی جس کی سماعت بلوچستان ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد نور مسکانزئی نے کی ۔گزشتہ سماعت پر ہائی کورٹ نے محمد اسلم بھوتانی کی آ ئینی درخواست منظور کرتے ہوئے فریقین کو پیر31دسمبر کے لئے نوٹسز جاری کئے تھے ۔
سماعت کے دوران موجودہ سپیکر بلوچستان اسمبلی مطیع اللہ آ غا کی جانب سے سابق گورنرپنجاب سردار لطیف کھوسہ جبکہ محمد اسلم بھوتانی کی جانب سے باز محمدکاکڑ ایڈوکیٹ عدالت میں پیش ہوئے ۔ سماعت کے دوران ایک موقع پر سر دار لطیف کھوسہ نے جسٹس جمال خان مندوخیل کی بینچ میں موجودگی پر اعتراض کیا اور ان سے مخاطب ہو کر کہاکہ چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ بیرون ملک دورے پر ہیں اور آپ نے قائم مقام چیف جسٹس کے عہدے کا حلف نہیں اُٹھایا اس لئے کیس کی سماعت نہیں کر سکتے ہیں۔
جس پر جسٹس جمال مندوخیل اور محمد اسلم بھوتانی کے وکلاء نے مختلف دلائل دئیے، بینچ کی جانب سے سردار لطیف کھو سہ کو جسٹس جمال خان مندوخیل کے بطور قائم مقام چیف جسٹس کا نو ٹیفکیشن دکھا یا تا ہم سردار لطیف کھوسہ نے عدالت کے سامنے آ ئینی نقطہ اٹھا تے ہو ئے دلائل جاری رکھے کہ نو ٹیفکیشن کے با وجو د قائم مقام چیف جسٹس کو بھی اپنے عہدے کا حلف اٹھا نا پڑ تا ہے جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جسٹس محمد نور مسکانزئی موجود ہے وہ ابھی مجھ سے حلف لے لیں گے ۔
جس کے بعد سر دار لطیف کھوسہ نے اپنے موقف پر زور نہیں دیا ۔ سماعت کے دوران اسلم بھوتانی کے وکلا نے عدالت سے استدعا کی کہ سابق اسپیکر اسلم بھوتانی کے خلاف تحر یک عدم اعتماد پاس کرانے کے لئے آئینی اور قانونی تقاضے پورے نہیں کئے گئے ، انہوں نے بتایا کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کیلئے ایک ہفتہ پہلے تمام ارکان اسمبلی کو تحر یر ی اطلاع دی جاتی ہے مگر اس طریقہ کا ر کی بھی خلاف ورزی کی گئی، اس کے علاہ بلوچستان اسمبلی کے اپنے بنا ئے گئے رولز کی خلاف ورزی کی گئی ، اس موقع پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ایڈوکیٹ جنرل امان اللہ کنرانی سے استفسار کیا کہ کیوں نا ں۔
اسپیکر کے انتخاب کو عدالت میں کیس پر فیصلہ ہو نے تک روکا جائے جس پر ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ اسپیکر کے انتخاب کو روکنا جمہوری عمل میں مداخلت تصور ہو گا، سردار لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ اسپیکر کی بر طر فی کے حوالے سے اسمبلی کے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی نہیں کی گئی ، اگر کہیں آئین کی خلاف ورزی کی گئی ہوتو پھر عدالت اسپیکر کے انتخاب کو روکنے کے لئے مداخلت کرسکتی ہے جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس کیس میں جب اسمبلی کے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی نہیں ہو ئی تو آئین کی خلاف ورزی کا کو ئی سوال پیدا نہیں ہوتا ، اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے ایڈوکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہو ئے کہا کہ عدالت کی طر ف سے کو ئی بھی فیصلہ آنے سے قبل اسپیکر کا انتخاب نہیں کر نا چاہیے تھا۔
، اسپیکر کا انتخاب کرکے صوبائی حکومت کی اس کیس میں بددیانتی واضح ہو گئی ہے عدالت کے احترام کا تقاضہ تھا کہ حکومت عدالت کافیصلہ آنے تک انتظار کر تی تاہم انہوں نے کہا کہ عدالت جمہہوری اداروں کے خلاف نہیں جائے گی اور جمہوریت و آ ئین کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں دیا جائے گا، ایڈو کیٹ جنر ل امان اللہ کنرانی اور سردار لطیف کھو سہ نے عدالت کو بتا یا کہ اس میں حکومت کی کوئی بدیانتی شا مل نہیں اور ہم عدا لتوں کا احترام کرتے ہیں سردار لطیف کھو سہ نے دلائل دیئے کہ محمد اسلم بھوتانی کی جانب سے دائر درخواست آئین اور بلوچستان اسمبلی کے قواعد وضوابط کے تحت کسی طور بھی قابل سماعت نہیں لہذا اسے خارج کیا جائے، انہوں نے عدالت کو بتا یا کہ تحریک عدم اعتماد کیلئے قرارد اد پیش کر نے کے بعد ایک ہفتہ کا نوٹس بھی دیا گیا جو قا نو نی تقا ضا ہے ۔
محمد اسلم بھوتانی کے وکلاء نے عدالت کو بتا یا کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دوران خفیہ رائے دہی کی بھی خلاف ورزی کی گئی اور متعد وزراء نے ووٹ کی پرچیاں ظا ہر کرکے بیلٹ بکس میں ڈالیں ۔ وکلاء کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا اور مختصر وقفے کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہو ئی، دو رکنی بنچ نے مختصر فیصلہ سناتے ہو ئے محمد اسلم بھوتا نی کی جانب سے دائر آ ئینی درخواست خارج کر دی، عدالت نے کہاکہ درخواست پر تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔