جمہوریت کو لاحق خطرات

انتہا پسندوں کے حملوں میں تسلسل ختم ہوگا تب ملک میں امن اور ترقی کے بارے میں سوچ جا سکتا ہے۔

کراچی گزشتہ 10برسوں سے دہشت گردی کے عذاب سہہ رہا ہے۔ فوٹو: رائٹرز/ فائل

جمہوریت سے متعلق مشہور مقولہ ہے کہ تمام انقلابی سماجی تبدیلیوں کا حتمی مقصد انسانی زندگی کی توقیر ہے،تاکہ شہریوں کو اپنی عزت نفس کے تحفظ کا احساس ہو ، وہ آزادی کی نعمت سے فیضیاب ہوں اور ان کا اور ان کی نسلوں کا مستقبل خوشحالی سے جڑا ہوا ہو۔لیکن دہشت گردی کے شعلوں میں گھرے ہوئے ملک کے متعدد شہروں میں زندگی کو لاحق خطرات نے جمہوریت کو انتقام سے زیادہ سوالیہ نشان بنا دیا ہے ۔ اس ہولناک منظرنامے کے سب سے اندوہ ناک نمونے بلوچستان،کراچی اور فاٹا کے قبائلی علاقوں میں دیکھے جاسکتے ہیں جہاں انسان گاجر مولی کی طرح کاٹے جا رہے ہیں ، انھیں اغوا کے بعد تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کیا جارہا ہے۔

سوات کے بعد اب جنوبی وزیرستان میں بھی امن کی فوری ضرورت ہے۔ پیر کے روز کراچی کے مختلف علاقوں میں فائرنگ کے واقعات میں سیاسی جماعتوں کے3 کارکنوں سمیت11 افراد جاں بحق اور پیش امام سمیت 5 افراد زخمی ہوگئے۔ کراچی گزشتہ 10برسوں سے دہشت گردی کے عذاب سہہ رہا ہے ۔ ملک کا سب سے بڑا تجارتی شہر قاتلوں کی آماجگاہ بن چکا ہے جہاں اسٹیک ہولڈرز نے نہ معلوم کیوں بیگناہ لوگوں کی درد انگیز ہلاکتوں سے عدم دلچسپی کا رویہ اختیار کرلیا ہے،کیونکہ ہر روز لاشیں گرائی جارہی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ۔دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈائون پر کوئی متفقہ حکمت عملی بھی نظر نہیں آتی، کراچی سمیت سندھ بھر میں 72 گھنٹے کے لیے سی این جی اسٹیشنز بند رکھے گئے ہیں، لیاری میں قانون شکن عناصر کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔

ادھر خیبرایجنسی کے دورافتادہ علاقہ تیراہ میں جیٹ طیاروںکی بمباری سے 18افراد جاںبحق اور 4 زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ دہشت گردوں کا دوسرا میدان جنگ فاٹا کا علاقہ ہے جہاں تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈوز اور کارندے ریاست سے ٹکرانے کے اپنے ایجنڈے پر بدستور قائم ہیں ۔ شمالی وزیرستان میں ایک پہاڑی نالے سے9 شدت پسندوں کی لاشیں ملی ہیں ۔ بعض اطلاعات کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 20 ہے تاہم اس کی تصدیق نہ ہوسکی۔ بی بی سی کے مطابق مقامی حکام نے بتایا کہ مرنیوالے افراد کا تعلق کالعدم تحریک طالبان سے ہے، تمام افراد کو پیر کو گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا ۔ یہ پہلا موقع ہے کہ شمالی وزیرستان سے شدت پسندوں کی لاشیں ملی ہیں۔


کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے بتایا کہ تمام لاشیں طالبان کی ہیں اور یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ انھیں سیکیورٹی فورسز نے مارا ہے ، مرنیوالے افراد محسود قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ طالبان کی قیادت نے مذاکرات کی عجیب خواہش بھی ظاہر کی جب کہ حکومت نے سابق وزیر ملا نورالدین سمیت مزید4طالبان رہا کردیے۔حکومت کو طالبان سے مذاکرات نہ کرنے کا عندیہ اسٹیبلشمنٹ سے پیشگی مل چکا ہے، دفاعی مبصرین بھی اس ضمن میں احتیاط اور تدبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔

دوسری طرف انتہا پسند ہولناک دہشت گردی میں ملوث ہے ۔ صوبہ بلوچستان میں صورتحال خراب تر ہے، ضلع آواران کے علاقے مشکے میں آپریشن تیز کردیا گیا ہے ، ہلاکتوں کی اطلاعات آرہی ہیں ۔ پیر کو پسنی میں ماہی گیر کشتیوں سے مچھلی اتار رہے تھے کہ نامعلوم افراد نے ان پر فائرنگ کر دی ، ڈیرہ بگٹی کے علاقے پھیلاوغ میں امن فورس اورمسلح افراد کے درمیان فائرنگ تبادلے میںکمانڈر محمودشالی جاں بحق ہوگیا، سپیزنڈ میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے نیٹو کنٹینر ڈرائیور زخمی ہوگیا، مستونگ میں میونسپل کارپوریشن کے احاطے میں نصب کیاگیا ایک کلو وزنی بم،بم ڈسپوزل اسکواڈ نے ناکارہ بنا دیا ۔

ہر طرف موت رقصاں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت اور فورسز کو دہشت گردی کے خلاف اعلان جنگ میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔انتہا پسندوں کے حملوں میں تسلسل ختم ہوگا تب ملک میں امن اور ترقی کے بارے میں سوچ جا سکتا ہے، جب کہ ضرورت اب ایک فیصلہ کن ملک گیر کریک ڈائون کی ہے۔ عوام کو دہشت گردی سے ہر قیمت پر نجات ملنی چاہیے۔
Load Next Story