پاکستان کے موسموں کے رنگ

قدرتی موسم اب بھی پہلے کی طرح مہربان ہیں مگر ان موسموں میں سانس لینے والے بہت بدل گئے ہیں۔

Abdulqhasan@hotmail.com

میرے مہربان ڈاکٹر جنہوں نے اب سے کوئی دو سردیاں پہلے میرے نمونیے کا کامیاب علاج کیا تھا، مجھے سختی سے ہدایت کر دی کہ میں آیندہ سردی سے بچ کر رہوں خصوصاً سینے کو سردی سے مکمل طور پر بچا کر رکھوں کیونکہ میرا سینہ کمزور ہے اور سردی کو برداشت نہیں کر سکتا تب سے جب بھی سردیاں آتی ہیں، ان سے چھپ جاتا ہوں، ان کا سامنا نہیں کرتا۔

اس سال تو سردیاں گج وج کر آئیں، لاہور کا درجہ حرارت نقطۂ انجماد تک گر گیا لیکن مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے لاہور میں حرارت سرے سے ہے ہی نہیں، اس پر نہ گیس ہے کہ ہیٹر جلتا ہے اور نہ باقاعدگی سے بجلی آتی ہے کہ برقی ہیٹر کو زندہ رکھا جا سکے، بس میں ہوں اور سردی ہے، قسم قسم کے کپڑے ہیں جو سردی اور میرے جسم کے درمیان حائل ہیں لیکن ایک الجھن یہ ہے کہ میں نہ شادی کا نہ غمی کا، آخر گھر میں بند ہو کر میں کب تک اخباریں پڑھوں، بجلی ہو تو وقت ضایع کرنے کے لیے ٹی وی بھی دیکھوں۔

معلوم یہ ہوا کہ کپڑے بھی سردی کا باقاعدہ مقابلہ نہیں کر سکتے، ایسی صورت حال کا پتہ ہوتا تو کسی وزیراعظم سے بھی ہزاروں گنا بڑے اور برتر اور کینیڈین بھی شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ کی خدمت میں عرض کرتا کہ وہ اپنے انتہائی سرد ملک کینیڈا سے سردیوں کے فاضل کپڑے لیتے آئیں جو یہاں نہیں ملتے۔ میں اگر بر وقت عرض کر دیتا تو سردیوں کے مد مقابل کپڑے آ جاتے اور میں نہ صرف یہ کہ گھر میں آرام سے بیٹھتا بلکہ باہر بھی نکل کر احباب کے ساتھ محفل جمتی اور ان پر اپنے مستقبل کے حکمران کی اس کپڑوں والی مہربانی کا رعب بھی ڈال سکتا کہ دیکھیے وہ اپنی رعایا کا کس قدر خیال رکھتے ہیں، اب ان کے کسی بھی سرد لانگ مارچ میں شرکت کے قابل ہو گیا ہوں اور آپ مجھے نعرہ زن کسی بھی مارچ میں دیکھ سکتے ہیں۔

یہ سب کچھ اپنی جگہ لیکن سردی کا نقطۂ انجماد اپنی جگہ جس کا مقابلہ میں اپنی اس موجودہ بے سر و سامانی میں نہیں کر پا رہا اگر سردیاں بخیر و عافیت نکال گیا تو موسم خزاں میں آپ سے ملاقات ہو گی۔ مجھے خزاں کا موسم بہت پسند ہے اور راستوں پر گرے ہوئے درختوں کے خشک زرد پتے جب پائوں کے نیچے چرچراتے ہیں تو جہاں اس ظلم اور تشدد پر میری حیوانیت کو لطف آتا ہے کہ میں کسی بے بس کو مسل رہا ہوں اور وہ چیخ و پکار کر رہا ہے، سچ ہے کہ ہر انسان میں ایک جذبہ کسی پر غلبے کا بھی ہوتا ہے اور موسم خزاں میں درختوں سے گرے ہوئے پتے بے کسی اور مظلومیت کی تصویر ہوتے ہیں۔ معلوم نہیں کیوں یاد آیا ہے کہ کتنا متعلق ہے لیکن دوست شاعر احمد مشتاق کا ایک شعر یاد آیا ہے جو اس مہاجر شاعر نے مہاجرین کے بارے میں کہا تھا،

فٹ پاتھ کی دیوار سے چمٹے ہوئے پتے
اک روز ہوائوں کو سرِ شاخ ملے تھے


جناب احسان دانش نے لمبی چوڑی تحسین کے بعد مجھے یہ شعر سنایا تھا کہ ہجرت پر اس سے بڑا شعر کسی نے نہیں کہا تو بات فٹ پاتھ پر گرے ہوئے پتوں کی ہو رہی تھی جو پہلے تو شاخوں پر ہی خشک ہو گئے اور پھر ہوائوں نے ان کو زمین پر گرا دیا۔ انسانوں پر ایسی کیفیات بھی طاری ہوتی ہیں کہ وہ عرش سے فرش پر گر جاتے ہیں سوائے ان قلندروں کے جو بیٹھتے ہی فرش پر ہیں اور جب کسی نے پوچھا تو فرش نشین حضرت علیؓ نے جواب میں فرمایا کہ اس طرح کوئی فرش نشین انسان گرتا نہیں ہے۔

موسم خزاں کے ذکر سے درختوں کے زرد خشک پتوں کا حوالہ آ گیا۔ ہمارا باقی ماندہ ملک چاروں موسموں کا ملک ہے۔ گرمی سردی بہار اور خزاں اور یہ چاروں موسم اس پر بھرپور گزرتے ہیں۔ ساحل سمندر سے لے کر دنیا کی بلند ترین پہاڑی چوٹیوں تک،ہماری کے ٹو سب سے اونچی ہو گئی ہے' پھیلا ہوا قدرت کا بنایا ہوا یہ جنت نشان ملک موسموں کی ہر نعمت سے سرشار رہتا ہے۔ ایک بار سعودی صحافیوں کا ایک وفد پاکستان کی دعوت پر یہاں آیا تو ان کے میزبان نے ان کی خوشنودی کے لیے ان کی کوئی خواہش پوچھی تو انھوں نے کہا کہ سردی اور بارش چنانچہ انھیں اسلام آباد سے مری لے جایا گیا جہاں اتفاق سے بارش ہو گئی، سردی تو پہلے سے تھی۔

اس سے یہ مہمان اتنے خوش ہوئے کہ ان کے اصرار پر انھیں رات کو بھی مری ہی میں ٹھہرانا پڑا تو عرض کر رہا تھا، اپنے ہاں کے چاروں بھرپور موسموں کی گرمیاں جسم پگھلا دیتی ہیں تو سردیاں منجمد کر دیتی ہیں۔ بہار کے موسم میں یہ ملک ایک گلدستہ بن جاتا ہے۔ ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد پاکستان تشریف لائے تو لاہور کے گورنر ہائوس میں ان سے بات ہو گئی۔ عرض کیا کہ آپ کو پاکستان کی کیا چیز پسند ہے۔ فرمایا گلاب کا پھول۔

بے پناہ سرسبز ملائیشیا کے وزیراعظم سے ان کی یہ پسند سن کر تعجب ہوا تو اس کے اظہار پر انھوں نے بتایا کہ میں نے پاکستان سے گلاب کے پودے منگوائے لیکن وہ ملائیشیا میں کامیاب نہ ہو سکے اور پاکستان کے گلاب یاد آتے رہے۔ میں پاکستانی ہوں تو اپنے ملک کی کس حد تک مدح کروں۔ خزاں کے موسم میں کیا اداسی اور حیرت ہوتی ہے۔ میں مال روڈ پر واقع اخبار کے دفتر میں کام کرتا تھا جب بھی فرصت ملتی اور خزاں کا موسم ہوتا تو میں جناح گارڈن کے قریب مال روڈ پر نکل جاتا جہاں کے فٹ پاتھ پر سوکھے درختوں کے زرد خشک پتے بکھرے ہوئے پڑے ہوتے اور میں جب تک تھک نہ جاتا مسلسل چلتا رہتا۔ مجھے ان پتوں کی آواز میں کسی دھیمی سی موسیقی کی کوئی دھن بھی محسوس ہوتی علاوہ ان کے مسلے جانے کی فریاد کے۔

میرے وطن کا ہر موسم اپنا جداگانہ رنگ رکھتا ہے جو اس ملک کے ہر خطے میں کسی جدا رنگ سے جلوہ گر ہوتا ہے۔ بلوچستان، سندھ ،پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ہر موسم آتا ہے مگر اپنے اپنے رنگ میں۔ ان دنوں لاہور کی سخت سردیوں میں مجھے موسم کا ایک رنگ دیکھنے کو ملا اور پھر دوسرے موسم بھی یاد آ گئے جو اپنی اپنی چھب دکھاتے رہتے ہیں مگر افسوس کہ یہاں کے جذباتی لوگوں اور ان کے ہوشیار لیڈروں نے اس جنت نظیر ملک کو بہت بدل دیا ہے۔

قدرتی موسم اب بھی پہلے کی طرح مہربان ہیں مگر ان موسموں میں سانس لینے والے بہت بدل گئے ہیں جیسے حالات کے موسم نے قدرتی موسموں کو شرمندہ کر دیا ہو، ہم پاکستانی اور ان کے رہنما کب اپنے موسموں کی قدر کریں گے۔ کب اس جنت نظیر میں نئے رنگ بھریں گے۔
Load Next Story