وقت سیاسی نمبر بنانے کا نہیں

ملک میں اس وقت سب اچھا نہیں ہے۔ بڑھتی ہوئی دہشت گردی نے ملک الموت کی ذمے داریاں بانٹ لی ہیں

KARACHI:
بشیر بلور کی شہادت سے ملک ایک ایسے رہنما سے محروم ہو گیا ہے جو دہشت گردی کی سرکوبی کے لیے سرگرمی سے کام کر رہا تھا۔ بشیر بلور کا قتل مسائل میں گھری ہوئی پاکستانی قوم کا نقصان تو ہے ہی ساتھ ہی کئی اور پہلو بھی رکھتا ہے، ایک تو یہ کہ سیکیورٹی انتظامات پر عوام کے اعتماد میں کمی، عدم تحفظ کا احساس بڑھانے کا سبب بنی ہے تو دوسری طرف یہ تاثر مزید پختہ ہوا ہے کہ دہشت گرد جہاں چاہیں کارروائی کر سکتے ہیں۔

صدر اور وزیر اعظم سمیت حکومتی حلقوں، سیاسی جماعتوں، علمائے کرام اور عوام کی سطح سے ایک محب وطن پاکستانی کے قتل کے واقعے پر دکھ اور افسوس کے اظہار کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ یہ قوم دہشت گردوں کے آگے گھٹنے ٹیکنے والی نہیں۔ مذکورہ واقعے سے شدت پسند عناصر کے نیٹ ورک کی فعالیت کا اندازہ ہوتا ہے جو متعلقہ اداروں کی کسی بھی کوتاہی سے فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ہر بار ایسے واقعات کے حوالے سے مختلف تاویلیں پیش کی جاتی ہیں۔ سیکیورٹی انتظامات کو مزید فول پروف بنانے کے دعوے بھی کیے جاتے ہیں مگر دہشت گردی اور تخریب کاری کا سلسلہ ہے کہ رکنے میں ہی نہیں آ رہا ہے۔

عام آدمی کے اندر عدم تحفظ کا احساس وقت کے ساتھ ساتھ تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ جب حکومتی وزیر کو اتنی آسانی سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے تو پھر ان کی حفاظت ریاست کے بس کی بات نہیں۔ دہشت گردی کے باعث کاروباری و سماجی سرگرمیوں پر اس کے مرتب ہونے والے اثرات معیشت کو بڑی تیزی سے تباہی کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اقتدار کے ایوانوں کے مکین بھی چیلنجوں میں گھری ہوئی قوم کی کسی بہتر راہ عمل کی طرف رہنمائی کرنے اور اس کی مشکلات دور کرنے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔

ملک میں جاری دہشت گردی کی وارداتوں کے حوالے سے یہ بات خاص طور پر محسوس کی گئی ہے کہ کئی برس قبل تک دہشت گردوں کا ہدف حفاظتی چوکیاں اور سیکیورٹی فورسز کے قافلے ہوتے تھے۔ بعد ازاں حساس اور حفاظتی اداروں کی اہم عمارتوں پر حملے کیے گئے۔ جب کہ مساجد اور بازاروں میں آگ اور خون کا کھیل کھیلنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ بظاہر شدت پسندوں کی کوشش یہ نظر آتی ہے کہ ایک طرف زیادہ سے زیادہ جانی نقصان کے ذریعے ملک میں عدم تحفظ کی کیفیت پیدا کی جائے تو دوسری جانب ملکی سلامتی سے تعلق رکھنے والے معاملات کو بھی الجھایا جائے۔

دہشت گردوں نے جس طرح علمائے کرام، ڈاکٹروں اور مختلف شعبوں کے افراد کو نشانہ بنایا اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ مختلف بکھرے ہوئے گروہوں یا ناراض حلقوں کی اپنے طور پر کی گئی کارروائی نہیں بلکہ کسی باقاعدہ ایجنڈے کا حصہ ہے جو وسیع مالی، مادی اور مواصلاتی وسائل کے حامل عناصر کی نگرانی میں جاری ملکی سلامتی کے خلاف منظم منصوبہ بندی ہے۔ شدت پسندوں کی سرگرمیوں کا ایک پہلو ناسازگار حالات پیدا کر کے ملک کو رسوا کرنے کی صورت میں سامنے آیا۔ ملکی معیشت جو چند برس قبل تیزی سے ترقی کر رہی تھی، کو نقصان پہنچا کر عالمی مالیاتی اداروں کے دروازے تک پہنچانے کے حالات جس طرح پیدا ہوئے، اسے بھی دہشت گردی اور امن و امان کو نقصان پہنچانے کے واقعات سے الگ کر کے دیکھنا مناسب نہیں۔


ملک کی معاشی ترقی اور دفاعی استحکام میں اہم کردار ادا کرنے والے اداروں جیسے پی آئی اے، ریلوے وغیرہ کو جن طریقوں سے نقصان پہنچایا جا رہا ہے وہ کئی حوالوں سے کسی گہری سازش کا شاخسانہ دکھائی دیتا ہے۔ ملک کو اس وقت بڑھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام، اقتصادی بحران، دہشت گردی اور بدامنی کے حوالے سے جو مسائل و مشکلات درپیش ہیں ان پر قابو پانے کے لیے قومی یکجہتی کی جتنی ضرورت آج ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ قومی مسائل پر فوج، عدلیہ اور سیاسی قیادت کی مشاورت سے مشترکہ لائحہ عمل اور قومی حکمت عملی وضع کی جانی چاہیے۔

اس حقیقت سے ہر پاکستانی آگاہ ہے کہ پاکستان اس وقت چاروں طرف سے پریشان کن مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ اندرون ملک بدانتظامی، مالی بدنظمی، کرپشن، مہنگائی، لاقانونیت، بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ، توانائی کے بحران جیسی کئی دوسری مشکلات نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے تو خارجی محاذ سے بھی کوئی مثبت اور امید افزا پیغامات موصول نہیں ہو رہے۔ بین الاقوامی طاقتیں اور ادارے اس مشکل وقت میں عملی مدد کرنے کے بجائے بالواسطہ یا بلاواسطہ دھونس دھمکی سے ہمیں اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھانے پر تلے ہوئے ہیں۔

ان حالات میں ملک کے تمام متعلقہ طبقوں کو، چاہے ان کا تعلق قومی زندگی کے کسی بھی شعبے سے ہو، مل بیٹھنا اور قومی مسائل پر سنجیدہ غور و فکر کر کے ان کا حل تلاش کرنا وقت کی اولین ضرورت بن چکا ہے۔ یہ وقت سیاسی نمبر بنانے کا نہیں بلکہ ملک و قوم کو مسائل و مشکلات سے نجات دلانے کا ہے۔

وطن عزیز پاکستان اس وقت گوناگوں مسائل سے دو چار ہے جو وقت کے ساتھ سنگین سے سنگین تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسی صورت میں ملک و قوم کو دہشت گردی و دیگر مشکلات کے بھنور سے نکالنا کسی ایک طبقے یا ادارے کے بس کی بات نہیں۔ اس عمل میں سیاستدانوں کے علاوہ فوج، عدلیہ، مزدوروں، کسانوں، اہل صنعت و تجارت اور فکر رسا رکھنے والے ہر شخص کو بھرپور حصہ لینا پڑے گا، اور یہ ذمے داری اہل اقتدار کی ہے کہ وہ ایسا سازگار ماحول پیدا کریں جس میں قوم کا ہر فہمیدہ طبقہ آگے بڑھ کر اپنی خدمات پیش کر سکے۔

ہمیں اس ناقابل تردید حقیقت کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ملک میں اس وقت سب اچھا نہیں ہے۔ بڑھتی ہوئی دہشت گردی نے ملک الموت کی ذمے داریاں بانٹ لی ہیں۔ پوری قوم کو اس بات کا شدت سے احساس ہے۔ ارباب اقتدار بھی اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہیں۔ قوم کی یہ خواہش اور دعا ہے کہ حکمران ایسے اقدامات کریں جن کی بدولت عوام کو در پیش مسائل و مشکلات ختم ہوں، دہشت گردی کا جن بوتل میں بند کیا جا سکے تا کہ ہم ایک پر امن اور خوشحال مستقبل کی جانب گامزن ہو سکیں۔
Load Next Story