پاناما کیس میاں شریف کی وفات کے بعد وراثتی جائیداد کی تقسیم کی تفصیلات طلب
شریف خاندان میں جائیداد کے حوالے سے کوئی جھگڑا یا تنازع نہیں ہے، وکیل مریم صفدر
سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں وزیر اعظم کے وکیل سے میاں شریف کی وفات کے بعد وراثتی جائیداد کی تقسیم کی تفصیلات طلب کر لیں۔
پاناما لیکس سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بنچ نے کی۔ سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ مریم صفدر کی جانب سے جواب داخل کروا دیا ہے جس پر میرے دستخط ہیں اور مریم صفدر نے مجھے اختیار دیا ہے۔ انہوں نے کہا اگر کوئی ٹیکس ریٹرن نہ جمع کرائے اسے 28 ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے.
جسٹس گلزار نے مریم نواز کے وکیل سے استفسار کیا کہ میاں محمد شریف کی وفات کے بعد ان کی جائیداد کا کیا بنا؟ جس پر شاہد حامد نے کہا شریف خاندان میں اس حوالے سے کوئی جھگڑا یا تنازع نہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک دو روز میں عدالت کو شریف خاندان کی وراثتی جائیداد کی تقسیم سے متعلق آگاہ کیا جاسکے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: نواز شریف کو طلب کرسکتےہیں
شاہد حامد نے کہا کہ وزیراعظم نے خود کو احتساب کے لیے پیش کیا ہے، وزیراعظم ہو یا عام شہری، قانون سب کے لیے برابر ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جب ایک متعلقہ با اختیار فورم الیکشن کمیشن کی صورت میں موجود ہے تو اس کے مقدمات ہم کیوں سنیں، دیگر ادارے بھی ریاست نے آئین کے مطابق بنائے ہیں۔ شاہد حامد نے کہا کہ عدالت ریفرنس خود سنے تو اس کی مرضی ہے، وزیراعظم کی نا اہلی کے لیے بھی ریفرنس الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہے۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ریفرنس پر فیصلہ دینے کا مکمل اختیار ہے، اگر ریفرنس میں بھی یہی سوال اٹھایا گیا ہے تو سپریم کورٹ مداخلت کیوں کرے، سپریم کورٹ آرٹیکل 184/3 کے تحت متوازی کارروائی کیسے کر سکتی ہے؟
اس خبر کو بھی پڑھیں: نواز شریف ہمیشہ کیلئے نااہل ہو جائیں گے
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیپٹن صفدر نے 2011 میں ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کروایا، ٹیکس ریٹرن جمع نہ کروانے کا کیا نتیجہ ہو گا؟ شاہد حامد نے کہا کہ 2011 سے پہلے کیپٹن صفدر کی تنخواہ سے ٹیکس کٹوتی ہوتی تھی۔ جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کسی رکن اسمبلی کے لیے کیا طریقہ کار ہے؟ جس پر شاہد حامد نے کہا کہ منتخب نمائندے کی نااہلی کے لیے ''کو وارنٹو'' کی رٹ دائر کی جا سکتی ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیپٹن صفدر پر الزام ہے کہ انہوں گوشواروں میں اہلیہ کے اثاثے چھپائے، جس پر شاہد حامد نے کہا کہ ایسا نہیں بلکہ کیپٹن صفدر نے کاغذات نامزدگی کے ساتھ مریم نواز کے گوشوارے منسلک بھی کیے تھے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: شریف ٹولہ الیکشن کمیشن کا سہارا لے رہا ہے
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ الزام ہے کہ ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے پر کیپٹن صفدر ایماندار نہیں رہے، کیپٹن صفدر کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن میں زیر التواء ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے پر کیا الیکشن کمیشن اور انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ نے کوئی قدم نہیں اٹھایا؟ شاہد حامد نے جواب دیا کہ ٹیکس کا معاملہ ایف بی آر کے دائرہ اختیار میں آتا ہے جبکہ ٹیکس ریٹرن فائل نہ ہونے پر نااہلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن یہاں نااہلی یا ٹیکس چوری کا سوال نہیں ہے۔
مریم نواز کے وکیل کا کہنا تھا کہ کیس کے حوالے سے آئے روز باہر ہونے والے انکشافات پر حیرت ہوتی ہے، جو کاغذات پہلے دن سے عدالت کے پاس ہیں کبھی بی بی سی، جرمن میڈیا اور آئی سی ایف جے سمیت دیگر غیر ملکی ادارے سامنے لا رہے ہیں، ان کاغذات کو لہرا کر کہا جاتا ہے کہ نئی دستاویزات سامنے آ گئی ہیں، پریس کانفرنسوں میں کہا جاتا ہے کہ کیس ختم ہو گیا ہے۔ میرے موکل کی بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں، مریم صفدر کہہ چکی ہیں کہ لندن فلیٹس ان کے بھائی کے ہیں جبکہ بھائی کا بھی یہی موقف ہے کہ فلیٹس ان کے نام پر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ درخواست گزار کا اصرار ہے کہ بیرون ملک پراپرٹی کی مالک مریم صفدر ہیں اور انہیں والد کے زیر کفالت بھی کہا جا رہا ہے حالانکہ ایسا نہیں، ایسا صرف اس لیے کیا جا رہا ہے کہ ان کے والد کو اس پراپرٹی کے معاملے میں ملوث کیا جا سکے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: لندن فلیٹس کی مالک مریم نواز ہی ہیں
شاہد حامد نے کہا کہ عدالت کے باہر سیاسی لڑائی ہو رہی ہے جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ سیاسی لڑائی کے الفاظ مناسب نہیں سیاسی اختلاف ہو سکتے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فریقین نے پہلے جواب میں قطری خط کا ذکر نہیں کیا اور ضمنی جواب میں قطری خط کا ذکر کیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ 5 نومبر کے تحریری بیان میں قطری سرمایہ کاری خط کا ذکر کیا گیا لیکن 7 نومبر کو داخل تحریری جواب میں قطری خط کا ذکر نہیں تھا۔
جسٹس عظمت نے مریم صفدر کے وکیل کی توجہ ایک ای میل کی طرف دلائی جس میں مریم نے 2004 میں تسلیم کیا ہے وہ نیلسن اور نیسکول کی بینیفیشل آنر ہیں، جسٹس عظمت نے شاہد حامد پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دستاویزات کو دفن کرنے کی کوشش نہ کریں، انہوں نے شاہد حامد سے استفسار کیا کہ ہم مریم نواز کے اوریجنل دستخط اس دستاویز میں کئے گئے دستخطوں سے میچ کرسکتے ہیں؟ شاہد حامد نے کہا کہ عدالت مریم نواز کے دستخطوں کا جائزہ لے سکتی ہے لیکن مریم نواز کے نام سے منسوب جس دستاویز کا حوالہ دیا جارہا اس پر مریم کے جھوٹے دستخط موجود ہیں۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: تحریک انصاف پاناما کیس پر صرف سیاست کر رہی ہے
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ججز دستخط کی سائنس کے ماہر نہیں ہیں، اس معاملے پر کوئی ماہر ہی رائے دے سکتا ہے جبکہ جسٹس گلزر نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بظاہر دستخط میں کافی فرق نظر آرہا ہے۔
جسٹس کھوسہ نے کہا کہ مریم نواز کی ذاتی معلومات کے فارم پر بھی دستخط موجود ہیں، یہ دستاویز عالمی صحافتی کنسورشیم کی ہے، پانامہ جا کر مریم نواز کی دستخطوں والی دستاویز نہیں دیکھی جا سکتیں۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ منروا کمپنی کا خالی فارم ویب سائٹ سے مل جاتا ہے، منروا کمپنی کو اگر 2006 میں ہائر کیا گیا تو عدالت میں 2011 کی دستاویزات کیوں پیش کی گئیں۔ شاہد حامد نے کہا کہ کسی نے میرا پرسنل اکاونٹ بھی ہیک کرنے کی کوشش کی، مجھے میل آئی کہ پاس ورڈ تبدیل کریں کیونکہ کوئی آپ کے اکاونٹ تک رسائی چاہ رہا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا آپ مریم نواز کے دستاویز سے انکار کر رہے ہیں۔
شاہد حامد نے کہا کہ درخواست گزار کی جانب سے یہ تو کہہ دیا گیا کہ مریم نواز بینیفیشل مالک ہیں لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ نیسکول یا نیلسن کمپنی کی مالک ہیں جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ اگر یہ دستاویز 2012 کی ہیں تو اس مقدمے سے اس کا کیا تعلق ہے؟ شاہد حامد نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق مریم نواز نیسکول اور نیلسن کی ٹرسٹی ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تحریری جواب کے مطابق مریم نواز صرف نیسکول کی ٹرسٹی ہیں، مریم نواز نے تحریری بیان میں خود کو نیسکول کی ٹرسٹی تک کیوں محدود رکھا؟ شاہد حامد نے کہا کہ یہ کلاریکل غلطی ہو سکتی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کے تحریری جواب میں یکسانیت نہیں ہے، مریم نواز نے کہا کہ حسین نواز نیشنل ٹیکس ہولڈر نہیں ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ مریم نواز 2006 سے ٹرسٹی ہیں تو یہ غلطی نہیں ہونی چاہیئے تھی، جس پر شاہد حامد نے کہا کہ میری موکلہ کے حوالے سے جعلی دستاویز پیش کی گئیں، جعلی دستاویز پیش کرنے والوں کے خلاف قانون کےمطابق کارروائی کی جا سکتی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ تاثر ملتا ہے کہ کارروائی کے ساتھ ساتھ جوابات میں بھی بہتری لائی جا رہی ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم سمجھنا چاہ رہے ہیں کہ سچ کیا ہے، معاملہ ایمانداری کا ہے۔ شاہد حامد نے کہا کہ تحقیقاتی ادارے کے پوچھنے پر مریم نواز کو کمپنیوں کا بینیفیشل مالک بتایا گیا، اگر موزیک فونیسکا کے پاس مریم نواز کی معلومات موجود تھی تو منروا سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی؟ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ دستخطوں کے حوالے سے ایک معمہ بن چکا ہے، خاندان کے افراد ایک دوسرے کی جگہ دستخط کرتے ہیں۔ شاہد حامد نے جواب دیا کہ میرا دعویٰ ہے کہ دستاویز پر دستخط جعلی ہیں، آف شور کمپنیوں کے اصل مالک حسین نواز ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سامبا بینک نے مریم نواز کے حوالے سے منروا کو کیوں خط لکھا، جس پر شاہد حامد نے کہا کہ منروا سروسز کمپنی کی خدمات حاصل کرنے کے معاملے پر سامبا بینک نے یہ خط لکھا۔ حسین نواز کے ورثاء کے درمیان اثاثوں کی تقسیم کے لئے مریم کو ٹرسٹی بنایا گیا، حسین نواز کی 2 شادیاں اور 7 بچے ہیں، اثاثوں کی تقسیم کے لئے حسین نواز نے ٹرسٹ بنایا کیونکہ حسین نواز کی دونوں بیویاں مختلف ملکوں کی شہریت رکھتی ہیں۔
جسٹس کھوسہ نے استفسار کیا کہ مریم نواز نے نجی ٹی وی کو انٹرویو میں ٹرسٹی ہونے کا کیوں نا بتایا؟ کیا مریم کو اپنے ٹرسٹی ہونے کا علم نہیں تھا؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وہ اپنے والد کے ساتھ کب رہتی تھیں، وہ تو اپنی دادی کے ساتھ رہتی تھیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ 2006 کی ہے جبکہ مریم نواز نے 2012 کے انٹرویو میں کہا کہ ہمارا کوئی اثاثہ باہر نہیں۔ شاہد حامد نے کہا کہ مریم نواز نے انٹرویو میں کہا ان کی اپنی بیرون ملک جائیداد نہیں، مریم نواز کا بیان بالکل درست ہے، مریم کا بیرون ملک اپنا کوئی گھر نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ جائیداد اور گھر کیا الگ الگ چیزیں ہیں۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ اگر مریم نواز کے ٹی وی انٹرویو کے ٹرانسکرپٹ میں فرق ہے تو ہمیں بھی فراہم کردیں، ہمارے لیے ٹرانسکرپٹ بڑا اہم ہے، ہوسکتا ہے شکایت کنندہ کا ٹرانسکرپٹ درست نا ہو۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ مریم نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ مجھے نہیں پتہ میری اور گھر والوں کی پراپرٹی کہاں سے نکال لائے ہیں۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ مریم نواز انٹرویو میں کہتی ہیں کہ وہ والد کے ساتھ رہتی ہیں جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ مریم نواز نے کہا کہ میری پاکستان میں بھی جائداد نہیں، زرعی زمین تو تھی۔
شاہد حامد نے کہا کہ زرعی آمدن پر مریم نواز باقاعدگی سے ٹیکس دیتی ہیں، مریم نواز کی پاکستان میں جائیداد ہے، عدالت کے سامنے معاملہ متنازع حقائق کا ہے، اس حوالے سے عدالتی فیصلوں کی مثالیں پیش کروں گا۔ عدالتی فیصلے کے مطابق دستخط کے تنازع پر حتمی رپورٹ ماہر کی ہو سکتی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ دستخط کے ماہر کو عدالت میں پیش ہو کر بیان ریکارد کروانا ہوتا ہے، عدالت میں دستخط کے ماہر پر جرح بھی ہوتی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جائیداد سے متعلق بہتر معلومات شریف خاندان کے پاس ہیں، جائیداد آپ کی ہے، آپ کو علم ہونا چاہیئے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ کی موکل ٹرسٹی ہیں انہیں اثاثوں کا علم ہونا چاہیئے، اگر زنجیر ٹوٹی نہ ہوئی تو ہم تمام کڑیوں کو جوڑ لیں گے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے مریم صفدر کے وکیل سے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ دوسری جانب سے جعلی دستاویزات دی گئی ہیں، جس پر شاہد حامد نے کہا کہ میں نے یہ کبھی نہیں کہا، پی ٹی آئی کو اپنی دستاویزات کی پہلے تصدیق کرانی چاہیئے، یہ نہیں کہا کہ مخالف فریق نے جعل سازی کی۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کیا امید کرتے ہیں کہ تصدیق کے لیے پانامہ جائیں۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ ایشو یہ ہے کہ مریم نواز بینفیشل مالک ہیں یا نہیں، تحریک انصاف مریم کو بینیفیشل مالک کہتی ہے، آپ کہتے ہیں کہ مریم نواز بینیفیشل مالک نہیں بلکہ ٹرسٹی ہیں، اس اختلاف کے نکتے پر کل عدالت کو مطمئن کریں۔ قطری خط کہتا ہے کہ حسین نواز کو سرٹیفکیٹ دیئے گئے، اس کی بھی وضاحت کریں۔ عدالت نے کل تک سماعت ملتوی کر دی۔
پاناما لیکس سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بنچ نے کی۔ سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ مریم صفدر کی جانب سے جواب داخل کروا دیا ہے جس پر میرے دستخط ہیں اور مریم صفدر نے مجھے اختیار دیا ہے۔ انہوں نے کہا اگر کوئی ٹیکس ریٹرن نہ جمع کرائے اسے 28 ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے.
جسٹس گلزار نے مریم نواز کے وکیل سے استفسار کیا کہ میاں محمد شریف کی وفات کے بعد ان کی جائیداد کا کیا بنا؟ جس پر شاہد حامد نے کہا شریف خاندان میں اس حوالے سے کوئی جھگڑا یا تنازع نہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک دو روز میں عدالت کو شریف خاندان کی وراثتی جائیداد کی تقسیم سے متعلق آگاہ کیا جاسکے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: نواز شریف کو طلب کرسکتےہیں
شاہد حامد نے کہا کہ وزیراعظم نے خود کو احتساب کے لیے پیش کیا ہے، وزیراعظم ہو یا عام شہری، قانون سب کے لیے برابر ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جب ایک متعلقہ با اختیار فورم الیکشن کمیشن کی صورت میں موجود ہے تو اس کے مقدمات ہم کیوں سنیں، دیگر ادارے بھی ریاست نے آئین کے مطابق بنائے ہیں۔ شاہد حامد نے کہا کہ عدالت ریفرنس خود سنے تو اس کی مرضی ہے، وزیراعظم کی نا اہلی کے لیے بھی ریفرنس الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہے۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ریفرنس پر فیصلہ دینے کا مکمل اختیار ہے، اگر ریفرنس میں بھی یہی سوال اٹھایا گیا ہے تو سپریم کورٹ مداخلت کیوں کرے، سپریم کورٹ آرٹیکل 184/3 کے تحت متوازی کارروائی کیسے کر سکتی ہے؟
اس خبر کو بھی پڑھیں: نواز شریف ہمیشہ کیلئے نااہل ہو جائیں گے
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیپٹن صفدر نے 2011 میں ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کروایا، ٹیکس ریٹرن جمع نہ کروانے کا کیا نتیجہ ہو گا؟ شاہد حامد نے کہا کہ 2011 سے پہلے کیپٹن صفدر کی تنخواہ سے ٹیکس کٹوتی ہوتی تھی۔ جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کسی رکن اسمبلی کے لیے کیا طریقہ کار ہے؟ جس پر شاہد حامد نے کہا کہ منتخب نمائندے کی نااہلی کے لیے ''کو وارنٹو'' کی رٹ دائر کی جا سکتی ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیپٹن صفدر پر الزام ہے کہ انہوں گوشواروں میں اہلیہ کے اثاثے چھپائے، جس پر شاہد حامد نے کہا کہ ایسا نہیں بلکہ کیپٹن صفدر نے کاغذات نامزدگی کے ساتھ مریم نواز کے گوشوارے منسلک بھی کیے تھے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: شریف ٹولہ الیکشن کمیشن کا سہارا لے رہا ہے
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ الزام ہے کہ ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے پر کیپٹن صفدر ایماندار نہیں رہے، کیپٹن صفدر کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن میں زیر التواء ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے پر کیا الیکشن کمیشن اور انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ نے کوئی قدم نہیں اٹھایا؟ شاہد حامد نے جواب دیا کہ ٹیکس کا معاملہ ایف بی آر کے دائرہ اختیار میں آتا ہے جبکہ ٹیکس ریٹرن فائل نہ ہونے پر نااہلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن یہاں نااہلی یا ٹیکس چوری کا سوال نہیں ہے۔
مریم نواز کے وکیل کا کہنا تھا کہ کیس کے حوالے سے آئے روز باہر ہونے والے انکشافات پر حیرت ہوتی ہے، جو کاغذات پہلے دن سے عدالت کے پاس ہیں کبھی بی بی سی، جرمن میڈیا اور آئی سی ایف جے سمیت دیگر غیر ملکی ادارے سامنے لا رہے ہیں، ان کاغذات کو لہرا کر کہا جاتا ہے کہ نئی دستاویزات سامنے آ گئی ہیں، پریس کانفرنسوں میں کہا جاتا ہے کہ کیس ختم ہو گیا ہے۔ میرے موکل کی بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں، مریم صفدر کہہ چکی ہیں کہ لندن فلیٹس ان کے بھائی کے ہیں جبکہ بھائی کا بھی یہی موقف ہے کہ فلیٹس ان کے نام پر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ درخواست گزار کا اصرار ہے کہ بیرون ملک پراپرٹی کی مالک مریم صفدر ہیں اور انہیں والد کے زیر کفالت بھی کہا جا رہا ہے حالانکہ ایسا نہیں، ایسا صرف اس لیے کیا جا رہا ہے کہ ان کے والد کو اس پراپرٹی کے معاملے میں ملوث کیا جا سکے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: لندن فلیٹس کی مالک مریم نواز ہی ہیں
شاہد حامد نے کہا کہ عدالت کے باہر سیاسی لڑائی ہو رہی ہے جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ سیاسی لڑائی کے الفاظ مناسب نہیں سیاسی اختلاف ہو سکتے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فریقین نے پہلے جواب میں قطری خط کا ذکر نہیں کیا اور ضمنی جواب میں قطری خط کا ذکر کیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ 5 نومبر کے تحریری بیان میں قطری سرمایہ کاری خط کا ذکر کیا گیا لیکن 7 نومبر کو داخل تحریری جواب میں قطری خط کا ذکر نہیں تھا۔
جسٹس عظمت نے مریم صفدر کے وکیل کی توجہ ایک ای میل کی طرف دلائی جس میں مریم نے 2004 میں تسلیم کیا ہے وہ نیلسن اور نیسکول کی بینیفیشل آنر ہیں، جسٹس عظمت نے شاہد حامد پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دستاویزات کو دفن کرنے کی کوشش نہ کریں، انہوں نے شاہد حامد سے استفسار کیا کہ ہم مریم نواز کے اوریجنل دستخط اس دستاویز میں کئے گئے دستخطوں سے میچ کرسکتے ہیں؟ شاہد حامد نے کہا کہ عدالت مریم نواز کے دستخطوں کا جائزہ لے سکتی ہے لیکن مریم نواز کے نام سے منسوب جس دستاویز کا حوالہ دیا جارہا اس پر مریم کے جھوٹے دستخط موجود ہیں۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: تحریک انصاف پاناما کیس پر صرف سیاست کر رہی ہے
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ججز دستخط کی سائنس کے ماہر نہیں ہیں، اس معاملے پر کوئی ماہر ہی رائے دے سکتا ہے جبکہ جسٹس گلزر نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بظاہر دستخط میں کافی فرق نظر آرہا ہے۔
جسٹس کھوسہ نے کہا کہ مریم نواز کی ذاتی معلومات کے فارم پر بھی دستخط موجود ہیں، یہ دستاویز عالمی صحافتی کنسورشیم کی ہے، پانامہ جا کر مریم نواز کی دستخطوں والی دستاویز نہیں دیکھی جا سکتیں۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ منروا کمپنی کا خالی فارم ویب سائٹ سے مل جاتا ہے، منروا کمپنی کو اگر 2006 میں ہائر کیا گیا تو عدالت میں 2011 کی دستاویزات کیوں پیش کی گئیں۔ شاہد حامد نے کہا کہ کسی نے میرا پرسنل اکاونٹ بھی ہیک کرنے کی کوشش کی، مجھے میل آئی کہ پاس ورڈ تبدیل کریں کیونکہ کوئی آپ کے اکاونٹ تک رسائی چاہ رہا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا آپ مریم نواز کے دستاویز سے انکار کر رہے ہیں۔
شاہد حامد نے کہا کہ درخواست گزار کی جانب سے یہ تو کہہ دیا گیا کہ مریم نواز بینیفیشل مالک ہیں لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ نیسکول یا نیلسن کمپنی کی مالک ہیں جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ اگر یہ دستاویز 2012 کی ہیں تو اس مقدمے سے اس کا کیا تعلق ہے؟ شاہد حامد نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق مریم نواز نیسکول اور نیلسن کی ٹرسٹی ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تحریری جواب کے مطابق مریم نواز صرف نیسکول کی ٹرسٹی ہیں، مریم نواز نے تحریری بیان میں خود کو نیسکول کی ٹرسٹی تک کیوں محدود رکھا؟ شاہد حامد نے کہا کہ یہ کلاریکل غلطی ہو سکتی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کے تحریری جواب میں یکسانیت نہیں ہے، مریم نواز نے کہا کہ حسین نواز نیشنل ٹیکس ہولڈر نہیں ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ مریم نواز 2006 سے ٹرسٹی ہیں تو یہ غلطی نہیں ہونی چاہیئے تھی، جس پر شاہد حامد نے کہا کہ میری موکلہ کے حوالے سے جعلی دستاویز پیش کی گئیں، جعلی دستاویز پیش کرنے والوں کے خلاف قانون کےمطابق کارروائی کی جا سکتی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ تاثر ملتا ہے کہ کارروائی کے ساتھ ساتھ جوابات میں بھی بہتری لائی جا رہی ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم سمجھنا چاہ رہے ہیں کہ سچ کیا ہے، معاملہ ایمانداری کا ہے۔ شاہد حامد نے کہا کہ تحقیقاتی ادارے کے پوچھنے پر مریم نواز کو کمپنیوں کا بینیفیشل مالک بتایا گیا، اگر موزیک فونیسکا کے پاس مریم نواز کی معلومات موجود تھی تو منروا سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی؟ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ دستخطوں کے حوالے سے ایک معمہ بن چکا ہے، خاندان کے افراد ایک دوسرے کی جگہ دستخط کرتے ہیں۔ شاہد حامد نے جواب دیا کہ میرا دعویٰ ہے کہ دستاویز پر دستخط جعلی ہیں، آف شور کمپنیوں کے اصل مالک حسین نواز ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سامبا بینک نے مریم نواز کے حوالے سے منروا کو کیوں خط لکھا، جس پر شاہد حامد نے کہا کہ منروا سروسز کمپنی کی خدمات حاصل کرنے کے معاملے پر سامبا بینک نے یہ خط لکھا۔ حسین نواز کے ورثاء کے درمیان اثاثوں کی تقسیم کے لئے مریم کو ٹرسٹی بنایا گیا، حسین نواز کی 2 شادیاں اور 7 بچے ہیں، اثاثوں کی تقسیم کے لئے حسین نواز نے ٹرسٹ بنایا کیونکہ حسین نواز کی دونوں بیویاں مختلف ملکوں کی شہریت رکھتی ہیں۔
جسٹس کھوسہ نے استفسار کیا کہ مریم نواز نے نجی ٹی وی کو انٹرویو میں ٹرسٹی ہونے کا کیوں نا بتایا؟ کیا مریم کو اپنے ٹرسٹی ہونے کا علم نہیں تھا؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وہ اپنے والد کے ساتھ کب رہتی تھیں، وہ تو اپنی دادی کے ساتھ رہتی تھیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ 2006 کی ہے جبکہ مریم نواز نے 2012 کے انٹرویو میں کہا کہ ہمارا کوئی اثاثہ باہر نہیں۔ شاہد حامد نے کہا کہ مریم نواز نے انٹرویو میں کہا ان کی اپنی بیرون ملک جائیداد نہیں، مریم نواز کا بیان بالکل درست ہے، مریم کا بیرون ملک اپنا کوئی گھر نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ جائیداد اور گھر کیا الگ الگ چیزیں ہیں۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ اگر مریم نواز کے ٹی وی انٹرویو کے ٹرانسکرپٹ میں فرق ہے تو ہمیں بھی فراہم کردیں، ہمارے لیے ٹرانسکرپٹ بڑا اہم ہے، ہوسکتا ہے شکایت کنندہ کا ٹرانسکرپٹ درست نا ہو۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ مریم نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ مجھے نہیں پتہ میری اور گھر والوں کی پراپرٹی کہاں سے نکال لائے ہیں۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ مریم نواز انٹرویو میں کہتی ہیں کہ وہ والد کے ساتھ رہتی ہیں جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ مریم نواز نے کہا کہ میری پاکستان میں بھی جائداد نہیں، زرعی زمین تو تھی۔
شاہد حامد نے کہا کہ زرعی آمدن پر مریم نواز باقاعدگی سے ٹیکس دیتی ہیں، مریم نواز کی پاکستان میں جائیداد ہے، عدالت کے سامنے معاملہ متنازع حقائق کا ہے، اس حوالے سے عدالتی فیصلوں کی مثالیں پیش کروں گا۔ عدالتی فیصلے کے مطابق دستخط کے تنازع پر حتمی رپورٹ ماہر کی ہو سکتی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ دستخط کے ماہر کو عدالت میں پیش ہو کر بیان ریکارد کروانا ہوتا ہے، عدالت میں دستخط کے ماہر پر جرح بھی ہوتی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جائیداد سے متعلق بہتر معلومات شریف خاندان کے پاس ہیں، جائیداد آپ کی ہے، آپ کو علم ہونا چاہیئے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ کی موکل ٹرسٹی ہیں انہیں اثاثوں کا علم ہونا چاہیئے، اگر زنجیر ٹوٹی نہ ہوئی تو ہم تمام کڑیوں کو جوڑ لیں گے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے مریم صفدر کے وکیل سے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ دوسری جانب سے جعلی دستاویزات دی گئی ہیں، جس پر شاہد حامد نے کہا کہ میں نے یہ کبھی نہیں کہا، پی ٹی آئی کو اپنی دستاویزات کی پہلے تصدیق کرانی چاہیئے، یہ نہیں کہا کہ مخالف فریق نے جعل سازی کی۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کیا امید کرتے ہیں کہ تصدیق کے لیے پانامہ جائیں۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ ایشو یہ ہے کہ مریم نواز بینفیشل مالک ہیں یا نہیں، تحریک انصاف مریم کو بینیفیشل مالک کہتی ہے، آپ کہتے ہیں کہ مریم نواز بینیفیشل مالک نہیں بلکہ ٹرسٹی ہیں، اس اختلاف کے نکتے پر کل عدالت کو مطمئن کریں۔ قطری خط کہتا ہے کہ حسین نواز کو سرٹیفکیٹ دیئے گئے، اس کی بھی وضاحت کریں۔ عدالت نے کل تک سماعت ملتوی کر دی۔