طیبہ تشدد ازخود نوٹس بچی کی ڈی این اے اورمیڈیکل رپورٹ عدالت میں پیش
بڑا معاملہ یہ ہے کہ وہ بچیاں جو گھروں میں کام کرتی ہیں ان کے لیے کیا قانون سازی ہوئی، چیف جسٹس
پولیس نے طیبہ تشدد ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں بچی کے ڈی این اے ٹیسٹ اور طبی رپورٹ عدالت میں پیش کردی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے طیبہ تشدد ازخود نوٹس کی سماعت کی، سماعت کے دوران ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ کیس کی تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں، مکمل چالان کل جمع کروائیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بچوں سے گھروں میں کام کروانا بڑا مسئلہ ہے، ایسے معاملات کودبانے کی کوشش کی جاتی ہے، بڑا معاملہ یہ ہے کہ وہ بچیاں جوگھروں میں کام کرتی ہیں ان کے لیے کیا قانون سازی ہوئی، یہ بچے کہاں سے آتے ہیں اورانہیں ملازمت پرکون رکھواتا ہے۔
عاصمہ جہانگیرنے عدالت کے سامنے موقف اختیارکیا کہ بچوں پرتشدد ایک بہت بڑا ظلم ہے، فیصل آباد کی جس خاتون کا نام سامنے آیا اس کی تحقیق نہیں ہوئی، دیکھنا ہوگا کہ اس سارے نیٹ ورک کو کون چلاتا ہے، اسی طرح کا ایک کیس لاہور میں بھی سامنے آیا ہے، بہت ساری چیزیں ہیں جوآپ نہیں کرسکتے، قانون سازی پارلیمنٹ کا کام ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: طیبہ تشدد کیس؛ پولیس کو 10 دن میں تفتیش مکمل کرنے کا حکم
چیف جسٹس نے عاصمہ جہانگیرسے استفسار کیا کہ کیا آپ چاہتی ہیں اس کیس کو پنجاب میں کسی مجسٹریٹ کے سامنے بھیج دیں، اسلام آباد کے ویسٹ یا ایسٹ کے کسی جج کے پاس معاملہ بھیج دیں۔ ملزمہ خاتون کے شوہر واقعتاً ایک جوڈیشل افسرہیں، یہ معاملہ دیکھیں گے کہ آیا ملزمہ خاتون اوراس کے شوہر کے خلاف کریمنل مقدمہ چلایا جائے، یہ بھی دیکھیں گے عام قانون کے تحت اس مقدمے کو نمٹائیں یا غیرمعمولی قدم اٹھائیں، آج طیبہ کیس میں ہم نے اختیارات سے تجاوز کیا تو کل اوربھی درخواستیں آجائیں گی۔
عاصمہ جہانگیرنے کہا کہ ہم چاہتے ہیں ایسا کیس دوبارہ نہ ہو، کیس سے لوگوں کی معلومات میں اضافہ ہونا چاہیے۔ ہم تو اس حق میں ہیں کہ ملزمان کوسزا ملے، اس کیس سے یہ ثابت ہوا کہ ملزم کو ماتحت عدالت سے پس پردہ تحفظ دیا گیا، اس مقدمہ میں تو دفعہ 370 بھی عائد ہوتی ہے، کسی کو مارنا اورجلا دینا کیسے قابل ضمانت ہوسکتا ہے، جب بچی کو جلایا تو کیا بچی کی زندگی کو خطرہ لاحق نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پولیس نے ماہین ظفرکی ضمانت کے بعد مقدمے میں مزید دو دفعات شامل کی ہیں جس کے تحت اس نے ضمانت حاصل نہیں کی، جہاں تک معاملہ ناقابل ضمانت دفعات شامل کرنے کا ہے تو وہ ٹرائل کورٹ کا جج شامل کرسکتا ہے، معاملہ پولیس کے سامنے ہے کہ ماہین نے کن دفعات پر ضمانت لے رکھی ہے، جن دفعات پرضمانت نہیں ان پرقانون اپنا راستہ خود بنائے گا، گرفتار ہوں گے تو خود ہی ضمانت بھی لیں گے۔ کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے ہوگی۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے طیبہ تشدد ازخود نوٹس کی سماعت کی، سماعت کے دوران ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ کیس کی تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں، مکمل چالان کل جمع کروائیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بچوں سے گھروں میں کام کروانا بڑا مسئلہ ہے، ایسے معاملات کودبانے کی کوشش کی جاتی ہے، بڑا معاملہ یہ ہے کہ وہ بچیاں جوگھروں میں کام کرتی ہیں ان کے لیے کیا قانون سازی ہوئی، یہ بچے کہاں سے آتے ہیں اورانہیں ملازمت پرکون رکھواتا ہے۔
عاصمہ جہانگیرنے عدالت کے سامنے موقف اختیارکیا کہ بچوں پرتشدد ایک بہت بڑا ظلم ہے، فیصل آباد کی جس خاتون کا نام سامنے آیا اس کی تحقیق نہیں ہوئی، دیکھنا ہوگا کہ اس سارے نیٹ ورک کو کون چلاتا ہے، اسی طرح کا ایک کیس لاہور میں بھی سامنے آیا ہے، بہت ساری چیزیں ہیں جوآپ نہیں کرسکتے، قانون سازی پارلیمنٹ کا کام ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: طیبہ تشدد کیس؛ پولیس کو 10 دن میں تفتیش مکمل کرنے کا حکم
چیف جسٹس نے عاصمہ جہانگیرسے استفسار کیا کہ کیا آپ چاہتی ہیں اس کیس کو پنجاب میں کسی مجسٹریٹ کے سامنے بھیج دیں، اسلام آباد کے ویسٹ یا ایسٹ کے کسی جج کے پاس معاملہ بھیج دیں۔ ملزمہ خاتون کے شوہر واقعتاً ایک جوڈیشل افسرہیں، یہ معاملہ دیکھیں گے کہ آیا ملزمہ خاتون اوراس کے شوہر کے خلاف کریمنل مقدمہ چلایا جائے، یہ بھی دیکھیں گے عام قانون کے تحت اس مقدمے کو نمٹائیں یا غیرمعمولی قدم اٹھائیں، آج طیبہ کیس میں ہم نے اختیارات سے تجاوز کیا تو کل اوربھی درخواستیں آجائیں گی۔
عاصمہ جہانگیرنے کہا کہ ہم چاہتے ہیں ایسا کیس دوبارہ نہ ہو، کیس سے لوگوں کی معلومات میں اضافہ ہونا چاہیے۔ ہم تو اس حق میں ہیں کہ ملزمان کوسزا ملے، اس کیس سے یہ ثابت ہوا کہ ملزم کو ماتحت عدالت سے پس پردہ تحفظ دیا گیا، اس مقدمہ میں تو دفعہ 370 بھی عائد ہوتی ہے، کسی کو مارنا اورجلا دینا کیسے قابل ضمانت ہوسکتا ہے، جب بچی کو جلایا تو کیا بچی کی زندگی کو خطرہ لاحق نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پولیس نے ماہین ظفرکی ضمانت کے بعد مقدمے میں مزید دو دفعات شامل کی ہیں جس کے تحت اس نے ضمانت حاصل نہیں کی، جہاں تک معاملہ ناقابل ضمانت دفعات شامل کرنے کا ہے تو وہ ٹرائل کورٹ کا جج شامل کرسکتا ہے، معاملہ پولیس کے سامنے ہے کہ ماہین نے کن دفعات پر ضمانت لے رکھی ہے، جن دفعات پرضمانت نہیں ان پرقانون اپنا راستہ خود بنائے گا، گرفتار ہوں گے تو خود ہی ضمانت بھی لیں گے۔ کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے ہوگی۔