ارتکازِدولت
قومی نموکا بے چارے مزدور طبقے کوکوئی فائدہ نہیں پہنچتا
دنیا کی دولت سمٹ کر چند ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔گزشتہ دنوں ایکسپریس نیوزخبر دیتا ہے کہ دنیا کی آدھی سے زیادہ دولت پر صرف 8 افراد کا قبضہ ہے۔ سوئزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں جاری عالمی اقتصادی فورم میں ایک رپورٹ پیش کی گئی جس کے مطابق دنیا کے8 امیر ترین افراد مجموعی طور پر 426 بلین ڈالر کے مالک ہیں۔ یہ دنیا کی آدھی سے زیادہ دولت بنتی ہے۔ دنیا کے امیر ترین افرادکی فہرست میں مائیکرو سوفٹ کے بانی بل گیٹس 75 ارب ڈالرکے ساتھ پہلے نمبر پر ہیں۔ اسپین کے امانسیوآرٹیگا 67 ارب ڈالر کے ساتھ دوسرے نمبر پر۔ امریکا کے وارن بفٹ (بفٹو لوجی کے بانی، دنیا کے پہلے نمبرکے امیر بھی رہے ہیں) 60.8 ارب ڈالر کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔ وغیرہ۔
اصلاً یہ رپورٹ آکس فام (آکسفورڈ کمیٹی فار فیمائن ریلیف) کی ہے۔ آکس فام مختلف فلاحی تنظیموں کا ایک اتحاد ہے جو عالمی سطح پر تخفیف غربت کے لیے کوشاں ہے۔ یہ ادارہ 1942ء میں قائم ہوا تھا، لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق عالمی سطح پر بھوک،افلاس، غربت اور عدم ِ مساوات بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ سبب اِس ناکامی کا ہمارے نزدیک اُسی عطارکے لونڈے سے دوا لینا ہے کہ جس کے سبب یہ مرض لاحق ہوا ہے۔
اپنی فقیدالمثال ناکامیوں سے بے پروا یہ غلط راستے پر ہی سہی لیکن چلے جارہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق امیراورغریب کے درمیان کا بڑھتا ہوا فرق نئی انتہاؤں کوچھورہا ہے۔دنیا کا ایک فی صد امیر طبقہ باقی 99 فی صد آبادی سے زیادہ دولت کا مالک ہے۔ گزشتہ 5 برس میں دنیا کے غریب ترین طبقات کی جیبوں سے1 ٹریلین ڈالر نکالے جاچکے ہیں۔
یہ ہے غربت کے خاتمے کا انجام۔گزشتہ نصف صدی کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ غربت کے خاتمے کی ہر ہرکوشش صرف غریبوں کے خاتمے پر منتج ہونے کے علاوہ کسی اورانجام سے دوچار نہ ہوسکی۔ دنیا بھرکی دولت کا چند ہاتھوں میں جمع ہوجانا، اِس لیے بھی ممکن ہوا کہ دنیا بھر میں سرمائے کے نفع اور اُجرت میںفرق بہت بڑھ گیا۔کئی اورمثالوں کے ساتھ ساتھ اِس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ قریباًتمام ہی ترقی یافتہ ممالک میں اور بیشتر ترقی پزیر ممالک میں یہ دیکھا جا رہا ہے کہ مزدوروں کو ملنے والے قومی آمدنی کے حصے میں مسلسل اور نمایاں کمی آرہی ہے۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ قومی نموکا بے چارے مزدور طبقے کوکوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ البتہ پیسے والے اپنے خزانوں میں خوب اضافہ کرتے ہیں۔ یہ پیسے والے ٹیکس بھی نہیں دیتے یا بہت کم دیتے ہیں اورحکومتیں بھی سرمایہ جاتی فائدے (کیپیٹل گین) پر بہت ہی کم ٹیکس لاگو کرتی ہیں۔یہاں یہ اصول بھی ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ آپ سرمائے پرٹیکسز نہیں لگاتے ہیں۔کیونکہ یہ تو سیال ہے جہاں اِس ہر پابندیاں اور ٹیکسز وغیرہ لگائے گئے، جہاں اِس کی نموکے لیے سازگار اور موافق ماحول میں فرق آیا یہ کہیں اور بہہ جائے گا۔ وارن بفٹ (جو مندرجہ بالا فہرست کے مطابق دنیا کے تیسرے امیرکبیر فرد ہیں)کی یہ بات تو بہت ہی مشہور ہوئی تھی کہ میںاپنے دفتر کے خاکروب، چپراسی اور اپنی سیکریٹری سے بھی کم ٹیکس دیتا ہوں۔
یہ ہی حال تنخواہوں کے فرق کا بھی ہے۔اگر ہم اِسے ارضِ پاک کے تناظر میں سمجھنا چاہیں تو یوں جان لیں کہ ادارے کے سربراہان تو تنخواہ کے علاوہ صرف بونس کی مد میں ہر برس کروڑوں رُپے لے جاتے ہیں جب کہ اُسی ادارے کے سب سے زیریں سطح کے ملازم کے لیے کوئی بونس نہیں۔سربراہ کی تنخواہ امریکی صدرکی تنخواہ سے بھی زیادہ اور زیریں ملازم8000 یا 13000 وغیرہ۔یہ تفاوت مالکان کی آمدنی میں نہیں صرف ملازمین کے درمیان بتایا جا رہا ہے۔ بھارت میںآئی ٹی فرم کے سی ای او وہیں کے دیگر ملازمین کی نسبت 416 گُنا زیادہ تنخواہ لیتے ہیں۔
آج امریکا کے1فی صدامیرافراد وہاں کی34 فی صد دولت کے مالک ہیں، جب کہ امریکا کے10فی صد امیر74 فی صد دولت کے مالک ہیں۔ فرانس میں یہ اعدادوشمارعلی الترتیب24اور 62 فی صد ہیں۔1فی صد امیرسوئزر لینڈ کی35فی صد، سوئیڈن کی 24فی صد اورکینیڈا کی15 فی صد دولت کے مالک ہیں۔
اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہر خاص وعام نے جو جستجو کی وہ حقوقِ ملکیت،آزادی، مساوات،ترقی اور آزاد منڈی کی معیشت کو درست مان کر کی۔ (مثال کے طور پر تھامس پکٹے وغیرہ) معیشت کے فی زمانہ تصورات سے بلند ہوکر مسئلے کو دیکھنے، سمجھنے اوراُس کا حل تلاش کرنے کی کوشش ہی نہیں کہ گئی۔یہی وجہ ہے کہ امیر غریب کا فرق ہرگزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔لوگوں کو بھاری بھرکم اصطلاحات،اعدادو شمارکے گورکھ دھندوں، چارٹس اورگراف کی مدد سے سمجھایا جاتا ہے کہ گزشتہ صدی کے مقابلے میں ہم نے بہت ترقی کرلی ہے۔آج ہمارے پاس اتنا کچھ ہے جس کا پچھلی صدی میں بادشاہ بھی نہ سوچ سکتے تھے۔ہم یہ ساری باتیں مانتے چلے جاتے ہیں۔
ظاہر ہے سکندرِاعظم سے لے کر بہادرشاہ ظفر تک کسی کے گھر میں بھی نہ فرج تھا نہ اے سی، اسمارٹ فون کا تو تصور ہی نہ تھا۔آج کا تو سبزی فروش بھی واٹس ایپ جانتا ہے۔ اِس سب کے با وجود ہمارے دل میں کچھ کھٹکتا بھی رہتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک عام آدمی سوال کرتا ہے کہ ہمارے نانا دادا کے وقت میں بڑے بڑے گھر اور کُنبے ہوا کرتے تھے۔ایک فرد کماتا تھا اور بیسیوں کھاتے تھے۔ مرزا غالبؔ ایسے نہ معلوم کتنے افراد بغیر کوئی کام کیے وظائف پر بسرکرتے تھے۔آج گھرکا ہر فرد کام پر جاتا ہے اورگزارا پھر بھی نہیں ہوتا،کیوں؟
یوں تو امیر غریب ہردور میں ہوتے تھے لیکن اُن کے درمیان اتنا بڑا تفاوت کبھی نہ تھا جو آج ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آج کا امیر ترین فرد بِل گیٹس اگر اپنی تمام تردولت کیش کروالے اور پھر روزانہ 10لاکھ ڈالر خرچ کرے۔کتنے؟ دس لاکھ ڈالر روزانہ تو تمام کیش ختم ہونے میں قریبا ًسوا دو سوسال کا وقت درکار ہوگا۔ کالونیل ازم کے خاتمے پر یا 1960ء کی دہائی کے اختتام تک یہ تفاوت 35گُنا تھا۔آج یہ فرق80گُنا سے بھی بڑھ کر ہے۔
امیر ممالک غریب ممالک کوامداد دیتے ہیں۔یہ بھی ایک دھوکا ہے۔امداد کے نام پر جو بھیک دی جاتی ہے وہ130 بلین ڈالر ہے، لیکن اِن غریب ممالک سے کارپوریٹ سیکٹر 900 بلین ڈالر سے بھی زائد ہر برس بٹورکر لے جاتا ہے۔ غریب ممالک 600 بلین ڈالر سے بھی زائد ہر برس قرضوں کے سود درسود کی مد میں، نیز مختلف جرمانوںکی مد میں امیر ممالک کودیتے ہیں۔ صرف یہی نہیںمزید500 بلین سستی لیبر اور دیگر مدات میں امیر ممالک منتقل ہوتے ہیں۔ غرض130بلین ڈالر کے عوض امیر ممالک ہر برس 2ٹریلین ڈالر غریب ممالک سے ہتھیا لیتے ہیں۔
آج کے قارون نے دولت کے جوانبار جمع کرلیے ہیں، اصل قارون کے دور میں توکیا اب سے 200 برس قبل بھی یہ ممکن نہیں تھا۔شناخت کا مسئلہ ہے،آج کا قارون وہ نہیں جس نے ارتکاز دولت کیا ہے،آج کا قارون وہ نظام ہے جس کے ذریعے دولت سمٹ کر چند ہاتھوں میں مرتکز ہونا ممکن ہو سکا ہے۔
اصلاً یہ رپورٹ آکس فام (آکسفورڈ کمیٹی فار فیمائن ریلیف) کی ہے۔ آکس فام مختلف فلاحی تنظیموں کا ایک اتحاد ہے جو عالمی سطح پر تخفیف غربت کے لیے کوشاں ہے۔ یہ ادارہ 1942ء میں قائم ہوا تھا، لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق عالمی سطح پر بھوک،افلاس، غربت اور عدم ِ مساوات بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ سبب اِس ناکامی کا ہمارے نزدیک اُسی عطارکے لونڈے سے دوا لینا ہے کہ جس کے سبب یہ مرض لاحق ہوا ہے۔
اپنی فقیدالمثال ناکامیوں سے بے پروا یہ غلط راستے پر ہی سہی لیکن چلے جارہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق امیراورغریب کے درمیان کا بڑھتا ہوا فرق نئی انتہاؤں کوچھورہا ہے۔دنیا کا ایک فی صد امیر طبقہ باقی 99 فی صد آبادی سے زیادہ دولت کا مالک ہے۔ گزشتہ 5 برس میں دنیا کے غریب ترین طبقات کی جیبوں سے1 ٹریلین ڈالر نکالے جاچکے ہیں۔
یہ ہے غربت کے خاتمے کا انجام۔گزشتہ نصف صدی کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ غربت کے خاتمے کی ہر ہرکوشش صرف غریبوں کے خاتمے پر منتج ہونے کے علاوہ کسی اورانجام سے دوچار نہ ہوسکی۔ دنیا بھرکی دولت کا چند ہاتھوں میں جمع ہوجانا، اِس لیے بھی ممکن ہوا کہ دنیا بھر میں سرمائے کے نفع اور اُجرت میںفرق بہت بڑھ گیا۔کئی اورمثالوں کے ساتھ ساتھ اِس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ قریباًتمام ہی ترقی یافتہ ممالک میں اور بیشتر ترقی پزیر ممالک میں یہ دیکھا جا رہا ہے کہ مزدوروں کو ملنے والے قومی آمدنی کے حصے میں مسلسل اور نمایاں کمی آرہی ہے۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ قومی نموکا بے چارے مزدور طبقے کوکوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ البتہ پیسے والے اپنے خزانوں میں خوب اضافہ کرتے ہیں۔ یہ پیسے والے ٹیکس بھی نہیں دیتے یا بہت کم دیتے ہیں اورحکومتیں بھی سرمایہ جاتی فائدے (کیپیٹل گین) پر بہت ہی کم ٹیکس لاگو کرتی ہیں۔یہاں یہ اصول بھی ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ آپ سرمائے پرٹیکسز نہیں لگاتے ہیں۔کیونکہ یہ تو سیال ہے جہاں اِس ہر پابندیاں اور ٹیکسز وغیرہ لگائے گئے، جہاں اِس کی نموکے لیے سازگار اور موافق ماحول میں فرق آیا یہ کہیں اور بہہ جائے گا۔ وارن بفٹ (جو مندرجہ بالا فہرست کے مطابق دنیا کے تیسرے امیرکبیر فرد ہیں)کی یہ بات تو بہت ہی مشہور ہوئی تھی کہ میںاپنے دفتر کے خاکروب، چپراسی اور اپنی سیکریٹری سے بھی کم ٹیکس دیتا ہوں۔
یہ ہی حال تنخواہوں کے فرق کا بھی ہے۔اگر ہم اِسے ارضِ پاک کے تناظر میں سمجھنا چاہیں تو یوں جان لیں کہ ادارے کے سربراہان تو تنخواہ کے علاوہ صرف بونس کی مد میں ہر برس کروڑوں رُپے لے جاتے ہیں جب کہ اُسی ادارے کے سب سے زیریں سطح کے ملازم کے لیے کوئی بونس نہیں۔سربراہ کی تنخواہ امریکی صدرکی تنخواہ سے بھی زیادہ اور زیریں ملازم8000 یا 13000 وغیرہ۔یہ تفاوت مالکان کی آمدنی میں نہیں صرف ملازمین کے درمیان بتایا جا رہا ہے۔ بھارت میںآئی ٹی فرم کے سی ای او وہیں کے دیگر ملازمین کی نسبت 416 گُنا زیادہ تنخواہ لیتے ہیں۔
آج امریکا کے1فی صدامیرافراد وہاں کی34 فی صد دولت کے مالک ہیں، جب کہ امریکا کے10فی صد امیر74 فی صد دولت کے مالک ہیں۔ فرانس میں یہ اعدادوشمارعلی الترتیب24اور 62 فی صد ہیں۔1فی صد امیرسوئزر لینڈ کی35فی صد، سوئیڈن کی 24فی صد اورکینیڈا کی15 فی صد دولت کے مالک ہیں۔
اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہر خاص وعام نے جو جستجو کی وہ حقوقِ ملکیت،آزادی، مساوات،ترقی اور آزاد منڈی کی معیشت کو درست مان کر کی۔ (مثال کے طور پر تھامس پکٹے وغیرہ) معیشت کے فی زمانہ تصورات سے بلند ہوکر مسئلے کو دیکھنے، سمجھنے اوراُس کا حل تلاش کرنے کی کوشش ہی نہیں کہ گئی۔یہی وجہ ہے کہ امیر غریب کا فرق ہرگزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔لوگوں کو بھاری بھرکم اصطلاحات،اعدادو شمارکے گورکھ دھندوں، چارٹس اورگراف کی مدد سے سمجھایا جاتا ہے کہ گزشتہ صدی کے مقابلے میں ہم نے بہت ترقی کرلی ہے۔آج ہمارے پاس اتنا کچھ ہے جس کا پچھلی صدی میں بادشاہ بھی نہ سوچ سکتے تھے۔ہم یہ ساری باتیں مانتے چلے جاتے ہیں۔
ظاہر ہے سکندرِاعظم سے لے کر بہادرشاہ ظفر تک کسی کے گھر میں بھی نہ فرج تھا نہ اے سی، اسمارٹ فون کا تو تصور ہی نہ تھا۔آج کا تو سبزی فروش بھی واٹس ایپ جانتا ہے۔ اِس سب کے با وجود ہمارے دل میں کچھ کھٹکتا بھی رہتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک عام آدمی سوال کرتا ہے کہ ہمارے نانا دادا کے وقت میں بڑے بڑے گھر اور کُنبے ہوا کرتے تھے۔ایک فرد کماتا تھا اور بیسیوں کھاتے تھے۔ مرزا غالبؔ ایسے نہ معلوم کتنے افراد بغیر کوئی کام کیے وظائف پر بسرکرتے تھے۔آج گھرکا ہر فرد کام پر جاتا ہے اورگزارا پھر بھی نہیں ہوتا،کیوں؟
یوں تو امیر غریب ہردور میں ہوتے تھے لیکن اُن کے درمیان اتنا بڑا تفاوت کبھی نہ تھا جو آج ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آج کا امیر ترین فرد بِل گیٹس اگر اپنی تمام تردولت کیش کروالے اور پھر روزانہ 10لاکھ ڈالر خرچ کرے۔کتنے؟ دس لاکھ ڈالر روزانہ تو تمام کیش ختم ہونے میں قریبا ًسوا دو سوسال کا وقت درکار ہوگا۔ کالونیل ازم کے خاتمے پر یا 1960ء کی دہائی کے اختتام تک یہ تفاوت 35گُنا تھا۔آج یہ فرق80گُنا سے بھی بڑھ کر ہے۔
امیر ممالک غریب ممالک کوامداد دیتے ہیں۔یہ بھی ایک دھوکا ہے۔امداد کے نام پر جو بھیک دی جاتی ہے وہ130 بلین ڈالر ہے، لیکن اِن غریب ممالک سے کارپوریٹ سیکٹر 900 بلین ڈالر سے بھی زائد ہر برس بٹورکر لے جاتا ہے۔ غریب ممالک 600 بلین ڈالر سے بھی زائد ہر برس قرضوں کے سود درسود کی مد میں، نیز مختلف جرمانوںکی مد میں امیر ممالک کودیتے ہیں۔ صرف یہی نہیںمزید500 بلین سستی لیبر اور دیگر مدات میں امیر ممالک منتقل ہوتے ہیں۔ غرض130بلین ڈالر کے عوض امیر ممالک ہر برس 2ٹریلین ڈالر غریب ممالک سے ہتھیا لیتے ہیں۔
آج کے قارون نے دولت کے جوانبار جمع کرلیے ہیں، اصل قارون کے دور میں توکیا اب سے 200 برس قبل بھی یہ ممکن نہیں تھا۔شناخت کا مسئلہ ہے،آج کا قارون وہ نہیں جس نے ارتکاز دولت کیا ہے،آج کا قارون وہ نظام ہے جس کے ذریعے دولت سمٹ کر چند ہاتھوں میں مرتکز ہونا ممکن ہو سکا ہے۔