عالمی گاؤں اور بیگانگی تیسرا حصہ
ریاستیں بھی اب چار ستونوں کی دست نگر بن چکی ہیں
HYDERABAD:
ناگزیر پہلو: عالم انسانیت اپنے موجودہ ارتقائی مرحلے میں ٹھوس مادی بنیادوں پر بالکل اسی طرح خود کوعاقل وبالغ منوانے لگی ہے کہ جس طرح اس گاؤں کے معمارملکوں اوران کے مقلد تمدنی معاشروںکے بچے خود کو I Am Young 18 منواتے آئے ہیں ۔
یعنی ماضی کی تہذیبوں میں مطلق العنانیت کے جو اختیارات دیوتاؤں جیسے حکمرانوں کو حاصل تھے، اب ان کا لگ بھگ خاتمہ ہو چکا ہے چونکہ ان قدیم نظریات میں اختیارات کا سب سے بڑا چشمہ مافوق الفطرت تصور سے پھوٹتا ہوا نظر آتا ہے جوکہ عام انسانوں کوخدائی اختیارات سے غلام بنائے رکھنے کی حامل تہذیب فراعین یا پھر دیوتائی تہذیبوں کو جنم دینے کا سبب بنے ہوئے تھے۔اس لیے اس دورکے حکمران ایک ہی وقت میں عدلیہ، مقننہ اور فوجی سربراہ کے طور پر تاریخ کے اوراق میں ریاستوں اور تہذیبوں کے محافظ کاربنے نظرآتے ہیں ۔ شاید اسی لیے قدیم تہذیبوں وتمدنی نظاموں کا عرصہ صدیوں کے تسلسل میں قائم ودائم رہتا نظر آتا ہے ، لیکن موجودہ مرحلے پرطاقت کا سرچشمہ عوام اورGoldکو مانا جاتا ہے۔
ریاستیں بھی اب چار ستونوں کی دست نگر بن چکی ہیں، کیونکہ اب عام انسان حکومتی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالنے لگے ہیں۔ یعنی افراد صرف ووٹ دینے کی حد تک مضبوط تو ہوئے ہیں لیکن ریاستیں اور تہذیبیں کمزور پڑنے لگی ہیں، جب کہ موجودہ مرحلے پر جمہوریت کے باعث حکومتیں صرف چند برسوں کے لیے منتخب کی جاتی ہیں۔ تاکہ مطلق العنانیت، آمریت اور ڈکٹیٹرشپ کے امکانات کا سدباب کیا جانا ممکن بنے اورعام انسانوں میں فکری طور احساس غلامی پیدا نہ ہو جب کہ ریاستی انتظامیہ پر افرادی سطح کی طاقت وقوت بڑھ جانے کے نتیجے میں ریاستیں لاغروکمزور پڑچکی ہیں ، چونکہ موجودہ ترقی یافتہ دور Live Showکا دور بن چکا ہے۔
اس لیے تمام شعبہ ہائے زندگی بھی آن لائن ہوتے جارہے ہیں ۔یعنی موجودہ ترقی نے پیزا سے لے کر تعلیم تک ہر ایک چیز کوافراد تک پہنچانے کا بندوبست کرکے ''بیچ کی تمام واسطہ داری'' کا خاتمہ کردیا ہے ،جس کے نتیجے میں افراد ہوں یا ریاستیں اس عالمی گاؤں اور ترقی کے معماروں سے محتاجی کی حد تک منسلک ہوچکی ہیں۔ اس بیچ کی واسطہ داری میں بڑے بڑے ہول سیلرز اور ریٹیلرز سے لے کر ریاستوں وتہذیبوں تک کو بھی گنوایا جائے تو شاید اس میں کوئی مضائقہ نہ ہوگا۔ یعنی ماضی میں جن لوازمات حیات و معاشرہ سے خدائی اختیارات رکھنے والے فراعین تک بھی محروم تھے وہ لوازمات موجودہ ترقی نے اپنے زیر تسلط کیے ہوئے ہیں ۔
شاید اسی لیے ہر ایک انسان'' ننھا منا راہی ہوں ، ترقی کا سپاہی ہوں ''کی عملی شکل بنا ہوا نظر آنے لگا ہے ، جب کہ معروضی طور پر آج وسائل حیات اتنے ناپید ہوچکے ہیں کہ افراد تو اپنی جگہ ریاستیں تک اس ترقی کے معماروں کی دست نگر بن کر رہ گئی ہیں۔بلاشبہ ان لوگوں نے بہت ہی جگر سوزیوں کے بعد اس حکمت عملی کو ترتیب دیاہوگا اور اپنی بہترین منصوبہ بندی پر پرخلوص انداز میں عمل پیرا ہوکر اس منز ل کو حاصل کیا ہواہے ۔چونکہ اب ہم اس عالمی گاؤں کے ایک محلے دار کی حیثیت رکھتے ہیں ،چونکہ اس عالمی گاؤں کا ہر ایک مسئلہ انسانوں کے عالم گیر داخلی مسئلے کی شکل اختیارکرچکا ہے ۔
عالمی گاؤں کی اجتماعی ترقی و مفادات کو نظر اندازکیے بغیر اب انفرادی اور قومی سطح کے فیصلے کرنا دور رس فوائد سے محروم ہونے لگے ہیں ۔اس لیے اس ترقی وجدید یت کی معمار قوم کی تاریخ ، تہذیب ، تمدنی نظام سمیت ان کی ترجیحات و ترغیبات اور معروضی حقائق کے پیش نظر اس قوم میں ''تحریف کی تغیر پذیر ومحبوب ترین روش'' کو سمجھنا بھی ناگذیر بن چکا ہے۔ تاکہ اس کی روشنی میں اقوام کی قدیم تہذیبوں اور عالم انسانیت کے ارتقائی مراحل کو سمجھنے اور جدید ترقی کے منتہائی نتائج بیان کرنے میں آسانی میسر ہو سکے۔ امتیازی خصوصیات :عالم انسانیت کی موجودہ گروہی تقسیم کی یہ واحد قوم ہے جس کی فردی ابتداء سے تاریخ کے تمام طالب علم واقفیت رکھتے ہیں۔
وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ان کے جد امجد جناب ابراہیم نبی ؑکو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوںؑ نے قبل از تاریخ سے نشوونماء پاتے آنیوالے معاشروں ،تہذیبی وتمدنی نظاموںکا معلوم تاریخ میں ٹھوس مادی بنیادوں پر مشاہدہ کیا اور ان کے نتائج بھی بیان کیے۔جن کی روشنی میں اپنے دو بیٹوں جناب اسحاق نبی ؑاور ان کی اولادوں کے لیے تہذیب بیت المقدس اورجناب اسماعیل نبی ؑاور ان کی اولادوں کے لیے تہذیب خانہ کعبہ کی بنیادیں رکھیں۔جناب ابراہیم ؑوہ پہلے انسان تھے جنہوں ؑ نے کرہ ارض کوامن وسکون کا گہوارہ بنائے جانے کے لیے عالم انسانیت کے فطری وجبلی جذبوں کی روشنی میں انتظام معاشرت کے بنیادی اصول مرتب کیے اور واضح کیا کہ انسانوں کے معاشرتی نظام کے فطرت کائنات پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
پوری دنیا نے دیکھاکہ کرہ ارض کی وسعتیں سمٹ جانے اور دنیا کے عالمی گاؤں بن جانے کے مرحلے پرخود انسان کی ایجادات ہی کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلیوں نے عالم انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ۔ انھوں ؑنے اپنی تحقیقات کو سمجھانے کے لیے کوئی مافوق الفطرت شرائط عائد کرنے کی بجائے اپنی اولاد ہی کو مثال بنا کر عالم انسانیت کے اس جدیدگاؤں کے مرحلے تک کی تاریخ ہی کو اپنی تجربہ گاہ قرار دیا ہواہے۔ جس کی روشنی میں اقوام عالم خود اپنے معاشروں میں ظاہر ہونے والی مادی علامتوں کو بہت ہی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں اور اپنی حقیقی بقاء کی جانب گامزن ہونے کا سامان کرسکتے ہیں۔
چونکہ یورپی نشاۃ ثانیہ کے بعد فکروتدبر اور مہذبانہ اطوار وانداز میں مغربی انسان خود کو لاثانی منواتے آئے ہیں ، لیکن ان کی تاریخ میں Robin نامی ایک چور ہیرو کے طور پر ملتا ہے ، جب کہ شہزوری اور جسمانی طاقت کی بنیادوں پر جناب ابراہیم نبیؑ کی تیسری نسل سے تعلق رکھنے والے دس بھائیوں میں بھی یہی جذبہ موجزن ملتا ہے۔
جس کا پہلا شکا ر خود ان ہی کا بھائی اور باپ بنا اورانسان کے اس جبلی جذبے کے بے قابو ہونے کے حتمی نتائج کے طور پر قدیم ارض کنعان (فلسطین) میں معلوم تاریخ کا پہلا ''اولڈ ایج ہوم''بنا۔ جب کہ انسان کے اس جبلی جذبے کے شکار بھائی نے اپنے جد امجدکی تعلیمات و تحقیقات پر عمل کر کے شہزوروں کی سرزمین فراعین پر ایک زرخرید غلام کی حیثیت سے وہاں رائج ترقی کے تمام معیاروں کو غیر پائیدار ثابت کیا کہ جو اس وقت ظاہر ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کو ضابطے میں لانے اور عالم انسانیت کی بقاء کا سامان کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے تھے۔
(جاری ہے)
ناگزیر پہلو: عالم انسانیت اپنے موجودہ ارتقائی مرحلے میں ٹھوس مادی بنیادوں پر بالکل اسی طرح خود کوعاقل وبالغ منوانے لگی ہے کہ جس طرح اس گاؤں کے معمارملکوں اوران کے مقلد تمدنی معاشروںکے بچے خود کو I Am Young 18 منواتے آئے ہیں ۔
یعنی ماضی کی تہذیبوں میں مطلق العنانیت کے جو اختیارات دیوتاؤں جیسے حکمرانوں کو حاصل تھے، اب ان کا لگ بھگ خاتمہ ہو چکا ہے چونکہ ان قدیم نظریات میں اختیارات کا سب سے بڑا چشمہ مافوق الفطرت تصور سے پھوٹتا ہوا نظر آتا ہے جوکہ عام انسانوں کوخدائی اختیارات سے غلام بنائے رکھنے کی حامل تہذیب فراعین یا پھر دیوتائی تہذیبوں کو جنم دینے کا سبب بنے ہوئے تھے۔اس لیے اس دورکے حکمران ایک ہی وقت میں عدلیہ، مقننہ اور فوجی سربراہ کے طور پر تاریخ کے اوراق میں ریاستوں اور تہذیبوں کے محافظ کاربنے نظرآتے ہیں ۔ شاید اسی لیے قدیم تہذیبوں وتمدنی نظاموں کا عرصہ صدیوں کے تسلسل میں قائم ودائم رہتا نظر آتا ہے ، لیکن موجودہ مرحلے پرطاقت کا سرچشمہ عوام اورGoldکو مانا جاتا ہے۔
ریاستیں بھی اب چار ستونوں کی دست نگر بن چکی ہیں، کیونکہ اب عام انسان حکومتی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالنے لگے ہیں۔ یعنی افراد صرف ووٹ دینے کی حد تک مضبوط تو ہوئے ہیں لیکن ریاستیں اور تہذیبیں کمزور پڑنے لگی ہیں، جب کہ موجودہ مرحلے پر جمہوریت کے باعث حکومتیں صرف چند برسوں کے لیے منتخب کی جاتی ہیں۔ تاکہ مطلق العنانیت، آمریت اور ڈکٹیٹرشپ کے امکانات کا سدباب کیا جانا ممکن بنے اورعام انسانوں میں فکری طور احساس غلامی پیدا نہ ہو جب کہ ریاستی انتظامیہ پر افرادی سطح کی طاقت وقوت بڑھ جانے کے نتیجے میں ریاستیں لاغروکمزور پڑچکی ہیں ، چونکہ موجودہ ترقی یافتہ دور Live Showکا دور بن چکا ہے۔
اس لیے تمام شعبہ ہائے زندگی بھی آن لائن ہوتے جارہے ہیں ۔یعنی موجودہ ترقی نے پیزا سے لے کر تعلیم تک ہر ایک چیز کوافراد تک پہنچانے کا بندوبست کرکے ''بیچ کی تمام واسطہ داری'' کا خاتمہ کردیا ہے ،جس کے نتیجے میں افراد ہوں یا ریاستیں اس عالمی گاؤں اور ترقی کے معماروں سے محتاجی کی حد تک منسلک ہوچکی ہیں۔ اس بیچ کی واسطہ داری میں بڑے بڑے ہول سیلرز اور ریٹیلرز سے لے کر ریاستوں وتہذیبوں تک کو بھی گنوایا جائے تو شاید اس میں کوئی مضائقہ نہ ہوگا۔ یعنی ماضی میں جن لوازمات حیات و معاشرہ سے خدائی اختیارات رکھنے والے فراعین تک بھی محروم تھے وہ لوازمات موجودہ ترقی نے اپنے زیر تسلط کیے ہوئے ہیں ۔
شاید اسی لیے ہر ایک انسان'' ننھا منا راہی ہوں ، ترقی کا سپاہی ہوں ''کی عملی شکل بنا ہوا نظر آنے لگا ہے ، جب کہ معروضی طور پر آج وسائل حیات اتنے ناپید ہوچکے ہیں کہ افراد تو اپنی جگہ ریاستیں تک اس ترقی کے معماروں کی دست نگر بن کر رہ گئی ہیں۔بلاشبہ ان لوگوں نے بہت ہی جگر سوزیوں کے بعد اس حکمت عملی کو ترتیب دیاہوگا اور اپنی بہترین منصوبہ بندی پر پرخلوص انداز میں عمل پیرا ہوکر اس منز ل کو حاصل کیا ہواہے ۔چونکہ اب ہم اس عالمی گاؤں کے ایک محلے دار کی حیثیت رکھتے ہیں ،چونکہ اس عالمی گاؤں کا ہر ایک مسئلہ انسانوں کے عالم گیر داخلی مسئلے کی شکل اختیارکرچکا ہے ۔
عالمی گاؤں کی اجتماعی ترقی و مفادات کو نظر اندازکیے بغیر اب انفرادی اور قومی سطح کے فیصلے کرنا دور رس فوائد سے محروم ہونے لگے ہیں ۔اس لیے اس ترقی وجدید یت کی معمار قوم کی تاریخ ، تہذیب ، تمدنی نظام سمیت ان کی ترجیحات و ترغیبات اور معروضی حقائق کے پیش نظر اس قوم میں ''تحریف کی تغیر پذیر ومحبوب ترین روش'' کو سمجھنا بھی ناگذیر بن چکا ہے۔ تاکہ اس کی روشنی میں اقوام کی قدیم تہذیبوں اور عالم انسانیت کے ارتقائی مراحل کو سمجھنے اور جدید ترقی کے منتہائی نتائج بیان کرنے میں آسانی میسر ہو سکے۔ امتیازی خصوصیات :عالم انسانیت کی موجودہ گروہی تقسیم کی یہ واحد قوم ہے جس کی فردی ابتداء سے تاریخ کے تمام طالب علم واقفیت رکھتے ہیں۔
وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ان کے جد امجد جناب ابراہیم نبی ؑکو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوںؑ نے قبل از تاریخ سے نشوونماء پاتے آنیوالے معاشروں ،تہذیبی وتمدنی نظاموںکا معلوم تاریخ میں ٹھوس مادی بنیادوں پر مشاہدہ کیا اور ان کے نتائج بھی بیان کیے۔جن کی روشنی میں اپنے دو بیٹوں جناب اسحاق نبی ؑاور ان کی اولادوں کے لیے تہذیب بیت المقدس اورجناب اسماعیل نبی ؑاور ان کی اولادوں کے لیے تہذیب خانہ کعبہ کی بنیادیں رکھیں۔جناب ابراہیم ؑوہ پہلے انسان تھے جنہوں ؑ نے کرہ ارض کوامن وسکون کا گہوارہ بنائے جانے کے لیے عالم انسانیت کے فطری وجبلی جذبوں کی روشنی میں انتظام معاشرت کے بنیادی اصول مرتب کیے اور واضح کیا کہ انسانوں کے معاشرتی نظام کے فطرت کائنات پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
پوری دنیا نے دیکھاکہ کرہ ارض کی وسعتیں سمٹ جانے اور دنیا کے عالمی گاؤں بن جانے کے مرحلے پرخود انسان کی ایجادات ہی کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلیوں نے عالم انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ۔ انھوں ؑنے اپنی تحقیقات کو سمجھانے کے لیے کوئی مافوق الفطرت شرائط عائد کرنے کی بجائے اپنی اولاد ہی کو مثال بنا کر عالم انسانیت کے اس جدیدگاؤں کے مرحلے تک کی تاریخ ہی کو اپنی تجربہ گاہ قرار دیا ہواہے۔ جس کی روشنی میں اقوام عالم خود اپنے معاشروں میں ظاہر ہونے والی مادی علامتوں کو بہت ہی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں اور اپنی حقیقی بقاء کی جانب گامزن ہونے کا سامان کرسکتے ہیں۔
چونکہ یورپی نشاۃ ثانیہ کے بعد فکروتدبر اور مہذبانہ اطوار وانداز میں مغربی انسان خود کو لاثانی منواتے آئے ہیں ، لیکن ان کی تاریخ میں Robin نامی ایک چور ہیرو کے طور پر ملتا ہے ، جب کہ شہزوری اور جسمانی طاقت کی بنیادوں پر جناب ابراہیم نبیؑ کی تیسری نسل سے تعلق رکھنے والے دس بھائیوں میں بھی یہی جذبہ موجزن ملتا ہے۔
جس کا پہلا شکا ر خود ان ہی کا بھائی اور باپ بنا اورانسان کے اس جبلی جذبے کے بے قابو ہونے کے حتمی نتائج کے طور پر قدیم ارض کنعان (فلسطین) میں معلوم تاریخ کا پہلا ''اولڈ ایج ہوم''بنا۔ جب کہ انسان کے اس جبلی جذبے کے شکار بھائی نے اپنے جد امجدکی تعلیمات و تحقیقات پر عمل کر کے شہزوروں کی سرزمین فراعین پر ایک زرخرید غلام کی حیثیت سے وہاں رائج ترقی کے تمام معیاروں کو غیر پائیدار ثابت کیا کہ جو اس وقت ظاہر ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کو ضابطے میں لانے اور عالم انسانیت کی بقاء کا سامان کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے تھے۔
(جاری ہے)