دل کے مریضوں کو غیر رجسٹرڈ اسٹنٹ لگائے جانے کا انکشاف

بیرون ممالک سے بیشتر افراد اسٹنٹ لاکر مہنگے داموں فروخت بھی کررہے ہیں، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے

معالجین اپنی مرضی کے مطابق مریضوں سے اسٹنٹ کی رقم وصول کرتے ہیں، دل کے مریضوں سے لاکھوں روپے اینٹھ لیے جاتے ہیں۔ فوٹو : فائل

NEW YORK:
پاکستان میں دل کے مریضوں میں انجیوپلاسٹی کے دوران بند شریان میں لگائے جانے والے اسٹنٹ پاکستان میں رجسٹرڈ نہیں،پاکستان میں بیشتر طبی آلات بھی رجسٹریشن کے بغیر مریضوں پر استعمال کیے جارہے ہیں،دل کے مریضوں سے لاکھوں روپے اینٹھ لیے جاتے ہیں،منظم گروہ دبئی، چین سمیت دیگر ممالک سے اسٹنٹ سمیت دیگر طبی آلات کو اسمگل کرکے غیر قانونی طورپر فروخت کر رہے ہیں۔

مختلف حادثات میں ٹانگ یا بازو ٹوٹنے کی صورت میں استعمال کی جانے والی مخصوص پلیٹس بھی غیررجسٹرڈاستعمال کی جارہی ہیں جبکہ دیگر طبی آلات جو انسانی جسم پراستعمال کیے جاتے ہیں وہ بھی رجسٹرڈ نہیں،18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد وفاقی وزارت صحت کوختم کرکے ادویات اور طبی آلات کی مانیٹرنگ کیلیے خودمختار ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی گئی تھی جس کا کام ادویات سمیت تمام طبی سامان وآلات کی رجسٹریشن اور مانیٹرنگ کرنا ہے لیکن پاکستان میں آج تک کوئی ایسی پالیسی تشکیل نہیں دی جاسکی جس کے تحت مریضوںکودرست اور مستند طبی آلات میسر آسکیں، پاکستان میں قائم کی جانے والی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے خدوخال مرتب کیے جانے کے باوجود وفاق کے ماتحت چلنے والا یہ ادارہ غیر فعال یا بے بس دکھائی دیتا ہے ،طبی آلات کوریگولیٹ کرنے والا ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی3سال گزرنے کے بعد بھی مکمل فعال نہیں کی جاسکی ۔

ڈی آر اے کے قواعد کے مطابق جسم پرکوئی بھی آلہ، شیمپو، بیوٹی کریم سمیت دیگرطبی آلات ڈی آر اے میں رجسٹریشن کرائی جاتی ہے اور اتھارٹی کی ذمے داری ہوتی ہے کہ ان کی قیمتوں کا تعین بھی کرے لیکن اتھارٹی کے غیر فعال ہونے کی وجہ سے بیرون ممالک سے اسمگل شدہ ملٹی وٹامنز ادویات، دودھ،اوردیگر اشیا جوکھائی یا استعمال کی جائے مارکیٹ میں کھلے عام فروخت کی جارہی ہیں،لاہور میں دل کے مریضوں میں انجیوپلاسٹی میں استعمال کیے جانے والے اسٹنٹ کا معاملہ اخبارات میں شائع اور ٹی وی چینلز پرنشر ہونے کے بعد ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سرگرم ہوئی ہے لیکن امراض قلب کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں 500سے زائد کمپنیاں انجیوپلاسٹی کے دوران استعمال ہونے والے اسٹنٹ بنارہی ہیں ان میں سے بعض اسٹنٹ ڈی آر اے سے رجسٹرڈ بتائے جاتے ہیں جبکہ بیشتر اسٹنٹ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی میں رجسٹرڈ ہی نہیں، مریضوںکو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ بند شریان کوکھولنے کیلیے (انجیوپلاسٹی) میں کون سا اسٹنٹ استعمال کیاگیا ہے۔


پاکستان میں انجیوپلاسٹی 3 لاکھ سے8لاکھ روپے تک کی جارہی ہے لیکن ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آج تک اسٹنٹ کے بارے میں کوئی نظام وضع نہیں کرسکی ، پاکستان کے امراض قلب کے معروف اسپتالوں میں معالجین اپنی مرضی کے مطابق مریضوں سے اسٹنٹ کی رقم وصول کرتے ہیں ،ماہرین نے بتایا کہ قوامی ادارہ امراض قلب، کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیزسمیت دیگر اسپتالوں میں اسٹنٹ کے حوالے سے حکومت کی کوئی ہدایت جاری نہیں ،ہر اسپتال کاہر معالج اپنی مرضی کی کمپنی سے اسٹنٹ منگواتا ہے جہاں مبینہ طورپرانھیں مراعات بھی حاصل ہوتی ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بعض افراد غیر قانونی طورپر دبئی، امریکہ سمیت دیگر ممالک کی غیر معروف کمپنیوں کے اسٹنٹ غیر قانونی طور پر اسمگل کرکے بعض دل کے اسپتالوں میں مہنگے داموں فروخت کررہے ہیں ،ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ انجیوپلاسٹی کے دوران بند شریان کوکھولنے کیلیے ڈالے جانے والے اسٹنٹ کے بارے میں مریض اوران کے اہلخانہ لاعلم ہوتے ہیںکہ کونسا اسٹنٹ ڈالا گیا ہے لیکن اکثر معالجین کا کہنا یہی ہوتا ہے کہ میڈیکیٹڈ اسٹنٹ ڈالاگیا جو عام اسٹنٹ کے مقابلے میں مہنگا ہوتا ہے۔

ڈی آر اے کے افسر کے مطابق پاکستان میں 2014 میں ڈی آر اے میں بعض اسٹنٹ رجسٹرڈ کیے گئے تھے لیکن پاکستان کے اسپتالوں میں بیشتر غیر رجسٹرڈ اسٹنٹ استعمال کیے جارہے ہیں جس سے مریض لاعلم ہوتے ہیں،ماہرین کا کہنا تھا کہ ڈی آر اے اپنی ویب سائٹ پر اسٹنٹ سمیت دیگر طبی آلات اور رجسٹرڈ ادویات کی فہرست آویزاں کرے تاکہ مریضوں کو رجسٹرڈ طبی آلات اور ادویات کے بارے میں آگاہی ہوسکے اورایسی ادویات یا جراحی آلات پر پابندی عائد ہے ان کی بھی فہرست آویزاں کی جائے۔
Load Next Story