صاحبان فلاح
اپنے بندوں سے محبت کرنے والوں کا درجہ خالق کائنات کی نظروں میں ان سے بھی زیادہ ہے
KOTRI:
اللہ کے بندوں کی خدمت، ان کے زخموں پر مرہم رکھنا اور ان کے دکھوں کو کم کرنے کے اسباب مہیا کرنا سب کے سب فلاح کے زمرے میں آتے ہیں کہ ان کا بنیادی جوہر نیکی ہے اور اپنے بندوں سے محبت کرنے والوں کا درجہ خالق کائنات کی نظروں میں ان سے بھی زیادہ ہے جو ہمہ وقت اس کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ یہاں مقصد عبادت الٰہی اور خدمت انسانی کا موازنہ نہیں بلکہ صرف اس امر کی نشان دہی ہے کہ
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروّبیاں
یہ انسان نما فرشتے یا فرشتے نما انسان اپنا تعارف آپ ہوتے ہیں کہ یہ رنگ و نسل، قوم، زبان اور جغرافیے کی قید سے آزاد ہوکر اور ان سے اوپر اٹھ کر زندگی گزارتے ہیں۔ سو اگر ان کو نسل انسانی کا مشترکہ سرمایہ اور ورثہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔
چند برس قبل ایک دن باتوں باتوں میں برادرم نصر الصمد قریشی سے جو ایک انشورنس کے سی ای او بن کر دبئی میں بیس پچیس برس کام کرنے کے بعد تازہ تازہ پاکستان آئے تھے، یہ موضوع چھڑ گیا کہ ہمارے بیشتر غیر سرکاری ادارے مختلف حوالوں سے پبلسٹی پر خرچ تو بہت کرتے ہیں مگر ان کا رجحان زیادہ تر مغرب کے قائم کردہ معیارات کی پیروی تک محدود رہتا ہے جو بنیادی طور پر ''گاہک بنیاد'' ہوتی ہے۔
اگر ہمارے جیسے ترقی پذیر اور ایک حد تک پسماندہ، تعلیم سے بہت حد تک محروم اور خود اعتمادی اور اپنی اصل طاقت سے ناواقف معاشروں میں ان وسائل کو قدرے مختلف انداز میں استعمال کیا جائے تو ان سے بہت سے اضافی مگر دور رس فوائد بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
نصر بھائی کے ''کیسے'' کے جواب میں میں نے عرض کیا کہ مثال کے طور پر ہر سال آپ جو ڈائریاں اور کیلنڈر وغیرہ چھاپتے ہیں ان کے ذریعے ہم اپنی نوجوان نسل کی نہ صرف ذہنی تربیت کرسکتے ہیں بلکہ ان کے اندر اتحاد ایمان اور یقین کا وہ پودا بھی لگا سکتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ اس عملی صورت میں پھل پھول سکتا ہے۔ جس کی طرف قائد اور علامہ نے اپنے اپنے انداز میں اشارہ کیا تھا۔
سو تجرباتی طور پر اس کام کا آغاز ایک ٹیبل کیلنڈر سے کیا گیا اور اس کی ایک ایسی تھیم طے کی گئی جس کا مقصد ہمارے اندر اور اردگرد موجود اس صلاحیت اور تہذیبی ورثے کا فروغ ہو جس سے ہمارے عوام بالخصوص نئی نسل تقریباً ناواقف ہے اور یہ کام لگے بندھے طریقوں کے بجائے نئی نسل کی سوچ اور ان کی زبان میں کیا جائے۔ یہ تجربہ بہت کامیاب رہا اور ہر برس پہلے سے مختلف کسی حوالے سے ہمارے معاشرے میں موجود اس اندرونی، ثقافتی اور تاریخی طاقت کے مظاہر کو اجاگر کیا گیا جس پر اس سے قبل مناسب توجہ نہیں دی گئی تھی۔
میرے سامنے اس وقت سال نو یعنی 2017ء کا کیلنڈر ہے جس میں بارہ ایسی شخصیات کو جگہ دی گئی ہے جنھوں نے خدمت خلق کے میدان میں اپنے اپنے انداز میں کار ہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ مزید اچھی بات یہ ہے کہ اس میں جنس، عمر اور شعبے کے حوالے سے کسی قسم کی تقسیم روا نہیں رکھی گئی۔ آئیے سب سے پہلے ان بارہ منتخب افراد کے ناموں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ ان میں زندہ لوگ بھی ہیں اور وہ بھی جو اب جسمانی طور پر تو ہم میں موجود نہیں لیکن جن کا کام انھیں ان کے بعد بھی ہمیشہ زندہ رکھے گا۔
-1 عبدالستار ایدھی
-2 حکیم محمد سعید
-3 اختر حمید خان
-4 عمران خان
-5 ڈاکٹر رتھ کیتھرینا
-6 ڈاکٹر سید ادیب الحسن رضوی
-7 ڈاکٹر محمد امجد ثاقب
-8 محمد رمضان چھیپا
-9 میاں محمد عبدالشکور
-10 مسرت مصباح
-11 ابرار الحق
-12 شہزاد رائے
یہ صف بہت زیادہ طویل بھی ہوسکتی تھی کہ وطن عزیز میں انسانیت کا درد رکھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ابھی بہت سے ایسے شعبے بھی رہ گئے ہیں جن کے نمائندہ لوگوں کو اس فہرست میں جگہ ملنی چاہیے تھی لیکن اصل مسئلہ نام نہیں بلکہ کام شماری ہے۔ یہ سب لوگ مختلف علاقوں، شعبوں اور پیشوں سے تعلق رکھتے ہیں مگر ان کا مشترکہ وصف اور جوہر خدمت انسانی ہی ہے اور یہ سب کے سب پوری قوم کے لیے عمومی اور نوجوان نسل کے لیے بالخصوص رول ماڈل کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان سب کے کریڈٹ پر یوں تو بے شمار خدمات ہیں کہ خدمت خلق ایک وسیع حصار کا نام ہے لیکن اس کے باوجود ان میں سے بیشتر کے ساتھ کوئی ایسا بڑا ادارہ یا کام بھی منسوب ہے جو اب ان کی پہچان بن گیا ہے۔
تفصیل میں جانے کی گنجائش نہیں لیکن ایدھی فاؤنڈیشن، ادارہ ہمدرد اورنگی پائلٹ پراجیکٹ، شوکت خانم میموریل اسپتال، کوڑھ اور جذام، کڈنی سینٹر، اخوت، چھیپا ایمبولینس سروس، الخدمت فاؤنڈیشن، تیزاب سے جلائی گئی عورتوں کی سرجری، سہارا اور زندگی ٹرسٹ ایسے حوالے ہیں جن سے اس کیلنڈرانہ دستاویز میں شامل ان صاحبان فلاح کو بخوبی جانا اور پہچانا جاسکتا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ الفلاح انشورنس کی اس کوشش کا بہت مثبت اور گہرا اثر اب اور جگہوں پر بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔ بہت سے اہل ثروت کے دلوں کو بھی اس نے چھوا ہے اور وہ بھی اب اس طرح کے کسی کام میں حصہ ڈالنے کے لیے آگے آرہے ہیں۔ مجھے یقین ہے اگر اسی طرح سے سب لوگ اپنے اپنے حصے کا چراغ جلائیں گے تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے چاروں طرف روشنی ہی روشنی ہوگی۔
اللہ کے بندوں کی خدمت، ان کے زخموں پر مرہم رکھنا اور ان کے دکھوں کو کم کرنے کے اسباب مہیا کرنا سب کے سب فلاح کے زمرے میں آتے ہیں کہ ان کا بنیادی جوہر نیکی ہے اور اپنے بندوں سے محبت کرنے والوں کا درجہ خالق کائنات کی نظروں میں ان سے بھی زیادہ ہے جو ہمہ وقت اس کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ یہاں مقصد عبادت الٰہی اور خدمت انسانی کا موازنہ نہیں بلکہ صرف اس امر کی نشان دہی ہے کہ
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروّبیاں
یہ انسان نما فرشتے یا فرشتے نما انسان اپنا تعارف آپ ہوتے ہیں کہ یہ رنگ و نسل، قوم، زبان اور جغرافیے کی قید سے آزاد ہوکر اور ان سے اوپر اٹھ کر زندگی گزارتے ہیں۔ سو اگر ان کو نسل انسانی کا مشترکہ سرمایہ اور ورثہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔
چند برس قبل ایک دن باتوں باتوں میں برادرم نصر الصمد قریشی سے جو ایک انشورنس کے سی ای او بن کر دبئی میں بیس پچیس برس کام کرنے کے بعد تازہ تازہ پاکستان آئے تھے، یہ موضوع چھڑ گیا کہ ہمارے بیشتر غیر سرکاری ادارے مختلف حوالوں سے پبلسٹی پر خرچ تو بہت کرتے ہیں مگر ان کا رجحان زیادہ تر مغرب کے قائم کردہ معیارات کی پیروی تک محدود رہتا ہے جو بنیادی طور پر ''گاہک بنیاد'' ہوتی ہے۔
اگر ہمارے جیسے ترقی پذیر اور ایک حد تک پسماندہ، تعلیم سے بہت حد تک محروم اور خود اعتمادی اور اپنی اصل طاقت سے ناواقف معاشروں میں ان وسائل کو قدرے مختلف انداز میں استعمال کیا جائے تو ان سے بہت سے اضافی مگر دور رس فوائد بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
نصر بھائی کے ''کیسے'' کے جواب میں میں نے عرض کیا کہ مثال کے طور پر ہر سال آپ جو ڈائریاں اور کیلنڈر وغیرہ چھاپتے ہیں ان کے ذریعے ہم اپنی نوجوان نسل کی نہ صرف ذہنی تربیت کرسکتے ہیں بلکہ ان کے اندر اتحاد ایمان اور یقین کا وہ پودا بھی لگا سکتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ اس عملی صورت میں پھل پھول سکتا ہے۔ جس کی طرف قائد اور علامہ نے اپنے اپنے انداز میں اشارہ کیا تھا۔
سو تجرباتی طور پر اس کام کا آغاز ایک ٹیبل کیلنڈر سے کیا گیا اور اس کی ایک ایسی تھیم طے کی گئی جس کا مقصد ہمارے اندر اور اردگرد موجود اس صلاحیت اور تہذیبی ورثے کا فروغ ہو جس سے ہمارے عوام بالخصوص نئی نسل تقریباً ناواقف ہے اور یہ کام لگے بندھے طریقوں کے بجائے نئی نسل کی سوچ اور ان کی زبان میں کیا جائے۔ یہ تجربہ بہت کامیاب رہا اور ہر برس پہلے سے مختلف کسی حوالے سے ہمارے معاشرے میں موجود اس اندرونی، ثقافتی اور تاریخی طاقت کے مظاہر کو اجاگر کیا گیا جس پر اس سے قبل مناسب توجہ نہیں دی گئی تھی۔
میرے سامنے اس وقت سال نو یعنی 2017ء کا کیلنڈر ہے جس میں بارہ ایسی شخصیات کو جگہ دی گئی ہے جنھوں نے خدمت خلق کے میدان میں اپنے اپنے انداز میں کار ہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ مزید اچھی بات یہ ہے کہ اس میں جنس، عمر اور شعبے کے حوالے سے کسی قسم کی تقسیم روا نہیں رکھی گئی۔ آئیے سب سے پہلے ان بارہ منتخب افراد کے ناموں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ ان میں زندہ لوگ بھی ہیں اور وہ بھی جو اب جسمانی طور پر تو ہم میں موجود نہیں لیکن جن کا کام انھیں ان کے بعد بھی ہمیشہ زندہ رکھے گا۔
-1 عبدالستار ایدھی
-2 حکیم محمد سعید
-3 اختر حمید خان
-4 عمران خان
-5 ڈاکٹر رتھ کیتھرینا
-6 ڈاکٹر سید ادیب الحسن رضوی
-7 ڈاکٹر محمد امجد ثاقب
-8 محمد رمضان چھیپا
-9 میاں محمد عبدالشکور
-10 مسرت مصباح
-11 ابرار الحق
-12 شہزاد رائے
یہ صف بہت زیادہ طویل بھی ہوسکتی تھی کہ وطن عزیز میں انسانیت کا درد رکھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ابھی بہت سے ایسے شعبے بھی رہ گئے ہیں جن کے نمائندہ لوگوں کو اس فہرست میں جگہ ملنی چاہیے تھی لیکن اصل مسئلہ نام نہیں بلکہ کام شماری ہے۔ یہ سب لوگ مختلف علاقوں، شعبوں اور پیشوں سے تعلق رکھتے ہیں مگر ان کا مشترکہ وصف اور جوہر خدمت انسانی ہی ہے اور یہ سب کے سب پوری قوم کے لیے عمومی اور نوجوان نسل کے لیے بالخصوص رول ماڈل کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان سب کے کریڈٹ پر یوں تو بے شمار خدمات ہیں کہ خدمت خلق ایک وسیع حصار کا نام ہے لیکن اس کے باوجود ان میں سے بیشتر کے ساتھ کوئی ایسا بڑا ادارہ یا کام بھی منسوب ہے جو اب ان کی پہچان بن گیا ہے۔
تفصیل میں جانے کی گنجائش نہیں لیکن ایدھی فاؤنڈیشن، ادارہ ہمدرد اورنگی پائلٹ پراجیکٹ، شوکت خانم میموریل اسپتال، کوڑھ اور جذام، کڈنی سینٹر، اخوت، چھیپا ایمبولینس سروس، الخدمت فاؤنڈیشن، تیزاب سے جلائی گئی عورتوں کی سرجری، سہارا اور زندگی ٹرسٹ ایسے حوالے ہیں جن سے اس کیلنڈرانہ دستاویز میں شامل ان صاحبان فلاح کو بخوبی جانا اور پہچانا جاسکتا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ الفلاح انشورنس کی اس کوشش کا بہت مثبت اور گہرا اثر اب اور جگہوں پر بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔ بہت سے اہل ثروت کے دلوں کو بھی اس نے چھوا ہے اور وہ بھی اب اس طرح کے کسی کام میں حصہ ڈالنے کے لیے آگے آرہے ہیں۔ مجھے یقین ہے اگر اسی طرح سے سب لوگ اپنے اپنے حصے کا چراغ جلائیں گے تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے چاروں طرف روشنی ہی روشنی ہوگی۔