جاگنے والو جاگو اور بولو

انسانی جان تو بے وقعت ہوکر رہ گئی

KARACHI:
پڑھ لکھ کر، ترقیاں کرکے، یونیورسٹیاں بنا کے، حاصل کیا ہوا؟ تباہی، بربادی، خوں ریزی، نفرت، تفرقہ بازی۔ دنیا میں جہاں کہیں خوں ریزی ہے، بارود چل رہا ہے، اس کے پیچھے ترقی یافتہ ممالک کا ہاتھ ہے۔ چند دنوں کی زندگی ملی ہے۔ وہ بھی چین سے بسر نہیں ہونے دیتے۔ آباد بستیوں پر بم گرائے جاتے ہیں، گھروں کے گھر ملبہ بن جاتے ہیں، مکین مر جاتے ہیں، زخمی ہوکر اپاہج بن جاتے ہیں، اللہ کی زمین کے مالکان نے انسانیت سوز اسلحوں کے ڈھیر لگا دیے ہیں اور وہ ڈھیر انھیں بے چین کیے رہتے ہیں۔ اسلحہ کہاں چلائیں، کس پر پھینکیں، اسلحہ کی تباہ کاریوں کے مناظر کیسے دیکھیں، اپنی برتری کیسے منوائیں، بس اس کا نام دنیا رہ گیا ہے۔

انسانی جان تو بے وقعت ہوکر رہ گئی۔ جو جسے چاہے، جب چاہے، جیسے چاہے مار دے، سامنے آکے علی الاعلان مار دے، اغوا کروا کے مار دے، حتیٰ کہ اپنے پالتو کتوں سے مروا دے۔ پتا نہیں کتنے غریب لوگ زمینی خداؤں کے خونخوار کتوں نے چیر پھاڑ ڈالے، اور ہم کالموں میں ہی چیخ پکار کرتے رہ گئے۔ خونخوار کتے اور ان کے خونخوار مالکان آج بھی اپنے نئے شکاروں کی تلاش میں زندہ گھوم پھر رہے ہیں۔ حکومت ان کی ہے، قانون ان کا ہے، قانون کے محافظ ان کے ہیں، حتیٰ کہ دن ان کے ہیں، راتیں ان کی ہیں۔ ظالموں کا ظلم سہنے والے، چپ چاپ ظلم سہہ رہے ہیں یا ظالموں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں، اپنے شعر یاد آرہے ہیں، لکھے دیتا ہوں:

ہیں راتیں چیختی، دن رو رہے ہیں
مگر سب شہر والے سو رہے ہیں

جسے پایا تھا لاکھوں دکھ اٹھا کر
اسی ''منزل'' کو آخر کھو رہے ہیں

یہ منزل، یہ پاکستان تو ہمارے لیے بنا تھا، ہم غریبوں نے اسے بنایا تھا، مگر ہم نے جن کو چوکیدار رکھا تھا وہی پاکستان پر قابض ہوگئے اور ہم آزاد ہوکر بھی مزید غلام بنا دیے گئے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ 1937 لکھنو اجلاس مسلم لیگ کے بعد لاہور واپس آکر پاکستانی پنجاب کے بڑے جاگیرداروں نے اپنی جاگیرداری ''مسلم لیگ'' منظم کرنا شروع کردی تھی۔ اس سازش کو بذریعہ خط علامہ نے قائداعظم کو آگاہ کردیا تھا۔ یعنی پاکستان بننے سے دس سال پہلے ہی سازشوں کا آغاز ہوچکا تھا۔ تاریخ میں سب کچھ لکھا ہے۔ اب کوئی بات راز نہیں رہی۔ وہ ''نام'' بھی درج ہیں۔ میں بھی لکھ چکا ہوں، جالب کا شعر لکھ کر بھڑاس نکال رہا ہوں:

جن کے کارن آج ہمارے حال پہ دنیا ہنستی ہے
کتنے ''ظالم چہرے جانے پہچانے'' یاد آتے ہیں


اور اس غزل کا آخری شعر وہ ہے کہ جسے اٹھا کر گھروں سے نکلنا پڑے گا۔

کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالبؔ
چاروں جانب سناٹا ہے، دیوانے یاد آتے ہیں

کیا کریں شیر افگن نیازی کے بیٹے اپنے باپ کی سیٹ پر قومی اسمبلی میں آگئے ہیں اور اسمبلی میں دھینگامشتی کا مظاہرہ کر ڈالا۔ خیر ہمیں اس دھینگا مشتی سے کیا لینا دینا، عرض حال یہ ہے جو جو بھی آج اسمبلیوں میں بیٹھا ہے وہ کسی کا بیٹا یا پوتا ہے، بیٹی یا نواسا ہے۔ ''کیا اسی لیے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے/ بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے'' یہ قیام پاکستان سے ہی جو آگ لگی ہوئی ہے، جو بڑھتے بڑھتے آدھے سے زیادہ پاکستان کو بھسم کرنے کے بعد باقی ماندہ پاکستان کے بھی درپے ہے، ''اسے کون بجھائے گا؟''

یہ جو ''بیرونیے'' ہیں، جن کے پاس دہری شہریت ہے، ان کا کیا بگڑے گا، یہ اپنے دوسرے اور ''اصلی'' ملک چلے جائیں گے۔ جہاں ان کے اعلیٰ مکانات ہیں، بینکوں میں پاکستان کے غریبوں کے خون پسینے سے لوٹی ہوئی دولت ہے، یہ ''پانامے'' یہ تو سب باہر بھاگتے رہتے ہیں، پھر بھی بھاگ جائیں گے۔ مسئلہ تو ہمارا ہے، ہمیں تو اسی لگی ہوئی آگ میں ہی جلنا ہوگا، ہم ''اور کہاں'' بھاگ کر جائیں گے۔ یہ ظالم، کالے بگے، چور لٹیرے/ یہ نہ تیرے/ یہ نہ میرے/ یہ تو ہیں سارے ہیرے پھیرے/ (بھئی یہ روانی میں لکھتا گیا ہوں، یہ میری ہی تک بندی ہے۔ وضاحت ضروری ہے اس لیے کردی)۔ یہ ظالم 70 سال سے ہیر پھیر کرکے پھر آجاتے ہیں، کوئی غریب کا بچہ اسمبلیوں تک نہیں پہنچ سکتا۔

غریبوں کے سچے ہمدرد بابائے مزدوراں مرزا ابراہیم اور حبیب جالب نے الیکشن لڑا۔ دونوں کی ضمانتیں ضبط ہوگئیں۔ وہ جو قیام پاکستان سے دس سال پہلے ''جاگیرداری مسلم لیگ'' منظم کی گئی تھی، یہ اسی کا شاخسانہ تھا۔ غریبوں کے شناختی کارڈ جاگیرداروں کی حویلیوں میں رکھے جاتے ہیں وہ کیسے اپنا ووٹ اپنی مرضی سے کسی دوسرے کو ڈال سکتے ہیں۔ مزید وضاحت کے لیے جالب کا شعر:

کہاں قاتل بدلتے ہیں، فقط چہرے بدلتے ہیں
عجب اپنا سفر ہے، فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں

پاکستان کے سیاست دانوں کی ''بے بسی'' دیکھیے، ایک سیاسی لیڈر بیان دیتے ہیں ''میں آج اپنے آپ کو بڑا خوش نصیب سمجھ رہا ہوں، کہ آج جب امریکا کے نئے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ حلف اٹھا رہے ہیں تو میں واشنگٹن میں موجود ہوں۔'' تو جناب! یہ ہمارے سیاسی لیڈروں کا ''مقام'' ہے۔ یہ ان کی سوچ کا معیار ہے۔ تو میرے جمہوریت پسندو! سوچ لو، دیکھ لو! ''ان سے امید خیر! لاحاصل۔''

غریب بے زمین مر رہے ہیں اور زمینوں پر اعلیٰ لوگوں کا قبضہ جاری ہے۔ تو آزادی کی ایک اور جنگ لڑنا پڑے گی۔ تبھی بات بنے گی، وہ جو قتیل شفائی نے کہا تھا ''تائید ستم گر ہے چپ رہ کے ستم سہنا'' اب خاموشی کو، چپ کو توڑنا ہوگا۔ یہی نجات کا آزادی کا واحد راستہ رہ گیا ہے۔
Load Next Story