عورت کچن سے اسمبلی تک
ریاض شاہد کی فلم ’’بہشت‘‘ میں ندیم اور نشو ہیرو اور ہیروئن تھے
ریاض شاہد کی فلم ''بہشت'' میں ندیم اور نشو ہیرو اور ہیروئن تھے۔ کالج میں ہونے والے مباحثے میں مرد و عورت کے حوالے سے تقاریر ہو رہی تھیں۔ ہیروئن کا کہنا تھا کہ وہ کیوں کچن میں جاکر روٹیاں پکائے۔ جب ہیرو کی باری آئی تو اس کا کہنا تھا کہ بے شک بیوی روٹیاں نہ پکائے تو کھانے پینے کا سامان ہوٹل سے آجائے گا۔
مباحثہ ہیرو جیت جاتا ہے۔ یہ ستر کے عشرے کی بات ہے۔ پھر مساوات مرد و زن کے حوالے سے تنظیمیں قائم ہوئیں اور انھوں نے عورت پر ہونے والے مظالم کو بیان کیا۔ اچھا کیا گیا اور بہت ہی اچھا ہوا اگر ایجنڈا غیر ملکی نہ ہو۔ این جی اوز اگر ڈالر اور پاؤنڈز نہ لے کر کام کریں تو عورت سے اونچی آواز میں بات کرنے کو بھی جرم قرار دینے کی وکالت ہر کالم نگار کرے گا۔
طیبہ نامی بچی پر ظلم کچن میں ہوا۔ معصوم لڑکی کا ہاتھ چولہے میں جلایا گیا۔ یہ سب کچھ کرنے والی وہ خاتون تھیں جنھیں ایک جج کی بیگم ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ دنیا کو انصاف کی فراہمی کا دعویٰ کرنے والا ایک مصنف اپنے گھر میں ایک دس سالہ بچی کو انصاف نہ دلاسکا۔ گھر کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے اس کی ذمے داری تھی کہ وہ ظلم کو روکتا۔ پڑوسیوں کی شکایت پر قانون حرکت میں آیا۔ اس حرکت سے بیس گریڈ کے عدالتی افسر کی طاقت جمود کا شکار ہوگئی۔ غریب ماں باپ کو کچھ روپے دے کر چپ کروادیا گیا۔
خدا کی بے آواز لاٹھی طیبہ کے لیے ایک گونج دار کلہاڑا بن کر وقت کے فرعونوں پر برسی۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے ازخود نوٹس لیا۔ یہ سوموٹو اس وقت ظالم کے لیے سوٹا بن جاتا ہے جب وہ اپنی طاقت کی بدولت کمزور سرکاری اہلکاروں کو ان کے کام سے روکتا ہے۔ یہ سوٹا اس صوبائی اسمبلی کی ممبر پر برسا تھا جس نے دوران الیکشن ایک استانی کو تھپڑ رسید کیے تھے۔ قارئین کو اس باریک فرق کو سمجھنا چاہیے۔ موازنہ کیا گیا کہ تھپڑ مارنے پر سوموٹو اور سو قتل پر کچھ نہیں۔
اگر قتل و غارت گری پر قانون حرکت میں آکر اپنی ذمے داری پوری کرتا ہے تو ازخود نوٹس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ ہتھوڑا یا ہتھیار طاقتور کو اپنی اوقات دکھا کر اسے قانون کے شکنجے میں کس دیتا ہے۔ طیبہ پر ظلم ڈھانے والے اب شرمندہ ہیں اور معاشرے میں اپنا وقار کھو بیٹھے ہیں۔ اگر اسے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی کرامت نہ کہا جائے تو پھر کیا کہا جائے؟
دس سالہ بچی پر ظلم ڈھانے والی ماہین ظفر کے شوہر راجہ خرم کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سے او ایس ڈی بنادیا گیا ہے، عدالتی امور کی انجام دہی کے فریضے سے وہ دور ہوچکے ہیں۔ اب کیا ہوگا؟ ممکن ہے انھیں استعفے کا مشورہ دیا جائے یا برخاست کردیا جائے۔ پھر کیا ہوگا؟ جج صاحب وکالت شروع کردیںگے۔ یہاں ایک سوال بار کونسلز اور چیف جسٹس صاحبان سے ہے کہ جو شخص عدالتی امور کے لیے نا اہل قرار پاتا ہے اسے کیونکر دوبارہ وکالت کا لائسنس دیا جائے؟
ہر سال درجنوں نہیں بلکہ سیکڑوں جج صاحبان مختلف الزامات کے سامنے کے بعد پھر کالا کوٹ پہن کر میدان میں آجاتے ہیں۔ یہ کسی حد تک صحیح ہے؟ قانون دانوں سے اس سوال کے بعد ہم ایک بار پھر خواتین کے کچن سے اسمبلی تک آنے کے موضوع پر گفتگو کریںگے۔ طیبہ پر جس گھر میں ظلم ہوا ہے اس کے سربراہ کو صرف وقتی طور پر یا ہمیشہ کے لیے کالے کوٹ سے محروم کردیا جائے گا؟ اس سوال کا جواب آنے والا وقت دے گا۔
عورت پر تاریخ میں ہر دور میں ظلم ہوا ہے۔ ظلم تو ہر کمزور پر ہوا ہے لیکن عورت مظلوم اس لیے رہی کہ وہ جسمانی طور پر کمزور ہوتی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ جہاں عورت طاقتور ہوجاتی ہے تو وہ خود ظلم کرنے لگتی ہے۔ طیبہ پر ظلم کرنے والی ایک عورت ہی تھی۔ وہ عورت جس سے توقع تھی کہ وہ معصوم بچی کا خیال رکھے گی۔
گھروں میں کام کرنے والے یا دیگر مقامات پر محنت کرنے والے بچوں کی موجودگی معاشرے کے ہر فرد پر، جی ہاں ہر بالغ شخص پر استغاثہ دائر کرنے کی سوچ پیدا کرتی ہے۔ وہ بچے جنھیں تعلیم گاہوں اور کھیل کے میدانوں میں ہونا چاہیے وہ امیروں کے کچن، دکانوں یا کارخانوں میں مزدوری کرتے ہیں۔ اگر ہم معاشرے کو نہیں بدل سکتے لیکن اپنے آپ کو تو بدل سکتے ہیں۔ کم از کم بچوں بالخصوص غریب بچوں سے بات کرتے ہوئے نرمی سے کون روکتا ہے۔ اگر صاحب اولاد کے ہاتھوں بچوں اور بچیوں پر ظلم روا رکھا جائے تو اس کی سزا میں مزید شدت ہونی چاہیے۔
کیا زیادتی صرف غریب اور چھوٹی بچیوں پر ہوتی ہے۔ عورت اگر چالیس سال سے بڑی عمر کی ہو تو کیا اس سے زیادتی نہ ہوگی؟ خاتون اگر خوش حال ہو تو معاشرہ اس سے درگزر کرتا ہے؟ صنف نازک کے طبقے کی کوئی ممبر اگر طاقتور ایوان تک پہنچ جائے تو کیا اس کا لحاظ کیا جاتا ہے؟ رکن اسمبلی نصرت سحر عباسی سے سندھ حکومت کے ایک وزیر کی بدتمیزی ظاہر کرتی کہ عورت کو طاقتور ایوانوں میں بھی نہیں بخشا جاتا۔ خاتون رکن اسمبلی نے معاف نہ کرنے اور خود سوزی کی دھمکی دی۔
افسوس کہ اس دوران حکمران پارٹی کے اراکین مسکراتے رہے۔ اجلاس کی صدارت کرنے والی خاتون ڈپٹی اسپیکر نے بھی کچھ نہ کیا۔ میڈیا کے ہاتھوں مجبور ہوئے تو سمجھا بجھا کر منا لیا گیا اور وزیر نے بہن بناکر نصرت سحر عباسی کے سر پر چادر اوڑھادی۔ معافی تلافی ہوگئی کہ درگزر سے کام لیا گیا۔
طیبہ جیسی چھوٹی بچی اور نصرت سحر عباسی جیسی رکن اسمبلی کے واقعات سے طاقتور حلقے ضرور محتاط ہوگئے ہوں گے، کوئی چاہے جج کی بیوی ہو یا کوئی حکمران پارٹی کا وزیر ہو، ہر ایک کو ہر انسان بالخصوص خواتین کے حوالے سے محتاط رہنا ہوگا، یہ اچھی بات ہے، لیکن اس میں ایک خاص ہے۔ خاص یہ ہے کہ اصلاح ڈرا کر پیدا کی جارہی ہے۔ خوف ہے کہ میڈیا ہر طرف نگاہیں جمائے ہوئے ہے۔ سیکڑوں چینلز کے ہزاروں نمایندے کیمرے ہاتھوں میں لیے معاشرے میں بکھرے ہوئے ہیں۔ کروڑوں کی آبادی میں لاکھوں شیطان ہوں تو یہ ناکافی تھا۔
اب لاکھوں شیطانوں کے لیے موبائل فون میں لاکھوں کیمروں کا خوف بدمعاشوں کو سدھار رہا ہے، اچھی بات ہے لیکن خاص وہی ڈر ہے۔ یہ بہتری خوف کی بدولت پیدا ہوئی ہے، بازاروں، چوراہوں، بینکوں، ہوٹلوں اور عدالتوں میں لگے کیمروں نے بھی لوگوں کو محتاط کردیا ہے لیکن وہی بات ہے کہ یہ بہتری خوف کی بدولت ہے۔ پھر کالم نگار معاشرے سے کیا چاہتا ہے؟
''خبردار کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے'' کیمروں کا خوف اپنی جگہ لیکن اگر معاشرہ تربیت کے اصول پر چلے تو چاہے کیمرے ہوں یا نہ ہوں، چاہے کوئی دیکھ رہا ہو یا نہ دیکھ رہا ہو، انسان بہتر کام کرے گا۔ تربیت کی ابتدا بچوں سے ہو، حکیم محمد سعید بھی بڑوں سے مایوس ہوکر بچوں کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔ لڑکوں کو ماں بہن کی عزت کرنے کے بجائے ہر عورت کی عزت کرنے کی تربیت دی جائے۔ اپنے لیے کچھ پسند کرنے سے پہلے اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کیا جائے۔ معاشرہ قربانی دینے کے اصول پر استوار ہو۔ جب ایسا ہوا تو دوران جنگ پانی کی ضرورت کو اپنے بھائی پر ترجیح دی گئی۔
یہ ایک غزوہ میں ہوا جب تینوں صحابہ کرامؓ اس لیے شہید ہوگئے کہ انھوں نے پانی اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے دوسرے زخمی بھائی کے لیے پسند کیا۔ خوف نہیں بلکہ تربیت اور جذبہ قربانی۔ اگر یہ ہوجائے تو نہ کوئی غریب عورت کچن میں مظلوم بنے گی نہ کوئی امیر عورت اسمبلی میں مظلوم بنے گی۔ جی ہاں اگر یہ ہوجائے تو باعزت اور باوقار ہوگی ہر عورت، کچن سے اسمبلی تک۔
مباحثہ ہیرو جیت جاتا ہے۔ یہ ستر کے عشرے کی بات ہے۔ پھر مساوات مرد و زن کے حوالے سے تنظیمیں قائم ہوئیں اور انھوں نے عورت پر ہونے والے مظالم کو بیان کیا۔ اچھا کیا گیا اور بہت ہی اچھا ہوا اگر ایجنڈا غیر ملکی نہ ہو۔ این جی اوز اگر ڈالر اور پاؤنڈز نہ لے کر کام کریں تو عورت سے اونچی آواز میں بات کرنے کو بھی جرم قرار دینے کی وکالت ہر کالم نگار کرے گا۔
طیبہ نامی بچی پر ظلم کچن میں ہوا۔ معصوم لڑکی کا ہاتھ چولہے میں جلایا گیا۔ یہ سب کچھ کرنے والی وہ خاتون تھیں جنھیں ایک جج کی بیگم ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ دنیا کو انصاف کی فراہمی کا دعویٰ کرنے والا ایک مصنف اپنے گھر میں ایک دس سالہ بچی کو انصاف نہ دلاسکا۔ گھر کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے اس کی ذمے داری تھی کہ وہ ظلم کو روکتا۔ پڑوسیوں کی شکایت پر قانون حرکت میں آیا۔ اس حرکت سے بیس گریڈ کے عدالتی افسر کی طاقت جمود کا شکار ہوگئی۔ غریب ماں باپ کو کچھ روپے دے کر چپ کروادیا گیا۔
خدا کی بے آواز لاٹھی طیبہ کے لیے ایک گونج دار کلہاڑا بن کر وقت کے فرعونوں پر برسی۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے ازخود نوٹس لیا۔ یہ سوموٹو اس وقت ظالم کے لیے سوٹا بن جاتا ہے جب وہ اپنی طاقت کی بدولت کمزور سرکاری اہلکاروں کو ان کے کام سے روکتا ہے۔ یہ سوٹا اس صوبائی اسمبلی کی ممبر پر برسا تھا جس نے دوران الیکشن ایک استانی کو تھپڑ رسید کیے تھے۔ قارئین کو اس باریک فرق کو سمجھنا چاہیے۔ موازنہ کیا گیا کہ تھپڑ مارنے پر سوموٹو اور سو قتل پر کچھ نہیں۔
اگر قتل و غارت گری پر قانون حرکت میں آکر اپنی ذمے داری پوری کرتا ہے تو ازخود نوٹس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ ہتھوڑا یا ہتھیار طاقتور کو اپنی اوقات دکھا کر اسے قانون کے شکنجے میں کس دیتا ہے۔ طیبہ پر ظلم ڈھانے والے اب شرمندہ ہیں اور معاشرے میں اپنا وقار کھو بیٹھے ہیں۔ اگر اسے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی کرامت نہ کہا جائے تو پھر کیا کہا جائے؟
دس سالہ بچی پر ظلم ڈھانے والی ماہین ظفر کے شوہر راجہ خرم کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سے او ایس ڈی بنادیا گیا ہے، عدالتی امور کی انجام دہی کے فریضے سے وہ دور ہوچکے ہیں۔ اب کیا ہوگا؟ ممکن ہے انھیں استعفے کا مشورہ دیا جائے یا برخاست کردیا جائے۔ پھر کیا ہوگا؟ جج صاحب وکالت شروع کردیںگے۔ یہاں ایک سوال بار کونسلز اور چیف جسٹس صاحبان سے ہے کہ جو شخص عدالتی امور کے لیے نا اہل قرار پاتا ہے اسے کیونکر دوبارہ وکالت کا لائسنس دیا جائے؟
ہر سال درجنوں نہیں بلکہ سیکڑوں جج صاحبان مختلف الزامات کے سامنے کے بعد پھر کالا کوٹ پہن کر میدان میں آجاتے ہیں۔ یہ کسی حد تک صحیح ہے؟ قانون دانوں سے اس سوال کے بعد ہم ایک بار پھر خواتین کے کچن سے اسمبلی تک آنے کے موضوع پر گفتگو کریںگے۔ طیبہ پر جس گھر میں ظلم ہوا ہے اس کے سربراہ کو صرف وقتی طور پر یا ہمیشہ کے لیے کالے کوٹ سے محروم کردیا جائے گا؟ اس سوال کا جواب آنے والا وقت دے گا۔
عورت پر تاریخ میں ہر دور میں ظلم ہوا ہے۔ ظلم تو ہر کمزور پر ہوا ہے لیکن عورت مظلوم اس لیے رہی کہ وہ جسمانی طور پر کمزور ہوتی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ جہاں عورت طاقتور ہوجاتی ہے تو وہ خود ظلم کرنے لگتی ہے۔ طیبہ پر ظلم کرنے والی ایک عورت ہی تھی۔ وہ عورت جس سے توقع تھی کہ وہ معصوم بچی کا خیال رکھے گی۔
گھروں میں کام کرنے والے یا دیگر مقامات پر محنت کرنے والے بچوں کی موجودگی معاشرے کے ہر فرد پر، جی ہاں ہر بالغ شخص پر استغاثہ دائر کرنے کی سوچ پیدا کرتی ہے۔ وہ بچے جنھیں تعلیم گاہوں اور کھیل کے میدانوں میں ہونا چاہیے وہ امیروں کے کچن، دکانوں یا کارخانوں میں مزدوری کرتے ہیں۔ اگر ہم معاشرے کو نہیں بدل سکتے لیکن اپنے آپ کو تو بدل سکتے ہیں۔ کم از کم بچوں بالخصوص غریب بچوں سے بات کرتے ہوئے نرمی سے کون روکتا ہے۔ اگر صاحب اولاد کے ہاتھوں بچوں اور بچیوں پر ظلم روا رکھا جائے تو اس کی سزا میں مزید شدت ہونی چاہیے۔
کیا زیادتی صرف غریب اور چھوٹی بچیوں پر ہوتی ہے۔ عورت اگر چالیس سال سے بڑی عمر کی ہو تو کیا اس سے زیادتی نہ ہوگی؟ خاتون اگر خوش حال ہو تو معاشرہ اس سے درگزر کرتا ہے؟ صنف نازک کے طبقے کی کوئی ممبر اگر طاقتور ایوان تک پہنچ جائے تو کیا اس کا لحاظ کیا جاتا ہے؟ رکن اسمبلی نصرت سحر عباسی سے سندھ حکومت کے ایک وزیر کی بدتمیزی ظاہر کرتی کہ عورت کو طاقتور ایوانوں میں بھی نہیں بخشا جاتا۔ خاتون رکن اسمبلی نے معاف نہ کرنے اور خود سوزی کی دھمکی دی۔
افسوس کہ اس دوران حکمران پارٹی کے اراکین مسکراتے رہے۔ اجلاس کی صدارت کرنے والی خاتون ڈپٹی اسپیکر نے بھی کچھ نہ کیا۔ میڈیا کے ہاتھوں مجبور ہوئے تو سمجھا بجھا کر منا لیا گیا اور وزیر نے بہن بناکر نصرت سحر عباسی کے سر پر چادر اوڑھادی۔ معافی تلافی ہوگئی کہ درگزر سے کام لیا گیا۔
طیبہ جیسی چھوٹی بچی اور نصرت سحر عباسی جیسی رکن اسمبلی کے واقعات سے طاقتور حلقے ضرور محتاط ہوگئے ہوں گے، کوئی چاہے جج کی بیوی ہو یا کوئی حکمران پارٹی کا وزیر ہو، ہر ایک کو ہر انسان بالخصوص خواتین کے حوالے سے محتاط رہنا ہوگا، یہ اچھی بات ہے، لیکن اس میں ایک خاص ہے۔ خاص یہ ہے کہ اصلاح ڈرا کر پیدا کی جارہی ہے۔ خوف ہے کہ میڈیا ہر طرف نگاہیں جمائے ہوئے ہے۔ سیکڑوں چینلز کے ہزاروں نمایندے کیمرے ہاتھوں میں لیے معاشرے میں بکھرے ہوئے ہیں۔ کروڑوں کی آبادی میں لاکھوں شیطان ہوں تو یہ ناکافی تھا۔
اب لاکھوں شیطانوں کے لیے موبائل فون میں لاکھوں کیمروں کا خوف بدمعاشوں کو سدھار رہا ہے، اچھی بات ہے لیکن خاص وہی ڈر ہے۔ یہ بہتری خوف کی بدولت پیدا ہوئی ہے، بازاروں، چوراہوں، بینکوں، ہوٹلوں اور عدالتوں میں لگے کیمروں نے بھی لوگوں کو محتاط کردیا ہے لیکن وہی بات ہے کہ یہ بہتری خوف کی بدولت ہے۔ پھر کالم نگار معاشرے سے کیا چاہتا ہے؟
''خبردار کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے'' کیمروں کا خوف اپنی جگہ لیکن اگر معاشرہ تربیت کے اصول پر چلے تو چاہے کیمرے ہوں یا نہ ہوں، چاہے کوئی دیکھ رہا ہو یا نہ دیکھ رہا ہو، انسان بہتر کام کرے گا۔ تربیت کی ابتدا بچوں سے ہو، حکیم محمد سعید بھی بڑوں سے مایوس ہوکر بچوں کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔ لڑکوں کو ماں بہن کی عزت کرنے کے بجائے ہر عورت کی عزت کرنے کی تربیت دی جائے۔ اپنے لیے کچھ پسند کرنے سے پہلے اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کیا جائے۔ معاشرہ قربانی دینے کے اصول پر استوار ہو۔ جب ایسا ہوا تو دوران جنگ پانی کی ضرورت کو اپنے بھائی پر ترجیح دی گئی۔
یہ ایک غزوہ میں ہوا جب تینوں صحابہ کرامؓ اس لیے شہید ہوگئے کہ انھوں نے پانی اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے دوسرے زخمی بھائی کے لیے پسند کیا۔ خوف نہیں بلکہ تربیت اور جذبہ قربانی۔ اگر یہ ہوجائے تو نہ کوئی غریب عورت کچن میں مظلوم بنے گی نہ کوئی امیر عورت اسمبلی میں مظلوم بنے گی۔ جی ہاں اگر یہ ہوجائے تو باعزت اور باوقار ہوگی ہر عورت، کچن سے اسمبلی تک۔