اسحاق ڈار کا اعترافی بیان وزیراعظم کے خلاف استعمال ہوسکتا ہے سپریم کورٹ
اسحاق ڈار نے چیئرمین نیب کومعافی کی تحریری درخواست خوددی،جسٹس آصف سعید کھوسہ
پاناما کیس کی سماعت کے دوران نیب نے سپریم کورٹ میں اسحاق ڈار کی معافی سے متعلق ریکارڈ جمع کروا دیا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس اعجازافضل، جسٹس اعجاز الاحسن ، جسٹس گلزار احمد اور جسٹس عظمت سعید شیخ پر مشتمل سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ پاناما کیس کی سماعت کررہا ہے، سماعت کے آغاز پر وزیراعظم کے وکیل نےشریف خاندان کی وراثتی جائیداد کی تقسیم جب کہ نیب نے منی لانڈرنگ کیس میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی معافی سے متعلق ریکارڈ جمع کرادیا۔
نیب کے ریکارڈ کے مطابق 20 اپریل 2000 کو اسحاق ڈار نے معافی کی درخواست دی جسے چیئرمین نیب نے 21 اپریل 2000 کو منظور کرلیا۔ 24 اپریل کو تحقیقاتی افسر نے بیان ریکارڈ کرنے کی درخواست دی، 25 اپریل کو اسحاق ڈار کا اعترافی بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ ہوا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : پاناما کیس میں وزیراعظم کے وکیل کی دھمکی
سماعت کے دوران اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے اپنے دلائل میں کہا کہ ان کے موکل کے خلاف نااہلی کی درخواست اور انٹرا کورٹ اپیلیں خارج ہوئیں، نواز شریف اور دیگر کے خلاف ریفرنسز خارج کرنے کا فیصلہ رپورٹ کیا جاچکا ہے۔ دوبارہ تفتیش کروانے کے معاملے پر 2 رکنی بنچ میں اختلاف تھا، اس لیے فیصلہ ریفری جج نے سنایا، ریفری جج نے نیب کی دوبارہ تحقیقات کی درخواست مسترد کی۔ ہائی کورٹ کے 5 ججز نے کہا کہ ایف آئی اے کو بیرونی اکاؤنٹس کی تحقیقات کا اختیار نہیں، جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ فیصلے میں ریفرنس خارج اور تفتیش نہ کرنے کا کہا گیا۔ جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کیا اس عدالتی فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا، جس پر شاہد حامد نے بتایا کہ اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا گیا۔ عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کا وقت بھی ختم ہو چکا ہے۔
جسٹس اعجاز افضل کے استفسار پر شاہد حامد نے بتایا کہ اسحاق ڈار کا بیان ان کے وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد ریکارڈ کیا گیا، اسحاق ڈار پر منی لانڈرنگ کیس ختم ہو گیا، یہ 25 سال پرانا معاملہ ہے جسے 13 سے زائد جج سن چکے ہیں، منی لانڈرنگ کے الزام کے وقت اسحاق ڈارکے پاس عوامی عہدہ نہیں تھا، اب صرف الزام کی بنیاد پر انہیں نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : قطری شہزادے کا ایک اور خط
شاہد حامد کی بات پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اسحاق ڈارکومکمل معافی دی گئی اور انہوں نے چیئرمین نیب کو معافی کی تحریری درخواست خود دی تھی، معافی ملنے کے بعد اسحاق ڈار ملزم نہیں رہے، وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد اسحاق ڈار کا بیان ان کے نہیں بلکہ وزیراعظم کے خلاف استعمال ہوسکتا ہے۔
اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پراسیکیوٹر جنرل نیب نے اسحاق ڈار کیس سے متعلق تفصیلات عدالت کو بتانا شروع کیں، جسٹس آصف کھوسہ نے استفسار کیا کہ نیب نے شریف فیملی کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کیوں نہ کی، پراسیکیوٹر جنرل نیب نے جواب میں کہا کہ ہائیکورٹ کے ججز کی دانش کو مدنظر رکھتے ہوئے اپیل دائر نہیں کی، جس پر جسٹس آصف کھوسہ نے دوبارہ استفسار کیا کہ کیا نیب ہائیکورٹ کے کسی فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہیں کرتا۔ سپریم کورٹ نے نیب، اسٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی کی جانب سے فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہ کرنے پر اٹارنی جنرل سے تحریری جواب طلب کرلیا۔
حسن اور حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجا نے اپنے دلائل میں کہا کہ ان پر بہت بوجھ ہے جس کی انہیں وضاحت کرنی ہے، عدالت نواز شریف، حسن نواز اور حسین نواز کے بیانات اور دستاویزات کا جائزہ لے، جسٹس اعجازافضل نے ریمارکس دیئے کہ حسن اور حسین کے خلاف تو کوئی بھی استدعا نہیں کی گئی، یہ کسی اور کی جائیداد تھی جو مختلف ذرائع سے ہوتی ہوئی آپ کے پاس آئی، تمام چیزیں نوازشریف کی طرف ہی لوٹ جاتی ہیں۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ درخواست گزار کی استدعا ہے کہ لندن فلیٹس لوٹی ہوئی رقم سے بنائے گئے، حسین نوازنہیں اصل مالک نواز شریف ہیں، اس لیے لندن فلیٹس کوضبط کیا جائے، حالانکہ نواز شریف کا لندن فلیٹس سے کوئی تعلق نہیں اور ان فلیٹس کے بینیفیشل اونر حسین نواز ہیں، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ نواز شریف لندن فلیٹس کے مالک نہیں اور یہ جائیدادیں آپ کے موکل کی ہیں۔ جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اس بات کاتعین تحقیقات کے بغیر ممکن نہیں۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ درخواست گزار کی استدعا میں تضاد ہے، ملزم الزام ثابت ہونے تک معصوم ہوتا ہے، شواہد فراہم کرنا الزام لگانے والے کی ذمہ داری ہے، منی لانڈرنگ کا تعین آرٹیکل 184/3 کے مقدمے میں نہیں ہوسکتا، عدالت دوسرے اداروں کا کام نہیں کرسکتی، عدالت کے سامنے الزام لگانے والوں نے شواہد نہیں رکھے، عدالت پہلے قانون کو دیکھ لے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حسین نواز وزیراعظم کے بیٹے ہیں اور حسین نواز کہتے ہیں کہ وہ کمپنیوں کے بینی فیشل مالک ہیں، کیا کمپنیوں کے ریکارڈ تک رسائی حسین نواز کو ہے، آف شور کمپنیوں کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا جائے، ریکارڈ سامنے لائیں تو حقائق کا پتا چل سکتا ہے.
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میاں شریف کو لوہے کے کاروبار کا چار دہائیوں کا تجربہ تھا، فیکٹریاں قومیائے جانے کے باعث 1973 میں میاں شریف نے دبئی کے شاہی خاندان سے رابطہ کیا، دبئی کے شاہی خاندان نے اسٹیل پلانٹ لگانے کے لیے انہیں خوش آمدید کہا اور 1975 میں گلف اسٹیل کے 75 فیصد شیئرزفروخت کیے۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ 1978 میں فیکٹری کے 75 فیصد حصص فروخت کرکے بھی 15 ملین واجبات باقی تھے، گلف فیکٹری کی مکمل قیمت فروخت 33.375 ملین درہم بنتی ہے جب کہ گلف فیکٹری کے واجبات 36 ملین درہم تھے، سلمان اکرم راجا نے کہا کہ نئی کمپنی نے جب گلف فیکٹری کا انتظام سنبھالا تو خسارہ نہ تھا۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو کوئی اندازہ ہے کہ باقی واجبات کیسے ادا ہوئے، جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ انہیں کوئی اندازہ نہیں، اس بارے میں صرف قیاس آرائیاں ہیں۔
جسٹس عظمت شیخ نے استفسار کیا کہ طارق شفیع کے بیان حلفی اور فیکٹری فروخت معاہدے پر دستخط میں فرق واضح ہے، جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اتنے عرصے میں دستخطوں میں فرق آہی جاتا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے موقف میں پہلے پیش کئے گئے موقف سے کچھ نیا نہیں، 1972 میں فیکٹری کا پیسہ دبئی گیا لیکن کوئی وضاحت نہیں کی گئی کہ پیسا کہاں سے آیا۔ آپ کا کہنا ہے دوبئی فیکٹری سے 12 ملین درہم حاصل ہوئے، 12 ملین درہم کیسے حاصل ہوئے معلوم نہیں۔ صرف کہا گیا کہ قرض لے کر فیکٹری لگائی۔ وزیراعظم نے تقریر میں کہا کہ ثبوتوں کے انبار موجود ہیں، پھر کہا کہ پیسے کا حساب حسین نواز سے پوچھیں، جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ دبئی فیکٹری کے لیے پیسا پاکستان سے دبئی نہیں گیا۔ رقم کیش کے ذریعہ منتقل کی گئی، جس پر جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا ستر کی دہائی میں کئی ملین درہم اونٹوں کی کمر پر رکھ کر منتقل ہوئے، کیس کی مزید سماعت کل ہوگی۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس اعجازافضل، جسٹس اعجاز الاحسن ، جسٹس گلزار احمد اور جسٹس عظمت سعید شیخ پر مشتمل سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ پاناما کیس کی سماعت کررہا ہے، سماعت کے آغاز پر وزیراعظم کے وکیل نےشریف خاندان کی وراثتی جائیداد کی تقسیم جب کہ نیب نے منی لانڈرنگ کیس میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی معافی سے متعلق ریکارڈ جمع کرادیا۔
نیب کے ریکارڈ کے مطابق 20 اپریل 2000 کو اسحاق ڈار نے معافی کی درخواست دی جسے چیئرمین نیب نے 21 اپریل 2000 کو منظور کرلیا۔ 24 اپریل کو تحقیقاتی افسر نے بیان ریکارڈ کرنے کی درخواست دی، 25 اپریل کو اسحاق ڈار کا اعترافی بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ ہوا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : پاناما کیس میں وزیراعظم کے وکیل کی دھمکی
سماعت کے دوران اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے اپنے دلائل میں کہا کہ ان کے موکل کے خلاف نااہلی کی درخواست اور انٹرا کورٹ اپیلیں خارج ہوئیں، نواز شریف اور دیگر کے خلاف ریفرنسز خارج کرنے کا فیصلہ رپورٹ کیا جاچکا ہے۔ دوبارہ تفتیش کروانے کے معاملے پر 2 رکنی بنچ میں اختلاف تھا، اس لیے فیصلہ ریفری جج نے سنایا، ریفری جج نے نیب کی دوبارہ تحقیقات کی درخواست مسترد کی۔ ہائی کورٹ کے 5 ججز نے کہا کہ ایف آئی اے کو بیرونی اکاؤنٹس کی تحقیقات کا اختیار نہیں، جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ فیصلے میں ریفرنس خارج اور تفتیش نہ کرنے کا کہا گیا۔ جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کیا اس عدالتی فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا، جس پر شاہد حامد نے بتایا کہ اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا گیا۔ عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کا وقت بھی ختم ہو چکا ہے۔
جسٹس اعجاز افضل کے استفسار پر شاہد حامد نے بتایا کہ اسحاق ڈار کا بیان ان کے وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد ریکارڈ کیا گیا، اسحاق ڈار پر منی لانڈرنگ کیس ختم ہو گیا، یہ 25 سال پرانا معاملہ ہے جسے 13 سے زائد جج سن چکے ہیں، منی لانڈرنگ کے الزام کے وقت اسحاق ڈارکے پاس عوامی عہدہ نہیں تھا، اب صرف الزام کی بنیاد پر انہیں نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : قطری شہزادے کا ایک اور خط
شاہد حامد کی بات پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اسحاق ڈارکومکمل معافی دی گئی اور انہوں نے چیئرمین نیب کو معافی کی تحریری درخواست خود دی تھی، معافی ملنے کے بعد اسحاق ڈار ملزم نہیں رہے، وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد اسحاق ڈار کا بیان ان کے نہیں بلکہ وزیراعظم کے خلاف استعمال ہوسکتا ہے۔
اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پراسیکیوٹر جنرل نیب نے اسحاق ڈار کیس سے متعلق تفصیلات عدالت کو بتانا شروع کیں، جسٹس آصف کھوسہ نے استفسار کیا کہ نیب نے شریف فیملی کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کیوں نہ کی، پراسیکیوٹر جنرل نیب نے جواب میں کہا کہ ہائیکورٹ کے ججز کی دانش کو مدنظر رکھتے ہوئے اپیل دائر نہیں کی، جس پر جسٹس آصف کھوسہ نے دوبارہ استفسار کیا کہ کیا نیب ہائیکورٹ کے کسی فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہیں کرتا۔ سپریم کورٹ نے نیب، اسٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی کی جانب سے فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہ کرنے پر اٹارنی جنرل سے تحریری جواب طلب کرلیا۔
حسن اور حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجا نے اپنے دلائل میں کہا کہ ان پر بہت بوجھ ہے جس کی انہیں وضاحت کرنی ہے، عدالت نواز شریف، حسن نواز اور حسین نواز کے بیانات اور دستاویزات کا جائزہ لے، جسٹس اعجازافضل نے ریمارکس دیئے کہ حسن اور حسین کے خلاف تو کوئی بھی استدعا نہیں کی گئی، یہ کسی اور کی جائیداد تھی جو مختلف ذرائع سے ہوتی ہوئی آپ کے پاس آئی، تمام چیزیں نوازشریف کی طرف ہی لوٹ جاتی ہیں۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ درخواست گزار کی استدعا ہے کہ لندن فلیٹس لوٹی ہوئی رقم سے بنائے گئے، حسین نوازنہیں اصل مالک نواز شریف ہیں، اس لیے لندن فلیٹس کوضبط کیا جائے، حالانکہ نواز شریف کا لندن فلیٹس سے کوئی تعلق نہیں اور ان فلیٹس کے بینیفیشل اونر حسین نواز ہیں، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ نواز شریف لندن فلیٹس کے مالک نہیں اور یہ جائیدادیں آپ کے موکل کی ہیں۔ جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اس بات کاتعین تحقیقات کے بغیر ممکن نہیں۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ درخواست گزار کی استدعا میں تضاد ہے، ملزم الزام ثابت ہونے تک معصوم ہوتا ہے، شواہد فراہم کرنا الزام لگانے والے کی ذمہ داری ہے، منی لانڈرنگ کا تعین آرٹیکل 184/3 کے مقدمے میں نہیں ہوسکتا، عدالت دوسرے اداروں کا کام نہیں کرسکتی، عدالت کے سامنے الزام لگانے والوں نے شواہد نہیں رکھے، عدالت پہلے قانون کو دیکھ لے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حسین نواز وزیراعظم کے بیٹے ہیں اور حسین نواز کہتے ہیں کہ وہ کمپنیوں کے بینی فیشل مالک ہیں، کیا کمپنیوں کے ریکارڈ تک رسائی حسین نواز کو ہے، آف شور کمپنیوں کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا جائے، ریکارڈ سامنے لائیں تو حقائق کا پتا چل سکتا ہے.
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میاں شریف کو لوہے کے کاروبار کا چار دہائیوں کا تجربہ تھا، فیکٹریاں قومیائے جانے کے باعث 1973 میں میاں شریف نے دبئی کے شاہی خاندان سے رابطہ کیا، دبئی کے شاہی خاندان نے اسٹیل پلانٹ لگانے کے لیے انہیں خوش آمدید کہا اور 1975 میں گلف اسٹیل کے 75 فیصد شیئرزفروخت کیے۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ 1978 میں فیکٹری کے 75 فیصد حصص فروخت کرکے بھی 15 ملین واجبات باقی تھے، گلف فیکٹری کی مکمل قیمت فروخت 33.375 ملین درہم بنتی ہے جب کہ گلف فیکٹری کے واجبات 36 ملین درہم تھے، سلمان اکرم راجا نے کہا کہ نئی کمپنی نے جب گلف فیکٹری کا انتظام سنبھالا تو خسارہ نہ تھا۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو کوئی اندازہ ہے کہ باقی واجبات کیسے ادا ہوئے، جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ انہیں کوئی اندازہ نہیں، اس بارے میں صرف قیاس آرائیاں ہیں۔
جسٹس عظمت شیخ نے استفسار کیا کہ طارق شفیع کے بیان حلفی اور فیکٹری فروخت معاہدے پر دستخط میں فرق واضح ہے، جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اتنے عرصے میں دستخطوں میں فرق آہی جاتا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے موقف میں پہلے پیش کئے گئے موقف سے کچھ نیا نہیں، 1972 میں فیکٹری کا پیسہ دبئی گیا لیکن کوئی وضاحت نہیں کی گئی کہ پیسا کہاں سے آیا۔ آپ کا کہنا ہے دوبئی فیکٹری سے 12 ملین درہم حاصل ہوئے، 12 ملین درہم کیسے حاصل ہوئے معلوم نہیں۔ صرف کہا گیا کہ قرض لے کر فیکٹری لگائی۔ وزیراعظم نے تقریر میں کہا کہ ثبوتوں کے انبار موجود ہیں، پھر کہا کہ پیسے کا حساب حسین نواز سے پوچھیں، جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ دبئی فیکٹری کے لیے پیسا پاکستان سے دبئی نہیں گیا۔ رقم کیش کے ذریعہ منتقل کی گئی، جس پر جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا ستر کی دہائی میں کئی ملین درہم اونٹوں کی کمر پر رکھ کر منتقل ہوئے، کیس کی مزید سماعت کل ہوگی۔