کیا فرسودہ نظام بدل جائے گا
ساری زندگی دائروں میں سفر کرتے گزرگئی ۔کاش میری آنکھوں پر بھی کولہو والے بیل کے کھوپے لگے ہوتے۔
2012ء کی آخری رات میں اپنے بستر پر رضائی میں لپٹا اکڑوں بیٹھ کر گھنٹوں سوچتا رہا ۔اب میرے بال جھڑنا اور دانت گھسنا شروع ہوگئے ہیں تو یاد آیا کہ جب میں نے ہوش سنبھالا تھا توہمارے ایک صدر ہوا کرتے تھے ۔سنا ہے کہ وہ سات اکتوبر 1958ء کو اپنے ہی ملک پر قبضہ کرنے کے بعد فیلڈ مارشل بن گئے تھے ۔
ان کا اصرار تھاکہ پاکستانیوں کے بلغمی مزاج کو برطانوی جمہوریت راس نہیں آتی۔ان کو امورِ حکمرانی کو سیکھنے کی ضرورت ہے جو انھوں نے بنیادی جمہوریت کے تربیتی نظام کے ذریعے فراہم کرنا شروع کردی۔پھر 1964ء آگیا۔ایوب خان کو بالواسطہ انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے کی ضرورت پڑگئی۔بجائے اس کی مدد کرنے کے ''مادرِ ملت'' نے اس کے مقابلے پر صدر بننا چاہا۔
میرا بے وقوف ذہن کبھی یہ بات ہضم کرنے کو تیار ہی نہ ہوا کہ ہمارے لوگوں نے اپنا ملک بنانے والے قائد اعظم کی بے لوث اور نحیف ونزاربہن کے مقابلے پر سینڈھرسٹ کے تربیت یافتہ فوجی کو ترجیح دی تھی جو 13اگست1947ء تک یونین جیک کو سیلوٹ مار کر برطانوی سامراج کے ساتھ عہدِ وفاداری کا اظہار کیا کرتا تھا۔''مادر ملت''کو شکست دینے کے بعد ہمارے فیلڈ مارشل نے کشمیر آزاد کروانے کا بیڑا اُٹھالیا جو بالآخر ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کا باعث ٹھہرا۔ وہ یہ جنگ جیت نہ سکا اور تاشقند جاکر صلح کے ایک معاہدے پر دستخط کر بیٹھا۔ ہماری قوم ہائے ہائے کرتی سڑکوں پر آگئی۔
اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں جب کالج جانے کی تیاری کررہا تھا تو لاہور کے مال روڈ پر روزانہ جلوس نکلتے ۔لاٹھی چارج ہوتا اور آنسو گیس برسائی جاتی۔ایوب خان اپنے لگائے کمانڈر انچیف کو اقتدار کی چھڑی تھماکر گھر چلاگیا۔اس کمانڈر انچیف نے پاکستان میں پہلی بار بالغ رائے دہی والے انتخابات کروائے مگر قوم نے جن لوگوں کو منتخب کیا تھا انھیں اقتدار منتقل کرنے میں لیت ولعل سے کام لیتا رہا اور پاکستان ٹوٹ گیا۔ باقی ماندہ پاکستان کو ذوالفقار علی بھٹو نے سنبھال کر 1977ء تک پہنچایا۔مگر اس کے تمام مخالف باہمی اختلافات بھلاکر ان کے خلاف اکٹھے ہوگئے ۔
مخالفین نے الزام لگایا کہ بھٹو نے اس سال کے انتخابات میں کھلم کھلا دھاندلی کی تھی ۔میں کالج کی تعلیم مکمل کرکے اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کو تیار ہو رہا تھا اور لاہور کے بازار اور سڑکیں ایک بار پھر لاٹھی چارج ،آنسوگیس اور پھر فائرنگ اور بالآخر کرفیو کے مناظر دکھا رہے تھے۔ قوم یہ بھی کہتی سنائی دی کہ وہ برطانوی جمہوریت کے ساتھ گزارہ نہیں کرسکتی ۔اسے تو ''نظام مصطفےﷺ'' چاہیے ۔جنرل ضیاء الحق نے آگے بڑھ کر وہ نظام لاگو کرنے کا وعدہ کیا ۔مگر اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد ہی افغانستان کو آزاد کروانے کے جہاد میں مصروف ہوگیا۔
میں صحافی بن گیا اور ڈرڈر کر دبے لفظوں میں سچ لکھ کر اپنا پیٹ پالنے کی جدوجہد شروع کردی۔خوف اور دہشت کی فضاء میں سیکھی احتیاط اکثر میرے کام نہ آئی۔آئے دن نوکری سے نکال دیا جاتا اور بے روزگاری کے طویل مہینوں کو برداشت کرنا پڑتا۔پھر 17اگست 1988ء ہوگیا۔محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے دو دو باریاں لیں اور بالآخر جنرل مشرف کے لیے راستہ بنایا۔اس کے دس سالوں نے مجھے ذرا خوش حال اور بے باک تو ضرور بنا دیا مگر 3نومبر 2007ء پھر بھی ہوگیا اور میری صحافت سے جبری کنارہ کشی بھی۔
بالآخر 2008ء میں ایک اور انتخاب ہوا جس کے بعد کم ازکم یہ طے ہوتا نظر آیا کہ اب پاکستان میںاچھی یا بری مگر برطانوی جمہوریت ہی چلے گی۔ بڑھاپے کی سرحد میں داخل ہونے کے بعد یہ ''استحکام'' مجھے کافی تسلی بخش نظرآیا ۔مگر2012ء کی آخری رات اپنے بستر پر رضائی میں لپٹ کر اکڑوں بیٹھ کر سوچتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ ہمارے ملک میں ثبات صرف تغیرّ کے نصیب میں ہے ۔
نظربظاہر 2013ء کے پہلے پانچ ماہ میں ایک اور انتخاب ہونا تھا ۔مگر 23دسمبر 2012ء کے روز کینیڈا سے ایک قادری صاحب مینار پاکستان لاہور کے وسیع وعریض گرائونڈ میں اپنے لاکھوں پیروکاروں کے ساتھ نمودار ہوگئے۔ دس جنوری تک انتظار کرنے کے بعد وہ 14جنوری کو کم از کم چالیس لاکھ لوگوں کے ساتھ اسلام آباد پر نازل ہوں گے اور ''فرسودہ نظام'' کو تبدیل کرکے رہیں گے ۔
میں بڑے ٹھنڈے دل سے یہ جانتا اور سمجھتا ہوں کہ اسلام آباد میں دھرنا دے کر ''فرسودہ نظام'' نہیں بدلاجاسکتا۔نظام مصطفےﷺ کی تڑپ میں ہمارے حصے آنے والے لاٹھی چارج ،آنسو گیس اور پھر فائرنگ اور بالآخر کرفیو نے ہمیں ایک جرنیلی صدر ہی دیا تھا۔ 14جنوری2013ء کو ''فرسودہ نظام'' کے خلاف رچایا جانے والا دھرنا اگر اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا تو اس کے سوا اور کچھ حاصل نہ ہوگا ۔مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں جس کے بال اب گرنا اور دانت گھسنا شروع ہوگئے ہیں اس صورت حال کے ساتھ کس طرح کے سمجھوتے کرنے پر مجبور ہوں گا ۔
اپنی پیشہ وارانہ ز ندگی کا آغاز ڈرڈر کر دبے لفظوں میں سچ لکھنے کی عادت اپنانے سے کیا تھا۔اس عادت سے بڑی مشکل سے نجات حاصل کرنے کے بعد خود کو اپنے تئیں Settledہوا سمجھا تو وقت بڑی تیزی سے اس طرف بڑھ رہاہے جہاں پہنچ کر ایک بار پھر ڈر ڈر کر دبے لفظوں میں سچ لکھنے کی ضرورت ہوگی۔اکثر یہ خیال آتا ہے کہ یہ جینا بھی کوئی جینا ہے اور جالب کی طرح ''مرکیوں نہیں جاتے'' پکارنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ساری زندگی دائروں میں سفر کرتے گزرگئی ۔کاش میری آنکھوں پر بھی کولہو والے بیل کے کھوپے لگے ہوتے۔ گلے میں گھنٹی بندھی ہوتی اور میں دائرے میں گھومتا ہوا کسی بھی سوچ اور فکر سے آزاد رہتا۔
ان کا اصرار تھاکہ پاکستانیوں کے بلغمی مزاج کو برطانوی جمہوریت راس نہیں آتی۔ان کو امورِ حکمرانی کو سیکھنے کی ضرورت ہے جو انھوں نے بنیادی جمہوریت کے تربیتی نظام کے ذریعے فراہم کرنا شروع کردی۔پھر 1964ء آگیا۔ایوب خان کو بالواسطہ انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے کی ضرورت پڑگئی۔بجائے اس کی مدد کرنے کے ''مادرِ ملت'' نے اس کے مقابلے پر صدر بننا چاہا۔
میرا بے وقوف ذہن کبھی یہ بات ہضم کرنے کو تیار ہی نہ ہوا کہ ہمارے لوگوں نے اپنا ملک بنانے والے قائد اعظم کی بے لوث اور نحیف ونزاربہن کے مقابلے پر سینڈھرسٹ کے تربیت یافتہ فوجی کو ترجیح دی تھی جو 13اگست1947ء تک یونین جیک کو سیلوٹ مار کر برطانوی سامراج کے ساتھ عہدِ وفاداری کا اظہار کیا کرتا تھا۔''مادر ملت''کو شکست دینے کے بعد ہمارے فیلڈ مارشل نے کشمیر آزاد کروانے کا بیڑا اُٹھالیا جو بالآخر ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کا باعث ٹھہرا۔ وہ یہ جنگ جیت نہ سکا اور تاشقند جاکر صلح کے ایک معاہدے پر دستخط کر بیٹھا۔ ہماری قوم ہائے ہائے کرتی سڑکوں پر آگئی۔
اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں جب کالج جانے کی تیاری کررہا تھا تو لاہور کے مال روڈ پر روزانہ جلوس نکلتے ۔لاٹھی چارج ہوتا اور آنسو گیس برسائی جاتی۔ایوب خان اپنے لگائے کمانڈر انچیف کو اقتدار کی چھڑی تھماکر گھر چلاگیا۔اس کمانڈر انچیف نے پاکستان میں پہلی بار بالغ رائے دہی والے انتخابات کروائے مگر قوم نے جن لوگوں کو منتخب کیا تھا انھیں اقتدار منتقل کرنے میں لیت ولعل سے کام لیتا رہا اور پاکستان ٹوٹ گیا۔ باقی ماندہ پاکستان کو ذوالفقار علی بھٹو نے سنبھال کر 1977ء تک پہنچایا۔مگر اس کے تمام مخالف باہمی اختلافات بھلاکر ان کے خلاف اکٹھے ہوگئے ۔
مخالفین نے الزام لگایا کہ بھٹو نے اس سال کے انتخابات میں کھلم کھلا دھاندلی کی تھی ۔میں کالج کی تعلیم مکمل کرکے اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کو تیار ہو رہا تھا اور لاہور کے بازار اور سڑکیں ایک بار پھر لاٹھی چارج ،آنسوگیس اور پھر فائرنگ اور بالآخر کرفیو کے مناظر دکھا رہے تھے۔ قوم یہ بھی کہتی سنائی دی کہ وہ برطانوی جمہوریت کے ساتھ گزارہ نہیں کرسکتی ۔اسے تو ''نظام مصطفےﷺ'' چاہیے ۔جنرل ضیاء الحق نے آگے بڑھ کر وہ نظام لاگو کرنے کا وعدہ کیا ۔مگر اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد ہی افغانستان کو آزاد کروانے کے جہاد میں مصروف ہوگیا۔
میں صحافی بن گیا اور ڈرڈر کر دبے لفظوں میں سچ لکھ کر اپنا پیٹ پالنے کی جدوجہد شروع کردی۔خوف اور دہشت کی فضاء میں سیکھی احتیاط اکثر میرے کام نہ آئی۔آئے دن نوکری سے نکال دیا جاتا اور بے روزگاری کے طویل مہینوں کو برداشت کرنا پڑتا۔پھر 17اگست 1988ء ہوگیا۔محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے دو دو باریاں لیں اور بالآخر جنرل مشرف کے لیے راستہ بنایا۔اس کے دس سالوں نے مجھے ذرا خوش حال اور بے باک تو ضرور بنا دیا مگر 3نومبر 2007ء پھر بھی ہوگیا اور میری صحافت سے جبری کنارہ کشی بھی۔
بالآخر 2008ء میں ایک اور انتخاب ہوا جس کے بعد کم ازکم یہ طے ہوتا نظر آیا کہ اب پاکستان میںاچھی یا بری مگر برطانوی جمہوریت ہی چلے گی۔ بڑھاپے کی سرحد میں داخل ہونے کے بعد یہ ''استحکام'' مجھے کافی تسلی بخش نظرآیا ۔مگر2012ء کی آخری رات اپنے بستر پر رضائی میں لپٹ کر اکڑوں بیٹھ کر سوچتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ ہمارے ملک میں ثبات صرف تغیرّ کے نصیب میں ہے ۔
نظربظاہر 2013ء کے پہلے پانچ ماہ میں ایک اور انتخاب ہونا تھا ۔مگر 23دسمبر 2012ء کے روز کینیڈا سے ایک قادری صاحب مینار پاکستان لاہور کے وسیع وعریض گرائونڈ میں اپنے لاکھوں پیروکاروں کے ساتھ نمودار ہوگئے۔ دس جنوری تک انتظار کرنے کے بعد وہ 14جنوری کو کم از کم چالیس لاکھ لوگوں کے ساتھ اسلام آباد پر نازل ہوں گے اور ''فرسودہ نظام'' کو تبدیل کرکے رہیں گے ۔
میں بڑے ٹھنڈے دل سے یہ جانتا اور سمجھتا ہوں کہ اسلام آباد میں دھرنا دے کر ''فرسودہ نظام'' نہیں بدلاجاسکتا۔نظام مصطفےﷺ کی تڑپ میں ہمارے حصے آنے والے لاٹھی چارج ،آنسو گیس اور پھر فائرنگ اور بالآخر کرفیو نے ہمیں ایک جرنیلی صدر ہی دیا تھا۔ 14جنوری2013ء کو ''فرسودہ نظام'' کے خلاف رچایا جانے والا دھرنا اگر اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا تو اس کے سوا اور کچھ حاصل نہ ہوگا ۔مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں جس کے بال اب گرنا اور دانت گھسنا شروع ہوگئے ہیں اس صورت حال کے ساتھ کس طرح کے سمجھوتے کرنے پر مجبور ہوں گا ۔
اپنی پیشہ وارانہ ز ندگی کا آغاز ڈرڈر کر دبے لفظوں میں سچ لکھنے کی عادت اپنانے سے کیا تھا۔اس عادت سے بڑی مشکل سے نجات حاصل کرنے کے بعد خود کو اپنے تئیں Settledہوا سمجھا تو وقت بڑی تیزی سے اس طرف بڑھ رہاہے جہاں پہنچ کر ایک بار پھر ڈر ڈر کر دبے لفظوں میں سچ لکھنے کی ضرورت ہوگی۔اکثر یہ خیال آتا ہے کہ یہ جینا بھی کوئی جینا ہے اور جالب کی طرح ''مرکیوں نہیں جاتے'' پکارنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ساری زندگی دائروں میں سفر کرتے گزرگئی ۔کاش میری آنکھوں پر بھی کولہو والے بیل کے کھوپے لگے ہوتے۔ گلے میں گھنٹی بندھی ہوتی اور میں دائرے میں گھومتا ہوا کسی بھی سوچ اور فکر سے آزاد رہتا۔