بلاول کی آمد
ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں پر نظام کو بچانے کی زیادہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔
گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں مدفون بھٹو خاندان کے اکابرین کی قبروں پر ہر سال برسی کے موقعے پر ہونیوالے عوام کے غیر معمولی اجتماعات پاکستان کی سیاست کا محور و مرکز بنتے جا رہے ہیں، اپنے محبوب لیڈروں کے مزارات پر فاتحہ خوانی کے لیے جمع ہونے والے لاکھوں کی تعداد میں عقیدت مندوں کے جم غفیر سے ملکی و غیر ملکی مبصرین، تجزیہ نگار اور سیاسی پنڈت ملک کے سیاسی درجہ حرارت کا اندازہ لگاتے اور مستقبل کے حوالے سے تبصرے، تجزیے اور پیش گوئیاں کرتے ہیں۔
27 دسمبر2012ء کو گڑھی خدا بخش میں منائی جانے والی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی پانچویں برسی اس حوالے سے پاکستان کی سیاست میں یادگار رہے گی کہ اس موقع پر ان کے جواں سال صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری نے بھٹو خاندان کی سیاسی وراثت کو آگے بڑھاتے ہوئے عملی سیاست کے خارزار میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا، انھوں نے پہلی مرتبہ لاکھوں کی تعداد میں موجود لوگوں کے بڑے مجمع سے اپنی والدہ اور نانا کے جوشیلے انداز میں پراعتماد طریقے سے مدلل خطاب کیا جس نے سب کو حیران اور متاثر کیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تقریر میں ملک کو درپیش چیلنجوں کا احاطہ کرتے ہوئے تقریباً تمام موضوعات اور مسائل پر اظہار خیال کرتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاست مفاہمت پر مبنی ہے اور جو ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
ہم جمہوریت لے کر آئے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ انھوں نے حکومتی کارکردگی کا جائزہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ پارلیمنٹ اپنے فیصلوں میں آزاد ہے۔ صوبوں کو خود مختاری مل گئی اور 1973ء کا آئین بحال کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح دہشت گردی اور سیلابی آفات کے باوجود معیشت بہتر حالت میں ہے برآمدات 25 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ بلاول بھٹو نے پی پی پی کے معروف سلوگن روٹی کپڑا مکان کے بارے میں کہا کہ یہ نعرہ کل بھی ہمارا تھا اور آج بھی یہ نعرہ ہمارا تھا۔ ملک کو درپیش سب سے بڑے چیلنج دہشت گردی اور امن کے قیام کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ہم دہشت گردی کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہیں، میری والدہ اور اس ملک کی عظیم لیڈر بھی دہشت گردی کا شکار ہوئیں اور خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر اور اے این پی کے رہنما بشیر بلور بھی چند روز پیشتر دہشت گردی کا نشانہ بنے، ہم دہشت گردوں کا جم کر مقابلہ کر یں گے۔ بلاول بھٹو زرداری نے ایوان انصاف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے برملا کہا کہ بی بی شہید کے قاتلوں کو سزا دینے کے حوالے سے پیش رفت نہیں ہو رہی ہے اور نانا کا کیس بھی تا حال زیر سماعت ہے۔
ملکی حالات کے تناظر میں بلاول بھٹو زرداری کا خطاب جامع، مدلل اور قابل تعریف تھا، جس سے پیپلز پارٹی کے سیاسی مخالفین کے کیمپ میں ہلچل ضرور مچ گئی ہے۔ ہر چند کہ وہ نوجوان ہیں، جذباتی ہیں اور پرجوش ہیں، لیکن ان کے خطاب سے یہ اندازہ لگانا غلط نہ ہو گا کہ وہ ملکی حالات سے پوری طرح باخبر ہیں، سیاسی مد و جزر کو بھی سمجھتے ہیں، اپنے دوستوں اور دشمنوں سے بھی آگاہ ہیں اور ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ان کے پاس ایک پروگرام بھی ہے اور آیندہ سال الیکشن مہم میں عوامی جلسوں سے خطاب کے دوران وہ پارٹی منشور کی مزید تفصیلات سے عوام الناس کو آگاہ بھی کرتے رہیں گے۔
بلاول کی قومی سیاست میں داخل ہونے کے اعلان کے بعد یہ بات طے سمجھی جانی چاہیے کہ آیندہ سال منعقدہ انتخابات کی مہم پی پی پی کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں چلائی جائے گی۔ صدر آصف علی زرداری کا کردار اس حوالے سے غیر جانبدار رہے گا۔ اس طرح مخالفین کو ان پر تنقید کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ بلاول بھٹو کی عملی سیاست میں آمد اور الیکشن مہم میں ان کی شرکت اس حوالے سے یقینا اہمیت کی حامل ہیں کہ وہ بھٹو خاندان کے سیاسی ورثے کو آگے بڑھا رہے ہیں اور ان کی قیادت میں الیکشن کے معرکے میں پی پی پی کو زبردست سیاسی فائدہ پہنچے گا اور پارٹی کی کامیابی کے امکانات بھی روشن ہو جائینگے کیونکہ پیپلز پارٹی ملک کی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جو چاروں صوبوں میں اپنا ووٹ بینک رکھتی ہے اور اس کی جڑیں غریب و عام لوگوں میں ہیں۔
ملک کے کروڑوں مفلوک الحال اور پسماندہ طبقے کے لوگوں کے دلوں میں آج بھی بھٹو اور بی بی شہید کی محبتوں کا سمندر موجزن ہے وہ گڑھی خدا بخش کے شہیدوں سے والہانہ عقیدت و محبت کے جذبات رکھتے ہیں اور انھی شہداء کے نام پر پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں یہی وجہ ہے ملکی و غیرملکی تجزیہ نگار و مبصرین بجا طور پر یہ کہہ رہے ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری کی عملی سیاست میں آمد اور الیکشن مہم کی قیادت سے ملک میں پیپلز پارٹی کا گراف اوپر جا سکتا ہے برطانوی اخبار ٹیلی گراف کے مطابق بلاول آکسفورڈ کا طالبعلم ہے جو لوگوں کو پر اعتماد بناتا ہے اس کی جھلک بلاول میں نظر آتی ہے وہ آنکھ ملا کر بات کرنا جانتا ہے وہ بہت عقل مند اور عملیت پسند ہے۔ اس کا اسٹائل اس کی ماں جیسا ہے وہ اپنے باپ جیسا منسکر المزاج اور احترام کرنے والا ہے۔ اس تجزیے کی روشنی میں یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری مستقبل کی قومی سیاست میں ''بھٹو ثانی'' بن کر ابھرے گا۔
بی بی شہید کی برسی پر صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی خطاب کرتے ہوئے قوم کو یقین دلایا کہ آیندہ انتخابات شفاف اور وقت مقررہ پر ہوں گے کسی صورت ملتوی نہیں ہوں گے، اپوزیشن کے مشورے سے جلد ہی نگراں حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے بعض حلقوں کی جانب سے الیکشن کے التواء اور ''ٹیکنوکریٹس'' کی حکومت کے قیام کی افواہیں جلد دم توڑ جائیں گی۔ اس حوالے سے الیکشن کمشنر اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی حالیہ ملاقات بھی اہمیت کی حامل ہے۔
جس سے تجزیہ نگاروں نے اندازہ لگایا ہے کہ فوج بھی الیکشن کے پر امن اور شفاف انعقاد میں دلچسپی رکھتی ہے، اس حوالے سے الیکشن ملتوی کرانے کے خواہاں حلقے کو یقینا مایوسی ہوئی ہو گی۔ ملک میں بڑی مشکل سے جمہوریت بحال ہوئی ہے، اس کے تسلسل اور استحکام کو یقینی بنانا تمام سیاسی جماعتوں اور محب وطن حلقوں کی اجتماعی ذمے داری ہے۔ کسی بھی اندرونی و بیرونی قوتوں کے خفیہ ایجنڈے کی تکمیل میں آلہ کار بننے والوں کی کامیابی سے قومی سیاسی استحکام اور جمہوریت کی بقا خطرے میں پڑ سکتی ہے، ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں پی پی پی، مسلم لیگ (ن)، (ق) لیگ، اے این پی اور ایم کیو ایم پر نظام کو بچانے کی زیادہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ امید ہے کہ بلاول کی آمد سے قومی سیاست میں تحریک پیدا ہو گی۔
27 دسمبر2012ء کو گڑھی خدا بخش میں منائی جانے والی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی پانچویں برسی اس حوالے سے پاکستان کی سیاست میں یادگار رہے گی کہ اس موقع پر ان کے جواں سال صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری نے بھٹو خاندان کی سیاسی وراثت کو آگے بڑھاتے ہوئے عملی سیاست کے خارزار میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا، انھوں نے پہلی مرتبہ لاکھوں کی تعداد میں موجود لوگوں کے بڑے مجمع سے اپنی والدہ اور نانا کے جوشیلے انداز میں پراعتماد طریقے سے مدلل خطاب کیا جس نے سب کو حیران اور متاثر کیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تقریر میں ملک کو درپیش چیلنجوں کا احاطہ کرتے ہوئے تقریباً تمام موضوعات اور مسائل پر اظہار خیال کرتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاست مفاہمت پر مبنی ہے اور جو ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
ہم جمہوریت لے کر آئے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ انھوں نے حکومتی کارکردگی کا جائزہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ پارلیمنٹ اپنے فیصلوں میں آزاد ہے۔ صوبوں کو خود مختاری مل گئی اور 1973ء کا آئین بحال کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح دہشت گردی اور سیلابی آفات کے باوجود معیشت بہتر حالت میں ہے برآمدات 25 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ بلاول بھٹو نے پی پی پی کے معروف سلوگن روٹی کپڑا مکان کے بارے میں کہا کہ یہ نعرہ کل بھی ہمارا تھا اور آج بھی یہ نعرہ ہمارا تھا۔ ملک کو درپیش سب سے بڑے چیلنج دہشت گردی اور امن کے قیام کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ہم دہشت گردی کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہیں، میری والدہ اور اس ملک کی عظیم لیڈر بھی دہشت گردی کا شکار ہوئیں اور خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر اور اے این پی کے رہنما بشیر بلور بھی چند روز پیشتر دہشت گردی کا نشانہ بنے، ہم دہشت گردوں کا جم کر مقابلہ کر یں گے۔ بلاول بھٹو زرداری نے ایوان انصاف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے برملا کہا کہ بی بی شہید کے قاتلوں کو سزا دینے کے حوالے سے پیش رفت نہیں ہو رہی ہے اور نانا کا کیس بھی تا حال زیر سماعت ہے۔
ملکی حالات کے تناظر میں بلاول بھٹو زرداری کا خطاب جامع، مدلل اور قابل تعریف تھا، جس سے پیپلز پارٹی کے سیاسی مخالفین کے کیمپ میں ہلچل ضرور مچ گئی ہے۔ ہر چند کہ وہ نوجوان ہیں، جذباتی ہیں اور پرجوش ہیں، لیکن ان کے خطاب سے یہ اندازہ لگانا غلط نہ ہو گا کہ وہ ملکی حالات سے پوری طرح باخبر ہیں، سیاسی مد و جزر کو بھی سمجھتے ہیں، اپنے دوستوں اور دشمنوں سے بھی آگاہ ہیں اور ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ان کے پاس ایک پروگرام بھی ہے اور آیندہ سال الیکشن مہم میں عوامی جلسوں سے خطاب کے دوران وہ پارٹی منشور کی مزید تفصیلات سے عوام الناس کو آگاہ بھی کرتے رہیں گے۔
بلاول کی قومی سیاست میں داخل ہونے کے اعلان کے بعد یہ بات طے سمجھی جانی چاہیے کہ آیندہ سال منعقدہ انتخابات کی مہم پی پی پی کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں چلائی جائے گی۔ صدر آصف علی زرداری کا کردار اس حوالے سے غیر جانبدار رہے گا۔ اس طرح مخالفین کو ان پر تنقید کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ بلاول بھٹو کی عملی سیاست میں آمد اور الیکشن مہم میں ان کی شرکت اس حوالے سے یقینا اہمیت کی حامل ہیں کہ وہ بھٹو خاندان کے سیاسی ورثے کو آگے بڑھا رہے ہیں اور ان کی قیادت میں الیکشن کے معرکے میں پی پی پی کو زبردست سیاسی فائدہ پہنچے گا اور پارٹی کی کامیابی کے امکانات بھی روشن ہو جائینگے کیونکہ پیپلز پارٹی ملک کی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جو چاروں صوبوں میں اپنا ووٹ بینک رکھتی ہے اور اس کی جڑیں غریب و عام لوگوں میں ہیں۔
ملک کے کروڑوں مفلوک الحال اور پسماندہ طبقے کے لوگوں کے دلوں میں آج بھی بھٹو اور بی بی شہید کی محبتوں کا سمندر موجزن ہے وہ گڑھی خدا بخش کے شہیدوں سے والہانہ عقیدت و محبت کے جذبات رکھتے ہیں اور انھی شہداء کے نام پر پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں یہی وجہ ہے ملکی و غیرملکی تجزیہ نگار و مبصرین بجا طور پر یہ کہہ رہے ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری کی عملی سیاست میں آمد اور الیکشن مہم کی قیادت سے ملک میں پیپلز پارٹی کا گراف اوپر جا سکتا ہے برطانوی اخبار ٹیلی گراف کے مطابق بلاول آکسفورڈ کا طالبعلم ہے جو لوگوں کو پر اعتماد بناتا ہے اس کی جھلک بلاول میں نظر آتی ہے وہ آنکھ ملا کر بات کرنا جانتا ہے وہ بہت عقل مند اور عملیت پسند ہے۔ اس کا اسٹائل اس کی ماں جیسا ہے وہ اپنے باپ جیسا منسکر المزاج اور احترام کرنے والا ہے۔ اس تجزیے کی روشنی میں یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری مستقبل کی قومی سیاست میں ''بھٹو ثانی'' بن کر ابھرے گا۔
بی بی شہید کی برسی پر صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی خطاب کرتے ہوئے قوم کو یقین دلایا کہ آیندہ انتخابات شفاف اور وقت مقررہ پر ہوں گے کسی صورت ملتوی نہیں ہوں گے، اپوزیشن کے مشورے سے جلد ہی نگراں حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے بعض حلقوں کی جانب سے الیکشن کے التواء اور ''ٹیکنوکریٹس'' کی حکومت کے قیام کی افواہیں جلد دم توڑ جائیں گی۔ اس حوالے سے الیکشن کمشنر اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی حالیہ ملاقات بھی اہمیت کی حامل ہے۔
جس سے تجزیہ نگاروں نے اندازہ لگایا ہے کہ فوج بھی الیکشن کے پر امن اور شفاف انعقاد میں دلچسپی رکھتی ہے، اس حوالے سے الیکشن ملتوی کرانے کے خواہاں حلقے کو یقینا مایوسی ہوئی ہو گی۔ ملک میں بڑی مشکل سے جمہوریت بحال ہوئی ہے، اس کے تسلسل اور استحکام کو یقینی بنانا تمام سیاسی جماعتوں اور محب وطن حلقوں کی اجتماعی ذمے داری ہے۔ کسی بھی اندرونی و بیرونی قوتوں کے خفیہ ایجنڈے کی تکمیل میں آلہ کار بننے والوں کی کامیابی سے قومی سیاسی استحکام اور جمہوریت کی بقا خطرے میں پڑ سکتی ہے، ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں پی پی پی، مسلم لیگ (ن)، (ق) لیگ، اے این پی اور ایم کیو ایم پر نظام کو بچانے کی زیادہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ امید ہے کہ بلاول کی آمد سے قومی سیاست میں تحریک پیدا ہو گی۔