پنجاب میں نئے گورنر کا تقرر
آپ کے بہی خواہ آپ سےغیر جانبدارانہ، پدرانہ شفقت جیسی اعلیٰ اخلاقی روایات اور مثبت سیاسی رویوں کی توقع رکھتے ہیں۔
صدر مملکت نے اپنے آئینی اور قانونی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے صوبہ پنجاب کے لیے وطن عزیز کی ایک مشہور و معروف شخصیت مخدوم سید احمد محمود کو گورنر مقرر کر دیا ہے جنہوں نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا کر فرائض سنبھال لیے ہیں۔
خوشی اس بات کی ہے کہ اس پنج دریاؤں کی سرسبز دھرتی کو ایک اعلیٰ پایہ کی مدبر شخصیت کی سربراہی میں آنے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ ایک جدی پشتی مسلم لیگی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور قیام پاکستان سے لے کر اب تک 65 سال میں اس سنہرے دیس کی خالق جماعت کو وفاداری اور مستقل مزاجی سے اپنے سینے سے لگائے رکھا ہے۔ اس طرح آپ نے ایک با اُصول مستقل مزاج نامور ہستی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔
جناب عالی! آپ جانتے ہیں کہ اس صوبے میں قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں آج تک بہت سے گورنر آئے ہیں جن میں کچھ نے بہت شہرت حاصل کی اور کچھ کے حصے میں عوام کی طرف سے نفرتیں آئیں۔ صوبہ پنجاب ون یونٹ سے پہلے مغربی پنجاب اور ون یونٹ بننے پر دیگر صوبوں کو ملا کر مغربی پاکستان اور اب پھر پنجاب بن گیا ہے۔ ہمارے ملک میں سول اور فوجی دونوں طرح کی حکومتیں رہی ہیں۔ اس لیے یہاں سویلین اور فوجی دونوں طرح کے گورنر آئے جن میں چیدہ چیدہ کے نام یہ ہیں۔
سویلین گورنرز ۔ سردار عبدالرب نشتر، آئی آئی چندریگر، مشتاق احمد گورمانی، اختر حسین، ملک امیر محمد خان، غلام مصطفی کھر، نواب صادق حسین قریشی، محمد عباس عباسی، چوہدری الطاف حسین، مخدوم سجاد حسین قریشی، ذوالفقار کھوسہ، سلمان تاثیر اور لطیف کھوسہ۔
فوجی گورنروں میں: جنرل موسیٰ، ایئرمارشل نور خان، جنرل ٹکا خان، جنرل راجہ سروپ، جنرل سوار خان، جنرل غلام جیلانی خان ۔
تمام گورنروں میں سے سردار عبدالرب نشتر، ملک محمد امیر خان اور مخدوم سجاد حسین قریشی نے اپنی خداداد صلاحیتوں، اخلاقی اصولوں اور اپنے حسن سلوک سے تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ انھوں نے آئین و قانون کی حدود میں رہتے ہوئے صوبے کے تمام باسیوں، سیاسی پارٹیوں اور دیگر طبقہ ہائے زندگی کے افراد کو ایک آنکھ سے دیکھا۔ حقیقتاً مائی باپ کا مشفقانہ اور ناصحانہ کردار ادا کیا اور صوبے کے عوام کی بے لوث اور بلا امتیاز خدمت کی۔ اسی لیے وہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ عوام ایسے اعلیٰ منتظم اور درویش صفت گورنروں کو دیکھنے کو ترس گئے ہیں۔ ان شخصیات نے اپنے طرز عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ گورنر کا عہدہ ان کی عزت کی وجہ نہیں ہے انھوں نے گورنر کے عہدے کو نہ صرف عزت بخشی ہے بلکہ اسے چار چاند بھی لگائے۔
اگرچہ فوجی گورنروں کی کارکردگی بھی تسلی بخش رہی ہے۔ البتہ سول گورنروں میں چوہدری الطاف حسین اور سلمان تاثیر کم متاثر کن رہے۔ غلام مصطفی کھر کا دور متنازع دور ہی تھا۔ ان پر مخالفین آئینی حدود کو پھلانگنے کا الزام لگاتے ہیں جس کی وجہ سے صوبہ پنجاب اور دیگر عوام سے زیادہ ہمدردی کشید نہیں کی۔
مخدوم صاحب! آپ ایک نہایت تجربہ کار، جہاندیدہ، عوام کے ہمدرد سیاست دان اور دانشور شخصیت ہیں۔ آپ کے علم میں کچھ لانا تو ایسا ہی ہے جیسا کہ سورج کو چراغ دکھانا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کو صوبے کے گورنر کے فرائض اور اختیارات سے کماحقہ آگاہی ہے۔ صوبے کا گورنر صوبے کا آئینی سربراہ ہوتا ہے۔ صوبے کے تمام شہریوں، سیاسی جماعتوں، سیاسی لیڈروں اور ہر طبقہ فکر کے لوگوں کے مائی باپ کا درجہ رکھتا ہے۔ سب کو برابر سمجھتا ہے۔ صوبے کی سیاست یا پارٹی بازی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کسی فرد یا سیاسی پارٹی کو نقصان پہنچا کر دوسرے کو فائدہ پہنچانا اس کے منصب کے خلاف ہے۔
گورنر کی پوزیشن صوبے میں ایسی ہوتی ہے جیسے مرکز میں صدر مملکت کی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں صدر پاکستان کے آئین میں دیے گئے اختیارات و فرائض کی کھل کر وضاحت کر دی ہے۔ جس کی وجہ سے صدر آصف علی زرداری نے بھی پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کا عہدہ چھوڑ دیا ہے۔ معزز عدالت نے توقع ظاہر کی ہے کہ صدر زرداری پارٹی کے معاملات میں حصہ نہیں لیں گے۔ آپ کو یہ عہدہ اللہ تعالیٰ نے بخشا ہے، حق بحقدار رسید کے مطابق آپ اس کے مستحق تھے اس لیے کسی شخصیت کی سازشی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کی بجائے مادر وطن کے مقدس آئین کی حدود اور روح کے مطابق اپنے فرائض انجام دیں گے تو آپ کا نام اس صوبے کے نیک نام گورنروں میں شامل ہو گا۔ چند گورنر ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے سازشوں میں شریک ہو کر اوپر والوں کے اشاروں پر غیر آئینی، غیر اخلاقی اور نامناسب مثالیں قائم کیں تو تاریخ نے انھیں گمنامی کے کوڑے دان میں پھینک دیا ہے۔
آپ کے بہی خواہ آپ سے پارٹی بازی کی منفی سیاست سے بلند ہو کر غیر جانبدارانہ، پدرانہ شفقت جیسی اعلیٰ اخلاقی روایات اور مثبت سیاسی رویوں کی توقع رکھتے ہیں۔ آپ کو کامیابی کے لیے ایک درویشی نسخہ کا حوالہ یاد آیا جس پر عمل کرنے سے آپ کا نام تاریخ میں نہ صرف سنہرے حروف میں لکھا جائے گا بلکہ کامیاب اور بہترین گورنروں سے بھی چند دنوں میں ہی ممتاز کر دے گا۔ آپ اپنے علاقے کے تمام متوقع قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کو گورنر ہاؤس میں ایک ہی وقت میں ملاقات کی دعوت دیں اور ان سے کہیں کہ آج کے بعد پورے علاقے میں میرا کوئی حریف، مخالف یا دشمن نہیں ہے۔ سب میرے دوست اور بھائی ہیں اس لیے میں غیر جانبدار رہوں گا اور الیکشن میں کسی کی بھی حمایت یا مخالفت نہیں کروں گا۔ بلکہ جو بھی امیدوار اپنی خدمات اثر و رسوخ کی بناء پر جیت کر آئے گا وہی میرا اور عوام کا انتخاب ہو گا یقین جانیے کہ اس سے آپ اپنے علاقے کے نہ صرف بے تاج بادشاہ ہو جائیں گے بلکہ آپ کی عزت اور شہرت میں گراں قدر اضافہ ہو جائے گا اور آپ کے لیے صدر پاکستان اور وزیر اعظم بننے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے۔
اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔
خوشی اس بات کی ہے کہ اس پنج دریاؤں کی سرسبز دھرتی کو ایک اعلیٰ پایہ کی مدبر شخصیت کی سربراہی میں آنے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ ایک جدی پشتی مسلم لیگی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور قیام پاکستان سے لے کر اب تک 65 سال میں اس سنہرے دیس کی خالق جماعت کو وفاداری اور مستقل مزاجی سے اپنے سینے سے لگائے رکھا ہے۔ اس طرح آپ نے ایک با اُصول مستقل مزاج نامور ہستی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔
جناب عالی! آپ جانتے ہیں کہ اس صوبے میں قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں آج تک بہت سے گورنر آئے ہیں جن میں کچھ نے بہت شہرت حاصل کی اور کچھ کے حصے میں عوام کی طرف سے نفرتیں آئیں۔ صوبہ پنجاب ون یونٹ سے پہلے مغربی پنجاب اور ون یونٹ بننے پر دیگر صوبوں کو ملا کر مغربی پاکستان اور اب پھر پنجاب بن گیا ہے۔ ہمارے ملک میں سول اور فوجی دونوں طرح کی حکومتیں رہی ہیں۔ اس لیے یہاں سویلین اور فوجی دونوں طرح کے گورنر آئے جن میں چیدہ چیدہ کے نام یہ ہیں۔
سویلین گورنرز ۔ سردار عبدالرب نشتر، آئی آئی چندریگر، مشتاق احمد گورمانی، اختر حسین، ملک امیر محمد خان، غلام مصطفی کھر، نواب صادق حسین قریشی، محمد عباس عباسی، چوہدری الطاف حسین، مخدوم سجاد حسین قریشی، ذوالفقار کھوسہ، سلمان تاثیر اور لطیف کھوسہ۔
فوجی گورنروں میں: جنرل موسیٰ، ایئرمارشل نور خان، جنرل ٹکا خان، جنرل راجہ سروپ، جنرل سوار خان، جنرل غلام جیلانی خان ۔
تمام گورنروں میں سے سردار عبدالرب نشتر، ملک محمد امیر خان اور مخدوم سجاد حسین قریشی نے اپنی خداداد صلاحیتوں، اخلاقی اصولوں اور اپنے حسن سلوک سے تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ انھوں نے آئین و قانون کی حدود میں رہتے ہوئے صوبے کے تمام باسیوں، سیاسی پارٹیوں اور دیگر طبقہ ہائے زندگی کے افراد کو ایک آنکھ سے دیکھا۔ حقیقتاً مائی باپ کا مشفقانہ اور ناصحانہ کردار ادا کیا اور صوبے کے عوام کی بے لوث اور بلا امتیاز خدمت کی۔ اسی لیے وہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ عوام ایسے اعلیٰ منتظم اور درویش صفت گورنروں کو دیکھنے کو ترس گئے ہیں۔ ان شخصیات نے اپنے طرز عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ گورنر کا عہدہ ان کی عزت کی وجہ نہیں ہے انھوں نے گورنر کے عہدے کو نہ صرف عزت بخشی ہے بلکہ اسے چار چاند بھی لگائے۔
اگرچہ فوجی گورنروں کی کارکردگی بھی تسلی بخش رہی ہے۔ البتہ سول گورنروں میں چوہدری الطاف حسین اور سلمان تاثیر کم متاثر کن رہے۔ غلام مصطفی کھر کا دور متنازع دور ہی تھا۔ ان پر مخالفین آئینی حدود کو پھلانگنے کا الزام لگاتے ہیں جس کی وجہ سے صوبہ پنجاب اور دیگر عوام سے زیادہ ہمدردی کشید نہیں کی۔
مخدوم صاحب! آپ ایک نہایت تجربہ کار، جہاندیدہ، عوام کے ہمدرد سیاست دان اور دانشور شخصیت ہیں۔ آپ کے علم میں کچھ لانا تو ایسا ہی ہے جیسا کہ سورج کو چراغ دکھانا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کو صوبے کے گورنر کے فرائض اور اختیارات سے کماحقہ آگاہی ہے۔ صوبے کا گورنر صوبے کا آئینی سربراہ ہوتا ہے۔ صوبے کے تمام شہریوں، سیاسی جماعتوں، سیاسی لیڈروں اور ہر طبقہ فکر کے لوگوں کے مائی باپ کا درجہ رکھتا ہے۔ سب کو برابر سمجھتا ہے۔ صوبے کی سیاست یا پارٹی بازی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کسی فرد یا سیاسی پارٹی کو نقصان پہنچا کر دوسرے کو فائدہ پہنچانا اس کے منصب کے خلاف ہے۔
گورنر کی پوزیشن صوبے میں ایسی ہوتی ہے جیسے مرکز میں صدر مملکت کی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں صدر پاکستان کے آئین میں دیے گئے اختیارات و فرائض کی کھل کر وضاحت کر دی ہے۔ جس کی وجہ سے صدر آصف علی زرداری نے بھی پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کا عہدہ چھوڑ دیا ہے۔ معزز عدالت نے توقع ظاہر کی ہے کہ صدر زرداری پارٹی کے معاملات میں حصہ نہیں لیں گے۔ آپ کو یہ عہدہ اللہ تعالیٰ نے بخشا ہے، حق بحقدار رسید کے مطابق آپ اس کے مستحق تھے اس لیے کسی شخصیت کی سازشی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کی بجائے مادر وطن کے مقدس آئین کی حدود اور روح کے مطابق اپنے فرائض انجام دیں گے تو آپ کا نام اس صوبے کے نیک نام گورنروں میں شامل ہو گا۔ چند گورنر ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے سازشوں میں شریک ہو کر اوپر والوں کے اشاروں پر غیر آئینی، غیر اخلاقی اور نامناسب مثالیں قائم کیں تو تاریخ نے انھیں گمنامی کے کوڑے دان میں پھینک دیا ہے۔
آپ کے بہی خواہ آپ سے پارٹی بازی کی منفی سیاست سے بلند ہو کر غیر جانبدارانہ، پدرانہ شفقت جیسی اعلیٰ اخلاقی روایات اور مثبت سیاسی رویوں کی توقع رکھتے ہیں۔ آپ کو کامیابی کے لیے ایک درویشی نسخہ کا حوالہ یاد آیا جس پر عمل کرنے سے آپ کا نام تاریخ میں نہ صرف سنہرے حروف میں لکھا جائے گا بلکہ کامیاب اور بہترین گورنروں سے بھی چند دنوں میں ہی ممتاز کر دے گا۔ آپ اپنے علاقے کے تمام متوقع قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کو گورنر ہاؤس میں ایک ہی وقت میں ملاقات کی دعوت دیں اور ان سے کہیں کہ آج کے بعد پورے علاقے میں میرا کوئی حریف، مخالف یا دشمن نہیں ہے۔ سب میرے دوست اور بھائی ہیں اس لیے میں غیر جانبدار رہوں گا اور الیکشن میں کسی کی بھی حمایت یا مخالفت نہیں کروں گا۔ بلکہ جو بھی امیدوار اپنی خدمات اثر و رسوخ کی بناء پر جیت کر آئے گا وہی میرا اور عوام کا انتخاب ہو گا یقین جانیے کہ اس سے آپ اپنے علاقے کے نہ صرف بے تاج بادشاہ ہو جائیں گے بلکہ آپ کی عزت اور شہرت میں گراں قدر اضافہ ہو جائے گا اور آپ کے لیے صدر پاکستان اور وزیر اعظم بننے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے۔
اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔