اکیسویں صدی کے لیے مضبوط پاکستان کی تیاری
معیشت کی ترقی اور سائنس پڑھنے سے ضروری نہیں کہ دقیانوسی سوچ سے بھی چھٹکارا مل جائے
وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف نے گذشتہ جمعہ کو وزیر اعظم ہاوس اسلام آباد میں ''اکیسویں صدی کے لیے مضبوط پاکستان کی تیاری''کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دقیانوسی سوچ کے ساتھ اور سائنس کے بغیر ہماری معیشت آگے نہیں بڑھ پائے گی۔ وزیراعظم نے یہ ہدایت بھی دی کہ پورے ملک کے تعلیمی اداروں کو جدید سہولیات اور طلبہ کو جدید علوم سے آراستہ کیا جائے۔ ''پاکستان الائنس فار میتھ اینڈ سائنس'' کے زیراہتمام وزیر اعظم ہاوس اسلام آباد میں ہونے والی اس تقریب میں شاہد خاقان عباسی، سکندر حیات بوسن، طارق فاطمی، مفتاح اسمعیل بھی موجود تھے۔
وزیر اعظم کی یہ باتیں لائق تحسین ہیں تاہم بعض نکات مزید تشریح اور طریقہ کار سے آگہی کے متقاضی ہیں۔ وزیر اعظم کی اس تقریر میں جس مقصد یا گول کا ذکر کیا گیا ہے اس کے حصول کے لیے کوئی ٹائم فریم اور کوئی روڈ میپ قوم کے سامنے نہیں رکھا گیا۔ مزید یہ کہ ذمے دار اداروں اور عہدیداروں کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔
تشریح طلب یا تفہیم طلب ایک بات یہ ہے کہ حکمرانوں یا پالیسی سازوں کے ذہن میں دقیانوسی سوچ کا مطلب کیا ہے اور اس سوچ کی نمایندگی کن باتوں سے ہوتی ہے...؟ کیا اسکول کی تعلیم یا ماڈرن ایجوکیشن دقیانوسی سوچ کو تبدیل یا ختم کرسکتی ہے...؟ بعض اوقات کسی تعلیم یافتہ اور بظاہر مہذب آدمی کی کسی غیر مہذب حرکت یا عقل و خرد سے عاری باتوں پر بھی کہا جاتا ہے کہ یہ صاحب تو پڑھے لکھے جاہل ہیں۔ اس طرح کہنا واضح کرتا ہے کہ صرف حروف ابجد سے ناآشنا یا الفاظ پڑھنے اور لکھنے کی اہلیت سے محروم آدمی ہی جاہل نہیں ہوتا بلکہ جہالت ایک طرزفکر کا نام بھی ہے۔
یہ طرزفکر کسی ایک یا چند آدمیوں کی بھی ہوسکتی ہے اور کسی معاشرے کے اکثر لوگ بھی جاہلانہ فکر کے قیدی ہوسکتے ہیں۔ بعض لوگوں یا معاشروں میں سرایت کی ہوئی جہالت نہ صرف ان کی رسم بن جاتی ہے بلکہ نظریات یا عقائد کا روپ بھی دھارلیتی ہے۔ دقیانوسی سوچ فرد یا معاشرے کے لیے کئی لحاظ سے نقصان دہ ہے۔ ایک بڑا ضرر یہ ہے کہ دقیانوسی سوچ اصلاح کی مخالف ہوتی ہے اور تبدیلی کے خلاف ذہنوں میں مزاحمت کو ابھارتی ہے۔
معیشت کی ترقی اور سائنس پڑھنے سے ضروری نہیں کہ دقیانوسی سوچ سے بھی چھٹکارا مل جائے۔ بھارت اور کئی خوش حال عرب ممالک کی سماجی صورت حال ہمارے سامنے ہے۔ بھارت کے گذشتہ عام انتخابات میں بی جے پی کی مذہبی انتہا پسندانہ لہر کئی اعلی تعلیم یافتہ افراد کو بھی اپنے ساتھ بہا لے گئی۔ حالیہ امریکی انتخابات میں قوم پرستی ایک نئی شکل میں سامنے آئی۔ یہ دونوں مثالیں بھی دقیانوسی سوچ کی نمایندہ قرار دی جاسکتی ہیں۔
پاکستان کو فروغ تعلیم اور معیشت کی بہتری کی فوری اور شدید ضرورت ہے لیکن اس تعلیم اور ترقی کو پاکستانیت کے استحکام اور فروغ کا ذریعہ بننا چاہیے۔ ہمارا نظام تعلیم اچھے پاکستانی تیار کرنے والا ہو۔ ہماری معیشت کی ترقی کے ساتھ ہماری اعلی سماجی روایات کے تحفظ اور فروغ کا اہتمام بھی ہو۔
ہماری سرزمین کی تاریخ کہیں صدیوں کہیں ہزاروں برس پرانی ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت پر مشتمل یہ خطہ دنیا کے تین بڑے مذاہب بدھ مت، ہندومت اور سکھ مذہب کے لیے بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ برصغیر جنوبی ایشیا میں اسلام کی تبلیغ میں اولیا اللہ اور صوفیاء کرام کا کنٹری بیوشن سب سے زیادہ ہے۔
کئی صوفیاء نے اپنے فکر وعمل سے یہاں بسنے والوں کے دلوں میں اللہ اور رسول پر ایمان کے ساتھ ساتھ رواداری، اخلاص و بھائی چارہ کے جزبات بھی راسخ کیے۔
تاریخ کے مطالعے سے یہ حقیقت بھی بار بار سامنے آتی ہے کہ جن ہستیوں نے انسانوں کی اصلاح اور بھلائی کے لیے کوششیں کیں انھیں اپنی ہی قوم میں سے شدید مزاحمت اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پیغمبروں اور مصلحین کے سب مخالف ناخواندہ نہیں تھے۔ ان ہستیوں کی مخالفت پہلے سوسائٹی کی اشرافیہ کی طرف سے سامنے آئی۔ بعد میں اس اشرافیہ کے زیر اثر کئی عام لوگ بھی اصلاح کے مخالفین میں شامل ہوگئے۔
انسانوں کا بھلا چاہنے والی ان ہستیوں کی مخالفت کی بڑی وجوہات دو ہیں (1) اشرافیہ کی جانب سے کسی معاشرے پر اپنا غلبہ اور اقتدار قائم رکھنا (2) کسی قوم کے عام لوگوں کا دقیانوسی سوچ سے چمٹے رہنا۔
چند صدی پہلے کی یورپی تاریخ میں ایسی مثالیں عام ملتی ہیں کہ اشرافیہ نے اپنا غلبہ قائم رکھنے اور اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے دولت کے طالب اور دنیاوی مناصب کے متمنی مذہبی پیشواؤں کی مدد بھی حاصل کی۔
ہمیں یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے کہ دقیانوسی سوچ سے چھٹکارے اور معاشی ترقی کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ سماجیات میں مغرب کی نقالی کی جائے۔
ہماری قوم کئی اعلی اقدار و روایات حامل ہے۔ ان اقدار کے سرچشمے مذہبی بھی ہیں اور سماجی بھی۔ دنیا کی ہر قوم میں اچھائیاں بھی ہوتی ہیں اور برائیاں بھی، خوبیاں بھی ہوتی ہیں اور خامیاں بھی۔ اپنے مشاہدات اور تجربات کی وجہ سے میں یہ کہتا ہوں کہ پاکستانیوں میں کئی اچھائیاں اور کئی خوبیاں موجود ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ قدرت کی کئی نعمتوں اور پاکستانیوں کی کئی خوبیوں کو ہم اپنے ملک و قوم کی اجتماعی فلاح اور ترقی کے لیے استعمال نہیں کر پا رہے۔
ملائیشیا، ترکی، ویتنام، چائنا کی مثالیں دیتے ہوئے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں لیڈرشپ کا بحران ہے۔ اس ملک کو دیانت دار اور صاحب بصیرت حکمران مل جائے تو یہ قوم بہت تیزی سے ترقی کرے گی۔ میری نظر میں یہ بات جزوی طور پر درست ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو سیاسی لیڈر سے پہلے ایسے سماجی رہنماؤں کی اور بڑے اساتذہ کی ضرورت ہے۔ ایسے رہنما جو لوگوں سے اپنے لیے ووٹ کے طلب گار نہ ہوں، وہ لوگوں کی فلاح چاہتے ہوں، لوگ بھی ان پر اعتماد کرتے ہوں اور ان کی بات ماننا اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہوں۔
پاکستانی قوم کو ایسے نصاب تعلیم کی ضرورت ہے جو اس خطے کی تاریخ، اس کی دینی و سماجی اعلی اقدار اور وقت کے تقاضوں کو کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہو۔
صرف پڑھنا لکھنا سکھادینے سے دقیانوسی سوچ سے چھٹکارا نہیں مل پائے گا، اس کام کے لیے تعلیم سے زیادہ تربیت کی ضرورت ہے۔ یہ تربیت سماجی رہنماؤں اور ایسی ہستیوں کے ذریعے ہونی چاہیے جو پورے سماج کے لیے اساتذہ کا درجہ رکھتے ہوں۔
پاکستانی قوم کے تربیتی، تعلیمی اور سماجی امور سے آگہی، اور اس کے لیے سازگار ماحول فراہم کر نا سب سے ذیادہ سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہے۔ اس ذمے داری کی ادائی کے لیے پارلیمنٹ میں نمایندگی کی خواہاں ہر سیاسی جماعت کو اپنے کارکن سے لے کر علاقائی صوبائی اور قومی ہر سطح کے لیڈر کی ٹریننگ اور گرومنگ کا اہتمام کرنا چاہیے۔
وزیر اعظم کی یہ باتیں لائق تحسین ہیں تاہم بعض نکات مزید تشریح اور طریقہ کار سے آگہی کے متقاضی ہیں۔ وزیر اعظم کی اس تقریر میں جس مقصد یا گول کا ذکر کیا گیا ہے اس کے حصول کے لیے کوئی ٹائم فریم اور کوئی روڈ میپ قوم کے سامنے نہیں رکھا گیا۔ مزید یہ کہ ذمے دار اداروں اور عہدیداروں کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔
تشریح طلب یا تفہیم طلب ایک بات یہ ہے کہ حکمرانوں یا پالیسی سازوں کے ذہن میں دقیانوسی سوچ کا مطلب کیا ہے اور اس سوچ کی نمایندگی کن باتوں سے ہوتی ہے...؟ کیا اسکول کی تعلیم یا ماڈرن ایجوکیشن دقیانوسی سوچ کو تبدیل یا ختم کرسکتی ہے...؟ بعض اوقات کسی تعلیم یافتہ اور بظاہر مہذب آدمی کی کسی غیر مہذب حرکت یا عقل و خرد سے عاری باتوں پر بھی کہا جاتا ہے کہ یہ صاحب تو پڑھے لکھے جاہل ہیں۔ اس طرح کہنا واضح کرتا ہے کہ صرف حروف ابجد سے ناآشنا یا الفاظ پڑھنے اور لکھنے کی اہلیت سے محروم آدمی ہی جاہل نہیں ہوتا بلکہ جہالت ایک طرزفکر کا نام بھی ہے۔
یہ طرزفکر کسی ایک یا چند آدمیوں کی بھی ہوسکتی ہے اور کسی معاشرے کے اکثر لوگ بھی جاہلانہ فکر کے قیدی ہوسکتے ہیں۔ بعض لوگوں یا معاشروں میں سرایت کی ہوئی جہالت نہ صرف ان کی رسم بن جاتی ہے بلکہ نظریات یا عقائد کا روپ بھی دھارلیتی ہے۔ دقیانوسی سوچ فرد یا معاشرے کے لیے کئی لحاظ سے نقصان دہ ہے۔ ایک بڑا ضرر یہ ہے کہ دقیانوسی سوچ اصلاح کی مخالف ہوتی ہے اور تبدیلی کے خلاف ذہنوں میں مزاحمت کو ابھارتی ہے۔
معیشت کی ترقی اور سائنس پڑھنے سے ضروری نہیں کہ دقیانوسی سوچ سے بھی چھٹکارا مل جائے۔ بھارت اور کئی خوش حال عرب ممالک کی سماجی صورت حال ہمارے سامنے ہے۔ بھارت کے گذشتہ عام انتخابات میں بی جے پی کی مذہبی انتہا پسندانہ لہر کئی اعلی تعلیم یافتہ افراد کو بھی اپنے ساتھ بہا لے گئی۔ حالیہ امریکی انتخابات میں قوم پرستی ایک نئی شکل میں سامنے آئی۔ یہ دونوں مثالیں بھی دقیانوسی سوچ کی نمایندہ قرار دی جاسکتی ہیں۔
پاکستان کو فروغ تعلیم اور معیشت کی بہتری کی فوری اور شدید ضرورت ہے لیکن اس تعلیم اور ترقی کو پاکستانیت کے استحکام اور فروغ کا ذریعہ بننا چاہیے۔ ہمارا نظام تعلیم اچھے پاکستانی تیار کرنے والا ہو۔ ہماری معیشت کی ترقی کے ساتھ ہماری اعلی سماجی روایات کے تحفظ اور فروغ کا اہتمام بھی ہو۔
ہماری سرزمین کی تاریخ کہیں صدیوں کہیں ہزاروں برس پرانی ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت پر مشتمل یہ خطہ دنیا کے تین بڑے مذاہب بدھ مت، ہندومت اور سکھ مذہب کے لیے بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ برصغیر جنوبی ایشیا میں اسلام کی تبلیغ میں اولیا اللہ اور صوفیاء کرام کا کنٹری بیوشن سب سے زیادہ ہے۔
کئی صوفیاء نے اپنے فکر وعمل سے یہاں بسنے والوں کے دلوں میں اللہ اور رسول پر ایمان کے ساتھ ساتھ رواداری، اخلاص و بھائی چارہ کے جزبات بھی راسخ کیے۔
تاریخ کے مطالعے سے یہ حقیقت بھی بار بار سامنے آتی ہے کہ جن ہستیوں نے انسانوں کی اصلاح اور بھلائی کے لیے کوششیں کیں انھیں اپنی ہی قوم میں سے شدید مزاحمت اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پیغمبروں اور مصلحین کے سب مخالف ناخواندہ نہیں تھے۔ ان ہستیوں کی مخالفت پہلے سوسائٹی کی اشرافیہ کی طرف سے سامنے آئی۔ بعد میں اس اشرافیہ کے زیر اثر کئی عام لوگ بھی اصلاح کے مخالفین میں شامل ہوگئے۔
انسانوں کا بھلا چاہنے والی ان ہستیوں کی مخالفت کی بڑی وجوہات دو ہیں (1) اشرافیہ کی جانب سے کسی معاشرے پر اپنا غلبہ اور اقتدار قائم رکھنا (2) کسی قوم کے عام لوگوں کا دقیانوسی سوچ سے چمٹے رہنا۔
چند صدی پہلے کی یورپی تاریخ میں ایسی مثالیں عام ملتی ہیں کہ اشرافیہ نے اپنا غلبہ قائم رکھنے اور اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے دولت کے طالب اور دنیاوی مناصب کے متمنی مذہبی پیشواؤں کی مدد بھی حاصل کی۔
ہمیں یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے کہ دقیانوسی سوچ سے چھٹکارے اور معاشی ترقی کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ سماجیات میں مغرب کی نقالی کی جائے۔
ہماری قوم کئی اعلی اقدار و روایات حامل ہے۔ ان اقدار کے سرچشمے مذہبی بھی ہیں اور سماجی بھی۔ دنیا کی ہر قوم میں اچھائیاں بھی ہوتی ہیں اور برائیاں بھی، خوبیاں بھی ہوتی ہیں اور خامیاں بھی۔ اپنے مشاہدات اور تجربات کی وجہ سے میں یہ کہتا ہوں کہ پاکستانیوں میں کئی اچھائیاں اور کئی خوبیاں موجود ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ قدرت کی کئی نعمتوں اور پاکستانیوں کی کئی خوبیوں کو ہم اپنے ملک و قوم کی اجتماعی فلاح اور ترقی کے لیے استعمال نہیں کر پا رہے۔
ملائیشیا، ترکی، ویتنام، چائنا کی مثالیں دیتے ہوئے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں لیڈرشپ کا بحران ہے۔ اس ملک کو دیانت دار اور صاحب بصیرت حکمران مل جائے تو یہ قوم بہت تیزی سے ترقی کرے گی۔ میری نظر میں یہ بات جزوی طور پر درست ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو سیاسی لیڈر سے پہلے ایسے سماجی رہنماؤں کی اور بڑے اساتذہ کی ضرورت ہے۔ ایسے رہنما جو لوگوں سے اپنے لیے ووٹ کے طلب گار نہ ہوں، وہ لوگوں کی فلاح چاہتے ہوں، لوگ بھی ان پر اعتماد کرتے ہوں اور ان کی بات ماننا اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہوں۔
پاکستانی قوم کو ایسے نصاب تعلیم کی ضرورت ہے جو اس خطے کی تاریخ، اس کی دینی و سماجی اعلی اقدار اور وقت کے تقاضوں کو کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہو۔
صرف پڑھنا لکھنا سکھادینے سے دقیانوسی سوچ سے چھٹکارا نہیں مل پائے گا، اس کام کے لیے تعلیم سے زیادہ تربیت کی ضرورت ہے۔ یہ تربیت سماجی رہنماؤں اور ایسی ہستیوں کے ذریعے ہونی چاہیے جو پورے سماج کے لیے اساتذہ کا درجہ رکھتے ہوں۔
پاکستانی قوم کے تربیتی، تعلیمی اور سماجی امور سے آگہی، اور اس کے لیے سازگار ماحول فراہم کر نا سب سے ذیادہ سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہے۔ اس ذمے داری کی ادائی کے لیے پارلیمنٹ میں نمایندگی کی خواہاں ہر سیاسی جماعت کو اپنے کارکن سے لے کر علاقائی صوبائی اور قومی ہر سطح کے لیڈر کی ٹریننگ اور گرومنگ کا اہتمام کرنا چاہیے۔