کیسی انوکھی بات رے
یہ دنیا مائیکرو سافٹ ونڈو کی دنیا ہے
جتنی کہانیاں امیر لوگ اپنے بارے میں مشہور کرتے ہیں۔ان سے دس گنا کہانیاں غریب لوگ ان امیروں کے بارے میں مشہور کر دیتے ہیں۔جیسے یہی افسانہ کہ بل گیٹس اگر سڑک پر جا رہا ہو اور اس کے بٹوے سے سو ڈالر کا نوٹ گر جائے تو وہ شائد اسے یونہی پڑا رہنے دے اور آگے بڑھ جائے۔کیونکہ جتنی دیر میں وہ جھک کر یہ نوٹ اٹھا کے سیدھا ہوگا اتنی دیر میں اس کے اکاؤنٹ میں مزید پانچ سو ڈالر کا اضافہ ہو چکا ہوگا۔تاہم یہ افسانہ حقیقت سے کچھ اتنا دور بھی نہیں۔
یہ دنیا مائیکرو سافٹ ونڈو کی دنیا ہے۔بل اگر اپنی تمام دولت لٹا دے تب بھی ایک عشرے میں اس کے پاس اتنی ہی دولت چل کے آجائے گی۔بل گیٹس نہ صرف86 ارب ڈالر کے اثاثوں کے سبب اس دنیا کا سب سے امیر ترین شخص ہے بلکہ غریب ممالک میں بل اینڈ ملنڈا فاؤنڈیشن کے تحت فلاحی منصوبوں کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کرنے کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔بل نے دو ہزار آٹھ میں مائیکرو سافٹ کی قیادت سے کنارہ کشی کے بعد خود کو عالمی سطح پر فلاح کے لیے وقف کر رکھا ہے ۔یہ قلندرانہ چلن اختیار کرنے کے بعد بھی پچھلے آٹھ برس کے دوران بل کی دولت میں لگ بھگ بیس ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔
دنیا کا تیسرے بڑے امیر وارن بفٹ کی دولت کا اندازہ 68 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔بفٹ نے بھی بل گیٹس کی طرح اپنی دولت کا بیشتر حصہ محروموں کی مدد کے لیے وقف کر رکھا ہے۔مگر ایسا کیوں ہے کہ اتنے خیراتی کاموں کے باوجود دنیا میں ارتکازِ دولت کئی ہاتھوں سے چند ہاتھوں میں تیزی سے منتقل ہو رہا ہے۔جتنی عدم مساوات آج ہے پچھلے سات ہزار برس کی معلوم تاریخ میں کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔حتی کہ کارل مارکس نے بھی نہیں دیکھی۔
یعنی اس وقت دنیا کی ایک فیصد آبادی ( آٹھ لاکھ امرا) کے پاس جتنی دولت ہے وہ دنیا کی باقی ننانوے فیصد آبادی کے وسائیل کے برابر ہے۔اس دنیا کے آٹھ امیر ترین لوگوں کے پاس جتنا سرمایہ ہے وہ ساڑھے تین ارب انسانوں کے کل اثاثے کے برابر ہے۔سائنس و ٹیکنولوجی کی تیز رفتار ترقی اور زرعی پیداوار میں پچھلے پچاس برس کے دوران کئی گنا اضافے کے باوجود جانے کیا بنیادی مسئلہ ہے کہ آج دو ہزار سترہ میں بھی ہر نواں شخص رات کو بھوکا سو رہا ہے۔
ایسا کیوں ہے کہ پچھلے تئیس برس کے دوران دنیا کی دس فیصد غریب ترین آبادی کی آمدنی میں صرف تین ڈالر سالانہ کا اضافہ ہوا اور ایک فیصد امیر ترین لوگوں کے اثاثوں میں ایک سو بیاسی گنا اضافہ ہوا۔آپ امیر ترین لوگوں کی فہرست اٹھا کر دیکھیں۔ بظاہر ان میں سے بہت کم ایسے ہوں گے جنہوں نے غیر قانونی ہتھکنڈوں سے پیسہ بنایا ہوگا۔ کچھ کو موروثی دولت ملی اور بہت سوں نے نئے آئیڈیاز یا مصنوعات کو فروغ دے کر بقول شخصے حق حلال کا پیسہ کمایا۔اگر بل گیٹس یا واران بفٹ یا فیس بک کا مالک مارک زکر برگ ( پچاس ارب ڈالر ) یہ کہتا ہے کہ ہماری دولت شفاف طریقوں سے کمائی ہوئی ہے تو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔لیکن کیا یہ دلیل دل کو لگنے کے باوجود اتنی ہی سادہ بھی ہے ؟
اگر ایسا ہی ہے تو پھر ورلڈ اکنامک فورم کے پچھلے چار برس کے سالانہ اجلاسوں میں اس نکتے پر لگاتار اتفاقِ رائے کیوں ہے کہ دنیا میں اس وقت جتنی بھی سماجی اتھل پتھل ہے اس کا بنیادی سبب معاشی عدم مساوات ہے۔بارک اوباما کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے آخری خطاب کے دوران کیوں کہنا پڑ گیا کہ جس دنیا میں ایک فیصد لوگ ننانوے فیصد دولت کنٹرول کرتے ہوں وہ دنیا مستحکم نہیں رھ سکتی۔
اس پہلو دار خاردار مسئلے کا یک لفظی جواب ہے ٹیکس۔ دنیا بھر میں ارتکازِ دولت کا جدید سبب یہ ہے کہ کم و بیش ہر ملک نے ٹیکسیشن کا نظام کچھ اس طرح وضع کیا ہے کہ جو جتنا امیر ہے اسے اپنی دولت کے تناسب سے اتنا ہی کم ٹیکس دینا پڑ رہا ہے اور جو جتنا غریب ہے وہ اتنا ہی براہِ راست اور بلاواسطہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دب کر مزید ادھ موا ہوتا جا رہا ہے۔ہر ملک جو اپنے ہاں سرمایہ کاری چاہتا ہے وہ سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے ٹیکس کی اتنی ہی چھوٹ دینے پر مجبور ہے۔
اس وقت دنیا کی دس بڑی ملٹی نیشنل کارپوریشنز کے پاس جتنے وسائل ہیں وہ دنیا کے ایک سو اسی ممالک کی مجموعی معاشی حجم سے بھی زیادہ ہیں۔اس قدر مالی طاقت چند ہاتھوں میں مرکوز ہونے کا مطلب کیا ہے ؟ مطلب یہ ہے کہ یہ طاقتور کارپوریشنز ہر ملک میں اپنی مرضی کے مالیاتی قوانین بنوا سکتی ہیں یا ان میں لچک پیدا کروا سکتی ہیں۔ یوں پیسے کو پیسہ کھینچتا ہے۔اس کام میں ہر ملک کا حکمران طبقہ طفیلی سرمایہ کار کا کردار نبھاتا ہے۔وہ سستی لیبر اور ملکی وسائیل کو ان کارپوریشنز کی قربان گاہ تک بکرے کی طرح کھینچ کے لاتا ہے اور یوں اس بکرے میں سے اپنا حصہ پاتا ہے۔اس کام میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک اور ان کے حکمران طبقات کی کوئی قید نہیں۔
مثلاً نائجیریا کی مثال لے لیں۔اتنا تیل ہے کہ سترہ کروڑ کی آبادی اس تیل کی آمدنی سے مڈل کلاس میں آ سکتی ہے۔مگر وہاں کے قانون سازوں اور قانون سازی پر بین الاقوامی تیل کمپنیوں کا اتنا اثر ہے کہ اسی فیصد آمدنی کے ثمرات کبھی نیچے تک آ ہی نہیں سکتے اوپر ہی اوپر بٹ بٹا جاتے ہیں۔وہاں اگر بوکو حرام جیسے گروہ پیدا نہ ہوں تو پھر کیا پیدا ہو ؟
سالِ گذشتہ کینیا کی حکومت نے کارپوریٹ سیکٹر کو ٹیکسوں کی مد میں ایک ارب ڈالر سے زائد کی چھوٹ یا استثنیٰ دیا۔یہ چھوٹ کینیا کی ساڑھے چار کروڑ آبادی کے صحت بجٹ سے دوگنی ہے۔ترقی یافتہ دنیا کا حال بھی زیادہ مختلف نہیں۔مثلاً انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مشہورِ عالم کمپنی ایپل کے یورپئین ڈویڑن نے دو ہزار پندرہ میں جتنا منافع کمایا اس پر تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے صفر اعشاریہ صفر صفر صفر پانچ فیصد کارپوریٹ ٹیکس دیا۔جس کے پاس جتنی دولت ہے اس کے پے رول پر اتنے ہی بہترین ٹیکس ماہرین اور قانونی دماغ ہیں۔
چلیے آپ نے پیسہ کما لیا کوئی بات نہیں۔مگر اپنے منافع میں سے کارپوریٹ سوشل ریسپانسبلٹی کس قدر پوری کی جاتی ہے۔اس اصطلاح کا آسان مطلب یہ ہے جیسے آپ نے ایک کروڑ روپیہ کما کر چاول کی آٹھ دیگیں داتا صاحب پر بانٹ دیں اور پھر شکرانے کے عمرے پر روانہ ہو کر دل و دماغ پر اگر کوئی بوجھ تھا تو وہ بھی اتار دیا۔مگر کتنے امرا یا ادارے ہیں جنہوں نے اپنے بے تحاشا منافع سے کوئی فلاحی کام کیے ہوں۔ اسپتال ، اسکول ، ہنر سکھانے کا کوئی ادارہ ، اسکالر شپس وغیرہ۔اگر یہ سب رئیس ترین اپنے منافع کا آدھا فیصد بھی کارپوریٹ سوشل ریسپانسبلٹی کی مد میں دان کر دیں تو غربت اور عدم مساوات میں کم ازکم ایک چوتھائی کمی آ سکتی ہے۔مگر ایسا ہوتا تو پھر بات ہی کیا تھی۔
سب کا حق لے کے بھی محروم نظر آتا ہے
اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے
اس دنیا میں جس نے جتنا پیسہ کمایا اس میں سے ساڑھے سات ٹریلین ڈالر پانامہ سے ورجن آئی لینڈ تک ان جزائر میں جمع ہے جنھیں عرفِ عام میں ٹیکس کی آف شور جنت کہا جاتا ہے۔یہ رقم دنیا کی دوسری بڑی معیشت یعنی چین کے زرِ مبادلہ کے ذخائر سے دوگنی ہے۔یقیناً اس میں چوروں کا پیسہ بھی شامل ہے مگر زیادہ تر پیسہ قانونی طور پر کاروبار کرنے والوں کے منافع کا ہے۔لیکن اگر یہی رقم آف شور ٹیکس جنت کے بجائے اس امیر آدمی یا کارپوریشن کے اپنے ملک کے بینک یا اس ملک کے کسی مالیاتی ادارے میں جمع ہو جہاں یہ منافع کمایا گیا تو اس رقم سے سالانہ کم ازکم ایک سو ارب ڈالر کے ٹیکسز وصول ہو سکتے ہیں۔اتنی رقم اگر سالانہ درست طریقے سے خرچ ہو جائے تو عالمی غربت ہماری اگلی نسل کے لیے محض قصے کہانیوں میں رہ جائے۔ مگر ایسا کیسے ہو گا اور کون کرے گا ؟ حیرت یہ نہیں کہ ارتکازِ دولت دو ہزار دس میں ڈیڑھ سو ہاتھوں سے کم ہوتا ہوتا دو ہزار سولہ میں صرف آٹھ ہاتھوں میں آ چکا ہے۔بلکہ حیرت اقوامِ متحدہ پر ہے جس نے انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ عدم مساوات کا سامنا کرنے والی ہماری اس دنیا کو دو ہزار تیس تک غربت سے نجات دلانے کا ہدف دیا ہے۔کاش یہ معجزہ ہو جائے ورنہ اسد محمد خان کے گیت کا یہ مکھڑا تو بہرحال دو ہزار تیس میں بھی بجے گا
انوکھا لاڈلا ، کھیلن کو مانگے چاند ، کیسی انوکھی بات رے...
(اس مضمون کی تیاری میں عدم مساوات سے متعلق آکسفیم کی تازہ رپورٹ سے خوب استفادہ ہوا)۔
یہ دنیا مائیکرو سافٹ ونڈو کی دنیا ہے۔بل اگر اپنی تمام دولت لٹا دے تب بھی ایک عشرے میں اس کے پاس اتنی ہی دولت چل کے آجائے گی۔بل گیٹس نہ صرف86 ارب ڈالر کے اثاثوں کے سبب اس دنیا کا سب سے امیر ترین شخص ہے بلکہ غریب ممالک میں بل اینڈ ملنڈا فاؤنڈیشن کے تحت فلاحی منصوبوں کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کرنے کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔بل نے دو ہزار آٹھ میں مائیکرو سافٹ کی قیادت سے کنارہ کشی کے بعد خود کو عالمی سطح پر فلاح کے لیے وقف کر رکھا ہے ۔یہ قلندرانہ چلن اختیار کرنے کے بعد بھی پچھلے آٹھ برس کے دوران بل کی دولت میں لگ بھگ بیس ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔
دنیا کا تیسرے بڑے امیر وارن بفٹ کی دولت کا اندازہ 68 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔بفٹ نے بھی بل گیٹس کی طرح اپنی دولت کا بیشتر حصہ محروموں کی مدد کے لیے وقف کر رکھا ہے۔مگر ایسا کیوں ہے کہ اتنے خیراتی کاموں کے باوجود دنیا میں ارتکازِ دولت کئی ہاتھوں سے چند ہاتھوں میں تیزی سے منتقل ہو رہا ہے۔جتنی عدم مساوات آج ہے پچھلے سات ہزار برس کی معلوم تاریخ میں کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔حتی کہ کارل مارکس نے بھی نہیں دیکھی۔
یعنی اس وقت دنیا کی ایک فیصد آبادی ( آٹھ لاکھ امرا) کے پاس جتنی دولت ہے وہ دنیا کی باقی ننانوے فیصد آبادی کے وسائیل کے برابر ہے۔اس دنیا کے آٹھ امیر ترین لوگوں کے پاس جتنا سرمایہ ہے وہ ساڑھے تین ارب انسانوں کے کل اثاثے کے برابر ہے۔سائنس و ٹیکنولوجی کی تیز رفتار ترقی اور زرعی پیداوار میں پچھلے پچاس برس کے دوران کئی گنا اضافے کے باوجود جانے کیا بنیادی مسئلہ ہے کہ آج دو ہزار سترہ میں بھی ہر نواں شخص رات کو بھوکا سو رہا ہے۔
ایسا کیوں ہے کہ پچھلے تئیس برس کے دوران دنیا کی دس فیصد غریب ترین آبادی کی آمدنی میں صرف تین ڈالر سالانہ کا اضافہ ہوا اور ایک فیصد امیر ترین لوگوں کے اثاثوں میں ایک سو بیاسی گنا اضافہ ہوا۔آپ امیر ترین لوگوں کی فہرست اٹھا کر دیکھیں۔ بظاہر ان میں سے بہت کم ایسے ہوں گے جنہوں نے غیر قانونی ہتھکنڈوں سے پیسہ بنایا ہوگا۔ کچھ کو موروثی دولت ملی اور بہت سوں نے نئے آئیڈیاز یا مصنوعات کو فروغ دے کر بقول شخصے حق حلال کا پیسہ کمایا۔اگر بل گیٹس یا واران بفٹ یا فیس بک کا مالک مارک زکر برگ ( پچاس ارب ڈالر ) یہ کہتا ہے کہ ہماری دولت شفاف طریقوں سے کمائی ہوئی ہے تو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔لیکن کیا یہ دلیل دل کو لگنے کے باوجود اتنی ہی سادہ بھی ہے ؟
اگر ایسا ہی ہے تو پھر ورلڈ اکنامک فورم کے پچھلے چار برس کے سالانہ اجلاسوں میں اس نکتے پر لگاتار اتفاقِ رائے کیوں ہے کہ دنیا میں اس وقت جتنی بھی سماجی اتھل پتھل ہے اس کا بنیادی سبب معاشی عدم مساوات ہے۔بارک اوباما کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے آخری خطاب کے دوران کیوں کہنا پڑ گیا کہ جس دنیا میں ایک فیصد لوگ ننانوے فیصد دولت کنٹرول کرتے ہوں وہ دنیا مستحکم نہیں رھ سکتی۔
اس پہلو دار خاردار مسئلے کا یک لفظی جواب ہے ٹیکس۔ دنیا بھر میں ارتکازِ دولت کا جدید سبب یہ ہے کہ کم و بیش ہر ملک نے ٹیکسیشن کا نظام کچھ اس طرح وضع کیا ہے کہ جو جتنا امیر ہے اسے اپنی دولت کے تناسب سے اتنا ہی کم ٹیکس دینا پڑ رہا ہے اور جو جتنا غریب ہے وہ اتنا ہی براہِ راست اور بلاواسطہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دب کر مزید ادھ موا ہوتا جا رہا ہے۔ہر ملک جو اپنے ہاں سرمایہ کاری چاہتا ہے وہ سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے ٹیکس کی اتنی ہی چھوٹ دینے پر مجبور ہے۔
اس وقت دنیا کی دس بڑی ملٹی نیشنل کارپوریشنز کے پاس جتنے وسائل ہیں وہ دنیا کے ایک سو اسی ممالک کی مجموعی معاشی حجم سے بھی زیادہ ہیں۔اس قدر مالی طاقت چند ہاتھوں میں مرکوز ہونے کا مطلب کیا ہے ؟ مطلب یہ ہے کہ یہ طاقتور کارپوریشنز ہر ملک میں اپنی مرضی کے مالیاتی قوانین بنوا سکتی ہیں یا ان میں لچک پیدا کروا سکتی ہیں۔ یوں پیسے کو پیسہ کھینچتا ہے۔اس کام میں ہر ملک کا حکمران طبقہ طفیلی سرمایہ کار کا کردار نبھاتا ہے۔وہ سستی لیبر اور ملکی وسائیل کو ان کارپوریشنز کی قربان گاہ تک بکرے کی طرح کھینچ کے لاتا ہے اور یوں اس بکرے میں سے اپنا حصہ پاتا ہے۔اس کام میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک اور ان کے حکمران طبقات کی کوئی قید نہیں۔
مثلاً نائجیریا کی مثال لے لیں۔اتنا تیل ہے کہ سترہ کروڑ کی آبادی اس تیل کی آمدنی سے مڈل کلاس میں آ سکتی ہے۔مگر وہاں کے قانون سازوں اور قانون سازی پر بین الاقوامی تیل کمپنیوں کا اتنا اثر ہے کہ اسی فیصد آمدنی کے ثمرات کبھی نیچے تک آ ہی نہیں سکتے اوپر ہی اوپر بٹ بٹا جاتے ہیں۔وہاں اگر بوکو حرام جیسے گروہ پیدا نہ ہوں تو پھر کیا پیدا ہو ؟
سالِ گذشتہ کینیا کی حکومت نے کارپوریٹ سیکٹر کو ٹیکسوں کی مد میں ایک ارب ڈالر سے زائد کی چھوٹ یا استثنیٰ دیا۔یہ چھوٹ کینیا کی ساڑھے چار کروڑ آبادی کے صحت بجٹ سے دوگنی ہے۔ترقی یافتہ دنیا کا حال بھی زیادہ مختلف نہیں۔مثلاً انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مشہورِ عالم کمپنی ایپل کے یورپئین ڈویڑن نے دو ہزار پندرہ میں جتنا منافع کمایا اس پر تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے صفر اعشاریہ صفر صفر صفر پانچ فیصد کارپوریٹ ٹیکس دیا۔جس کے پاس جتنی دولت ہے اس کے پے رول پر اتنے ہی بہترین ٹیکس ماہرین اور قانونی دماغ ہیں۔
چلیے آپ نے پیسہ کما لیا کوئی بات نہیں۔مگر اپنے منافع میں سے کارپوریٹ سوشل ریسپانسبلٹی کس قدر پوری کی جاتی ہے۔اس اصطلاح کا آسان مطلب یہ ہے جیسے آپ نے ایک کروڑ روپیہ کما کر چاول کی آٹھ دیگیں داتا صاحب پر بانٹ دیں اور پھر شکرانے کے عمرے پر روانہ ہو کر دل و دماغ پر اگر کوئی بوجھ تھا تو وہ بھی اتار دیا۔مگر کتنے امرا یا ادارے ہیں جنہوں نے اپنے بے تحاشا منافع سے کوئی فلاحی کام کیے ہوں۔ اسپتال ، اسکول ، ہنر سکھانے کا کوئی ادارہ ، اسکالر شپس وغیرہ۔اگر یہ سب رئیس ترین اپنے منافع کا آدھا فیصد بھی کارپوریٹ سوشل ریسپانسبلٹی کی مد میں دان کر دیں تو غربت اور عدم مساوات میں کم ازکم ایک چوتھائی کمی آ سکتی ہے۔مگر ایسا ہوتا تو پھر بات ہی کیا تھی۔
سب کا حق لے کے بھی محروم نظر آتا ہے
اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے
اس دنیا میں جس نے جتنا پیسہ کمایا اس میں سے ساڑھے سات ٹریلین ڈالر پانامہ سے ورجن آئی لینڈ تک ان جزائر میں جمع ہے جنھیں عرفِ عام میں ٹیکس کی آف شور جنت کہا جاتا ہے۔یہ رقم دنیا کی دوسری بڑی معیشت یعنی چین کے زرِ مبادلہ کے ذخائر سے دوگنی ہے۔یقیناً اس میں چوروں کا پیسہ بھی شامل ہے مگر زیادہ تر پیسہ قانونی طور پر کاروبار کرنے والوں کے منافع کا ہے۔لیکن اگر یہی رقم آف شور ٹیکس جنت کے بجائے اس امیر آدمی یا کارپوریشن کے اپنے ملک کے بینک یا اس ملک کے کسی مالیاتی ادارے میں جمع ہو جہاں یہ منافع کمایا گیا تو اس رقم سے سالانہ کم ازکم ایک سو ارب ڈالر کے ٹیکسز وصول ہو سکتے ہیں۔اتنی رقم اگر سالانہ درست طریقے سے خرچ ہو جائے تو عالمی غربت ہماری اگلی نسل کے لیے محض قصے کہانیوں میں رہ جائے۔ مگر ایسا کیسے ہو گا اور کون کرے گا ؟ حیرت یہ نہیں کہ ارتکازِ دولت دو ہزار دس میں ڈیڑھ سو ہاتھوں سے کم ہوتا ہوتا دو ہزار سولہ میں صرف آٹھ ہاتھوں میں آ چکا ہے۔بلکہ حیرت اقوامِ متحدہ پر ہے جس نے انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ عدم مساوات کا سامنا کرنے والی ہماری اس دنیا کو دو ہزار تیس تک غربت سے نجات دلانے کا ہدف دیا ہے۔کاش یہ معجزہ ہو جائے ورنہ اسد محمد خان کے گیت کا یہ مکھڑا تو بہرحال دو ہزار تیس میں بھی بجے گا
انوکھا لاڈلا ، کھیلن کو مانگے چاند ، کیسی انوکھی بات رے...
(اس مضمون کی تیاری میں عدم مساوات سے متعلق آکسفیم کی تازہ رپورٹ سے خوب استفادہ ہوا)۔