اہرام کا راز
اہرام مصر سے متعلق ایک اور دلچسپ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اسے اہرام کی طرح شکل میں تعمیر کیوں کیا گیا؟
HYDERABAD:
کچھ عرصہ قبل ہی فرعونوں سے متعلق ممیز کی مختلف اشیا مثلاً زیورات، برتن اور استعمال کی دیگر چیزیں سامنے آئی ہیں۔ ہم سب اس زمانے میں آرٹ کے شاہکار دیکھ کر حیران ہیں۔کیا فن کیا صناعی۔ ہزاروں برس پہلے بھی انسان کی عقل نے کیا کیا کرشمے دکھائے ہیں لیکن جس عظیم بڑے کرشمے کے حوالے سے یہ تمام اشیا ایک بار پھر سے رہتی دنیا کو حیران کر رہی ہیں وہ ہے اہرام مصر۔ فرعونوں کی آخری آرام گاہ۔ دریائے نیل کے کنارے پراسرار اہرام۔ دریائے نیل کے مغربی کنارے پر تقریباً باون ہزار اہرام موجود ہیں جن کے وسط میں فرعون کا اہرام نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج سے تقریباً پانچ ہزار سال سے قبل کیا اتنی زبردست ٹیکنالوجی موجود تھی کہ جس نے اس قدر عظیم اہرام کو تخلیق کیا۔ لاکھوں بلاکس سے قائم کردہ اہرام پینتالیس منزلہ اور سترہ ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے، ایک اندازے کے مطابق اس کے ایک بلاک کا وزن 25 سے تیرہ ٹن تک ہے، اتنے وزنی بلاکس اس قدر دورکس طرح پہنچائے گئے، تعمیر کیے گئے اور لگائے گئے۔ سوال اپنی جگہ پر قائم ہے۔
اہرام مصر سے متعلق ایک اور دلچسپ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اسے اہرام کی طرح شکل میں تعمیر کیوں کیا گیا؟ اسے چوکور، مستطیل، گول کیوں نہیں بنایا گیا؟ اس کا جواب آج کل کی سائنسی معلومات کے ذریعے کچھ اس طرح سے ملتا ہے کہ اگر ہم لکڑی، گتے یا فائبر شیٹ کی مدد سے بنائے ہوئے اہرام کو سطح زمین پر شمال اور جنوب کی سمت پر رکھتے ہیں تو اہرام کے اندر رکھی اشیا محفوظ رہتی ہیں کیونکہ شمال سے جنوب کی جانب مقناطیسی لہریں چلتی ہیں۔ قطب نما کے ذریعے اس کا پتا لگا یا جا سکتا ہے ، اصولاً قطب نما کو کسی بھی سطح پر رکھا جاتا ہے تو اس کی سوئی ہمیشہ شمال اور اس کا دوسرا حصہ جنوب کی جانب رہے گا لہٰذا اس سمت چلنے والی یہ مقناطیسی لہریں اپنا اثر دکھاتی ہیں اور اشیا کو محفوظ رکھتی ہیں۔
غالباً اسی اصول کے تحت فرعون کی لاشوں کو محفوظ رکھا گیا۔ اس کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایسی دوائیں ان کے اجسام پر لگائی گئی تھیں کہ جس سے ان کا جسم محفوظ رہ سکے۔ یہ اس زمانے کا دستور تھا کہ امرا کی میتوں کو سالہا سال اسی طرح محفوظ رکھا جاتا تھا لیکن فرعون کے بارے میں سارے خیالات سارے ابہام ایک جانب ہوجاتے ہیں کیونکہ قرآن پاک میں واضح طور پر اس قدر تکبر کرنے والے کے لیے تحریر ہے اور آج کے دور میں بھی ہمارے لیے یہ ازحد مغرور اور طاقت کے نشے میں سرشاری کا ایک نمونہ ہے جسے دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی ہم سب اپنے اپنے حال میں بدمست ہیں۔
اہرام کے تین کونے ہوتے ہیں کہا جاتا ہے کہ اگر اس طرح اہرام بناکر اس میں رہا جائے مراقبہ کیا تو ذہن پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور روحانیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ قدیم مصریوں کا خیال تھا کہ ان اشکال کی عمارات توانائی کو اپنی جانب کھینچتی ہیں یہ توانائی مخصوص ہوتی ہے یہ توانائی سفید ہوتی ہے۔ ناسا کے ایک سائنسدان کے مطابق ''اہرام توانائی کا ذریعہ ہے۔''
اہرام کی طرز پر بہت سے سائنسدانوں نے ریسرچ کی ہے لیکن تمام تر تحقیقات کے باوجود اس اسرار کو جان نہ سکے، اہرام مصرآج بھی پراسرار ہیں اپنے اندر بے شمار معلومات اور علم کا خزانہ سمیٹے۔
اہرام کی شکل پر ذرا غورکیجیے اس کے تین کونے اوپر کی جانب اٹھتے ہوئے طویل بلندی پر ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور ایک نوک سی آسمان کی جانب نظر آتی ہے۔ ہندسہ ہے تین کونوں کا جن کا ماخذ ایک جگہ جاکر رک گیا اور مل گیا۔ ویسے تو ہم سب اہرام مصر کے بارے میں مختلف دلچسپ تحقیقات پڑھتے چلے آئے ہیں لیکن اس تین کونوں کے متعلق غور کریں تو ایک خوبصورت اور منفرد حقیقت سامنے آتی ہے۔ کہتے ہیں کہ سائنسدان اس معمے کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ اہرام کس طرح مخصوص سفید توانائی کو ایک جگہ اکٹھا کرتے ہیں۔ یا یوں کہہ لیں کہ کیسے توانائی اس تین کے مجموعے کی جانب کشش کرتی ہے۔
اگر ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو ایک حسین دنیا نعمتوں سے بھرپور موجود ہے۔ ہر ایک شے خود بیان کرتی ہے کہ وہ ایک وقت پیدا ہوئی ہے اور ایک مقررہ وقت کے بعد اسے فنا ہوجانا ہے لیکن بے جان اشیا جیسے پتھر، مٹی، ریت، پہاڑ اور لکڑی اور دیگر دھاتیں وغیرہ جان دار اشیا کی طرح فنا نہیں ہوتیں گو ان کے فنا ہونے کا بھی وقت مقرر ہے لیکن اس سے مراد اس کی شکل تبدیل ہونے سے ہے مثلاً پتھر، مٹی اور ریت کو ہم مختلف امور میں استعمال کرتے ہیں جیسے تعمیراتی مقاصد کے لیے، لکڑی جو جان دار یعنی درخت سے حاصل ہوکر بے جان ہوجاتی ہے اور پھر دیگر مقاصد کے لیے استعمال کی جاتی ہے اسی طرح دھاتیں بھی مختلف سانچوں میں ڈھل کر اپنی ہیئت تبدیل کرلیتی ہیں۔ یہ قدرت کا اصول ہے، نامیاتی اور غیر نامیاتی مرکبات تمام مرکبات قدرت کے پیدا کردہ خزانے کی دین ہیں جس سے انکار کرنا ممکن نہیں۔
تین کے اندر بڑا حسین تعلق ہے اور جو اس تعلق کو سمجھ جاتا ہے وہ بالکل اسی طرح محفوظ ہوجاتا ہے جیسے اہرام کے اندر اشیا۔ یہ تعلق بہت آسان اور واضح ہے ہم خوش قسمت ہیں کہ اسلام کے ماننے والے ہیں اور ہمیں قدرت کی جانب سے یہ تحفہ ملا ہے۔ ایک بندے کو واسطے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اللہ رب العزت سے تعلق یا کنکشن ایک ایسا مثلث بنا دیتی ہے کہ اگر ہم اپنے اس تعلق کو مضبوط کرلیں تو ہم اہرام مصر کے عجوبات پر ذرا حیران نہیں ہوں گے۔ یہ ایک ایسا کھلا راز ہے جسے پانے کے لیے ہمیں اپنے دلوں میں وسعتیں پیدا کرنا ہوں گی پھر اس مثلث کے اسرار خودبخود کھلتے چلے جائیں گے جس میں گھاٹے کا سودا ہرگز نہیں ملے گا۔
آج سے پانچ ہزار سال قبل جن عقل مند دماغوں نے ان بھاری بھرکم بلاکس کو چاہے ذریعہ مواصلات یا کشش ثقل سے آزاد کرکے وزن کرکے اتنے بلند بالا اہرام بنا ڈالے پھر ایسے عقل مند دماغ آج کے دور میں کیوں سامنے نہیں آئے جو اہرام مصر کی طرز پر کوئی کمال دکھا سکیں آخر کیوں؟ یقین جانیے اس میں کوئی اسرار نہیں۔
وہ جس طرح چاہتے ہیں کام لے لیتے ہیں رب العزت نے اپنے ہی بندوں سے ایسا کام لیا کہ بعد کی دنیا ان کی نافرمانی اور تکبر کی تصویرکو عبرت سمجھ کر دیکھے اور ہم سب دیکھتے ہیں پڑھتے ہیں اور استغفارکرتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل ہی فرعونوں سے متعلق ممیز کی مختلف اشیا مثلاً زیورات، برتن اور استعمال کی دیگر چیزیں سامنے آئی ہیں۔ ہم سب اس زمانے میں آرٹ کے شاہکار دیکھ کر حیران ہیں۔کیا فن کیا صناعی۔ ہزاروں برس پہلے بھی انسان کی عقل نے کیا کیا کرشمے دکھائے ہیں لیکن جس عظیم بڑے کرشمے کے حوالے سے یہ تمام اشیا ایک بار پھر سے رہتی دنیا کو حیران کر رہی ہیں وہ ہے اہرام مصر۔ فرعونوں کی آخری آرام گاہ۔ دریائے نیل کے کنارے پراسرار اہرام۔ دریائے نیل کے مغربی کنارے پر تقریباً باون ہزار اہرام موجود ہیں جن کے وسط میں فرعون کا اہرام نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج سے تقریباً پانچ ہزار سال سے قبل کیا اتنی زبردست ٹیکنالوجی موجود تھی کہ جس نے اس قدر عظیم اہرام کو تخلیق کیا۔ لاکھوں بلاکس سے قائم کردہ اہرام پینتالیس منزلہ اور سترہ ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے، ایک اندازے کے مطابق اس کے ایک بلاک کا وزن 25 سے تیرہ ٹن تک ہے، اتنے وزنی بلاکس اس قدر دورکس طرح پہنچائے گئے، تعمیر کیے گئے اور لگائے گئے۔ سوال اپنی جگہ پر قائم ہے۔
اہرام مصر سے متعلق ایک اور دلچسپ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اسے اہرام کی طرح شکل میں تعمیر کیوں کیا گیا؟ اسے چوکور، مستطیل، گول کیوں نہیں بنایا گیا؟ اس کا جواب آج کل کی سائنسی معلومات کے ذریعے کچھ اس طرح سے ملتا ہے کہ اگر ہم لکڑی، گتے یا فائبر شیٹ کی مدد سے بنائے ہوئے اہرام کو سطح زمین پر شمال اور جنوب کی سمت پر رکھتے ہیں تو اہرام کے اندر رکھی اشیا محفوظ رہتی ہیں کیونکہ شمال سے جنوب کی جانب مقناطیسی لہریں چلتی ہیں۔ قطب نما کے ذریعے اس کا پتا لگا یا جا سکتا ہے ، اصولاً قطب نما کو کسی بھی سطح پر رکھا جاتا ہے تو اس کی سوئی ہمیشہ شمال اور اس کا دوسرا حصہ جنوب کی جانب رہے گا لہٰذا اس سمت چلنے والی یہ مقناطیسی لہریں اپنا اثر دکھاتی ہیں اور اشیا کو محفوظ رکھتی ہیں۔
غالباً اسی اصول کے تحت فرعون کی لاشوں کو محفوظ رکھا گیا۔ اس کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایسی دوائیں ان کے اجسام پر لگائی گئی تھیں کہ جس سے ان کا جسم محفوظ رہ سکے۔ یہ اس زمانے کا دستور تھا کہ امرا کی میتوں کو سالہا سال اسی طرح محفوظ رکھا جاتا تھا لیکن فرعون کے بارے میں سارے خیالات سارے ابہام ایک جانب ہوجاتے ہیں کیونکہ قرآن پاک میں واضح طور پر اس قدر تکبر کرنے والے کے لیے تحریر ہے اور آج کے دور میں بھی ہمارے لیے یہ ازحد مغرور اور طاقت کے نشے میں سرشاری کا ایک نمونہ ہے جسے دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی ہم سب اپنے اپنے حال میں بدمست ہیں۔
اہرام کے تین کونے ہوتے ہیں کہا جاتا ہے کہ اگر اس طرح اہرام بناکر اس میں رہا جائے مراقبہ کیا تو ذہن پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور روحانیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ قدیم مصریوں کا خیال تھا کہ ان اشکال کی عمارات توانائی کو اپنی جانب کھینچتی ہیں یہ توانائی مخصوص ہوتی ہے یہ توانائی سفید ہوتی ہے۔ ناسا کے ایک سائنسدان کے مطابق ''اہرام توانائی کا ذریعہ ہے۔''
اہرام کی طرز پر بہت سے سائنسدانوں نے ریسرچ کی ہے لیکن تمام تر تحقیقات کے باوجود اس اسرار کو جان نہ سکے، اہرام مصرآج بھی پراسرار ہیں اپنے اندر بے شمار معلومات اور علم کا خزانہ سمیٹے۔
اہرام کی شکل پر ذرا غورکیجیے اس کے تین کونے اوپر کی جانب اٹھتے ہوئے طویل بلندی پر ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور ایک نوک سی آسمان کی جانب نظر آتی ہے۔ ہندسہ ہے تین کونوں کا جن کا ماخذ ایک جگہ جاکر رک گیا اور مل گیا۔ ویسے تو ہم سب اہرام مصر کے بارے میں مختلف دلچسپ تحقیقات پڑھتے چلے آئے ہیں لیکن اس تین کونوں کے متعلق غور کریں تو ایک خوبصورت اور منفرد حقیقت سامنے آتی ہے۔ کہتے ہیں کہ سائنسدان اس معمے کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ اہرام کس طرح مخصوص سفید توانائی کو ایک جگہ اکٹھا کرتے ہیں۔ یا یوں کہہ لیں کہ کیسے توانائی اس تین کے مجموعے کی جانب کشش کرتی ہے۔
اگر ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو ایک حسین دنیا نعمتوں سے بھرپور موجود ہے۔ ہر ایک شے خود بیان کرتی ہے کہ وہ ایک وقت پیدا ہوئی ہے اور ایک مقررہ وقت کے بعد اسے فنا ہوجانا ہے لیکن بے جان اشیا جیسے پتھر، مٹی، ریت، پہاڑ اور لکڑی اور دیگر دھاتیں وغیرہ جان دار اشیا کی طرح فنا نہیں ہوتیں گو ان کے فنا ہونے کا بھی وقت مقرر ہے لیکن اس سے مراد اس کی شکل تبدیل ہونے سے ہے مثلاً پتھر، مٹی اور ریت کو ہم مختلف امور میں استعمال کرتے ہیں جیسے تعمیراتی مقاصد کے لیے، لکڑی جو جان دار یعنی درخت سے حاصل ہوکر بے جان ہوجاتی ہے اور پھر دیگر مقاصد کے لیے استعمال کی جاتی ہے اسی طرح دھاتیں بھی مختلف سانچوں میں ڈھل کر اپنی ہیئت تبدیل کرلیتی ہیں۔ یہ قدرت کا اصول ہے، نامیاتی اور غیر نامیاتی مرکبات تمام مرکبات قدرت کے پیدا کردہ خزانے کی دین ہیں جس سے انکار کرنا ممکن نہیں۔
تین کے اندر بڑا حسین تعلق ہے اور جو اس تعلق کو سمجھ جاتا ہے وہ بالکل اسی طرح محفوظ ہوجاتا ہے جیسے اہرام کے اندر اشیا۔ یہ تعلق بہت آسان اور واضح ہے ہم خوش قسمت ہیں کہ اسلام کے ماننے والے ہیں اور ہمیں قدرت کی جانب سے یہ تحفہ ملا ہے۔ ایک بندے کو واسطے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اللہ رب العزت سے تعلق یا کنکشن ایک ایسا مثلث بنا دیتی ہے کہ اگر ہم اپنے اس تعلق کو مضبوط کرلیں تو ہم اہرام مصر کے عجوبات پر ذرا حیران نہیں ہوں گے۔ یہ ایک ایسا کھلا راز ہے جسے پانے کے لیے ہمیں اپنے دلوں میں وسعتیں پیدا کرنا ہوں گی پھر اس مثلث کے اسرار خودبخود کھلتے چلے جائیں گے جس میں گھاٹے کا سودا ہرگز نہیں ملے گا۔
آج سے پانچ ہزار سال قبل جن عقل مند دماغوں نے ان بھاری بھرکم بلاکس کو چاہے ذریعہ مواصلات یا کشش ثقل سے آزاد کرکے وزن کرکے اتنے بلند بالا اہرام بنا ڈالے پھر ایسے عقل مند دماغ آج کے دور میں کیوں سامنے نہیں آئے جو اہرام مصر کی طرز پر کوئی کمال دکھا سکیں آخر کیوں؟ یقین جانیے اس میں کوئی اسرار نہیں۔
وہ جس طرح چاہتے ہیں کام لے لیتے ہیں رب العزت نے اپنے ہی بندوں سے ایسا کام لیا کہ بعد کی دنیا ان کی نافرمانی اور تکبر کی تصویرکو عبرت سمجھ کر دیکھے اور ہم سب دیکھتے ہیں پڑھتے ہیں اور استغفارکرتے ہیں۔