کچھ کہہ نہیں سکتے
آپ نے شادی بیاہ کے موقعوں پر بینڈ دیکھا ہوگا
ISLAMABAD/لاہور:
ایک ایسا ملک جس کا زن بچہ مقروض ہے اور جو چاہے بھی تو اپنے سر پر قرض کے بوجھ کو شاید آیندہ نصف صدی تک نہ اتار سکے اس ملک کے لوگوں کی شاہ خرچیاں دنیا دیکھ کر حیران ہوجاتی ہے۔ اس ملک کا حکمران طبقہ ملک سے باہر علاج کرواتا ہے اور نہ صرف علاج پرکروڑوں کا خرچ ہوتا ہے بلکہ ''گھر واپسی'' کے لیے طیارہ الگ سے لیا جاتا ہے جس پر کروڑوں ڈالر خرچ آتا ہے اور ملک کے عوام کے تن پر کپڑا اور پیٹ میں روٹی پوری نہیں ہوتی۔
یہ وتیرہ سب کا رہا ہے اور اس پر رائے زنی اب زیادہ ہوتی ہے۔ سابقہ حکومت میں صدر پاکستان اور حکومت پاکستان کے بارے میں زیادہ نہ لکھا گیا نہ بولا گیا۔ اس سلسلے میں اس لیے کہ شاید اس میں طریقہ کار سب کو خوش رکھنے کا تھا مگر اب حکمرانوں کا ریکارڈ ہے کہ یہ صرف خود کو خوش رکھتے ہیں ''شامل واجا'' کے قائل نہیں۔ ''شامل واجا'' کی تشریح ضروری ہے کہ شاید اہل پنجاب کے علاوہ اسے اور کوئی نہ سمجھے۔
آپ نے شادی بیاہ کے موقعوں پر بینڈ دیکھا ہوگا۔ اس میں پیتل کے چمکدار مختلف قسم کے باجے شامل ہوتے ہیں، قسم سے مراد سائز ہے، تو ایک سب سے بڑا باجہ ہوتا ہے جو صرف ایک قسم کی آواز نکالتا ہے ''بھوں''۔ اس کا اور کوئی کام نہیں ہے تو اس وجہ سے اس کا نام ''شامل واجا'' ہے باجہ کو پنجابی میں پیار سے واجا کہتے ہیں۔
یہ جو وزرائے مملکت ہوتے ہیں جن کی توقیر میں بے حد کمی بھانجے کی وجہ سے ہوگئی ہے۔ یہ بھی وزیروں کے ''شامل واجا'' کہے جاسکتے ہیں، آئین میں ترمیم کے بعد اور آئین سے مراد ''آئین زندگی'' ہی لے لیجیے۔ ملک کے آئین کا تو بہت برا حال کردیا ہے آئین میں شامل ''ترمیم واجا'' نے۔
اب ایک مذاق سا چل رہا ہے ملک کے آئین کے ساتھ۔ آپ کی عددی طاقت زیادہ ہے پارلیمنٹ میں لہٰذا آپ جو چاہے آئین میں ترمیم کرلیجیے۔ جو چاہے قانون پاس کرلیجیے۔ بقول زبان عام ''ہاتھ کھڑا کرنا ہے'' اور بس قانون پاس۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس قانون سے ملک کو کیا فائدہ یا نقصان ہے بس یہ دیکھنا ہے کہ قانون پیش کرنے والوں کو فائدہ ہے۔
سیاست دوراں پر تبصرہ لوگ شاید آسان سمجھتے ہیں جی نہیں یہ بہت مشکل ہے اور اسے لکھتے ہوئے جگر خون ہوتا ہے آنکھ روتی ہے۔ مگر لکھنا پڑتا ہے کیونکہ اگر سمجھا جائے محسوس کیا جائے تو یہ بھی ایک فریضہ ہے ورنہ کالم تو بہت سے احباب خوش فکروں کی طرح تحریر کرتے ہیں اور اپنی زندہ دلی خود ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ ہم تھوڑے سے حیران ہوتے ہیں۔
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں!
ان حالات میں جب کہ ملک کی سرحدوں پر چوبیس گھنٹے خطرات منڈلاتے رہتے ہیں۔ شہروں میں دہشت گردی لوٹ مارکا بازار گرم ہے آپ لوگوں کو ہنسانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ یہ اسی طرح کی مزاحیہ تعزیت ہے جس کے بہت سے لطیفے آپ نے سن رکھے ہوں گے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
دہشت گرد کام کر جاتے ہیں، حادثے غیر ذمے داری سے انجام پا جاتے ہیں کوئی سزا تک نہیں پہنچتا حکومت چیک ہاتھ میں لیے کھڑی ہے (ہر حکومت) مر جانے والوں کے لیے اتنے لاکھ۔ بچ جانے والوں کے لیے اتنے لاکھ کیا ہے یہ؟ انسانی خون کی بولی کب تک لگتی رہے گی۔ مجرموں کو سزا کیوں نہیں ملتی۔ ان کی پناہ گاہیں کن کن قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران کے حلقوں میں ہیں (حلقوں میں ہیں کو آپ ہر معنوں میں سمجھ سکتے ہیں) اور کیوں ان پر آپریشن نہیں ہوا اور وہ گرفت میں کیوں نہیں لیے جا رہے۔
جو ادارے یہ فرائض انجام دیتے ہیں ان کے پاس پورا ریکارڈ ہوگا۔ پاکستان میں فرقہ وارانہ اور لسانی فسادات کے بیج کس نے کہاں بوئے اور ان کی فصل کس نے کاٹی؟ اور یہ زہریلی فصلیں کہاں کہاں لگ چکی ہیں اور کون کاٹ رہا ہے اس کا بیج کہاں سے آیا اور اب آبیاری کون کر رہا ہے۔ ہر عقیدے سے بلند ہوکر تمام انسانی جانیں یکساں محترم ہیں۔ ہر جسم سے سرخ خون بہتا ہے۔ خون پر TAG نہیں لگا ہوتا!
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤگے دنیا سے
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
یہ بات بہت پہلے جس نے کہی سچ کہی۔ ادراک تھا کہ ایسا ہوگا۔ ایسا ہو رہا ہے، اسے تسلیم مت کیجیے کہ ہم الگ ہیں چاہے لوگ کتنی ہی کوشش کرلیں ہر سمت سے، ہاتھ سے ہاتھ الگ نہ ہو ورنہ شیرازہ بکھر جائے گا اور قرآن کے مطابق ''تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔''
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں
شاہ خرچی ختم کرو، تقریبات پر اخراجات ختم کرو، سادگی سے کام کرو، سادگی ایمان کا حصہ ہے اپنے رسولؐ کی زندگی کو دیکھ لو۔ کیا ان کے لیے وہ سب مشکل تھا جو بعد میں مسلمان بادشاہوں نے کیا اور اپنی تباہی کی تاریخ خود لکھی۔ مگر دین فطرت ہے اسلام اور رسول فطرت کے مطابق سادگی پسند، قناعت پسند، پرامن، پرخلوص، دیانت دار۔ یہ ہے نا ہمارا اثاثہ تو پھر قوم یہود کے زر و جواہر کے اثاثے کو کیوں اپنالیا ہے؟
پاکستان میں انعام تقسیم کرنے کی سرکاری تقریب میں کروڑوں خرچ ہوجاتے ہیں اور انعام لاکھوں کا ہوتا ہے، اداروں میں وبا پھیل گئی ہے تقریبات کی، اسے ختم کیا جانا چاہیے۔ اداروں کا بجٹ تقریبات کے لیے نہیں ترقی کے لیے ہوتا ہے عوام کی سہولت کے لیے ترقی۔
لوگوں کو باقاعدہ نوکری دیں۔ بہلاوے کانٹریکٹ کے نہیں۔ ہر ڈپارٹمنٹ کا یہی حال ہے دس کی جگہ پچاس ملازم۔ بلدیاتی ادارے خاص طور پر اس کے شاہکار ہیں اورکام کوئی نہیں کر رہا۔ یہ دس کی جگہ پچاس کیوں بھرتی کیے ہیں پیسے لے کر یا اقربا پروری کے تحت اور کیے تھے تو کام تو لیں ان سے۔ کچرا ہی اٹھوا لیں کوئی کام نہیں ہے تو، گٹر صاف کرنا سکھادیں وہ کام کرلیں اگر دفتر میں کوئی کام نہیں ہے۔
حرام کھانا، حرام کھلانا یہ طریقہ ہے پاکستان میں اوپر سے نیچے تک اب تو لوگ اسپتال تک ہو آئے ہیں باقی صرف ایک جگہ ہے ''قبر'' جو ہر ایک کا آخری شکار ہے بشمول میرے۔ وہاں سے واپسی نہیں ہے۔ One Way Ticket ہے وہ۔ جہاں اگلے جنم کا تصور ہے وہاں بھی اگلے جنم میں نہرو کی جگہ منحوس ''موذی'' پیدا ہوتا ہے۔ تو آپ تو ہرگز نہیں چاہیں گے یہ آپشن۔
اب بھی وقت ہے اتاترک نے ترکی کو ترکی بنایا تھا۔ ماؤزے تنگ نے چین کو چین۔ قائد اعظم نے بھارت سے ''پاکستان'' تو آپ بھی اس تاریخ میں کچھ کرلیجیے۔ آپ سے مراد وہ جو کرسکتے ہیں۔ وگرنہ ملک کو تو قرضوں کی ''ڈار'' میں ڈبو دیا گیا ہے اور اگر پھر رہے تو شاید یہ رہیں میرے منہ میں خاک ملک کا کیا ہوگا۔ کچھ کہہ نہیں سکتے۔
ایک ایسا ملک جس کا زن بچہ مقروض ہے اور جو چاہے بھی تو اپنے سر پر قرض کے بوجھ کو شاید آیندہ نصف صدی تک نہ اتار سکے اس ملک کے لوگوں کی شاہ خرچیاں دنیا دیکھ کر حیران ہوجاتی ہے۔ اس ملک کا حکمران طبقہ ملک سے باہر علاج کرواتا ہے اور نہ صرف علاج پرکروڑوں کا خرچ ہوتا ہے بلکہ ''گھر واپسی'' کے لیے طیارہ الگ سے لیا جاتا ہے جس پر کروڑوں ڈالر خرچ آتا ہے اور ملک کے عوام کے تن پر کپڑا اور پیٹ میں روٹی پوری نہیں ہوتی۔
یہ وتیرہ سب کا رہا ہے اور اس پر رائے زنی اب زیادہ ہوتی ہے۔ سابقہ حکومت میں صدر پاکستان اور حکومت پاکستان کے بارے میں زیادہ نہ لکھا گیا نہ بولا گیا۔ اس سلسلے میں اس لیے کہ شاید اس میں طریقہ کار سب کو خوش رکھنے کا تھا مگر اب حکمرانوں کا ریکارڈ ہے کہ یہ صرف خود کو خوش رکھتے ہیں ''شامل واجا'' کے قائل نہیں۔ ''شامل واجا'' کی تشریح ضروری ہے کہ شاید اہل پنجاب کے علاوہ اسے اور کوئی نہ سمجھے۔
آپ نے شادی بیاہ کے موقعوں پر بینڈ دیکھا ہوگا۔ اس میں پیتل کے چمکدار مختلف قسم کے باجے شامل ہوتے ہیں، قسم سے مراد سائز ہے، تو ایک سب سے بڑا باجہ ہوتا ہے جو صرف ایک قسم کی آواز نکالتا ہے ''بھوں''۔ اس کا اور کوئی کام نہیں ہے تو اس وجہ سے اس کا نام ''شامل واجا'' ہے باجہ کو پنجابی میں پیار سے واجا کہتے ہیں۔
یہ جو وزرائے مملکت ہوتے ہیں جن کی توقیر میں بے حد کمی بھانجے کی وجہ سے ہوگئی ہے۔ یہ بھی وزیروں کے ''شامل واجا'' کہے جاسکتے ہیں، آئین میں ترمیم کے بعد اور آئین سے مراد ''آئین زندگی'' ہی لے لیجیے۔ ملک کے آئین کا تو بہت برا حال کردیا ہے آئین میں شامل ''ترمیم واجا'' نے۔
اب ایک مذاق سا چل رہا ہے ملک کے آئین کے ساتھ۔ آپ کی عددی طاقت زیادہ ہے پارلیمنٹ میں لہٰذا آپ جو چاہے آئین میں ترمیم کرلیجیے۔ جو چاہے قانون پاس کرلیجیے۔ بقول زبان عام ''ہاتھ کھڑا کرنا ہے'' اور بس قانون پاس۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس قانون سے ملک کو کیا فائدہ یا نقصان ہے بس یہ دیکھنا ہے کہ قانون پیش کرنے والوں کو فائدہ ہے۔
سیاست دوراں پر تبصرہ لوگ شاید آسان سمجھتے ہیں جی نہیں یہ بہت مشکل ہے اور اسے لکھتے ہوئے جگر خون ہوتا ہے آنکھ روتی ہے۔ مگر لکھنا پڑتا ہے کیونکہ اگر سمجھا جائے محسوس کیا جائے تو یہ بھی ایک فریضہ ہے ورنہ کالم تو بہت سے احباب خوش فکروں کی طرح تحریر کرتے ہیں اور اپنی زندہ دلی خود ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ ہم تھوڑے سے حیران ہوتے ہیں۔
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں!
ان حالات میں جب کہ ملک کی سرحدوں پر چوبیس گھنٹے خطرات منڈلاتے رہتے ہیں۔ شہروں میں دہشت گردی لوٹ مارکا بازار گرم ہے آپ لوگوں کو ہنسانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ یہ اسی طرح کی مزاحیہ تعزیت ہے جس کے بہت سے لطیفے آپ نے سن رکھے ہوں گے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
دہشت گرد کام کر جاتے ہیں، حادثے غیر ذمے داری سے انجام پا جاتے ہیں کوئی سزا تک نہیں پہنچتا حکومت چیک ہاتھ میں لیے کھڑی ہے (ہر حکومت) مر جانے والوں کے لیے اتنے لاکھ۔ بچ جانے والوں کے لیے اتنے لاکھ کیا ہے یہ؟ انسانی خون کی بولی کب تک لگتی رہے گی۔ مجرموں کو سزا کیوں نہیں ملتی۔ ان کی پناہ گاہیں کن کن قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران کے حلقوں میں ہیں (حلقوں میں ہیں کو آپ ہر معنوں میں سمجھ سکتے ہیں) اور کیوں ان پر آپریشن نہیں ہوا اور وہ گرفت میں کیوں نہیں لیے جا رہے۔
جو ادارے یہ فرائض انجام دیتے ہیں ان کے پاس پورا ریکارڈ ہوگا۔ پاکستان میں فرقہ وارانہ اور لسانی فسادات کے بیج کس نے کہاں بوئے اور ان کی فصل کس نے کاٹی؟ اور یہ زہریلی فصلیں کہاں کہاں لگ چکی ہیں اور کون کاٹ رہا ہے اس کا بیج کہاں سے آیا اور اب آبیاری کون کر رہا ہے۔ ہر عقیدے سے بلند ہوکر تمام انسانی جانیں یکساں محترم ہیں۔ ہر جسم سے سرخ خون بہتا ہے۔ خون پر TAG نہیں لگا ہوتا!
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤگے دنیا سے
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
یہ بات بہت پہلے جس نے کہی سچ کہی۔ ادراک تھا کہ ایسا ہوگا۔ ایسا ہو رہا ہے، اسے تسلیم مت کیجیے کہ ہم الگ ہیں چاہے لوگ کتنی ہی کوشش کرلیں ہر سمت سے، ہاتھ سے ہاتھ الگ نہ ہو ورنہ شیرازہ بکھر جائے گا اور قرآن کے مطابق ''تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔''
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں
شاہ خرچی ختم کرو، تقریبات پر اخراجات ختم کرو، سادگی سے کام کرو، سادگی ایمان کا حصہ ہے اپنے رسولؐ کی زندگی کو دیکھ لو۔ کیا ان کے لیے وہ سب مشکل تھا جو بعد میں مسلمان بادشاہوں نے کیا اور اپنی تباہی کی تاریخ خود لکھی۔ مگر دین فطرت ہے اسلام اور رسول فطرت کے مطابق سادگی پسند، قناعت پسند، پرامن، پرخلوص، دیانت دار۔ یہ ہے نا ہمارا اثاثہ تو پھر قوم یہود کے زر و جواہر کے اثاثے کو کیوں اپنالیا ہے؟
پاکستان میں انعام تقسیم کرنے کی سرکاری تقریب میں کروڑوں خرچ ہوجاتے ہیں اور انعام لاکھوں کا ہوتا ہے، اداروں میں وبا پھیل گئی ہے تقریبات کی، اسے ختم کیا جانا چاہیے۔ اداروں کا بجٹ تقریبات کے لیے نہیں ترقی کے لیے ہوتا ہے عوام کی سہولت کے لیے ترقی۔
لوگوں کو باقاعدہ نوکری دیں۔ بہلاوے کانٹریکٹ کے نہیں۔ ہر ڈپارٹمنٹ کا یہی حال ہے دس کی جگہ پچاس ملازم۔ بلدیاتی ادارے خاص طور پر اس کے شاہکار ہیں اورکام کوئی نہیں کر رہا۔ یہ دس کی جگہ پچاس کیوں بھرتی کیے ہیں پیسے لے کر یا اقربا پروری کے تحت اور کیے تھے تو کام تو لیں ان سے۔ کچرا ہی اٹھوا لیں کوئی کام نہیں ہے تو، گٹر صاف کرنا سکھادیں وہ کام کرلیں اگر دفتر میں کوئی کام نہیں ہے۔
حرام کھانا، حرام کھلانا یہ طریقہ ہے پاکستان میں اوپر سے نیچے تک اب تو لوگ اسپتال تک ہو آئے ہیں باقی صرف ایک جگہ ہے ''قبر'' جو ہر ایک کا آخری شکار ہے بشمول میرے۔ وہاں سے واپسی نہیں ہے۔ One Way Ticket ہے وہ۔ جہاں اگلے جنم کا تصور ہے وہاں بھی اگلے جنم میں نہرو کی جگہ منحوس ''موذی'' پیدا ہوتا ہے۔ تو آپ تو ہرگز نہیں چاہیں گے یہ آپشن۔
اب بھی وقت ہے اتاترک نے ترکی کو ترکی بنایا تھا۔ ماؤزے تنگ نے چین کو چین۔ قائد اعظم نے بھارت سے ''پاکستان'' تو آپ بھی اس تاریخ میں کچھ کرلیجیے۔ آپ سے مراد وہ جو کرسکتے ہیں۔ وگرنہ ملک کو تو قرضوں کی ''ڈار'' میں ڈبو دیا گیا ہے اور اگر پھر رہے تو شاید یہ رہیں میرے منہ میں خاک ملک کا کیا ہوگا۔ کچھ کہہ نہیں سکتے۔