اورنج ٹرین یا اسپتال
میاں صاحب! جس دن آپ نے اپنی ترجیحات بدل لیں، آپ اس دن حقیقی معنوں میں سرخرو ہوجائیں گے۔
وہ مین گیٹ سے اندر داخل ہوئے اور آدھے گھنٹے کی ذلت آمیز کوشش کے باوجود بھی پارکنگ ڈھونڈنے میں ناکام ہی رہے۔ مجبوراََ گاڑی نان پارکنگ ایریا میں کھڑی کی، گاڑی سے ایک پیپر نکالا اور اس پر اپنا نام اور موبائل نمبر لکھ کر گاڑی کی وِنڈ اسکرین پر چپکادیا تاکہ آگے کھڑی گاڑی نہ نکل سکے تو دوسرا فون کرکے بلا لے۔
میٹل ڈیٹیکٹر مشین میں سے گزرے تو مشین بولی، ساتھ کھڑا گارڑ موبائل پر گیم کھیل رہا تھا اس نے تلاشی لینا تو درکنار انہیں گھورنا بھی مناسب نہیں سمجھا اور موبائل میں ہی مگن رہا۔ باآلاخر وہ اندر داخل ہوگئے۔ بدبو دار ہوا، مٹی سے لدے ہوئے بینچ، کچرے سے بھرے ہوئے ڈسٹ بن، ٹپکتی چھتیں، مکھیوں کے جُھنڈ، ٹوٹی ہوئی کھڑکیاں، دیواروں پر قطار بناتی چونٹیاں، بلیوں اور چوہوں کی فوج، سیلن زدہ دیواریں، مکڑیوں کے جالے، غلیظ اور بدبو دار واش رومز، پرچی اور رپورٹ لینے کیلئے کھڑکی نمبر 3 اور 6 پر ایک دوسرے کو دھکا دیتے اور دروازہ توڑتے ایٹمی پاکستان کے مفلس اورمظلوم لوگ اُن کے سامنے تھے۔
وہ یہ ماحول برداشت نہ کرسکے سر چکرایا اور بےہوش ہو کر زمین پر گر گئے۔ 12 گھنٹے ایمرجنسی میں رہے اور تیمارداری کیلئے آنے والے ہر شخص کو ایک ہی بات کہتے رہے''اللہ کسی دشمن کو بھی یہاں نہ لائے'' یہ نقشہ صومالیہ کے کسی دوردرواز گاؤں کا نہیں بلکہ میاں شہباز شریف کے پیرس، اورنج لائن ٹرین یافتہ اور میٹرو زدہ شہر لاہور کے بڑے سرکاری اسپتال کا ہے۔ یہ واقعہ 26 دن پہلے قریشی صاحب کے ساتھ پیش آیا جب وہ اپنے چچا زاد بھائی کی تیمارداری کیلئے سرکاری اسپتال گئے تھے۔
قریشی صاحب میرے بہت پرانے دوست ہیں، پچھلے20 سال سے برطانیہ میں مقیم ہیں اور کاروبار کے سلسلے میں پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں۔ مزید لکھنے سے پہلے میں میاں شہباز شریف کی قائدانہ صلاحیتوں اور لاہور کی ترقی کیلئے انتھک محنت کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں۔ شہر میں امن و امان، تیزی سے پھلتا پھولتا، کاروبار اور ڈویلپمنٹ کے پروجیکٹس میاں شہباز شریف کی کاوشوں کی بدولت ہے۔
میں اب تصویر کے دوسرے رُخ کی جانب آتا ہوں، میاں صاحب کی گورننس کا جائزہ پیش کرنے کیلئے ان کی ترجیحات کو دو حصوں میں پیش کر رہا ہوں۔ آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ میاں صاحب کے زیادہ تر منصوبے ان کی ذاتی خواہشات ہیں نہ کہ عوامی مطالبات، آپ لاہور شہر کی مثال لے لیجئے۔ لاہور آبادی کے لحاز سے دنیا کا 34واں، او آئی سی کا آٹھواں، جنوبی ایشیا کا چھٹا اور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے، اور اس شہر کے قابلِ ذکر سرکاری اسپتال صرف 11 ہیں، اور ان اسپتالوں میں موجود سہولیات کچھ یوں ہیں کہ 2,948 بستروں پر مشتمل میو اسپتال میں ایم آ ر آئی مشین سرے سے موجود ہی نہیں اور 7 ایکسرے مشینوں میں سے 3خراب پڑی ہیں۔ 1,196 بستروں پر مشتمل سروسز اسپتال میں بھی ایم آر آئی مشین کا وجود ہی نہیں اور 9 ایکسرے مشینوں میں سے 6 خراب اور اکلوتی سی ٹی اسکین مشین بھی خراب ہے۔ 1500 بستروں پر مشتمل چلڈرن اسپتال میں سی ٹی اسکین مشین کبھی خریدی ہی نہیں گئی۔
اب میں آتا ہوں ذاتی خواہشات کی طرف، میاں صاحب نے 2013ء میں محض چند لاکھ افراد کو سفری سہولت فراہم کرنے کیلئے 165 ارب روپے کی لاگت سے تیار ہونے والے اورنج لائن منصوبے کا اغاز کیا۔ جلد از جلد اس منصوبے کومنظور کروایا، اور اس کی تکمیل کیلئے صحت اور زراعت سمیت تمام اکاؤنٹس سے فنڈز مہیا کئے۔ وسائل، عدالتی رکاوٹیں، عوامی احتجاج یا کرپٹ بیورو کریسی کوئی بھی چیز اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکی۔میاں صاحب آپ کسی دن فرصت کے لمحات میں یہ اعداد و شمار سامنے رکھیں اور خود کا احتساب کریں۔ جس شہر کی 10 فیصد آبادی کیلئے صرف ایک سرکاری اسپتال ہو، جہاں ایک بیڈ پر تین تین مریض لیٹے ہوں، عورتیں اسپتال کی سیڑھیوں میں بچوں کو جنم دیں۔ لوگ تھرڈ کلاس دوائیاں استعمال کرنے پر مجبور ہوں، زائد المعیاد دوائیاں کھانے سے 150 لوگ موت کے منہ میں چلے جائیں، شوہر کے علاج کیلئے بیویاں زیور اور باپ کے علاج کیلئے بیٹے جائیدادیں فروخت کردیں، وہاں صرف 2.5 فیصد لوگوں کو سفری سہولت فراہم کرنے کیلئے 165 ارب روپے کی رقم خرچ کرنا جائز ہے؟ مجھے یقین ہے کہ آپ اس سوال کا جواب نہیں دے پائیں گے۔
محترم وزیر اعظم صاحب، 165 ارب روپے سے درجن بھر اسپتال بن سکتے ہیں، یہ 150 ارب روپے ہی تھے جس کیلئے مشرف کیری لوگر بل کی شرائط ماننے پر مجبور ہوگئے تھے اور سعودی عرب سے بھی 150 ارب روپے کی امداد آپ نے بخوشی قبول کی تھی۔ میرے مطابق تو میاں صاحب وقت ابھی بھی آپ کے ہاتھوں سے نکلا نہیں، آپ آج ہی ماہرینِ طب اور کامیاب و منظم نجی اسپتالوں کے بانیان اور منتظمین پر مشتمل ایک کمیٹی بنائیں جو لاہور کے سرکاری اسپتالوں کو عالمی معیار کے مطابق لانے کیلئے ان کی کارکردگی، سہولیات، انفراسٹرکچر، بجٹ اور نئے اسپتالوں کی ضرورت پر ایک ماہ میں حقائق پر مبنی رپورٹ تیار کرے۔ آپ اس رپورٹ کو کابینہ کے اجلاس میں پیش کریں اور جس محنت سے صرفچند دنوں میں اورنج لائن کی فائل منظور کروائی ہے، اسی طرح 165 ارب روپے کا صرف 10 فیصد اسپتالوں کی بہتری کیلئے مختص کردیں۔
روزانہ کی بنیاد پر کام کا جائزہ لیں، منصوبے کی تکمیل میں آنے والی ہر رکاوٹ کو اپنے پیروں تلے روند دیں۔ آپ یقین کریں جس دن آپ نے اپنی ترجیات بدل لیں اور یہ منصوبہ مکمل ہو گیا، آپ اس دن حقیقی معنوں میں سرخرو ہوجائیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
میٹل ڈیٹیکٹر مشین میں سے گزرے تو مشین بولی، ساتھ کھڑا گارڑ موبائل پر گیم کھیل رہا تھا اس نے تلاشی لینا تو درکنار انہیں گھورنا بھی مناسب نہیں سمجھا اور موبائل میں ہی مگن رہا۔ باآلاخر وہ اندر داخل ہوگئے۔ بدبو دار ہوا، مٹی سے لدے ہوئے بینچ، کچرے سے بھرے ہوئے ڈسٹ بن، ٹپکتی چھتیں، مکھیوں کے جُھنڈ، ٹوٹی ہوئی کھڑکیاں، دیواروں پر قطار بناتی چونٹیاں، بلیوں اور چوہوں کی فوج، سیلن زدہ دیواریں، مکڑیوں کے جالے، غلیظ اور بدبو دار واش رومز، پرچی اور رپورٹ لینے کیلئے کھڑکی نمبر 3 اور 6 پر ایک دوسرے کو دھکا دیتے اور دروازہ توڑتے ایٹمی پاکستان کے مفلس اورمظلوم لوگ اُن کے سامنے تھے۔
وہ یہ ماحول برداشت نہ کرسکے سر چکرایا اور بےہوش ہو کر زمین پر گر گئے۔ 12 گھنٹے ایمرجنسی میں رہے اور تیمارداری کیلئے آنے والے ہر شخص کو ایک ہی بات کہتے رہے''اللہ کسی دشمن کو بھی یہاں نہ لائے'' یہ نقشہ صومالیہ کے کسی دوردرواز گاؤں کا نہیں بلکہ میاں شہباز شریف کے پیرس، اورنج لائن ٹرین یافتہ اور میٹرو زدہ شہر لاہور کے بڑے سرکاری اسپتال کا ہے۔ یہ واقعہ 26 دن پہلے قریشی صاحب کے ساتھ پیش آیا جب وہ اپنے چچا زاد بھائی کی تیمارداری کیلئے سرکاری اسپتال گئے تھے۔
قریشی صاحب میرے بہت پرانے دوست ہیں، پچھلے20 سال سے برطانیہ میں مقیم ہیں اور کاروبار کے سلسلے میں پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں۔ مزید لکھنے سے پہلے میں میاں شہباز شریف کی قائدانہ صلاحیتوں اور لاہور کی ترقی کیلئے انتھک محنت کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں۔ شہر میں امن و امان، تیزی سے پھلتا پھولتا، کاروبار اور ڈویلپمنٹ کے پروجیکٹس میاں شہباز شریف کی کاوشوں کی بدولت ہے۔
میں اب تصویر کے دوسرے رُخ کی جانب آتا ہوں، میاں صاحب کی گورننس کا جائزہ پیش کرنے کیلئے ان کی ترجیحات کو دو حصوں میں پیش کر رہا ہوں۔ آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ میاں صاحب کے زیادہ تر منصوبے ان کی ذاتی خواہشات ہیں نہ کہ عوامی مطالبات، آپ لاہور شہر کی مثال لے لیجئے۔ لاہور آبادی کے لحاز سے دنیا کا 34واں، او آئی سی کا آٹھواں، جنوبی ایشیا کا چھٹا اور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے، اور اس شہر کے قابلِ ذکر سرکاری اسپتال صرف 11 ہیں، اور ان اسپتالوں میں موجود سہولیات کچھ یوں ہیں کہ 2,948 بستروں پر مشتمل میو اسپتال میں ایم آ ر آئی مشین سرے سے موجود ہی نہیں اور 7 ایکسرے مشینوں میں سے 3خراب پڑی ہیں۔ 1,196 بستروں پر مشتمل سروسز اسپتال میں بھی ایم آر آئی مشین کا وجود ہی نہیں اور 9 ایکسرے مشینوں میں سے 6 خراب اور اکلوتی سی ٹی اسکین مشین بھی خراب ہے۔ 1500 بستروں پر مشتمل چلڈرن اسپتال میں سی ٹی اسکین مشین کبھی خریدی ہی نہیں گئی۔
اب میں آتا ہوں ذاتی خواہشات کی طرف، میاں صاحب نے 2013ء میں محض چند لاکھ افراد کو سفری سہولت فراہم کرنے کیلئے 165 ارب روپے کی لاگت سے تیار ہونے والے اورنج لائن منصوبے کا اغاز کیا۔ جلد از جلد اس منصوبے کومنظور کروایا، اور اس کی تکمیل کیلئے صحت اور زراعت سمیت تمام اکاؤنٹس سے فنڈز مہیا کئے۔ وسائل، عدالتی رکاوٹیں، عوامی احتجاج یا کرپٹ بیورو کریسی کوئی بھی چیز اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکی۔میاں صاحب آپ کسی دن فرصت کے لمحات میں یہ اعداد و شمار سامنے رکھیں اور خود کا احتساب کریں۔ جس شہر کی 10 فیصد آبادی کیلئے صرف ایک سرکاری اسپتال ہو، جہاں ایک بیڈ پر تین تین مریض لیٹے ہوں، عورتیں اسپتال کی سیڑھیوں میں بچوں کو جنم دیں۔ لوگ تھرڈ کلاس دوائیاں استعمال کرنے پر مجبور ہوں، زائد المعیاد دوائیاں کھانے سے 150 لوگ موت کے منہ میں چلے جائیں، شوہر کے علاج کیلئے بیویاں زیور اور باپ کے علاج کیلئے بیٹے جائیدادیں فروخت کردیں، وہاں صرف 2.5 فیصد لوگوں کو سفری سہولت فراہم کرنے کیلئے 165 ارب روپے کی رقم خرچ کرنا جائز ہے؟ مجھے یقین ہے کہ آپ اس سوال کا جواب نہیں دے پائیں گے۔
محترم وزیر اعظم صاحب، 165 ارب روپے سے درجن بھر اسپتال بن سکتے ہیں، یہ 150 ارب روپے ہی تھے جس کیلئے مشرف کیری لوگر بل کی شرائط ماننے پر مجبور ہوگئے تھے اور سعودی عرب سے بھی 150 ارب روپے کی امداد آپ نے بخوشی قبول کی تھی۔ میرے مطابق تو میاں صاحب وقت ابھی بھی آپ کے ہاتھوں سے نکلا نہیں، آپ آج ہی ماہرینِ طب اور کامیاب و منظم نجی اسپتالوں کے بانیان اور منتظمین پر مشتمل ایک کمیٹی بنائیں جو لاہور کے سرکاری اسپتالوں کو عالمی معیار کے مطابق لانے کیلئے ان کی کارکردگی، سہولیات، انفراسٹرکچر، بجٹ اور نئے اسپتالوں کی ضرورت پر ایک ماہ میں حقائق پر مبنی رپورٹ تیار کرے۔ آپ اس رپورٹ کو کابینہ کے اجلاس میں پیش کریں اور جس محنت سے صرفچند دنوں میں اورنج لائن کی فائل منظور کروائی ہے، اسی طرح 165 ارب روپے کا صرف 10 فیصد اسپتالوں کی بہتری کیلئے مختص کردیں۔
روزانہ کی بنیاد پر کام کا جائزہ لیں، منصوبے کی تکمیل میں آنے والی ہر رکاوٹ کو اپنے پیروں تلے روند دیں۔ آپ یقین کریں جس دن آپ نے اپنی ترجیات بدل لیں اور یہ منصوبہ مکمل ہو گیا، آپ اس دن حقیقی معنوں میں سرخرو ہوجائیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں